اللہ پاک کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنانے کے ساتھ ساتھ اشرف الانبیاء کی امت میں پیدا فرمایا۔ یوں تو اللہ کی بادشاہت ساری کائنات پر ہے وہ جسے جو چاہے حکم دے اور جس کے ساتھ جو چاہے معاملہ کرے،لیکن مؤمنوں کے ساتھ کمالِ قربت کا اظہار کچھ یوں فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ ترجمۂ کنز الایمان: بےشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے ۔(پ11،التوبۃ:111)اور یہ کمالِ عزت افزائی ہے کہ خالقِ کائنات ہمارا خریدار بنے اور ہم سے ہمارا مال وجان خریدے، حقیقت میں جو ہماری ہے ہی نہیں نہ ہماری بنائی ہوئی ہے ،نہ ہماری پیدا کی ہوئی ہے ،جان ہے تو اس کی پیدا کی ہوئی، مال ہے تو اسی کا عطا کیا ہوا ۔یہ بیع وشرا اظہار محبت کے لیے ہے تاکہ مؤمن اس کے حکم کی اتباع دیوانگی میں کرے نہ کہ بوجھ اور مجبوری سمجھ کر ،اگر اس کے حکم کی اتباع دیوانگی میں ہو گی تو اس کے ملاقات کا شوق بھی اسی قدر بڑھے گا ۔تو آپ کے لیے اس مضمون میں مؤمنوں کے متعلق چند قراٰنی احکام پیش کرتا ہوں:

(1)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع ضروری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ترجمۂ کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ3، آلِ عمرٰن:31) اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندۂ مؤمن اللہ کی محبت کا دعویٰ جبھی کر سکتا ہے جبکہ مؤمن سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اختیار کرے ۔

(2) اسلام میں پورے داخل ہوجاؤ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪-وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸) ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔( پ2، البقرۃ:208) مؤمن کو چاہئےکہ وہ اسلام کے احکام کا پورا متَّبِع (پیروی کرنے والا) ہو یہ نہیں کہ بعض پر عمل کرے اور بعض کو ترک کردے ۔

(3) اللہ پاک پر بھروسا کرو :فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ(۱۵۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔(پ4، آلِ عمرٰن:159) توکل کے معنی ہیں اللہ پاک پر اعتماد کرنا اور کاموں کو اس کے سپرد کر دینا۔ مقصود یہ کہ مؤمن کا اعتماد تمام کاموں میں اللہ پاک پر ہونا چاہیئے ۔

(4)حلال رزق کھاؤ :فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪- ترجمۂ کنز الایمان: تو اللہ کی دی ہوئی روزی حلال پاکیزہ کھاؤ ۔(پ 14، النحل : 114) مؤمن کو چاہیے کہ وہ حلال اور طیب رزق کھائے نہ کہ حرام،خبیث اموال کہ جو لوٹ ،غصب وغیرہ کے ذریعے حاصل ہو ۔

(5) ناپ تول پورا کرو:وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(۳۵)ترجمۂ کنزالایمان: اور ماپو تو پورا ماپو اور برابر ترازو سے تولو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا۔( پ15،بنٓی اسرآءیل:35) مؤمن جب کوئی چیز تول کر بیچے تو اسے چاہئے کہ وہ ناپ تول کو درست رکھے، کمی نہ کرے۔

(6)فضول خرچی نہ کرو :اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷) ترجمۂ کنزالایمان: بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:27) مؤمن کو ناجائز کاموں میں اپنے مال کو خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ "تبزیر" مال کا ناحق میں خرچ کرنا ہے۔

(7)عہد پورا کرو : وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمۂ کنزالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔( پ15، بنٓی اسرآءیل:34) مؤمن کو چاہیے کہ وہ اللہ کے ساتھ کیے وعدے کو اور بندوں کے ساتھ کیے وعدے کو پورا کریں۔

(8)اکڑ کر نہ چل:وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ ترجمۂ کنزالایمان: اور زمین میں اتراتا نہ چل۔( پ15،بنٓی اسرآءیل:37)مؤمن کی یہ شان نہیں کہ وہ اللہ کی زمین پر تکبر و خودنمائی سے چلے۔(9)بدکاری کے قریب نہ جاؤ:وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) ترجمۂ کنزالایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔( پ15،بنٓی اسرآءیل:32)

(10)بری صحبت سے بچو: اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ ترجمۂ کنزالایمان: کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکا رکیا جاتا اور ان کی ہنسی بنائی جاتی ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو۔(پ5، النسآء:140) مؤمنین کا کفار کی ہم نشینی اور ان کی مجلسوں میں شرکت کرنا، ایسے ہی بے دینوں اور گمراہوں، فاسقوں کی مجلسوں کی شرکت اور ان کے ساتھ یارانہ ومصاحبت ممنوع فرمائی گئی ہے۔

(11)اپنی اولاد کو قتل نہ کرو: وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے۔( پ15،بنٓی اسرآءیل:31)(12)اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ ترجمۂ کنزالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں۔( پ15،بنٓی اسرآءیل:36) یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اسے یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا جس کو سنا نہ ہو اس کی نسبت نہ کہو کہ میں نے سنا۔

(13)جو نہیں جانتے اسے علم والوں سے پوچھو ۔فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳) ترجمۂ کنزالایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔(پ14،النحل:43) حدیث شریف میں ہے: بیماری جہل کی شفا علما سے دریافت کرنا ہے، لہذا علما سے دریافت کرو تمہیں بتادیں گے۔(14)جو کہو وہ کرو بھی:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے۔ (پ28،الصف: 2) مؤمن کی یہ شان نہیں کہ وہ صرف یہ تذکرہ کرتا رہے کہ اللہ پاک کو سب سے زیادہ کیا عمل پیاراہے ہمیں معلوم ہوتا تو ہم وہی کرتے اس میں ہماری جان و مال کام آجاتی، پر جب موقع آئے تو ہمت ہار بیٹھے۔

(15) نماز سے مدد چاہو:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳) ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔ (پ2،البقرۃ : 153) حدیث شریف میں ہے کہ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جب سخت مہم پیش آتی تو نماز میں مشغول ہو جاتے اور نماز سے مدد چاہتے، مومن کو بھی چاہیے کہ پریشانی کے وقت نماز سے مدد چاہے۔

لہذا بندہ مومن کو چاہیے کہ اللہ پاک کی اطاعت اور اس سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے احکام پر عمل کرے۔ اس لیے کہ محبت اطاعت کراتی ہے، اللہ و رسول سے جس قدر محبت ہوگی اسی قدر اس کے احکام پر عمل کرنے میں آسانی ہوگی، جو ہی بندہ مومن سستی کا شکار ہو تا ہے شیطان اپنا کارنامہ انجام دینا شروع کر دیتاہے۔ اس لیے مؤمن کو چاہیے کہ وہ ہر ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرئے اور اپنے آپ کو قراٰن و سنتِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پابند رکھے۔