ہدایت اللہ بن منظور احمد(درجہ سابعہ ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی)
حدیث پاک میں ہیں فرائض کے بعد اللہ پاک کے نزدیک
سب سے زیادہ پسندیدہ عمل مسلمانوں کے دل میں خوشی داخل کرنا ہے۔(معجم الکبیر
11/59،حدیث:11079)
اور دل خوش کرنے کا انمول اور بے مثال دل جواب طریقہ مسکرا کر
بات کرنا ہے اور کیوں نہ ہو کہ موقع کی مناسبت سے مسکرانا ہمارے پیارے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ پیارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے مسکرانے کے
پانچ واقعات ملاحظہ ہو۔
(1)حضرت
سیدنا ام درداء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ
عنہ جب بھی بات کرتے تو مسکراتے ۔آپ رضی
اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں میں نے سیدنا ابو دادا رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کی
آپ اس عادت کو ترک فرما دیجیے ورنہ لوگ آپ کو احمق سمجھنے لگیں گے۔ تو حضرت سیدنا
ابو دادا رضی اللہ عنہ نے فرمایا :میں نے جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بات کرتے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے
تھے۔
(مسند
احمد 8/171،حدیث:21791)
(2)حضرت
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے میں دائرہ اسلام میں آیا
ہوں اس وقت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے مجھ سے کسی قسم کا کوئی حجاب نہیں رکھا ۔جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم
مجھے دیکھتے تو چہرہ انور مسکراہٹ سے جگمگا اٹھا۔
(بخاری 2/320)
(3)حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ بے شک ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہا کے
ہاتھ سے سوئی زمین پر گڑ پڑی ۔پس وہ سوئی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے چہرے انور کے مسکرانے سے ظاہر ہوگئی۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوئی کو پا لیا اور اٹھا
لیا۔
( القول
البدیع ص 247)
(4)نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھی سے فرمایا کہ جنت میں بوڑھی نہ جائے گی وہ
بولی ان کا کیا بنے گا؟ مسکرا کر آقا علیہ سلام نے فرمایا :کیا تم قرآن میں نہیں
پڑھتی! "کہ ہم انہیں پیدا کریں گے دوبارہ پیدائشی
تو انہیں کنوار پن بنا دیں گے"۔ (مشکاۃ المصابیح،2/200)
(5)حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ
سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے دن حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک خنجر پکڑ لیا تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کس لیے ہے؟ انہوں نے عرض کی میں نے اس
لیے پکڑا ہے کہ اگر کوئی مشرک میرے پاس آیا تو اس کے ساتھ اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں
گا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔ انہوں نے عرض کی: یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو طلقاء قریش ہم سے دور ہے انہیں قتل فرما دیجیے وہی آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی شکست کا باعث بنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام
سلیم اللہ تعالی ہی کافی اور بہتر ہے۔( شمائل بغوی ص267)