شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت سے
کھانے پینے اور ہمبستری سے بچا جائے۔(تفسیر خازن، البقرۃ:، تحت الآیۃ:183/119)
روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ تقویٰ و پرہیزگاری کا حُصول فرض روزوں کے ساتھ
ساتھ نفل روزے سے بھی ہوتا ہے،نفل روزوں کے ثواب کو بیان کرتے ہوئے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اگر کسی نے ایک دن نفل
روزہ رکھا اور زمین بھر سونا دیا جائے،جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا،اس کا ثواب
تو قیامت ہی کے دن ملے گا۔
(مسند ابی یعلی،5/353،حدیث:6104)
روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی
جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے،اگر نفل روزے رکھیں گی تو اپنی خواہشات
پر قابو پانے کی مشق ہوگی،جس سے ضبطِ نفس
اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوگی اور یہی ضبطِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے، جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے، قرآنِ پاک میں ہے:ترجمہ: اور وہ
جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہشات سے روکا تو جنت ہی ٹھکانا ہے۔(ا لنازعات، 40، 41)
احادیثِ مبارکہ میں نفل روزے کے بہت فضائل آئے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے عاشورا(10 محرم) کے روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:مجھے اللہ پاک پر گمان ہے کہ عاشورا
کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دیتا ہے۔( مسلم، ص589،حدیث: 1162)
عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کے روزے کی
فضیلت کے بارے میں اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت
ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم عرفہ کے روزے کو ہزار دن کے برابر بتاتے۔(معجم اوسط، باب المیم ،5/127، حدیث:6802)
ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں
روزے رکھنے کے بارے میں آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جن دنوں میں اللہ پاک کی
عبادت کی جاتی ہے،ان میں سے کوئی دن ذوالحجہ کے دس دنوں سے زیادہ پسندیدہ نہیں،ان
میں سے(ممنوع دنوں کے علاوہ) ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور اور ہر رات کا قیام شبِ قدر میں قیام کے برابر
ہے۔(ترمذی،2/191، حدیث:758)
شوال میں چھ دن کے روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جس نے رمضان کے
روزے رکھے،پھر اس کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو گناہوں سے ایسے نکل گیا،جیسے آج
ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔(معجم اوسط،باب المیم،6/234،حدیث:8622)
شعبان میں روزہ رکھنے کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں: حضور اقدس صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے میں نے نہ
دیکھا۔( ترمذی ،
ص182،حدیث736)
ہر (اسلامی)مہینے تین دن ایّامِ بیض(13، 14، 15کو) روزہ رکھنے کے بارے میں فرمایا:جس سے ہو سکے ہر مہینے میں تین روزے رکھے کہ
ہر روزہ دس گناہ مٹاتا ہے اور گناہ سے ایسا پاک کر دیتا ہے، جیسا پانی کپڑے کو۔(معجم کبیر ،25/35، حدیث:60)اور ایک جگہ فرمایا:
جب مہینے میں تین روزے رکھنے ہوں تو تیرہ، چودہ، پندرہ کو رکھو۔(ترمذی ،2/193،حدیث:761)
پیر اور جمعرات کے روزے کے بارے میں فرمایا:پیر اور جمعرات کو اعمال پیش ہوتے
ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔(ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاءفی صوم الاثنین والخمیس،2/186،
حدیث: 745)
اس کے علاوہ بھی نفل روزوں کے بے شمار فضائل ہیں۔اللہ پاک ہمیں بھی ان فضائل
کو حاصل کرنےاور گناہوں سے بچتے ہوئے نفل روزہ رکھنے کی سعادت عطا فرمائے۔آمین