(سلسلہ تحریر”تربیت و تفہیم سیرتِ مصطفےٰ کے آئینہ میں“ کی تیسری قسط میں ”حضور ﷺ  سے ہونے والے سوالات اور آپ کا اسوۂ جواب“ کے تعلق سے 10صورتیں بیان کی گئی تھیں، جن میں سے ساتویں قسم”سوال کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنا“ ہے، آئیے! اس کی تفصیل جانتے ہیں)

(7)سوال کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنا

رسولِ مکرم ﷺ کی بارگاہ میں سوالات کئے جاتے تو آپ ﷺ کا جواباً اصلاح و تربیت فرمانے کا ایک بہت دل موہ لینے والا انداز ”سائل کی حوصلہ افزائی کرنا“ ظہورپذیر ہوتا، یوں کہہ لیجئے کہ اگر سائل آپ ﷺ کی شان و عظمت اور مقامِ نبوت کے پیشِ نظر جتنا بھی مرعوب ہوتا، آپ ﷺ کے لب ہائے مقدسہ سے سوال یا سائل کی حوصلہ افزائی کے کلمات سن کر طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی، آئیے حوصلہ افزائی فرمانے کے حوالے سے چند روایات اور نکات ملاحظہ کرتے ہیں:

حضور نبی رحمت ﷺ ایک ماہر صاحبِ حکمت اور رمزشناس معلمِ کامل ہیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اچّھے سوالات پر صحابۂ کرام کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی: ”یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ مجھے ایسا عمل ارشاد فرمائیں جو مجھے جنّت میں داخل کردے!“ نبی کریم ﷺ نے(ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے)فرمایا:”بَخٍ بَخٍ لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ عَظِيمٍ وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّه یعنی شاباش! شاباش! بے شک تُو نے عظیم (چیز) کے بارے میں سوال کیا اور بِلاشبہ وہ اس شخص کیلئے آسان عمل ہے جس پر اللہ آسان کردے۔ فرض نماز پڑھو اور فرض زکوٰۃ ادا کردو۔“ (مسند ابی داؤد طیالسی، ص76، حدیث: 560)

رسولِ کریم ﷺ نے لفظ”بخ، بخ“ استعمال فرمایا، یہ لفظ کسی چیز کی تعریف اور اس کے بارے میں اظہار خوشی کے لیے استعمال کیا جا تا ہے اور اس کے معنی شاباش، بہت خوب، آفرین اوراس کے مترادفات سے کئے جاتے ہیں۔ امام ابنِ اثیر جزری لکھتے ہیں:یہ کلمہ مدح اور کسی چیز سے رضا مندی کے موقع پر بولا جاتاہے اور مبالغہ کے لئے مکرر (یعنی بار بار) بولا جاتاہے۔(النہایۃ فی غریب الاثر،جلد1، صفحہ101)

مزید یہ کہ رسولِ کریم ﷺ نے خوشی و تعریف کے اظہار کو مزید تقویت دینے کے لئے یہ لفظ دو بار ارشاد فرمایا۔

ایک مرتبہ حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:”يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ القِيَامَةِ یا رسول اللہ! روزِ قیامت آپ کی شفاعت کی سعادت پانے کا سب سے زیادہ حق دار کون ہوگا؟“

جنابِ ابوہریرہ کے اس سوال پر رسولِ کریم ﷺ نے ان کے بارے میں اپنے حسن ظن اور حوصلہ افزائی کا کیا ہی خوب اظہار فرمایا، ارشاد فرمایا:”لَقَدْ ظَنَنْتُ، يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنْ لاَ يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ، لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ۔ اے ابو ہریرہ! حدیث کے متعلق تمہاری حرص کے پیش نظر مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے اس کے متعلق مجھ سے کوئی دریافت نہ کرے گا۔

قارئین کرام!ربّ کعبہ کی قسم! ابوہریرہ کے نصیبوں پر قربان جانے کو دل کرتاہے، کیسے مقدروں والے ہیں کے جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ حرصِ طلبِ حدیث کا گمان رکھتے ہیں۔

