اے عاشقان ِرسول!ربّ کریم کا صد ہاکروڑ شکرہے کہ اللہ پاک نے ہمیں اپنے محبوب مکی مدنی سرکار، صاحبِ معراج صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اُمّت میں بنایا، جو کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے سردار اور آقا ہیں،اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں جہاں بھی انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا، دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو ربِّ العزت نے ان کے ناموں کے ساتھ خطاب فرمایا۔، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر سورۂ ھود، آیت نمبر 96 میں فرمایا:ولقد ارسلناموسٰی بایتنا وسلطن مبین۔ ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک ہم نے موسی کو اپنی آیتوں اور روشن غلبے کے ساتھ بھیجا۔ اسی طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام کا ذکر سورۂ النساء، آیت نمبر 157 میں فرمایا: عیسی ابن مریم رسول اللہ۔ترجمہ کنز العرفان:عیسی بن مریم اللہ کے رسول۔ مگر اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مختلف القابات کے ساتھ مخاطب فرمایا،جن میں سے کچھ اسمائے مصطفٰی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بیان کئے جاتے ہیں۔ 1۔ اللہ پاک نے فرمایا:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠۔ترجمۂ کنزالایمان:اور محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔(سورہ ٔالاحزاب،آیت40)اس آیتِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا سب سے مشہور و معروف نام محمد ذکر کیا گیا، مزید اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے۔2۔طٰهٰۚ۔مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ۔ترجمہ:طٰہٰ، اے حبیب ہم نے تم پر یہ قرآن اس لئے نہیں نازل فرمایا کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔(سورۂ طٰہٰ، آیت1،2)طٰہٰ حروفِ مقطعات میں سے ہے، مفسرین نے اس کے مختلف معنی بیان کئے ہیں، ان میں سے ایک قول یہ بھی ہے کہ طٰہٰ تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسماء میں سے ہے، جس طرح ربّ کریم نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام محمد رکھا، اسی طرح آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا نام طٰہٰ بھی رکھا۔(تفسیر ترطبی، طہ، تحت الآیۃ1،2،صراط الجنان، جلد 6، سورۂ طہ، آیت 1)3۔قال اللہ: یا ایھا المزمل۔ ترجمہ کنزالعرفان:اے چادر اوڑھنے والے۔(سورۂ مزمل،آیت1)اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مزمل کہہ کر پکارا۔4۔ قال اللہ : یا ایھاالمدثر ۔ترجمہ کنزالعرفان:اے چادر اوڑھنے والے۔(سورۂ مدثر، آیت 1)اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مدثر کہہ کر پکارا۔5،6۔قال اللہ : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۔ وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ترجمہ کنزالعرفان:اے نبی!بےشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔(سورۃ الاحزاب، آیت45،46)اس آیتِ مبارکہ کے ابتدائی حصّہ میں پیار آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے یاایھاالنبی کہہ کر خطاب فرمایا، اس کے علاوہ آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسماء شاھداورسرجا منیرا ذکر فرمائے گئے ہیں۔ شاھد کا ایک معنی ہے: حاضر و ناظر، یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے: گواہ۔اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام شہید اور شاہد بھی رکھا ہے۔سراجا منیرا کا معنی ہے: چمکا دینے والا آفتاب۔ اللہ پاک نے اس آیتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام سراجا منیرا رکھا ہے ۔صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:سراج کا ترجمہ آفتاب قرآن کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ نوح میں ہے: وجعل الشمس سراجاً۔ ترجمۂ کنزالعرفان:اور سورج کو چراغ بنایا۔ در حقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی اور کفر و شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نورِ حقیقت افروز سےدور فرما دیا۔(تفسیر خزائن العرفان، الاحزاب،تحت الآیۃ:46،صفحہ 784)یٰسٓ ۚ۔وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ ۙ۔ترجمۂ کنز العرفان:یسٓ،حکمت والے قرآن کی قسم۔(سورۂ یسین، آیت1،2)اس آیتِ مبارکہ میں حرف یسین حروفِ مقطعات میں سے ایک حرف ہے، اس کی مراد ربّ کریم ہی بہتر جانتا ہے۔مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یسین سیّدالمرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسماء مبارکہ میں سے ایک اسم ہے۔(جلالین مع صاوی، یسین، تحت الآیۃ 1،5، صفحہ 1705)8۔ قال اللہ:وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔ترجمۂ کنز الایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا، مگر رحمت سارے جہاں کے لئے۔ (سورۂ الانبیاء، آیت107)اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو رحمت للعالمین فرمایا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ربّ کریم نے اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تمام جہاں والوں کے لئے رحمت بنایا۔ میرے آقا، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حدائقِ بخشش میں لکھتے ہیں:

تم ہو جواد و کریم، تم ہو رؤف و رحیم

بھیک ہو داتا عطا، تم پہ کروروں درود

9۔قال اللہ :قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ ۔ترجمۂ کنزالعرفان:بےشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آ گیا اور ایک روشن کتاب۔(سورۂ مائدہ، آیت15)اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام نور رکھا ہے۔ علامہ صاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام اس آیتِ مبارکہ میں نور رکھا گیا ہے، اس لئے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بصیرتوں کو روشن کرتے ہیں، انہیں رُشد و ہدایت فرماتے ہیں اور اس لئے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہر نور سنی اورمعنوی کی اصل ہیں۔(تفسیر صاوی، المائدہ، تحت الآیۃ15، ص 486)10۔قال اللہ :والضحی ترجمۂ کنز العرفان:چڑھتے دن کے وقت کی قسم۔(سورۂ الضحٰی، آیت1)اس آیتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو الضحٰی فرمایا گیا۔ مفسرین نے فرمایا:یہاں چاشت سے جمالِ مصطفٰی کے نور کی طرف اشارہ ہے۔

(تفسیر روح البیان، الضحٰی، تحت الآیۃ2،ص453)

ہے کلامِ الٰہی میں شمسُ الضحٰی، تیرے چہرہ نورِ فزا کی قسم

قسمِ شبِ تار میں رازیہ تھا، کہ حبیب کی زُلفِ دو تا کی قسم