نبی کریم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سارے ہی صحابہ شان والے ہیں، قرآن مجید میں جابجا ان کی
فضیلت و تعریف و حسن اخلاق اور حسن ایمان کا تذکرہ ہے، آئیے فضائلِ صحابہ کرام
ملاحظہ فرمائیں۔
صحابہ کرام کے فضائل قرآن پاک سے:
لَا
یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ
اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ
كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۰) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور تمہیں کیا ہے کہ
اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین سب کا
وارث اللہ ہی ہے تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل
خرچ اور جہاد کیا وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح
کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرماچکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی
خبر ہے(الحدید ، 10)
اس آیت مبارکہ کے تحت مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی
احمد یار خان رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں، ان صحابہ کر ام کے درجے اگر چہ مختلف ہیں مگر ان سب کا جنتی ہونا
بالکل یقینی ہے کیونکہ رب فرماتا ہے، تمام صحابہ عادل و متقی ہیں، کیونکہ سب سے رب
کریم نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور جنت کا وعدہ فاسق سے نہیں ہوتا، ہر صحابی نبی
کریم علیہ الصلوة والسلام کی
صحابیت کی نسبت سے ہمارے لیے واجب التعظیم ہیں اور کسی بھی صحابی کسی کی گستاخی
حرام اور گمراہی ہے۔
رَضِیَ
اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا
الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، تَرجَمۂ کنز الایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن
کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ : 100)
اور ایک مقام پرارشاد رب العباد ہے:یہی سچے مومن ہیں اور ان کے لیے
درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔
صحابہ کرام کے فضائل احادیث سے:
فرمان مصطفی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم : میرے
اصحاب کو برا بھلا نہ کہو اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا
خرچ کردے تو وہ ان کے ایک مد (اس دور کے پیمانے کا نام )کے برابر نہیں پہنچ سکتا
اور نہ اس کے آدھے کو۔
۳۔ صحابہ کی محبت ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا کہ:
جب اللہ پاک کسی کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے دل میں میرے تمام صحابہ کی محبت پیدا
فرمادیتا ہے۔ (فیضانِ نماز)
۳۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا:میرے صحابہ کے
معاملے میں اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو میرے بعد ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنالینا جس
نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے اس سے محبت کی اور اور جس نے ان سے
بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کے سبب ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ایذا پہنچائی
تو اس نے ضرور مجھے ایذا پہنچائی اور جس
نے مجھے ایذا پہنچائی تو ضرو راس نے اللہ پاک کو ایذا پہنچائی تو جس نے اللہ پاک کو ایذا
پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ اس کی پکڑ فرمائے گا۔
ایک اور فرمان مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم ہے، میرے تمام صحابہ میں خیر(یعنی
بھلائی ہے)۔ ۔(کراماتِ صحابہ )
۳۔ ستاروں کی مانند :نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میرے صحابہ علیہم الرضوان ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے
ہدایت پا جاؤ گے۔( مشکاة المصابیح )
مفتی احمد یار خان اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : سبحان اللہ کیسی نفیس تشبیہ
ہے، حضور نے اپنے صحابہ کو ہدایت کے تارے
اور دوسری حدیث میں اپنے اہل بیت کو کشتی نوح فرمایا سمندر کا مسافر کشتی کا بھی
محتاج ہوتا ہے اور تاروں کی رہبری کا بھی کہ جہاز ستاروں کی رہنمائی پر ہی سمندر
میں چلتے ہیں، اسی طرح امت مسلمہ اپنی ایمانی زندگی میں اہل بیت کی بھی محتاج ہے
اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بھی حاجت مند۔
اللہ کریم ہمیں دل و جان قلم و زبان سے ہر
صحابی رضی اللہ عنہ کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہمارے ایمان کی حفاظت
فرمائے ۔ آمین
سب صحابہ سے ہمیں تو پیارہے۔
ان شاء اللہ اپنا بیڑا پار ہے
(وسائل بخشش)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں