پیارے اسلامی بھائیوں!  آج اس پر فتن دور میں جہاں ظاہری گناہوں کا بازار گرم ہے ایسے ہی قلبی گناہوں کا بھی دور دورا ہے ان ہی باطنی گناہوں میں سے ایک وعدہ خلافی ہے کہ ہر شخص کوئی نہ کوئی وعدہ کرتا ہے لیکن اس کو پورا کرنے کی طرف نظر بھی نہیں گھماتا۔ یوں ہی ہم قرض لیتے وقت جلد ہی ادا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں مگر وہ تاریخ جانے کے سالوں بعد بھی وہ آپ کے گھروں کے چکر کاٹتا رہتا ہے تو پیارے بھائیوں! آئیے وعدہ خلافی کی تعریف ، حکم اور اس کی مذمت پر چند احادیث پیش کرتا ہوں تاکہ اس میں غور و فکر کر کے ہم وعدہ خلافی بچ پائیں:۔

تعریف: معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی کہلاتی ہے (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 170) حکم: خلف وعدہ جس کی تین صورتیں ہیں اگر وعدہ سرے سے صرف زبانی بطور دنیا سازی کیا اور اُسی وقت دل میں تھا کہ وفا(پورا) نہ کریں گے تو بے ضرورتِ شرعی وحالتِ مجبوری سخت گناہ و حرام ہے ایسے ہی خلافِ وعدہ کو حدیث میں علاماتِ نفاق سے شمار کیا اور اگر وعدہ سچے دل سے کیا پھر کوئی عذر مقبول وسبب معقول پیدا ہوا تو وفا نہ کرنے میں کچھ حرج کیا ادنٰی کراہت بھی نہیں اور اگر کوئی عذر و مصلحت نہیں بلاوجہ نسبت چھڑائی جاتی ہے تو یہ صورت مکروہ تنزیہی ہے۔(فتاوی رضویہ ،12/ 281 تا 283)

(1) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔(1) جب اسے امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے۔(2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔(3) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔(4) جب جھگڑا کرے تو بیہودہ بکے۔( بخاری، کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق، 1/16، حدیث: 33)

( 2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مدِّ مقابل ہوں گا، ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے۔ دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے ۔ تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حرًّا،3/ 82 ،حدیث: 2227)

(3) روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں خطبہ دیتے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے: جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی الایمان، 6/ 196 ،حدیث : 4045)شرح حدیث : یعنی امانت داری اور پابندی وعدہ کے بغیر ایمان اور دین کامل نہیں۔ عہد میں میثاق کے دن رب سے عہد، بیعت کے وقت شیخ سے عہد، نکاح کے وقت خاوند یا بیوی سے عہد، جو جائز وعدہ دوست سے کیا جائے یہ سب داخل ہیں۔ ان سب کا پورا کرنا لازم و ناجائز وعدہ توڑنا ضروری اگر کسی سے زنا، چوری، حرام خوری یا کفر کا وعدہ کیا تو اسے ہرگز پورا نہ کرے کہ یہ رب کے عہد کے مقابلے میں ہے۔ الله رسول سے وعدہ کیا ہے ان سے بچنے کا اسے پورا کرے۔ (مرآۃ المناجیح، 1/ 51)

(4)حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے، جو کسی مسلمان کا عہد توڑے تو اس پر اللہ پاک ،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، نہ ا س کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی اور نہ نفل۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، 3/20، حدیث: 1870)

(5) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بدعہد کے لیے قیامت کے دن جھنڈا گاڑھا جائے گا تو کہا جائے گا کہ یہ فلاں ابن فلاں کی بدعہدی ہے۔ (مسلم شریف، 3/ 1360 ،حدیث : 1735)

پیارے بھائیوں ہم نے وعدہ خلافی کی مذمت پر چند احادیث کو سنا کہ وعدہ خلافی کرنے والے کے لئے کتنی ساری خرابیاں ہیں۔ لہذا ہم میں سے ہر ایک اس سے بچنے کی کوشش کریں تاکہ سعادتِ دارین سے مستفیض ہو سکے ۔