شکر کی حقیقت یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے نفس کو اس چیز کا عادی بنائے اور اس کا الٹ ناشکری کہلاتا ہے جو کہ بہت ہی مضموم ہے اس کی مذمت رب نے قران میں کی اور احادیث کریمہ میں بھی وارد ہے ائیے سنیے احادیث کریمہ کی روشنی میں

(1) فرمان مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی ذاتی سے محروم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا (اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا )جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا اور وہی ہے جو اپنے بندو کی توبہ قبول فرماتا ہے (تفسیر صراط الجنان جلد 5 صفحہ 153)

(2) فرمان مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے (صراط الجنان جلد پانچ صفحہ 154)

(3) فرمان مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جسے کوئی عطیہ دیا جائے اگر ہو سکے تو اس کا بدلہ دے دے اور جو کچھ نہ پائے اور اس کی تعریف کر دے کہ جس نے تعریف کر دی اس نے شکر ادا کیا اور جس نے چھپایا اس نے ناشکری کی (مرآۃالمناجیح حدیث 3023 جلد 14)

(4) (حدیث پاک میں ہے کہ) آپ عید الفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے آپ عورتوں کی جماعت پر گزرے تو فرمایا کہ اے بیبیو خوب خیرات کرو کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ تم زیادہ دوزخ والی ہو عرض کی حضور یہ کیوں فرمایا تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو (مرآۃالمناجیح جلد 1 حدیث 19)

(5) فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے سے کم حیثیت والے کو دیکھو اپنے سے زیادہ حیثیت والے پر نظر نہ رکھو بے شک یہ اس بات سے زیادہ لائق ہے کہ اللہ عزوجل کی نعمتوں کو حقیر نہ جانو (فیضان ریاض الصالحین جلد 4صفحہ 678)

اللہ پاک ہم سب کو اللہ پاک کی فرمانبرداری کرنے اور ناشکری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امین