(9)بعض اعمال کے  بارے میں تقابلاً ہونے والے سوالات کے جواب دینا

صحابہ کرام کے سوالات کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ بعض اعمال کے بارے میں تقابلاً سوال کرتے، یہ تقابل کبھی عمل کے اچھے برے ہونے کے حوالے سے ہوتا تو کبھی نیت کے اچھے یا برے ہونے کے حوالے سے ہوتا، بعض مرتبہ بہتر اور بہترین کے اعتبار سے تقابل ہوتا اور کبھی نتیجہ کے اعتبار سے تقابل ہوتا۔

ایک عمل میں نیت کے اچھے یا برے ہونے کے اعتبار سے تقابلاً سوال کرتے ہوئے حضرت سيّدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:یارسول اللہ! مجھے جہاد اور جنگ کے بارے میں ارشاد فرمائیے(یعنی ان میں کیا فرق ہے؟ )

رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے عبداللہ بن عمرو! اگر تم صبر کرتے ہوئے اور ثواب پانے کے لئے لڑو تو اللہ تعالیٰ تمہیں صابر اور ثواب والا اٹھائے گا اور اگر تم دکھلاوے اور مال كی کثرت کے لئے لڑو تو اللہ بھی تمہیں ریاکار اور دنيا كا طلبگار اٹھائے گا۔ اے عبداللہ بن عمرو! تم جس حال میں لڑو گے یا مرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسی حالت میں اٹھائے گا۔(سنن ابی داؤد،کتاب الجہاد، باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا،جلد3، صفحہ 21،حدیث:2519)

ایک موقع پر صدیقۂ کائنات، مفتیہ اسلام بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جنت میں جانے والوں کے بارے میں تقابلاً سوال :

يا رسول الله أي أهل الجنة أكثر وأيهم أقل

یارسول اللہ! اہل جنت میں کثرت کن کی ہوگی اور قلیل کون ہوں گے؟

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: أكثرهم المساكين وأقلهم الأغنياء والنساء،

جنت میں اکثریت مساکین کی ہوگی جبکہ قلت اہلِ ثروت اور عورتوں کی ہوگی۔(کنزالعمال، کتاب الزکوۃ، الباب الثالث، الفصل الاول،الجزء6، جلد3، صفحہ207، حدیث:16659)

اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک موقع پر پڑوسیوں کے بارے میں بھی تقابلاً سوال کیا چنانچہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي جَارَيْنِ فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟

يارسول الله ! ميرے دو ہمسائے ہیں میں ان میں سے کس کی طرف ہدیہ بھیجوں؟

پیارے مصطفےٰ ﷺ نے ایسا جامع جواب دیا کہ حقوق پڑوس میں وہ ہمیشہ کے لئے اصول بن گیا، آپ نے فرمایا:

إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا

اس کی طرف(ہدیہ بھیجو) جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے قریب ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الشفعۃ، باب ای الجوار اقرب، جلد2، صفحہ62،حدیث:2259)

اسی طرح حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں دوافراد میں سے کون سلام میں پہل کرے کے بارے میں تقابلاً سوال کا تذکرہ ہے چنانچہ فرماتے ہیں:

رسول کریم ﷺ کی بارگاہ میں سوال کیا گیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ! الرَّجُلَانِ يَلْتَقِيَانِ أَيُّهُمَا يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ

يارسول الله! جب وه شخص ملیں تو ان میں سے سلام میں پہل کون کرے؟

پیارے مصطفےٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَوْلَاهُمَا بِاللَّهِ

جو ان میں سے اللہ کے زیادہ نزدیک ہو(یعنی سلام میں پہل کرنے والے اللہ کریم کے زیادہ نزدیک ہے)۔(سنن ترمذی، ابواب الاستئذان، باب ماجاء فی فضل الذی یبدء بالسلام، جلد4،صفحہ319، حدیث:2703)

قارئین کرام غور کیجئے کہ مصطفےٰ کریم ﷺ نے کیسے پیارے انداز میں سوال کا جواب بھی ارشاد فرمادیا اور سلام میں پہل کرنے والے کی فضیلت بھی ارشاد فرمادی۔

(10)عقائد کی توضیح اور مابعد آنے والوں کی تعلیم پر مشتمل سوال کرنا اور رسولِ کریم ﷺ کا سمجھانا

اگر ذخیرہ حدیث پر توجہ کی جائے تو واضح ہوتاہے کہ تعلیماتِ اسلامیہ کا ایک کثیر حصہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے سوالات کے نتیجے میں ہم تک پہنچا ہے۔ صحابہ کرام کے سوالات کی 9صورتوں کا بیان گزرچکا ہے، یہاں دسویں صورت بیان کی جاتی ہے۔ صحابہ کرام کے کئی سوالات ایسے ہوتے تھے کہ جن کا جواب عقائد اسلامیہ کی توضیح کرتا اور صرف صحابہ کرام ہی نہیں بلکہ بعد میں آنے والوں کے لئے بھی عقائد و نظریات کی اصلاح کا سبب ہو گیا جیسا کہ ایک موقع پر رسولِ کریم ﷺ نے درودِ پاک کی فضیلت میں ارشاد فرمایا:

إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ

جمعہ تمہارے دنوں میں سے سب سے افضل دن ہے، اسی میں حضرت آدم(علیہ الصلوٰۃ و السلام) پیدا ہوئے اور اسی دن ان کی روح قبض ہوئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن قیامت آئے گی، لہٰذا اس دن مجھ پر کثرت سے درودِ پاک پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درودِ پاک مجھ پر پیش کیا جاتاہے۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان جو کہ ہر وقت علم کے پیاسے رہتے تھے اور کیوں نہ ہوں کہ علم و حکمت اور خزائن الٰہیہ کا بحرِ بےکنار جو آنکھوں کےسامنے ہوتا تھا، چنانچہ صحابہ کرام نے اس موقع پر بھی سوال کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ، وَقَدْ أَرَمْتَ أَيْ يَقُولُونَ قَدْ بَلِيتَ؟

یارسول اللہ!ہمارا درودِ پاک آپ ﷺ تک کیسے پہنچے گا حالانکہ آپ کو دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے مدت ہو چکی ہوگی۔؟

تو رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ

تحقیق اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے ا جسام کھانا حرام فرما دیا ہے۔(سنن نسائی، کتاب الجمعۃ، باب اکثار الصلاۃ علی النبی ﷺ یوم الجمعۃ، صفحہ238،حدیث:1371)

محترم قارئین! غور کیجئے کہ معلم اعظم رسولِ اکرم ﷺ نے کیسے ایک مختصر جملے میں ہزار سال بعد اٹھنے والے فتنہ کا بھی رد فرمادیا، اور واضح فرمادیا کہ اللہ رب العزت کے انبیاء و رسل دنیا سے پردہ کرنے کے بعد بھی حیات ہوتے ہیں، سب سنتے ہیں۔