پیارے پیارے اسلامی بھائیو! جس طرح کسبِ حلال کے بے شمار فضائل ہیں ۔ وہیں رزق حرام کمانے اور کھانے پر بہت ہی سخت وعیدیں بھی ہیں۔ بد قسمتی سے آج کل کسب حلال بہت ہی کم گھروں تک محدود رہ گیا۔

ہر شخص اپنے عہدے کے مطابق اس میں خیانت کر کے اپنی روزی کو حرام بنا رہا ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی بلا ضرورت جھوٹ بول کر معاذ اللہ جھوٹی قسمیں تک کھا کر اپنا مال فروخت کرتے ہیں ۔ رشوت سود، دھوکہ بازی حتی کہ جس گناہ کا سہارا لینا پڑ جائے لیتے ہیں اور مال کماتے ہیں۔ غور کریں ! آپ اتنا ہی کھاتے ہیں جتنی آپ کے پیٹ میں گنجائش ہے۔ آپ اُسی قدر پہنتے ہیں جس قدر آپکی جسامت ہے باقی آپ کی کمائی آپکے اہل و عیال کھاتے ہیں۔ اور وبال آپ پر آئیگا ۔ لہٰذا ! اپنے جسم نازک پر رحم کریں ۔ خدارا اسے جہنم کا ایندھن بنبے سے بچائیں ۔ جس نے پیدا کیا ہے اُسی نے رزق کا بھی وعدہ فرمایا ہے۔ جو کچھ آپ کے نصیب میں ہے آپ کو مل کر رہے گا۔ اب یہ فیصلہ آپ پر ہے کہ اسے کس طرح حاصل کرتے ہیں۔

اس ضمن میں چند فرامین آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں :

(1) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ آدمی پر واہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا ہے ، حلال سے یا حرام سے (صحیح بخاری)

آہ !حقیقت یہ ہے کہ اب وہ دور آ چکا ہے حلال و حرام میں فرق نہیں کیا جاتا ہے۔ انسان مال کی محبت میں اندھا ہو چکا ہے اسے بس مال چاہیے۔ چاہے وہ کسی راستے سے آئے۔ اب اگر کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ پیسے کہاں سے ملے؟ تو جواب میں یہ سننے کو ملتا ہے کے آم کھاؤ گھٹلیاں مت گنو ۔

(2) عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر ا س کو صدقہ کر دے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اسکے لیے اُس میں برکت نہیں اور چھوڑ کر مرے گا تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا ۔ (احمد)

(3) حضرت جابر رضی اللہ سے روایت ہے کہ مدنی تاجدار ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو گوشت حرام سے اُگا ہے (یعنی پلا بڑھا)جنت میں داخل نہ ہوگا اور جو گوشت حرام سے اُگا ہے اُس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے ۔ (دارمی، بیھقی)

(4) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان خوشبودار ہے ۔ الله پاک ہے اور پاک ہی کی دوستی رکھتا ہے اور اللہ پاک نے مؤمنین کو بھی اُسی کا حکم دیا ہے جس کا رسولوں کو حکم دیا۔ اپنے رسولوں سے فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو۔ (پ18،المؤمنون:51) اور فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ ۔ (پ،2 ، البقرۃ:172)پھر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں ،وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے :یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو، اس کا لباس حرام ہو، اس کی غذا حرام ہو تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیّب وتربیتہا، ص506، حدیث: 1015)

(5) حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جس نے عیب والی چیز کو بیچا اور اُسکے سبب کو ظاہرہ نہ کیا وہ ہمیشہ اللہ پاک کی ناراضگی میں ہے فرمایا کہ ہمیشہ فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں ۔ (ابن ماجہ )

الله پاک سے دعا ہے کہ رزقِ حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم