راقم الحروف
فقیرقادری عفی عنہ کو کراچی کے دوکرم فرما مولانا محمد
عمیر عطاری اور حاجی اشعر عطاری نے خبردی کہ نبیرۂ صدرالشریعہ،جگرگوشۂ
محدثِ کبیر،استاذالعلماء حضرت علامہ مفتی عطاء المصطفی اعظمی مصباحی نوری رحمۃُ اللہِ علیہ بحالتِ سفرِ عمرہ ”طائف،عرب شریف“ میں ایکسیڈنٹ ہونے کے سبب 6شوال
المکرم 1445ھ مطابق 15 اپریل 2024ء کوشہادت پاگئے ہیں۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن ۔اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے
،ان کی تربت کو جنت کا باغ بنائے، بروزقیامت بلاحساب جنت میں داخل فرمائے ، انکی
تدریسی، تصنیفی، فتاویٰ نویسی ،دینی وتبلیغی اورملی تمام خدمات قبول ہوں۔اللہ پاک
ان کے والد گرامی محدث کبیرمفتی ضیاء المصطفی اعظمی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ ،ان کے بھائیوں اور بیٹوں محترم ریاض المصطفی اعظمی، محترم عبدالمصطفی اعظمی،
محترم مصطفی رضا اور دیگر لواحقین کو صبر و اجر عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیّن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم۔راقم الحروف نے زمانہ ٔطالبِ علمی میں ان کی کتاب ضیاء
العارفین ترجمہ منہاج العارفین اوررسالہ
مسئلہ کف ثوب کا مطالعہ کیاتھا۔مفتی صاحب کا مختصر تعارف ملاحظہ کیجئے :
پیدائش
وخاندان :
استاذالعلماء حضرت
مفتی عطاء المصطفیٰ اعظمی مرحوم کی پیدائش 14رجب 1384ھ مطابق 19نومبر 1964ء کو
صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ کے صاحبزادے محدث کبیرحضرت
علامہ مفتی ضیاء المصطفی اعظمی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے گھر بمقام
بڑاگاؤں، مدینۃ العلماء گھوسی ،ضلع مؤسابق اعظم گڑھ اترپردیش ہند میں ہوئی ۔
تعلیم
وتربیت:
ناظرہ قرآن پاک
،اردووفارسی قاعدہ اپنی دادی جان کے پاس قادری منزل میں پڑھا،1354ھ مطابق 1974ء کو
شمس العلوم گھوسی میں داخلہ لیا،یہاں انھوں نے مولانا سیف الدین اور مولانا محمد عاصم
اعظمی سے استفادہ کیا۔ایک سال بعد آپ ہندکے سب سے بڑے علمی مرکز جامعۃ الاشرفیہ
مبارکپور،اعظم گڑھ ،ہند میں منتقل ہوگئے ،یہاں انھوں نے والدگرامی محدث کبیر مفتی
ضیاءالمصطفی اعظمی ،بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی ،شیخ القرآن علامہ عبداللہ خان عزیزی، محدث جلیل علامہ عبدالشکور گیاوی،استاذالعلماء علامہ نصیرالدین مصباحی،ادیب شہیر علامہ یاسین اختر مصباحی، مولانا حافظ افتخار احمد
قادری، قاضی محمد شفیع اعظمی،علامہ محمد اعجاز مبارکپوری،قاری ابوالحسن مصباحی اور
قاری محمد عثمان گھوسوی سے شرف تلمذ پایا۔ دوران تعلیم والدگرامی محدث کبیر کے حکم سے آپ حافظ ملت علامہ عبدالعزیز محدث
مرادآبادی رحمۃُ
اللہِ علیہ کے گھرکا سودا سلف لاتے ،حافظ ملت آپ پرانتہائی شفقت ومحبت فرماتے اور تربیت فرمایا
کرتے تھے ۔ آپ کے استاذ سراج الفقہا،محقق
مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی نظام الدین رضوی صاحب تحریر فرماتے ہیں :حضرت
مولانا عطاء المصطفی اعظمی مصباحی صاحب کی چندکتابیں بھی میرے زیرِ درس رہیں، مولانا محنتی ہونے کے ساتھ
بڑےمؤدب تھے ،مطالعۂ کتب اور عبارات کے حل کرنے کا ذوق شوق بہت عمدہ تھا ۔
بیعت
ودستارفضیلت :
زمانۂ طالب ِعلمی میں ہی آپ نے 17ربیع الاول 1396ھ مطابق
19مارچ 1976ء کو مفتیٔ اعظم ہند مفتی محمد مصطفی رضا خان نوری رحمۃُ
اللہِ علیہ سے سلسلہ ٔقادریہ رضویہ
نوریہ میں بیعت کا شرف حاصل کیا جبکہ سلسلہ ٔقادریہ و دیگر سلاسل کی خلافت تاج
الشریعہ مفتی اختررضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے ذوالحجہ1409ھ
اوروالدگرامی محدث کبیرعلامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی مدظلہ نے1410ھ میں عطافرمائی۔ آپ 1403ھ
