تربیت، انسانی اخلاق کو سنوارنے والی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان دوسروں کی نظروں میں معزز بن جاتا ہے۔

تربیت کا درست وقت:

ویسے تو تربیت کا تعلق کسی خاص وقت سےنہیں ہوتا، لیکن خاص طور پر بچے کی تربیت بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ بچے کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے اس پر جو بھی لکھا جائے وہ پتھر پرلکیر کا کام دیتا ہے، یعنی ابتداء ًہی جو بات اس کے دل ودماغ میں ڈال دی جائے وہ مضبوط ومستحکم ہوجاتی ہے۔لہٰذا والدین کوچاہیے کہ وہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھر پور توجہ دیں ،اسے بچہ سمجھ کر یا بول کر (Ignore) یعنی نظرانداز نہ کریں۔

بچوں کی تربیت کا انداز کیسا ہو؟

ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہر کام میں ہمارے لیے مشعل راہ ہے اس لیے بچوں کی تربیت کے معاملے میں حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت پیش نظر ہونا چاہیے۔

بچوں کو اپنے ساتھ بٹھا کرکھلائیےاور مثبت انداز سے سمجھائیے:

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانہ کھلاتے جس سے بچوں کی دلجوئی کے ساتھ ساتھ تربیت کا سامان بھی ہوتاتھا ۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پلیٹ میں کبھی اِدھر پڑتا،کبھی اُدھر۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز سے سمجھایا کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ غلطی پر ٹوکا جارہا ہے یا آداب سکھائے جارہے ہیں،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"يَا غُلاَمُ، سَمِّ اللَّهَ، وَكُلْ بِيَمِينِكَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيك" اے بچے!جب کھانا کھاؤ تو اللہ کا نام لو،اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔

(صحیح بخاری:کتاب الاطعمۃ:باب التسمیۃ علی الطعام والاکل بالیمین:حدیث 5376)

تربیت کرنے والوں کے لیے اس فرمان میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کہ ابتداءً ٹوکنے کے بجائے کچھ آداب بیان کرنے کی وجہ سے انداز بھی مثبت رہا اور مقصود بھی حاصل ہوگیا یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میرے کھانے کا انداز ویسا ہی رہا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایاتھا۔

بوقت ضرورت ڈانٹ ڈپٹ بھی کی جائے:

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کو دیکھا جائے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دس سال رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارے لیکن کبھی بھی انہیں ڈانٹا نہیں گیاجس کی گواہی حضرت انس رضی اللہ عنہ خود دیتے ہیں۔(مسلم :کتاب الفضائل: بَابُ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا:حدیث 2309)

اور اگر کہیں تربیت کے معاملے میں پیار ومحبت سے سمجھانا مؤثر نہ ہورہا ہو اور معاملہ فرائض کا ہو تو وہاں بطورِ تنبیہ ڈانٹ ڈپٹ کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے،چنانچہ فرمایا:"مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا، وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْر"یعنی اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں مارو۔

(سنن ابی داؤد:کتاب الصلاۃ:حدیث495)

اللہ پاک ہمارے بچوں کی اچھی تربیت کے معاملے میں ہمارے معاون ومددگارپیدا فرمائے،اور انہیں معاشرے کا بہترین فرد بنائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم