وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)اس آیتِ مبارکہ میں نماز و زکوٰة ادا کرنے کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کا حکم ارشاد ہوا ہے۔ باجماعت نماز کا ایک فائدہ یہ ہے کہ گنہگار بندے جب جماعت میں شامل ہو کر عبادت کرتے ہیں تو جماعت میں موجود اللہ پاک کے محبوب بندوں کے صدقے انکی عبادت بھی قبول ہو جاتی ہے۔ باجماعت نماز کے فقہی حکم کے متعلق صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ : عاقِل، بالغ، حر(آزاد)، قادر پر جماعت واجب ہے، بلاعذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار اور مستحقِ سزا ہے اور کئی بار ترک کرے، تو فاسق مردود الشہادۃ اور اس کو سخت سزا دی جائے گی، اگر پڑوسیوں نے سکوت کیا تو وہ بھی گنہگار ہوئے۔ (بہارِ شریعت، 1/582)

باجاعت نماز پڑھنے کے بارے میں کُتُبِ احادیث میں بہت سارے فرامینِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم موجود ہیں، جن میں سے 5 فرامینِ حبیبِ کبریا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش کیے جاتے ہیں ہیں :

(1) سینہ عبادت سے بھرنا : جس نے باجماعت نماز پڑھی بے شک اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر دیا۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد....الخ، باب فضل صلاة العشاء......الخ، ص329،حديث : 260)

(2) نفاق اور آگ سے آزادی کا پروانہ : حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے 40 دن با جماعت نماز اس طرح پڑھی کہ اس کی تکبیر تحریمہ بھی فوت نہ ہوئی تو اللہ پاک اس کے لئے دو پروانے لکھے گا ایک پروانہ نفاق سے آزادی کا اور دوسرا آگ سے آزادی کا۔ (سنن الترمذی، کتاب الصلاة، باب ماجاء في فضل التكبيرة الاولى،1/274، حديث: 241)

(3) ستائیس درجے افضل : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جماعت کی نماز ، اکیلی نماز پر ستائیس درجے افضل ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،1/232، حدیث :645)

(4) شیطان کا غالب آنا اور نگاہِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محرومی : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جس بستی یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور ان میں نماز کی جماعت نہ کی جائے تو ان پر شیطان غالب آ جا تا ہے ۔ تم پر جماعت لازم ہے بھیڑیا دور والے جانور ہی کو کھا تا ہے۔ (مشکوٰة المصابیح، باب الجماعة و فضلھا، حدیث: 1000 حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ : جماعت کا تارک جناب مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نگاہ کرم سے محروم ہو جاتا ہے۔ (مراةالمناجیح، 2/157)

(5)دو بندوں پر بھی جماعت لازم : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ دو اور دو سے زیادہ جماعت ہیں۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب إقامۃ الصلوٰت ۔۔۔ إلخ، باب الاثنان جماعۃ،1/517،حدیث :972)

اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی مقام پر دو شخص بھی ہوں اور نماز کا وقت آ جائے تو ان دونوں پر بھی جماعت لازم ہے اگرچہ یہ حقیقی جماعت نہیں ہے لیکن جماعت کے حکم میں ہے۔ جیسا کہ حکیم الامّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں : ”یعنی اگر کہیں دو مسلمان بھی ہوں تو ایک امام بن جائے اور ایک مقتدی، جماعت کا ثواب پائیں گے کیونکہ یہ حکماً جماعت ہے یا یہ مطلب ہے کہ اگر امام کے سوا دو آدمی ہوں تو امام آگے کھڑا ہو کیونکہ یہ جماعت کے حکم میں ہیں بہر حال یہاں جماعت مراد ہے نہ کہ حقیقی۔“ (مراةالمناجیح، 2/163)

بزرگانِ دین نمازِ باجماعت کی بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے جیسا کہ حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : 20 سال سے میرا یہ معمول ہے کہ مؤذن کے اذان دینے سے پہلے ہی مسجد میں ہوتا ہوں۔ (مصنف لابن ابي شيبة، كتاب الصلاة، من كان يشهد الصلاة، 1/386،حديث : 4) اور کبھی جماعت چھوٹ جاتی تو بہت افسوس کیا کرتے۔ منقول ہے کہ اسلاف کرام رحمہم اللہ السلام میں سے کسی کی تکبیر اولیٰ فوت ہو جاتی تو تین دن افسوس کرتے اور اگر جماعت فوت ہو جاتی تو سات دن افسوس کرتے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب اسرارالصلاۃ ومہماتھا، الباب الاول فی فضائل الصلاۃ والسجود۔۔۔ الخ، 1 / 203)

حضرت سیدنا حاتم اصم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ایک بار (کسی عذر کے باعث) میں باجماعت نماز کے لیے حاضر نہ ہو سکا تو اکیلے ابو اسحاق بخاری نے مجھ سے تعزیت کی اور اگر میرا بیٹا فوت ہو جا تا تو دس ہزار سے زیادہ لوگ ان تعزیت کرتے کیونکہ لوگوں کے نزدیک دین کی مصیبت دنیا کی مصیبت سے زیادہ آسان ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب اسرارالصلاۃ ومہماتھا، الباب الاول فی فضائل الصلاۃ والسجود۔۔۔ الخ، 1 / 203)

اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو پانچ وقت کی نمازِ باجماعت، تکبیرِ اولٰی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمین