اتفاق و اتحاد ایک ایسی دولت ہے جس کی بدولت دین اسلام نے ان قوموں کو بھی شکست دی ہے جن کو اپنی قوت پر بہت ناز تھا، آج کے پر فتن دور میں ہر شخص ایک دوسرے سے دور بھاگ رہا ہے۔ رہی سہی کسر موبائل کی سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے کہ بھائی بھائی سے، والدین اولاد سے، دوست یار ایک دوسرے سے دور ہوگئے ہیں۔ لیکن اس دور میں بھی دین اسلام نے ہمیں ایسے کئی مواقع فراہم کیے ہیں۔ جن کے ذریعے آپس میں بھائی چاره اتفاق و اتحاد جذبہ خیر خواہی برقرار رہ سکتے ہیں۔ جیسا کہ حج کہ پورے عالم اسلام سے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہے۔ یہ تو سالانہ اجتماع ہے۔ اسی طرح ہفتہ وار جیسا کہ نمازِ جمعہ، ان سب کے ساتھ ساتھ اسلام نے ہمیں ایک ہی دن میں کئی ملاقات کا موقع دیا ہے اور ساتھ ہی اس کی ترغیب بھی عطا فرمائی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ رب کریم ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43) مفتی نعیم الدین مرادآبادی تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں: اس آیت میں جماعت کی ترغیب ہے ۔ اور جماعت کا حکم شرعی تو یہ ہے کہ عاقِل، بالغ، حر(آزاد)، قادر پر جماعت واجب ہے، بلاعذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار اور مستحقِ سزا ہے اور کئی بار ترک کرے، تو فاسق مردود الشہادۃ اور اس کو سخت سزا دی جائے گی، اگر پڑوسیوں نے سکوت کیا تو وہ بھی گنہگار ہوئے۔ (بہارِ شریعت، 1/582)

آیئے جماعت کی حرص کو بڑھانے کیلئے اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین سے آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں:

(1) حضرت عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رِوایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)

(2) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا میں نے سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے کامل و ضو گیا ، پھر نماز فرض کے لیے چلا اور امام کے ساتھ پڑھی، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(صحیح ابن خزیمہ،کتاب الامامۃ فی الصلاۃ،باب فضل المشی الی الجماعۃ متوضیاً۔۔۔الخ،2/373،حدیث:1489)

(3) حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز میں پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا : اگر یہ نماز جماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ اس جانے والے کے ليے کیا ہے؟، تو گھسٹتا ہوا حاضر ہوتا۔ (المعجم الکبير،8/224، حديث: 7886)

(4) حضرت ابو درداء رضی الله عنہ نے فرمایا : میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ جس بستی یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور ان میں نماز کی جماعت نہ کی جائے تو ان پر شیطان غالب آ جا تا ہے ۔ تم پر جماعت لازم ہے بھیڑیا دور والے جانور ہی کو کھا تا ہے۔ (سنن نسائی کتاب الامامۃ ،2/106، حدیث: 844)

(5) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعض نمازوں میں کچھ لوگوں کو غیر حاضر پایا تو ارشاد فرمایا :میں چاہتا ہوں کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز (باجماعت) سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان پر ان کے گھر جلادوں (احیاء العلوم (مترجم)، 1/ 862)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صحت و عافیت کے سا تھ ہر نماز با جماعت ، تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین