اس دنیا کی زندگی کے تمدنی ہونے کی وجہ سے ہر انسان فطری  و طبعی طور پر مدنی (مل جل کر زندگی بسر کرنے والا) ہوتا ہے ،کیونکہ ہر انسان کسی نا کسی کام میں کسی غیر کا محتاج ضرور ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس پر دوسرے لوگوں کے شرعی ،فطری اور اخلاقی حقوق متعلق ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک وعدہ و عہد وپیمان کر کے اس کو پورا کرنا بھی ہے، لیکن بسااوقات آدمی شیطان کے بہکاوے میں آکر بعض اسباب کی وجہ سے دوسرے انسان کو دھوکا دے بیٹھتا ہے اور جانے انجانے میں گناہ کے میں پڑ جاتا ہے۔

بدعہدی کی تعریف:معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرناغدر یعنی بدعہدی کہلاتاہے۔( فیض القدیر،حرف الھمزۃ، 2/625)

بدعہدی کاحکم: عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بدعہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الحادی والعشرون۔۔۔الخ،1/ 652)

وعدہ کو پورا کرنے کی عظمت و اہمیت: یاد رہے جس طرح قولًا جھوٹ مذموم ہے اسی طرح عملی جھوٹ کی بھی ممانعت ہے، جس طرح قول کی سچائی مطلوب ہے اسی طرح عمل کی سچائی بھی مطلوب ہے۔ وعدہ خلافی عملی جھوٹ میں شمار ہوتا ہے، اور ایفائے عہد (وعدہ کو پورا کرنا) عملی صدق و سچائی کہلاتا ہے۔ اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا اور عہد شکنی کی مذمت ہے۔

وعدہ پورا کرنے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رب کریم نے اس کا تذکرہ قراٰن پاک کی مختلف آیات میں کیا ہے۔ جیسے پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر34میں فرمایا: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور عہد پورا کرو بیشک عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:34)

اور پارہ 18 سورۃ المؤمنون میں ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔

اور خود اللہ پاک نے بھی اپنی اس صفت کا بارہا ذکر فرمایا ہے (کہ اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا)

وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اللہ ہرگز اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرے گا (پ 17، الحج : 47)

اللہ کے نبی حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی تعریف کرتے ہوئے خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا گیا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمۂ کنزالعرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والارسول تھا۔(پ16، مریم : 54)

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے ارشادات کے ذریعہ بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے۔ حدیثِ قدسی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خصم بنوں گا(یعنی ان کے خلاف مقدمہ کھڑا کروں گا) ان میں ایک وہ ہے جس نے میرا واسطہ دے کر کوئی معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑ دیا۔(بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حُرّاً)

روایت ہے حضرت انس سے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ،حدیث:35 )

روایت ہے عبداللہ ابن عمر سے فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ جس میں چار عیوب ہوں وہ نرا منافق ہے اور جس میں ایک عیب ہو ان میں سے اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک کہ اُسے چھوڑ نہ دے جب امانت دی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، جب لڑے تو گالیاں بکے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:1 حدیث:56 )

حضرت عبد اللہ ابن عمرو سے روایت ہے: فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جوکسی عہد و پیمان والے کو قتل کردے وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے محسوس کی جاتی ہے۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرحمن "کسی عہد وپیمان والے کو قتل کردے" کے تحت فرماتے ہیں: عہدوپیمان والے کافر سے مراد یا ذمی کفار ہیں مسلمانوں کی رعایا اور مستامن جو کچھ مدت کے لیے امان لے کر ہمارے ملک میں آئیں اور معاہد جن سے ہماری صلح ہو ان میں سے کسی کو بلاوجہ قتل کرنا درست نہیں، ہاں اگر وہ کوئی ایسی حرکت کریں جس سے ان کا قتل درست ہوجائے تو قتل کئے جائیں۔(یعنی ایک کافر سے وعدہ خلافی کی یہ عید ہے تو مسلمان بھائی سے وعدہ خلافی کا انجام کتنا برا ہوگا الله اکبر)( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 حدیث:3452 )