مطابق 1983ء کو فارغ التحصیل ہوئےاوردرس نظامی مکمل کرنے پر دستارِفضلیت سے نوازے
گئے۔آپ نے الہ آبادیونیورسٹی سے 1979ء میں عالم اور1982ء میں فاضل عربی کی اسنادحاصل کیں ۔
شادی
واولاد:
آپ کا نکاح اگست 1984 ء
میں اپنی پھوپھی زادبہن سے ہو ا،اور رخصتی
جولائی 1987ء میں کی گئی ۔آپ کے تین بیٹے ریاض المصطفی اعظمی ، عبدالمصطفی اعظمی ، مصطفی رضا اعظمی اورتین بیٹیاں ہیں ۔
تدریس وفتاویٰ نویسی :
فارغ التحصیل
ہونے کے بعد آپ نے درس نظامی کی تدریس کا آغازدارالعلوم علیمیہ جمداشاہی ضلع بستی
یوپی ہندمیں کیا ،اسی دوران فتاویٰ نویسی کا بھی آغازکیا۔ایک سال بعد آپ دارالعلوم
امجدیہ عالمگیرروڈ کراچی تشریف لے آئے اورستمبر 1985ء تا 15 جنوری 2011ء تک تقریبا
26سال تدریس فرماتے ہیں ،یہاں انہیں مفتی اعظم پاکستان مفتی وقارالدین
قادری صاحب کی صحبت حاصل ہوئی اوران کے وصال (1993ء)تک ان کی نگرانی میں فتاویٰ
نویسی کرتے رہے، ان کے وصال کے بعدمفتی دارالعلوم کےمنصب پرفائزہوئے۔2003ء میں
انھوں نےدارالعلوم صادق الاسلام لیاقت آبادکراچی میں امجدی دارالافتاء قائم کیا
اوراب تک اس میں رئیس امجدی دارالافتاء کے منصب پر فائز تھے ۔بلاشبہ آپ نے ہزاروں
فتاویٰ جاری فرمائے،جنہیں جمع کیاجائے تو کئی جلدوں پر مشتمل فتاویٰ کا عظیم الشان
اور ضخیم انسائیکلوپیڈیا بن سکتاہے ۔2003ء
میں آپ نے دارالعلوم صادق الاسلام میں بعد عشاء درس نظامی کا آغاز فرمایا اور2011ء
میں مکمل طورپر اپنی تدریسی خدمات یہیں سرانجام دینے لگے۔تاوقتِ وصال یہاں شیخ
الحدیث کے منصب پرفائز تھے ۔تدریس سے آپ کو کتنا لگاؤتھا ،اس کا اندازا اس بات سے
لگایا جاسکتاہے کہ جب کوئی طالبِ علم آپ
سے کسی وقت بھی کوئی کتاب پڑھنے کی درخواست کرتا تو آپ ردنہ فرماتے اوراسے پڑھا
دیا کرتے تھے۔
دیگر
دینی خدمات :
تدریس وفتاویٰ
نویسی کے ساتھ امامت وخطابت اورروحانی علاج کاسلسلہ بھی جاری رکھا۔احقاقِ حق
ہویاابطال باطل، جلوس میلادہویا گھرگھرمحافل ومجالس آپ سب میں متحرک رہتے تھے
۔کتابوں کے مطالعے سے تو آپ کا خاص شغف تھا،تصنیف وتالیف پر نظرڈالیں تو آپ تین
درجن کے قریب کتب رسائل لکھ چکے تھے ۔جن میں سے مطبوع و غیرمطبوع کچھ کتابوں کےنام
یہ ہیں: (1)
ضیاء النحو (2) ضیاء الصرف (3) ضیاء فارسی (4) فارسی کی پہلی کتاب کا حاشیہ (5)
ضیاء المنطق (6) ضیاء اصول حدیث (7) ترجمہ صرف میر (9) ترجمہ مشکوة المصابیح شریف (10) ترجمہ منیۃ
المصلی ( 11) منہاج العارفین ترجمہ منہاج العابدین (12)جنوں کی دنیاترجمہ
لقط المرجان فی احکام الجان (13) جشنِ عید
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم (14) فضائل سیدنا صدیق اکبر (15) حسن قرات (16)کف
ثوب (17)بہار ِ اعتکاف (18) راحت القلوب (19)
سلام کےفضائل واہمیت (20) سماع موتیٰ (21) نماز کا طریقہ (22)فضائل شعبان المعظم (23)
فضائل رمضان المبارک (24) پرائز بانڈ پر انعام لینا جائز ہے۔(25) حج وعمرہ ایک نظر
میں (26) سوانح رئیس التحریر حضرت علامہ ارشد القادری وغیرہم۔
اللہ پاک ان کی
دینی خدمات کو قبول فرمائے ،اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مضمون
کا ماخذ: راقم فقیرقادری عفی عنہ نے یہ مضمون مفتی صاحب کے شاگرداوردعوت
اسلامی کے اسلامک ریسرچ سینٹرالمدینۃ العلمیہ کے محقق عالم دین مولاناابوسائل ندیم مدنی عطاری (فاضل جامعۃ المدینہ )کی
تحریک پر مولانا عامرامجدی مدظلہ کے 16صفحات پر مشتمل رسالے ’’تذکرہ مفتی عطاء المصطفی اعظمی ‘‘پیشکش
تاج الشریعہ فاؤنڈیشن کراچی کی مددسے لکھا
ہے ۔
فقیرقادری ابوماجدمحمدشاہدمدنی عطاری عفی عنہ
7شوال 1445ھ مطابق 16،اپریل 2024ء