سلام دینِ اسلام
کی روشن تعلیمات میں ایک عظیم صفت اور
بہترین عادت ہے۔ سلام کی اَہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی
لگایا جاسکتاہے کہ اللہ قُدوس و سَلام عَزَّشَانُہ نے اپنے پاک کلام
میں سلام سے متعلق اپنے
بندوں کی راہنمائی بھی فرمائی ہے کہ: "وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ
فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ
شَیْءٍ حَسِیْبًا(۸۶) ([1])"
ترجمۂ کنز الایمان
: اور
جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ
دو بے شک اللہ ہر چیز پر حساب
لینے والا ہے۔
اِسی طرح کائنات
میں اَمن و سلامتی کے سب سے بڑے اور عظیم علمبردار ،تمام نبیوں کے تاجدار صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم کی روشن و تابناک تعلیمات میں بھی ہمیں سلام کی اَہمیت و فضیلت کا بیان
ملتاہے۔چنانچہ حضرت سیِّدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے
بانیِ اسلام صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم سے سوال کیا:أَىُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ اِسلام کا کونسا عمل بہتر ہے؟ تو رسولِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((تُطْعِمُ
الطَّعَامَ ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ)) کھانا کِھلانا
اور ہر مسلمان کو سلام کرنا، خواہ اُسے پہچانو یا نہ پہچانو۔([2])
فقہائے اِسلام نے
بھی فقہ کی کتابوں میں سلام سے متعلق شرعی
اَحکامات بڑی تفصیل کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں۔مثلاً اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ایک مقام پر
تحریر فرماتے ہیں کہ : "سلام جب
مسنون طریقہ سے کیا گیا ہو اور سلام کرنے والا سُنّی مسلمان صحیح العقیدہ ہو تو
جواب دینا واجب ہے اور اُس کا ترک گناہ۔" ([3])
لیکن یہاں سلام
کے فقہی اَحکام کو بیان کرنا موضوعِ سُخن نہیں ہے ،بلکہ مقصود ایک اَہم مسئلے کی طرف توجہ دِلانا ہے جس
کی تفصیل درج ذیل ہے۔
سلام
لکھنے کا دُرست طریقہ:
سلام کو تحریر ی صورت
میں یوں لکھا جاتاہے: "اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم"۔لیکن عوام
الناس کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو سلام کے یہ کلمات لکھنے میں
عموماً دو غلطیاں کرجاتی ہے۔ ذیل میں اُن
اَغلاط کی نشاندہی اور غلطی کرنے کی
وجہ تحریر کی گئی ہے۔
پہلی
غلطی:
" اَلسَّلَامُ " کو بعض
لوگ (الف
کے بعد لام کے بغیر ہی) "اسلام" لکھ دیتے ہیں(اسلام علیکم)۔
غلطی
کی وجہ:
لفظِ" اَلسَّلَامُ "کے شروع
میں موجود حرفِ تعریف (ال) کا "لام" پڑھنے میں نہیں
آتا؛کیونکہ یہاں حرفِ تعریف (ال)
کے بعدحرف "سین" آرہا ہے ،جو کہ حُروفِ شمسیہ ([4])میں سے ہے اور
قاعدہ ہے کہ اگر حرفِ تعریف کے بعد حروفِ شمسیہ میں سے کوئی حرف آجائے تو ایسی
صورت میں حرفِ تعریف کا "لام" لکھنے میں تو آتاہے، لیکن Silentہونے کی وجہ سے پڑھا نہیں جاتا؛کیونکہ اِس صورت میں
حرفِ تعریف کے" الف" کو "لام" کے بعد والے حرفِ شمسی سے ملاکر پڑھتے ہیں۔ چونکہ
"اَلسَّلَامُ " کا تلفظ کرنے میں "لام" نہیں
پڑھا جاتا تو بعض لوگ اِس کو لکھنے میں بھی ترک کردیتے ہیں۔
دوسری
غلطی:
"اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم" لکھنے میں
بعض لوگ "عَلَیْکُم " سے پہلے واؤ لکھ دیتے ہیں(وعَلَیْکُم ) ۔
غلطی
کی وجہ:
لفظِ"اَلسَّلَامُ " پڑھنے میں "میم" پر موجود
پیش کی آواز سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوجاتاہے کہ یہاں واؤ ہے اور تحریر کرتے
وقت بھی وہ "میم" کے بعد واؤ لکھ دیتے ہیں(اَلسَّلَامُ و عَلَیْکُم)۔حالانکہ یہاں واؤ نہیں لکھاجائے گا۔
اللہ کریم ہمیں
"سلام "کو عام
کرنے، اِس کی برکات سے حصّہ پانے اورتما م ہی اُمور میں اپنی اصلاح کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمِین بِجَاہِ
خَاتمِ النَّبِیِّن وخَاتمِ الْمَعْصُوْمِیْنصلی اللّٰہ
تعالی علیہ وسلم
از:
ابوالحقائق راشدعلی رضوی عطاری مدنی
اسکالر
المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)
[1] : سورۃ النساء:86۔
[2] : صحیح بخاری، کتاب الایمان،باب اطعام الطعام
من الاسلام،ج1،ص6۔
[3] : فتاوی رضویہ،22/408۔
[4] : وہ حُروف جن سے پہلے لامِ تعریف نہ پڑھا جائے بلکہ وہ اپنے بعد والے حُروف میں مُدغَم ہوجائے ان کو "حُروفِ شمسیہ " کہتے ہیں جیسے: اَلنَّجْمُ۔ (فیضانِ تجوید،ص122) حروفِ شمسیہ چودہ(14) ہیں: ص،ذ،ث،د،ت،ز،س،ر،ش،ض،ط،ظ،ل،ن