روایت ہے حضرت عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے راوی فرمایا اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو نہ اس کا مذاق اڑاؤ نہ اس سے کوئی وعدہ کرو جو خلاف کرو۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث نمبر:4892 )

حضرت عبداللہ بن ابوحمساء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نزولِ وحی اور اعلانِ نبوت سے قبل میں نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے خریدو فروخت کا ایک معاملہ کیا مگر اس وقت پوری رقم ادا نہ کرسکا تو میں نے وعدہ کیا کہ باقی رقم ابھی آکر ادا کرتا ہوں،اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں آنے کا وعدہ کیا تھا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اسی مقام پر اپنا منتظر پایا، میری اس وعدہ خلافی سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ماتھے پر ذرا بھی بل نہیں آیا، بس اتنا ہی فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں اس جگہ تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔(سنن ابی داود،4/342 ،حدیث:4836)

غوثِ پاک اور ایفائے عہد: غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک سفر میں کوئی شخص میرا رفیق بنا، ایک بار اس نے مجھے ایک جگہ بٹھایا اور اپنے انتظار کا وعدہ لے کر چلا گیا، میں ایک سال تک وہاں بیٹھا رہا پھر وہ لوٹا اور یہی وعدہ لے کر چلا گیا، ایسا تین بار ہوا، آخری بار وہ آیا اور کہا: میں ”خِضر“ ہوں۔(اخبار الاخیار، ص12)

وعدہ خلافی کے چار اسباب وعلاج: (1)…وعدہ خلافی کا پہلا سبب قلت خشیت( خوف خدا کا کم ہونا) ہے کہ جب اللہ پاک کا خوف ہی نہ ہو تو بندہ کوئی بھی گناہ کرنے سے باز نہیں آتا، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ فکر آخرت کا ذہن بنائے، اپنے آپ کو رب پاک کی بے نیازی سے ڈرائے، اپنی موت کو یاد کرے۔(2)…غدر یعنی بدعہدی کا دوسرا سبب حب دنیا ہے کہ بندہ کسی نہ کسی دنیوی غرض کی خاطر بدعہدی جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حب دنیا کی مذمت پر غور کرے کہ دنیا کی محبت کئی برائیوں کی جڑ ہے، جو شخص حب دنیا جیسے موذی مرض کا شکار ہوجاتا ہے اس کے لیے دیگر کئی گناہوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ، یقیناً سمجھدار وہی ہے جو جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا ہی دنیا میں مشغولیت رکھے اور فقط اپنی اُخروی زندگی کی تیاری کرتا رہے۔(3)…غدر یعنی بدعہدی کا تیسرا سبب دھوکہ بھی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دھوکے جیسے قبیح فعل کی مذمت پر غور کرے کہ جو لوگ دھوکہ دیتے ہیں ان کے بارے میں احادیث مبارکہ میں یہ وارد ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں۔ (4)…غدر یعنی بدعہدی کا چوتھا سبب جہالت ہے کہ جب بندہ غدر جیسی موذی بیماری کے وبال سے ہی واقف نہ ہوگا تو اس سے بچے گا کیسے؟ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ غدر کی تباہ کاریوں پر غور کرے کہ بدعہدی کرنا مؤمنوں کی شان نہیں ہے، حضور نبی کریم رؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور دیگر بزرگان دین رحمہم اللہُ السّلام نے کبھی کسی کے ساتھ بدعہدی نہیں فرمائی، بدعہدی نہایت ہی ذلت و رسوائی کا سبب ہے، بدعہدی کرنے والے شخص کے لیے کل بروز قیامت اس کی بدعہدی کے مطابق جھنڈا گاڑا جائے گا۔ بدعہدی کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں یوں دعا کرے: اے اللہ پاک مجھے بدعہدی جیسے موذی مرض سے نجات عطا فرما، میں کبھی بھی کسی مسلمان کے ساتھ بدعہدی نہ کروں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص173تا 175)

لیکن افسوس کہ وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے، لیڈر قوم سے وعدہ کرکے توڑ دیتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے عہد کرکے توڑ دیتے ہیں ۔

الله پاک ہمیں وعدہ خلافی سے بچنے کی طاقت و توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم