قاسم چوہدری (مدرس و ناظم جامعۃُ المدینہ
شیرانوالہ گیٹ لاہور ، پاکستان)
اللہ تعالی نے
لوگوں کی راہنمائی کے لیے وقتا فوقتا
اپنے پیارے بندوں کو مبعوث فرمایا
تاکہ وہ لوگوں کو خالق حقیقی کی جانب بلائیں اور انہیں نیکی کا حکم کریں اور برائی
سے منع کریں۔ان ہی انبیاء کرام میں سے اللہ تعالی کے ایک نبی حضرت یسع علیہ السلام بھی ہیں۔
حضرت
یسع علیہ السلام کا نسب: حضرت یسع
علیہ السلام کے شجرہ نسب کے بارے میں اختلاف ہے ایک قول کے مطابق آپ یسع ابن اخطوب
بن عجوز ہیں جبکہ دوسرے قول کے مطابق آپ
یسع بن عدی بن شوتلم بن افراثیم بن حضرت یوسف بن حضرت یعقوب بن حضرت اسحاق بن حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ [سیرت
الانبیاء ، حضرت یسع علیہ السلام ، ص727،الناشر: مکتبۃ المدینہ کراچی ملخصا]
حضرت
یسع علیہ السلام کا زما نہ بعثت: حضرت
یسع علیہ السلام کو حضرت الیاس علیہ
السلام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں آپ علیہ السلام کو شرف نبوت سے
سرفراز فرمایا گیا[سیرت الانبیاء ، حضرت یسع علیہ السلام ، ص727،الناشر: مکتبۃ
المدینہ کراچی ملخصا] حضرت الیاس علیہ
السلام حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ذریت
سے ہیں اور حضرت یسع علیہ السلام حضرت الیاس علیہ السلام کے خلیفہ تھے تو معلوم ہوا کہ حضرت یسع علیہ السلام کا
زمانہ بعثت بھی حضرت ابراہیم السلام کے بعد کا ہے ۔
حضرت
یسع علیہ السلام کے اوصاف: اللہ
تعالی نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ آپ علیہ السلام حضرت الیاس علیہ السلام کی
خلافت و جانشینی کا شرف ملا اور آپ کو بادشاہت بھی عطا کی گئی۔ آپ علیہ السلام دن میں روزہ رکھتے اور رات میں کچھ دیر آرام کے بعد بقیہ حصہ
نوافل ادا فرماتے۔ آپ علیہ السلام بردبار ، متحمل مزاج ، اور غصہ نہ کرنے والے تھے۔ آپ علیہ
السلام معاملات میں بڑی متانت و سنجیدگی سے فیصلہ فرماتے۔ آپ علیہ السلام جلد بازی سے کام نہ لیتے تھے۔ [سیرت الانبیاء ،
حضرت یسع علیہ السلام ، ص 728، الناشر: مکتبۃ المدینہ کراچی، ماخوذ]
قرآن
پاک میں آپ کی صفات: اللہ تعالی نے
قرآن مجید میں دو مقامات پر آپ علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے : 1-سورۃ الانعام میں اللہ تعالی فرماتا
ہے:" وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ"[الانعام:86] ترجمہ کنز الایمان : اور
اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت
دی۔اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام فرشتوں سے افضل ہیں ، کیونکہ عالم [جہان]کا
اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ تمام موجودات
پر ہوتا ہے اور فرشتے بھی عالم میں داخل
ہیں ، اور جب تمام جہاں والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہو گئی ۔ [تفسیر صراط الجنان ، سورۃ
الانعام، 3\153، تحت الآیۃ:86، الناشر: مکتبۃ المدینہ کراچی ، ملخصا]
2- سورۃ الصاد میں اللہ تعالی نے آپ کا ذکر یوں
فرمایا: "وَ
اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ" [ص:48] ترجمہ کنز الایمان: اور یاد کرو اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو اورسب
اچھے ہیں۔ یعنی ان کے فضائل اور صبر کو یاد کرو تاکہ ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل
کریں۔[تفسیر خزائن العرفان ،سورۃ الصاد، ص844، تحت الآیۃ :48، الناشر: مکتبۃ
المدینہ کراچی ]
بوقت
وفات جانشینی کی شرائط: جب آپ علیہ
السلام کا وقت وفات قریب آیا تو بنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ علیہ السلام
کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ بادشاہت میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیں، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: میں ملک کی باگ دوڑ اس کے حوالے کروں گا جو مجھے تین باتوں کی ضمانت دے ۔ تو ایک نوجوان نے عرض کی: میں ضمانت دیتا ہوں ۔ آپ کے دوبارہ پوچھنے پر بھی اسی نوجوان نے ضمانت دی تو آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے تم تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لو: 1-تم
سوئےبغیر ساری رات عبادت میں بسر کیا کرو گے۔ 2- روزانہ دن میں روزہ رکھو گے اور
کبھی چھوڑو گے نہیں۔3- غصہ کی حالت
میں کوئی فیصلہ نہیں کرو گے۔ اس نوجوان نے ان تینوں چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لی تو آپ علیہ
السلام نے نظام بادشاہی اس کے سپرد کر دیا۔ [سیرت
الانبیاء ، حضرت یسع علیہ السلام ، ص 728، الناشر: مکتبۃ المدینہ کراچی، ملخصا]
اللہ تعالی
ہمیں بھی انبیائے کرام کے صدقے نیک عادات و خصائل اپنا نے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین بجاہ
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم