محمد منور عطّاری (تخصص فی الحدیث مرکزی جامعۃُ المدینہ
باب المدینہ کراچی پاکستان)
میں پانچوں نَمازیں پڑھوں باجماعت
ہو توفیق ایسی عطا یاالٰہی
پارہ 2 سورہ بقرہ آیت نمبر 43 میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ
اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ
دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43) اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں تفسیر کبیر کے
حوالہ میں مذکور ہے کہ شرعی احکام بیان کئے جا رہے ہیں جو ایمان قبول کرنے کے بعد
ان پر لازم ہیں چنانچہ فرمایا گیا کہ اے یہودیو! تم ایمان قبول کرکے مسلمانوں کی
طرح پانچ نمازیں ان کے حقوق اور شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جس طرح مسلمان اپنے
مالوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اسی طرح تم بھی اپنے مالوں کی زکوٰۃ دو اور میرے حبیب
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ با جماعت
نماز ادا کرو۔
اس آیت میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی ترغیب بھی ہے
اور احادیث میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
چنانچہ یہاں پانچ
احادیث مبارکہ بیان کی جاتی ہیں:۔
(1) حضرت
عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز
کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727)
(3)حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ
عنہما سے رِوایت ہے ، تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: نمازِ
باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)
(4)انس رضی
اللہ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو اللہ کے لیے
چالیس دن باجماعت پڑھے اور تکبیرۂ اُولیٰ پائے، اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی
جائیں گی، ایک نار سے، دوسری نفاق سے۔(جامع الترمذی، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في
فضل التکبیرۃ الاولی)
(5)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: منافقین پر
سب سے زیادہ بھاری عشا اور فجر کی نماز ہے اور وہ جانتے کہ اس میں کیا ہے؟ تو
گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی
کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے
پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاؤں ، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور
ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ
الجماعۃ۔۔۔ الخ، ص327، حدیث: 651)
میٹھے پیارے اسلامی بھائیو یہ مسئلہ ذہن نشین رہے کہ نمازِ
باجماعت عاقِل بالغ، حر، قادر پر جماعت واجب ہے، بلاعذر ایک بار بھی چھوڑنے والا
گنہگار اور مستحق سزا ہے اور کئی بار ترک کرے، تو فاسق مردود الشہادۃ اور اس کو
سخت سزا دی جائے گی، اگر پڑوسیوں نے سکوت کیا تو وہ بھی گنہگار ہوئے۔(بہارِ شریعت
حصہ دوم جماعت کا بیان)
اللہ پاک ہمیں باجماعت نماز کا پابند بنائے۔ اٰمین بجاہ طہ
و یٰس۔