پھر جواب دیتے ہوئے فرمایا: روز قیامت میری شفاعت کی سعادت کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہوگا، جس نے سچے دل سے”لا إله إلا الله “ کہا ہوگا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، جلد4، صفحہ264، حدیث:6570)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اکرم ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور سوال کیا:

عَلِّمْنِي عَمَلًا يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ

مجھے ايسا عمل سكھا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے۔

رسول کریم ﷺ نے( اس اعرابی کی حوصلہ افزائی فرمائی اور سوال کی تعریف کرتے ہوئے) فرمایا:

لَئِنْ كُنْتَ أَقَصَرْتَ الْخُطْبَةَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَةَ

تم نے بات تو اگرچہ مختصر کی ہے لیکن سوال بہت بڑا پوچھا ہے۔

پھر فرمایا: أَعْتِقِ النَّسَمَةَ، وَفُكَّ الرَّقَبَةَجان آزادکرو اور گردن چھڑاؤ۔

اس نے عرض کی : کیا یہ دونوں ایک ہی نہیں؟

آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، جان آزاد کرنا یہ ہے کہ تو تنہا اس کو آزاد کرے اور گردن چھڑانا یہ ہے کہ اس کی قیمت کی ادائیگی میں معاونت کرے اور زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی یا بکری عطیہ دو، ظالم قرابت دار سے بھی اچھا سلوک کرو، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھلاؤ اور پیاسے کو پانی پلاؤ اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو خیروبھلائی کی بات کے علاوہ اپنی زبان کوروکے رکھو۔(الآداب للبیہقی،باب فی اطعام الطعام و سقی الماء، صفحہ 32، رقم:88مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ)

سبحان اللہ!ایک چھوٹے سے سوال کے جواب میں حسن معاشرت اور فکر آخرت کے کیسے کیسے زریں اصول بیان فرمادئیے۔

سائل کی حوصلہ افزائی فرمانے کے حوالے سے ایک اور روایت حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

ایک سفر کے دوران رسولِ کریم ﷺ کے سامنے ایک اعرابی آگیا اور آپ کی سواری کی لگام تھام کر عرض کرنے لگا:یارسول اللہ! أَخْبِرْنِي بِمَا يُقَرِّبُنِي مِنَ الْجَنَّةِ، وَمَا يُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ

مجھے وہ عمل بتادیجئے جو مجھے جنت سے قریب کر دے اور جہنم کی آگ سے دور کر دے؟

نبی کریم ﷺ نے اس اعرابی کے سوال پر قولی اور عملی دونوں طرح سے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی چنانچہ آپ اس کی بات سن کر ایک لمحے کے لئے خاموش رہے، پھر اپنے صحابہ کرام کی جانب دیکھا اور پھر ارشاد فرمایا:

لَقَدْ وُفِّقَ، أَوْ لَقَدْ هُدِيَ

بلاشبہ اسے خیر کی توفیق ملی ہے یا اس کی رہنمائی کی گئی ہے۔

رسولِ کریم ﷺ نے اعرابی سے (سوال دہرانے کا فرماتے ہوئے)کہا: تم نے کیسے کہا؟ تو اس نے سوال دوبارہ عرض کیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ

اللہ کی عبادت کرو اور کسی شے کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم رکھو، زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔

جواب دینے کے بعد فرمایا: دَعِ النَّاقَةَ

اب اونٹنی کو چھوڑ دو۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، صفحہ36، حدیث:104)

رسولِ کریم ﷺ کا اعرابی کا سوال سننا، پھر توقف فرمانا اور صحابہ کرام کی جانب دیکھنا اور پھر اس اعرابی کو ”توفیق دیاگیا“ فرمانا، یہ حوصلہ افزائی کے بڑے ہی پیارے انداز ہیں۔

(بقیہ آنے والی قسط میں )