وقت کی اہمیت 

Tue, 9 Jun , 2020
3 years ago

کہتے ہیں ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں کے ساتھ کسی با غ کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا باغ میں سے کوئی شخص سنگریزے یعنی چھوٹے چھوٹے پتھر پھینک رہاہے اس نے خدام کو دوڑایا کہ جاکر سنگریزے پھینکنے والے کو پکڑ کر میرے پاس حاضر کرو! چنانچہ خدّام نے ایک گنوار کو حاضر کردیا  بادشاہ نے کہا: یہ سنگریزے تم نے کہاں سے حاصل کیے؟ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا :میں ویرانے میں سفر کر رہا تھا کہ میری نظران خوبصورت سنگریزوں پر پڑی ،میں نے انہیں اپنی جھولی میں بھر لیا اس کے بعد پھر اسی باغ میں آ نکلا اور پھل توڑنے کے لئے استعمال کر لیے ۔ بادشاہ نے کہا تم ان کی قیمت جانتے ہو اس نے عرض کی نہیں بادشاہ بولا یہ پتھر کے ٹکڑے دراصل انمول ہیرے تھے جنہیں تم نے نادانی کے سبب ضائع کرچکے ہو اور وہ شخص افسوس کرنے لگا مگر اب اس کا افسوس کرنا بیکار تھا کہ وہ انمول ہیرے اس کے ہاتھ سے نکل چکے ۔

اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

میٹھے اسلامی بھائیو اور بہنو! اسی طرح ہماری زندگی کے لمحات بھی انمول ہیرے ہیں اگر ہم نے ان کو بیکار ضائع کردیا تو حسرت و ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔

دن بھر کھیلوں میں خاک اڑائی

لاج آئی نہ ذروں کی ہنسی سے

اللہ عزوجل نے انسان کو ایک مقررہ وقت تک کے لیے خاص مقصد کے تحت اس دنیا میں بھیجا ہے

چنانچہ پارہ 18 سورت المومنون آیت نمبر 115 میں ارشاد ہوتا ہے : اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵) ترجمہ کنزالایمان: تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھیرنا نہیں ہے۔

تفسیر خزائن العرفان:

میں اس آیت مقدسہ کے تحت لکھا ہے اور کیا تمہیں آخرت میں اٹھنا نہیں بلکہ تمہیں عبادت کے لیے پیدا کیا کہ تم پر عبادت لازم کرے اور آخرت میں تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ تو تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دیں ۔

مذکورہ آیت کے علاوہ بھی قرآن پاک میں دیگر مقامات پر تخلیقِ انسانی (یعنی انسان کی پیدائش )کا مقصد بیان کیا گیا ہے انسان کو اس دنیا میں بہت مختصر سے وقت کے لئے رہنا ہے اور اس وقت میں اسے قبر کی تیاری کرنی ہے لہذا انسان کا وقت بے حد قیمتی ہے وقت ایک تیز رفتار گاڑی کی طرح فراٹےبھرتا ہوا جا رہا ہے نہ روکے رکھتا ہے نہ پکڑنے سے ہاتھ آتا ہے جو سانس ایک بار لے لیا ہے پلٹ کر نہیں آتا پارہ 16 سورۃ مریم آیت نمبر 83 میں ہے اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّاۚ(۸۴)

ترجمہ کنز الایمان : ہم تو ان کی گنتی پوری کرتے ہیں۔

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے یہاں گنتی سے سانسوں کی گنتی مراد ہے۔ (ماخوذ نیک بننے اور بنانے کے طریقے)

یہ سانس کی مالا بس ٹوٹنے والی ہے

اور دل کیوں مگر اب بھی بیدرا نہیں ہوتا

اللہ پاک ہمیں وقت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین