ہمارے پیارے نبی،حضرت محمد ﷺ دینِ اسلام کی تعلیم و تبلیغ کی  دن رات مصروفیات کے باوجود اللہ پاک کی بہت عبادت کیا کرتے تھے ۔اعلانِ نبوت سے پہلے بھی غار ِحرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر اللہ کریم کی عبادت میں مصروف رہتے تھے اور اعلانِ نبوت کے بعد بھی آپ اللہ پاک کی عبادت میں ساری ساری رات گزار دیتے اور طویل قیام کرنے کی وجہ سے آپ کے قدمین شریفین سوج جاتے تھے پھر بھی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے ۔جب رمضان المبارک کا مہینا تشریف لاتا تو رسول ﷺ اپنی عبادات میں مزید اضافہ فرما دیا کرتے تھے ۔

رمضان المبارک کی تشریف آوری پر حضور ﷺ کی کیفیت:

1۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :جب ماہِ رمضان المبارک تشریف لاتا تو حضور اکرم ﷺ کا رنگ مبارک متغیر (یعنی تبدیل) ہو جاتا اور نماز کی کثرت فرماتے اور خوب دعائیں مانگتے۔ (1)

آقا کریم ﷺ رمضان المبارک میں خوب خیرات کرتے:

2۔حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جب ماہِ رمضان المبارک آتا تو سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔ (2)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ بیان کردہ حدیثِ پاک کے حصے ہر قیدی کو رہا کر دیتےکے تحت مراۃ المناجیح،جلد 3 صفحہ 142 پر فرماتے ہیں: حق یہ ہے کہ یہاں قیدی سے مراد وہ شخص ہو جو حق اللہ اور حق العبد (یعنی بندے )کے حق میں گرفتار ہو اور آزاد فرمانے سے اس کے حق کا ادا کر دینا یا دینا مراد ہے ۔

سب سے بڑھ کر سخاوت فرماتے:

3۔حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان شریف میں آپ خصوصاً بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔جبریلِ امین علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات میں ملاقات کے لیے حاضر ہوتے تو رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور فرماتے ۔جب بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کی خدمت میں آتے تو آپ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر( یعنی بھلائی) کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔(3)

دس دن کا اعتکاف:

4۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کےآخری عشرے یعنی ( دس دن) کا اعتکاف فرمایا کرتے یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ کو وفات ظاہری عطا فرمائی ،پھر آپ کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اعتکاف کرتی رہیں ۔ (4)

بے شک رمضان المبارک کی ہر ہر گھڑی رحمت بھری اور برکتوں والی ہے، مگر اس ماہِ مبارک میں شبِ قدر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، اسے پانے کے لیے ہمارے آقا ﷺ نے ماہِ رمضان المبارک کا پورا مہینا بھی اعتکاف فرمایا ہے اور آخری دس دن کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیثِ مبارک سے پتہ چلتا ہے کہ آپ خصوصیت کے ساتھ آخری عشرہ( یعنی دس دن) کا اعتکاف فرماتے تھے۔

اعتکاف سے محبت:

ایک مرتبہ سفر کی وجہ سے آپ کا اعتکاف رہ گیا تو اگلے رمضان شریف میں 20 دن کا اعتکاف فرمایا۔(5)

آخری عشرے میں ذوق عبادت:

آپ آخری عشرے میں بہت زیادہ عبادت کرتے ،آپ ساری رات بیدار رہتے،اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے بے تعلق ہو جاتے تھے، گھر والوں کو نماز کے لیے جگایا کرتے تھے ،عموماً اعتکاف فرماتے تھے، نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سر بسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑ گڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے تھے۔ (6)

ہمارے پیارے آقا ﷺ جو کہ معصوم ہیں اور تمام انبیائے کرام کے سردار ہیں اور دوسروں کی شفاعت فرمانے والے ہیں وہ تو اتنی اتنی عبادات کریں اور رمضان المبارک میں اپنی عبادات کو مزید بڑھا دیں اور ہم فرائض و واجبات کو ادا کرنے میں سستی کریں؟ہمیں بھی چاہیے کہ رمضان المبارک کے روزے تو ہرگز نہ چھوڑیں ،رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن مزید بڑھا دیں اور کوشش کر کے ذکر اللہ کے لیے ایک وقت مقرر کر لیں۔یا اللہ پاک!ہمیں عبادات کی توفیق اور اس پر استقامت عطا فرما اور نبیِ کریم ﷺ کے ذوقِ عبادت اور محبتِ رمضان میں سے کچھ حصہ نصیب فرما۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

حوالہ جات :

1۔ شعب الایمان، 3 /310 ،حدیث: 3625

2۔شعب الایمان، 3 /311 ،حدیث: 3629

3۔بخاری،1 /9 ،حدیث: 6

4۔بخاری، 1/664 ،حدیث:2026

5۔ترمذی،2/212 ،حدیث:803

6۔تفسیر صراط الجنان ، 8/377