وعدہ کو پورا کرنے کی پابندی بھی درختِ اخلاق کی ایک بہت ہی اہم اور نہایت ہی ہری بھری شاخ ہے۔ وعدہ پورا کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور وعدہ خلافی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ چنانچہ اللہ پاک  پاره 10 سوره انفال کی آیت نمبر 55 اور 56 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵) اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔

مذکورہ ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ خواہ بندوں سے کیا ہوا جائز وعدہ توڑا جائے یا اللہ سے کئے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کی جائے دونوں انتہائی مذموم ہیں اور احادیث میں بھی وعدہ خلافی کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ دو احادیث ملاحظہ ہوں : (1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مدِّ مقابل ہوں گا، ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے ۔دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے ۔ تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (صراط الجنان، 4/ 30)

(2) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جو کسی مسلمان سے وعدہ توڑے تو اس پر اللہ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی نہ نفل ۔ (صراط الجنان، 4/31)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! وعدہ خلافی کرنا مؤمنوں کی شان نہیں اور حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور دیگر بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم نے کبھی کسی کے ساتھ وعدہ خلافی نہیں کی۔ وعدہ خلافی سے بچنے کا ایک علاج یہ ہے کہ ہم اللہ پاک سے دعا کرے کہ اے میرے رب ذو الجلال ہمیں وعدہ خلافی جیسے موذی مرض سے بچا، میں کبھی بھی کسی مسلمان سے وعدہ خلافی نہ کروں۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم