اسلام دینِ فطرت ہے اور دیکھا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام دینِ تعلیم و تعلم، دینِ علم، دینِ حکمت و دانائی، دینِ تربیت و تفہیم بھی ہے۔ علم کے حصول، علم کی اہمیت اور علم کی افضلیت پر جس قدر اسلام  نے زور دیا ہے، کسی بھی دوسرے معاشرے میں اس کی نظیر قطعا ًنہیں ملتی۔

گزشتہ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ اللہ رب العزّت کے حبیب احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ ﷺ کا فرمان ہے: ” اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماًیعنی مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا۔(ابنِ ماجہ،1/150،حدیث:229)

چنانچہ جب ہم پیارے رسولِ کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور احادیثِ مبارکہ کا مُطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے کس کس انداز میں تعلیم و تعلم کو ترویج دیا۔ کائنات کے سب سے کامیاب ترین مُعلم و مُربِی نے انسانی طبیعت و مزاج کے موافق ہر طریقہ سے تعلیم کو متعارف (Introduce) کروایا، ان میں سے ایک اہم ترین انداز ”حاضرین کو سوال کرنے کا ذہن دینا، انہیں سوال کرنے کی آزادی دینا اور ان کے سوالات کے مناسب اور ان کے حال و طبیعت و ضرورت و مقصود کے موافق جواب دینا“ بھی ہے۔

اس طریقۂ تعلیم کی تائید و اہمیت قراٰنِ کریم کی آیتِ مبارکہ سے بھی واضح ہوتی ہے:

فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ( ۴۳) 14 ، النحل: 43)

ترجمۂ کنز الایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھواگر تمہیں علم نہ ہو۔

رسولِ کریم ﷺ نے یہ انداز کئی طرح سے لوگوں میں عام فرمایا ، کبھی تو علم نہ ہونے کی وجہ سے غلطی کر بیٹھنے پر سوال کرنے اور نامعلوم کو معلوم کرنے کا فرمایا چنانچہ

حضرت جابر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفرمیں گئے تو ہم میں سے ایک شخص کو پتھر لگ گیا، جس نے اس کے سرمیں زخم کردیا پھر اسے احتلام ہوگیا تو اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم میرے لئے تیمم کی اجازت پاتے ہو وہ بولے تیرے لئے تیمم کی اجازت نہیں پاتے، تو پانی پر قادر ہے اس نے غسل کرلیا پس مر گیا، جب ہم حضور انورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کو اس کی خبر دی گئی، آپ نے فرمایا انہیں خداغارت کرے اسے انہوں نے ماردیا، جب جانتے نہ تھے پوچھ کیوں نہ لیا! ”شِفَاءُ الْـعِیِّ السُّؤَالُ بےعلمی کا عِلاج سوال ہے، اسے یہ کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اوراپنے زخم پرکپڑا لپیٹ لیتاپھر اس پر ہاتھ پھیرلیتا اورباقی کوجسم دھو ڈالتا۔ (سنن ابی داؤد، 1/154، حدیث:336)

اسی طرح علم کے متعلق سوال کی اہمیت و ضرورت کو جس قدر رسولِ کریم ﷺ نے اُجاگر فرمایا اس کی بھی نظیر نہیں چنانچہ ارشاد فرمایا:

مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ القِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ

جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپایا تو اللہ قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائے گا۔(سنن ترمذی، 4/295،حدیث2658)

بعض مواقع ایسے بھی آئے کہ رسولِ کریم ﷺ نے اعلانیہ فرمایا کہ مجھ سے جو چاہو پوچھو چنانچہ امام بیہقی نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ،فَنَادَى رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: إِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ ، قَالَ: فَمَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: الْإِخْلَاصُ، قَالَ: فَمَا الْيَقِينُ؟ قَالَ: التَّصْدِيقُ بالْقيامةِ

یعنی تم مجھ سے جو چاہو پوچھو! تو ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ ارشاد فرمایا:نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا، اس نے عرض کیا: ایمان کیا ہے؟ ارشاد فرمایا:اخلاص، عرض کیا:یقین کیا ہے؟ ارشاد فرمایا:قیامت کی تصدیق کرنا یعنی قیامت کے آنے پر صدق ِدل سے یقین رکھنا۔“(الجامع لشعب الایمان، 9/174، حدیث:6442 مکتبۃ الرشد)

نبی آخرالزماں ،سرداردوجہاں ﷺ کے سوال و جواب والے طریقہ تربیت و تفہیم کے حوالے سے آپ کی مبارک سیرت اور احادیث کا مطالعہ کرنے سے عقائدو مسائل، معیشت ومعاشرت(Economy and Sociology) ، اخلاق (Ethic)، دینیات،معلومات اور دیگر کئی طرح کے موضوعات پر صحابہ و صحابیت کے سوالات اور پیارے رسولِ کریم ﷺ کے جوابات ملتے ہیں ان میں سے تین سوالات مع جوابات ملاحظہ کیجئے:

کونسا فرقہ نجات پائے گا؟:حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن عَمْرو رضی اللہ عنہما سے رِوایَت ہے ، رسولِ رَحْمَت ﷺ نے فرمایا : بنی اِسرائیل 72 فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری اُمَّت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ، ان میں سے ایک کے عِلاوہ سب جہنّم میں جائیں گے ۔ صحابۂ کِرام نے عَرْض کی: یَارَسُولَ اللہ !صَلَّی اللّٰہُ علیک وسلم ! کونسا فرقہ نجات پائے گا؟اِرشَاد فرمایا: جو میرے اور میرے صحابہ کےطریقے پر ہو گا ۔ (سنن ترمذی ، 4/291، حدیث: 2650)

