اے عاشقان رسول! اللہ کریم کی رحمت سے ہمیں جو بےشمار انعامات عنایت ہوئے ہیں، الحمد‌للہ ان میں سےنماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہے اور اسی طرح نماز کی جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، اللہ پاک کےفضل وکرم سےیہ بھی ہمارے لیے بےشمار‌ نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ کریم سورۃ البقرہ آیت 43 میں ارشادفرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43) حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس ( یعنی اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نما ز تنہا نماز پرستائیس درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، 1/330)

فرض نماز جماعت سے ادا کرنے میں اللہ پاک اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر عمل ہے۔ چنا نچہ نمازِ باجماعت کے حوالے سے چند فرامینِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درج ذیل ہیں: حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے عشاء کی نمازِ باجماعت پڑھی گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی ، گویا پوری قیام کیا۔(صحیح مسلم کتاب المساجد ،حدیث: 656)

امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/309 ،حدیث:5112)

حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رِوایت ہے ، تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)

حضرت سیِّدُنا اَنس رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِرشاد فرماتے ہیں : جو کوئی اللہ پاک کے لیے چالیس دن ’’تکبیر اُولیٰ‘‘ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے اُس کے لیے دو آزادیاں لکھی جائیں گی، ایک نار سے دوسری نفاق سے ۔ (ترمذی،1/274، حديث: 241)

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اگر لوگ جانتے کہ اذان اور صفِ اوّل میں کیا ہے تو پھر بغیر قرعہ ڈالے اسے نہ پاسکتے تو قرعہ ہی ڈالتے۔( صحیح بخاری ،جلد 1 حدیث: 615) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ حدیث پاک کے اس حصے ( اگر لوگ جانتے کہ اذان اور صف اول میں کیا ہے ) کے تحت لکھتے ہیں: (یعنی) اگرچہ ہم نے ان دونوں (یعنی پہلی صف اور اذان ) کے فضائل بہت بیان کر دیے لیکن اس کے باوجود کَماحَقُّہٗ (یعنی جیسا کہ ان کا حق ہے ) بیان نہیں ہو سکے، وہ تو دیکھ کر ہی معلوم ہوں گے، پتا لگا کہ فِی سبِیلِ اللہ (بغیر اجرت) اذان و تکبیر کہنا اور نماز کی صفِ اوّل میں خصوصاً امام کے پیچھے کھڑا ہونا بہت بہتر ہے۔ جس کی بزرگی (یعنی فضیلت) بیان نہیں ہوسکتی۔ حدیث پاک کے اس حصے (تو پھر بغیر قرعہ ڈالے اسے نہ پاسکتے تو قرعہ ہی ڈالتے) کے تحت لکھا ہے: یعنی ہر شخص چاہے کہ یہ دونوں کام میں کروں تو ان میں جھگڑا یعنی اختلاف پیدا ہو جس کا فیصلہ قرعہ اندازی (مثلاً نام کی پرچی نکالنے) سے ہو، معلوم ہوا کہ نیکیوں میں (ایسا) جھگڑنا (یعنی اختلاف کرنا جس میں کسی قسم کی شرعی خرابی مثلاً بد اخلاقی و ناحق دل آزاری وغیرہ نہ ہو وہ) بھی عبادت ہے اور قرعے سے جھگڑا چکانا محبوب (یعنی پسندیدہ)۔ (مرأۃالمناجیح ، 1 / 385)

اے عاشقانِ نماز! اس حدیث پاک (زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو) کے مطابق اپنی زندگی سے پورا پورا فائدہ اٹھاکر جتنا ہو سکے باجماعت نمازیں ادا کر کے ہمیں زیادہ سے زیادہ ثواب کا ذخیرہ کر لینا چاہیئے۔ ورنہ یاد رکھئے مرنے کے بعد جماعت کا ثواب پانے کا موقع نہیں مل سکے گا اور اپنی غفلت بھری زندگی پر بے حد ندامت ہوگی ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام نمازیں مسجد کی پہلی صف میں تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ ادا کرنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے ۔ (اٰمین)