اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مجھے اس تحریر میں حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم 

ایت کے معنی یہ ہے کہ اے بنی اسرائیل کیا تمہاری پہلے لوگ حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کے اخری وقت ان کے پاس تھے جس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلا کر ان سے اس لام و توحید کا اقرار لیا تھا اور یہ اقرار لیا تھا جو ایت میں مذکور ہے (( پارہ نمبر1 سورہبقرہ آیتنمبر133 ))((و الہ ابائک )) اور تمہارے باپ دادا کے معبود حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کو حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کے اباء یعنی باپوں میں داخل کیا حالانکہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کے حقیقی والد نہ تھے یہ اس لیے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام ان کے چچا ہیں اور چچا بامنزلہ باپ کے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے آپ علیہ السلام کا نام حضرت اسحاق علیہ السلام سے پہلے ذکر فرمایا دو وجہ سے ایک تو یہ کہ آپ حضرت اسحاق علیہ الصلوۃ والسلام سے 14 سال بڑے ہیں اور دوسرا اس لیے کہ آپ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اباء میں سے ہیں اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرما تا ہے

((وذکر عبدنا ابراھیم و اسحق و یعقوب ))

ترجمہ [[ اور ہمارے بندوں ابراھیم اسحق اور یعقوب کو یاد کرو ]] (( سورہ ص پارہ نمبر 23 آیت نمبر 47 ))

اس ایت اور اس کے بعد والی دو ایات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہماری عنایتوں والے خاص بندوں حضرت ابراہیم علیہ الصلاة والسلام ان کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کو یاد کریں کہ انہیں اللہ تعالی نے علمی اور عملی قوت عطا فرمائی جن کی بنا پر انہیں اللہ تعالی کی معرفت اور عبادت پر قوت حاصل ہوئی بے بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے چن لیا اور وہ بات اخرت کے گھر کی یاد ہے کہ وہ لوگوں کو آخرت کی یاد دلاتے اور کثرت سے آخرت کا ذکر کرتے اور دنیا کی محبت نے ان کے دلوں میں جگہ نہیں پائی اور بیشک وہ ہمارے نزدیک بہترین چنے ہوئے بندوں میں سے ہیں

( (وَاِنَّھُمْ عِنْدَنَا )) اور بیشک وہ ہمارے نذدیک"

امام فخرالدین رازی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

اس آیت سے علما نے انبیا کرام علیھم الصلٰة السلام کی عِصمَت(یعنی گناہ سے پاک ہونے)پر استدلال کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کسی قید کے بغیر[ اخیار ]فرمایااور یہ بہتری ان کے تمام افعال اور صفات کو عام ہے

حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام سے چودہ سال چھوٹے تھےجب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری دی گئ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر مبارک سو (100)سال تھی اور آپ کی والدہ کی عمر مبارک نوے(90) سال تھی۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہےکہ ہم نے حضرت اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری دی کہ وہ غیب کی خبریں بتانے والے اور ہمارے خاص اجر والے نبی ہونگے ۔اور ہم نے حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کی اولاد پر اپنی برکت نازل کی۔ان میں کچھ اچھا کام کرنے والے ہیں اور کچھ لوگ اپنی جانوں پر کھلا ظلم کرتے ہیں۔ (( سورہ صفت آیت 112 تا 113 ))

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بہت سے مقامات پر حضرت اسحاق علیہ السلام کی تعریف کی ہے۔

اس سے پہلے ہم آپ کو حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کرتے ہیں:

کریم ابن کریم ابن کریم ابن یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام اہلِ کتاب کا کہنا ہے کےحضرت اسحاق علیہ السلام نے اپنے بابا کی زندگی میں ہی رفقا بنت بنو ابیل سے شادی کرلی تھی۔

اس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی اور رفقا بانجھ تھی۔

آپ نے اپنے رب سے اولاد کی دعا کی تو آپ کے رب تعا لیٰ نے آپ کی دعا قبول کرتے ہوۓ دو جڑواں بیٹے دۓ۔

آپ کے بڑے بیٹے کا نام عیسو تھا ۔عرب اسے عیص کہ کر بلاتے تھے۔ آپ روم کے جدِامجد تھے۔ آپ کے دوسرے بھائی آپ کی ہم شکل تھے کیونکہ وہ آپ کے جڑواں بھائی تھے وہ حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں۔ بنو اسرائیل آپ کی طرف منسوب ہے۔

اہلِ کتاب کے مطابق حضرت اسحاق علیہ السلام اپنے بڑے بیٹے عیسو سے زیادہ پیار کرتے تھے۔اس لیۓ کہ وہ آپ کے بڑے بیٹے تھے۔اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی بیوی رفقا حضرت یعقوب علیہ السلام سے زیادہ پیار کرتی تھی کیونکہ وہ آپ کے چھوٹے بیٹے تھے۔

اللہ تعالٰی ہمیں انبیاء کرام علیہ السلام کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان کی شان بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے

(( آمین ثم آمین ))