معلّمِ اعظم، جنابِ رسولِ اکرم ﷺ کی مبارک سیرت سے معلوم ہونے والے طرقِ تربیت و تفہیم میں سے ایک طریقہ ”سوال و جواب“ کا ہے۔ حضور نبی رحمت ﷺ نے اس طریقہ کو کئی اعتبار سے متعارف فرمایا۔ اسے سادہ سے الفاظ میں ہم ”سوال کی آزادی(Freedom of Question)“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں آپ ﷺ کا کیا کیا انداز ہوتا تھا اس کا مختصر سا خاکہ یوں ہے:

1. سوال دَر سوال ہونے پر بھی جواب دینا

2. ایک شخص کا بار بار ایک ہی سوال ہونا اور آپ کا پھر بھی جواب دینا

3. مختلف مواقع پر ایک ہی سوال ہونا او رپھر بھی جواب دینا۔

4. افضل ایمان، اسلام اور عمل کے متعلق سوالات کے جواب دینا ۔

5. کسی فضیلت، اجر یا مقام دلانے والے اعمال کے متعلق ہونے والے سوالات کا جواب دینا

6. دوسرے کو کسی عمل پر ملنے والے اجر کا سن کر سوال کرنا اور آپ کا جواب دینا

7. سوال کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنا

8. مختلف اعمال کے اجر و ثواب کے متعلق سوالات کا جواب دینا

9. اچھے اور برے عمل یا ایک ہی عمل کے اچھے اور برے انداز یا نیت کے بارے میں تقابلاً ہونے والے سوالات کے جواب دینا

10. عقائد کی توضیح اور مابعد آنے والوں کی تعلیم پر مشتمل سوال کرنا اور رسولِ کریم ﷺ کا سمجھانا

چونکہ لوگوں کے سوال کرنے کی نفسیات الگ الگ ہوتی ہیں اسی لئے سوالات مندرجہ بالا صورتیں سامنے آتی تھیں، رسولِ کریم ﷺ نے ان سوالات کے جوابات میں کیا کیا رہنمائی فرمائی اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:

(1)بعض اوقات سوال در سوال کا ایک طویل سلسلہ بھی چل نکلتا چنانچہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضر ی دی اور عرض کی کہ دنیا وآخرت کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں تو معلّمِ کامل و اکمل، رسولِ جمیل و اجمل محمد مصطفےٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:پوچھو! جو پوچھنا چاہتے ہو۔

آنے والے نے عرض کی:میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:اللہ سے ڈرو،سب سے بڑے عالم بن جاؤ گے۔

عرض کی : میں سب سے زیادہ غنی بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:قناعت اِختیار کرو، غنی ہوجاؤ گے۔

عرض کی : میں لوگوں میں سب سے بہتر بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچاتا ہو ،تم لوگوں کیلئے نفع بخش بن جاؤ۔

عرض کی : میں چاہتا ہوں کہ سب سے زیادہ عدل کرنے والا بن جاؤں۔

ارشادفرمایا:جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کیلئے بھی پسند کرو، سب سے زیادہ عادِل بن جاؤ گے۔

عرض کی : میں بار گاہِ الٰہی میں خاص مقام حاصل کرنا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:ذکرُ اللہ کی کثرت کرو،اللہ تعالیٰ کے خاص بندے بن جاؤ گے ۔

عرض کی: اچھا اور نیک بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ کی عبادت یوں کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہواور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔

عرض کی: میں کامِل ایمان والا بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:اپنے اخلاق اچھے کر لو،کامل ایمان والے بن جاؤ گے۔

عرض کی: (اللہ تعالیٰ کا) فرمانبردار بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ کے فرائض کا اہتمام کرو،اس کے مُطِیع( وفرمانبردار) بن جاؤ گے۔

عرض کی: (روزقیامت) گناہوں سے پاک ہوکر اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا: غسلِ جنابت خوب اچھی طرح کیا کرو،اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملو گے کہ تم پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔

عرض کی: میں چاہتا ہوں کہ روزِ قیامت میرا حشر نورمیں ہو۔

ارشادفرمایا:کسی پر ظُلْم مت کرو،تمہارا حَشْر نُور میں ہوگا۔

عرض کی: میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم فرمائے۔

ارشادفرمایا:اپنی جان پر اور مخلوقِ خدا پر رحم کرو ،اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا۔

عرض کی:گناہوں میں کمی چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا: اِستغفار کرو،گناہوں میں کمی ہوگی۔

عرض کی: زیادہ عزت والا بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے بارے میں شکوہ وشکایت مت کرو،سب سے زیادہ عزت دار بن جاؤ گے۔

عرض کی:رِزْق میں کشادگی چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:ہمیشہ باوضو رہو،تمہارے رزق میں فراخی آئے گی ۔

عرض کی:اللہ و رسول کا محبوب بننا چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:اللہ ورسول کی محبوب چیزوں کو محبوب اور ناپسند چیزوں کو ناپسند رکھو۔

عرض کی:اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے امان کا طلب گار ہوں۔

ارشادفرمایا:کسی پر غصہ مت کرو،اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے امان پاجاؤ گے۔

عرض کی:دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں۔

ارشادفرمایا:حرام سے بچو،تمہاری دعائیں قبول ہوں گی۔

عرض کی: چاہتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے لوگوں کے سامنے رُسوا نہ فرمائے۔

ارشادفرمایا:اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو ،لوگوں کے سامنے رُسوا نہیں ہوگے۔

عرض کی:چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری پردہ پوشی فرمائے۔

ارشادفرمایا: اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب چھپاؤ،اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری پردہ پوشی فرمائے گا۔

عرض کی: کون سی چیز میرے گناہوں کو مٹاسکتی ہے؟

ارشادفرمایا:آنسو، عاجزی اور بیماری ۔

عرض کی: کون سی نیکی اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے افضل ہے؟

ارشادفرمایا:اچھے اخلاق،تواضُع، مصائب پر صبر اور تقدیر پر راضی رہنا۔

عرض کی:سب سے بڑی برائی کیا ہے؟ کون سی برائی اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے بڑی ہے؟

ارشادفرمایا:برے اخلاق اور بُخْل ۔

عرض کی:اللہ تعالیٰ کے غَضَب کو کیا چیز ٹھنڈا کرتی ہے ؟

ارشادفرمایا:پوشیدہ صدقہ کرنااور صِلہ رحمی۔

عرض کی:کونسی چیز دوزخ کی آگ کو بجھاتی ہے؟

ارشادفرمایا:روزہ۔

(کنزالعمال، حرف المیم، کتاب المواعظ والرقائق۔۔الخ، فصل فی جامع المواعظ والخطب، خطب النبی ﷺ و مواعظہ، جلد16، صفحہ127، حدیث:44154)

قارئین ذرا غور تو کیجئے! کیاکمال کا علم ، حوصلہ اور حلم تھا کہ سوال پر سوال ہو رہے ہیں اور آپ ہیں کہ جواب دینے میں ذرا اکتاہٹ نہیں، اورپھر ہر سوال کا جواب کیسا جامع اور نہایت دوراندیشی پر مبنی عطا فرمایا، غورکیا جائے تو ہر جواب اپنے اندر حکمت کے سمندر سموئے ہوئے ہے۔

(بقیہ آنے والی قسط میں )