اگر استطاعت نہ ہو تو؟:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر مسلمان پر صَدَقَہ ہے ۔ صحابۂ کِرام نے عَرْض کی: اگر نہ پائے ؟ اِرشَاد فرمایا: اپنے ہاتھ سے کام کرے ، اپنے کو نَفْع پہنچائے اور صَدَقَہ بھی دے ۔ عَرْض کی: اگر اس کی اِسْتِطاعَت نہ ہو یا نہ کرے ؟ اِرشَاد فرمایا: صاحِبِ حاجَت پریشان کی اِعَانَت ( مَدَد) کرے ۔ عَرْض کی: اگر یہ بھی نہ کرے ؟فرمایا: نیکی کا حُکْم کرے ۔ عَرْض کی: اگر یہ بھی نہ کرے ؟ فرمایا: شر سے باز رہے کہ یہی اُس کے لئے صَدَقَہ ہے۔ (صحیح بخاری ، 4/105، حدیث:6022)

رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج:ایک مرتبہ ایک صحابی کی زوجہ محترمہ نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں ایسا سوال بھیج دیا کہ بعد میں آنے والے عُشَّاق کے وارے نیارے ہوگئے، چنانچہ روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حج کا رادہ فرمایا تو ایک عورت نے اپنے شوہر سے عرض کی کہ میں بھی سرکار دوجہاں ﷺ کے ساتھ حج کرنا چاہتی ہوں، ان صحابی کے پاس زوجہ کے لئے سواری کا انتظام نہ تھا اسے لئے منع کردیا اور ان کا ایک سوال رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ کون سا عمل آپ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے؟ تو رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:رمضان ميں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کی طرح ہے۔ (سنن ابی داؤد، 2/297، حدیث:1990)

یہ رسولِ کریم ﷺ کی تربیت و تفہیم کا ہی اثر تھا کہ صحابہ و صحابیات کا ہر ہر معاملے میں پیارے مصطفےٰﷺ سے رہنمائی لینے اور سوالات کرکے جواب پانے کا معمول تھا۔

اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا انصاری صحابیات کی اسی حوالے سے تعریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں:”اَنصاری خواتین کتنی اچھّی ہیں کہ دِینی مَسَائِل سیکھنے میں ہچکچاہٹ نہیں رکھتیں۔“ (صحیح مسلم ،صفحہ147، حدیث:750)

یہ رسولِ کریم ﷺ کے اندازِ تربیت و تفہیم کے ایک پہلو”سوال کرنے کی عام اجازت ہونا اور علم کے لئے سوال کی اہمیت اُجاگر کرنا“ کے تحت سیرتِ سرورِ کائنات ﷺ کا مختصر سا ذکر ہوا، اللہ کریم ہمیں بھی علم دین حاصل کرنے کے لئے علمائے کرام سے فیض لینے کی توفیق عطا فرمائے۔

مدنی مذاکرہ اور فروغِ علم : اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ! عاشِقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دَعْوَتِ اِسْلَامی میں بھی رسولِ کریم ﷺ کی عطا سے سوال و جواب کی صورت میں عِلْمی فیضان عام کیا جارہا ہے۔

دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں میں سے ایک اہم ترین کام ہفتہ وار مَدَنی مُذاکَرہ ہے، حقیقت یہی ہے کہ رسولِ کریم ﷺ کے سوال و جواب والے پیارے اور نِرالے انداز کو دعوتِ اسلامی نے بہت رواج دیا ہے، اور اس کی ترویج میں دعوتِ اسلامی اور بانی دعوتِ اسلامی کا بہت بڑا کردار ہے، یہ مدنی مذاکرہ ہر ہفتے کو بعد نمازِ عشاء جبکہ پورے سال میں اہم مواقع مثلا رمضان المبارک کا پورا مہینا، عیدین کی راتوں، ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتوں، محرم الحرام کی ابتدائی دس راتوں، 25صفرالمظفر، ربیع الاول کی ابتدائی 12راتوں، ربیع الثانی کی ابتدائی11راتوں میں ، یومِ صدیق اکبر، یومِ غریب نواز، شبِ معراج، شب ِبَراءَت ، نیوائیرنائٹ اور دیگر بھی کئی اہم مواقع پر منعقد کیا جاتاہے جس میں شیخ ِطریقت، امیرِ اہل ِسُنَّت حضرت علامہ مولانامحمد الیاس عطارقادری دامت برکاتہم العالیہ مختلف موضُوعات پر پوچھے گئے سوالات کے جوابات عَطا فرماتے ہیں۔

آپ کی طرف سے دئیے گئے جوابات کو الحمد للہ تحریری صورت میں عام کرنے کی بھی سعی کی جاتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کا علمی و تحقیقی ادارہ المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Centre) اب تک مدنی مذاکرے کی کم و بیش 150 سے زائد اقساط کو تحریری صورت میں دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرچکاہے۔ ان میں سے کئی رسائل جُداگانہ طور پر جبکہ ابتدائی 25 اقساط کی ایک مجموعی جلد بنام ”ملفوظاتِ امیر اہل سنت“ شائع ہو کر مکتبۃ المدینہ پر سیل کے لئے بھی دستیاب ہے۔