اویس افضل عطاری(درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان امام
غزالی فیصل آباد)
روزہ بہت عظیم
عبادت ہے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں روزے کا بڑا تذکرہ ملتا ہے اور بطور خاص
نفلی روزے رکھنا۔ فرائض کی بات کرے تو وہ مسلمانوں پر بالعموم روزہ فرض ہی ہے۔
رمضان کے روزے وہ الگ معاملہ ہےفریضہ ہے لیکن اس کے علاوہ نفلی روزوں کی بہت ترغیب
ارشاد فرمائی گئی ہے۔
محشر
میں روزے داروں کے مزے: قیامت کے دن جب روزے دار قبروں سے نکلیں گے تو وہ روزے کی
بو سے پہچانے جا ئیں گے، ان کے لئے دسترخوان لگایا جا ئے گا اور انہیں کہا
جا ئے گا: ’’ کھاؤ !کل تم بھوکے تھے، پیو ! کل تم پیاسے
تھے، آرام کرو!کل تم تھکے ہوئے تھے۔ ‘‘ پس وہ کھائیں گے پئیں
گے اور آرام کریں گے حالانکہ لوگ حساب کی مَشَقَّت اور پیاس میں مُبتَلاہوں
گے۔(جَمْعُ الْجَوامِع 1/334،حدیث:2462)
شیطان کی پریشانی: ایک بزرگ نے مسجد کے دروازے پر شیطان کو حیران و پریشان کھڑے ہوئے دیکھ کر
پوچھا کیا بات ہے؟ شیطان نے کہا: اندر دیکھئے! انہوں نے اندر دیکھا تو ایک شخص
نماز پڑھ رہا تھااور ایک آدمی مسجد کے دروازے کے پاس سو رہا تھا۔ شیطان نے بتایا
کہ وہ جو اندر نماز پڑھ رہا ہے اس کے دل میں وسوسہ ڈالنے کے لئے میں اندر جانا
چاہتا ہوں لیکن جو دروازے کے قریب سو رہا ہے،یہ روزہ دار ہے، یہ سویا ہوا روزے دار
جب سانس باہر نکالتا ہے تو اس کی وہ سانس میرے لئے شعلہ بن کر مجھے اندر جانے سے
روک دیتی ہے۔
( نیک بننے اور
بنانے کا طریقے)
میٹھے میٹھے اسلامی
بھائیو! شیطان کے وار سے بچنے کیلئے روزہ ایک زبردست ڈھال ہےروزہ دار اگرچہ سو رہا
تھا مگر اس کی سانس شیطان کے لئے گویا تلوار ہے ۔معلوم ہوا روزہ دار سے شیطان بڑا
گھبراتا ہے، شیطان چونکہ ماہ رمضان المبارک میں قید کر لیا جاتا ہے۔ اس لئے وہ
جہاں بھی اور جب بھی روزہ دار کو دیکھتا ہے پریشان ہو جاتا ہے۔
جنت کا انوکھا درخت : جس نے ایک نفلی روزہ رکھا اللہ پاک اس کے
لئے جنت میں ایک درخت لگائے گا جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا۔ وہ
(موم سے الگ نہ کئے ہوئے) شہد جیسا میٹھا اور (موم سے الگ کئے ہوئے خالص شہد کی
طرح) خوش ذائقہ ہوگا۔ اللہ پاک بروز قیامت روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھلائے گا۔(طبرانی
کبیر 18/366، حدیث :935)
چالیس سال کا فاصلہ دوزخ سے دوری : جس نے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے ایک نفْل روزہ رکھااللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال (کی مسافت کے برابر) دُور فرمادے گا۔(جَمعُ الجَوامع 7/190،حدیث:22251)
چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
اللہ پاک پارہ 22 سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 35 میں ارشاد
فرماتا ہے :
وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ
الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا
وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)
ترجمہ کنزالایمان: اور
روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں
اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اور
بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ( اور روزے والے اور روزے والیاں) کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات عبد اللہ
بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے داخل
ہیں۔ منقول ہے: جس نے ہر مہینے ایام بیض (یعنی چاند کی 13، 14، 15 تاریخ) کے تین
روزے رکھے وہ روزے رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ (تفسیرِ مدارک 2/345)