اللہ ربُّ العزّت نے حضرت آدم علیہ السلام سے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ تک مختلف اوقات میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءو رسل کو مبعوث فرمایا۔ ان نفوسِ قدسیہ کی بعثت کے کچھ نا کچھ عظیم و اہم مقاصد ہوتے تھے جنہیں قرآنِ کریم ، احادیثِ مبارکہ اور سابقہ کتبِ سماویہ میں بھی بیان کیا گیا ہے، تمام انبیائے کرام کی بعثت میں توحیدِ باری تعالیٰ کا پرچار، مخلوقِ خدا کو حلال و حرام کی تمیز سکھانا اور اُخروی زندگی کی تیاری کرنے کا ذہن دینا جیسے امور تقریباًمشترک ہیں۔

اگر ہم قرآن پاک اور سیرت شاہِ لولاک کا مطالعہ کریں تو پتا چلتاہے کہ سرورکائنات محمد مصطفےٰ ﷺ کئی اہم و اعظم امور کے لئے مبعوث فرمائے گئے،ان میں سے ایک مقصد وہ ہے جس کے بارے میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے دعا مانگی:رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠(۱۲۹)

ترجمہ:اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بےشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔(پارہ1، البقرۃ:129)

سورہ اٰل عمران میں بھی اسی مقصد کا بیان ہوا ہے:لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴) (پارہ4، سورۃ اٰل عمران:164)

ترجمہ:بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتااور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

اسی طرح سورۃ الجمعہ میں ارشاد فرمایا:هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ(۲) (پارہ28، سورۃ الجمعۃ:2)

ترجمہ:وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں اور بےشک وہ اس سے پہلے ضرور کُھلی گمراہی میں تھے

ان آیاتِ مبارکہ میں ”آیاتِ کریمہ کی تلاوت “ ،”کتاب و حکمت سکھانا“، اور ”ستھرا و پاکیزہ کرنا“ ان تین باتوں کا مشترک ذکر ہوا ہے اور ان تینوں کا مستفاد تعلیم اور تربیت و تفہیم ہے۔

تو نتیجہ یہ ہوا کہ انبیائے کرام کے مقاصد بعثت میں سے یہ ایک بہت اہم مقصد تھا جسے بلاشبہ تمام انبیاء کرام نے پورا فرمایا، جبکہ اس پہلو میں جو انداز رسول اللہ ﷺ نے اختیار فرمایا نہ تو اس کی نظیر ملتی ہے اور نہ اس جیسے دوررَس نتائج کہیں ملتے ہیں، یوں کہئے کہ آپ ﷺ کائنات کے سب سے عظیم، مدبر، مفکر اور کامیاب ترین معلم ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ خود آپ ﷺ نے اپنے مقصد بعثت کو ایک مقام پر یوں بیان فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا۔(ابنِ ماجہ، 1/150،حدیث:229)

یوں تو رسولِ مكرم ﷺ کی مبارک زندگانی کا ہر لمحہ کائنات کے لئے رحمت اور سیکھنے والوں کے لئے ذریعہ تعلیم اور آپ ﷺ کی ہر ادا خواہ مبارک بچپن کی ہو یا بے داغ جوانی کی ہر طرح سے ذریعہ تربیت و تفہیم ہے، البتہ 40سال کی عمر مبارکہ میں اعلانِ نبوت سے لے سفرِ آخرت تک آپ ﷺ نے جس انداز و طریقہ سے مخلوقِ خدا کی تربیت فرمائی اس کی مثال کہیں نہیں۔

اندازہ کیجئے کہ وہ عرب جو صدیوں سے اَن پڑھ تھے، صحراؤں میں رہتے تھے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر سالوں تک لڑائیاں لڑتے تھے، یہود و نصاریٰ انہیں اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہتے تھے، علم و عرفان کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا، خال ہی کوئی لکھنا پڑھنا جانتا تھا ان حالات میں رسولِ رحمت ﷺ نے کیسی علم کی روح پھونک دی، کیسی تعلم کی چنگاری سلگا دی کہ صرف ایک صدی ہی میں سارے عالم میں اسلام اور اہل اسلام کے علم و عرفان کا سورج بلند ہوگیا۔

آخر کیا انداز و ادائے تعلیم و تربیت تھی کہ وہ لوگ جن کی طبیعتوں میں سختی تھی، انداز جری تھا اور باہم مزاجی اختلافات عروج پر تھے ان کو زمانے کے لئے ہدایت کے ستارے بنادیا، آپ ﷺ نے ان کے اختلاف مزاج کو کتنا برداشت فرمایا اور ان کی طرف سے اذیّت پر کتنا صبر کیا اور ان کی تربیت کے لئے کیسے کیسے طریقے و انداز اپنائے کہ یہی لوگ آپ کے گرد پروانہ وار رہنے لگے، آپ کی خاطر زمانے کے بڑے بڑے مغروروں اور متکبروں سے ٹکرا گئے، آپ کو کائنات کے ہر معزز بلکہ اپنے آباء و اجداد پر بھی ترجیح دینے لگے، آپ کی اطاعت و محبت کی خاطر اپنے پیاروں کو چھوڑ دیا، جائے پیدائش جہاں ان کے بچپن کی یادیں تھیں، جہاں انہوں نے جوانی کو چھوا تھا،جن گلیوں میں کھیلتے بچپن گزارا تھا سب کچھ آپ کے لئے چھوڑ گئے۔

سیرتِ طیبہ اور ذخیرۂ حدیثِ مبارکہ میں غوطہ زن ہونے سے موتیوں اور ہیروں سے بھی کہیں زیادہ قیمتی ان امور اور طریقوں کا پتا چلتا ہے جو کائنات کے سب سے کامیاب ترین معلم و مربّی نے اپنائے۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ سے جو تربیت و تفہیم کے انداز معلوم ہوتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

1. سوالیہ انداز یعنی کسی چیز کے بارے میں اولا سوال کرنا اور پھر اس کا جواب دینا

2. خبردار اور متنبہ کرکے سمجھانا

3. صیغہ امر کے ساتھ سمجھانا

4. بیان نتیجہ کے ساتھ سمجھانا

5. مزاج و عادات اور نفسیات کو پیشِ نظر رکھنا

6. مرتبے کے لائق سلوک فرمانا

7. ہر کسی کو اس کی غلطی پر براہ راست نہ سمجھانا بلکہ اجتماعی طور پر اس غلط طرزِ فکر اور نامناسب عمل کی اصلاح فرمادینا

8. اگر غلطی پر براہِ راست تنبیہ مقصود ہوتی تو انتہائی نرمی اور محبت بھرے انداز میں سمجھانا

9. پریشانی، بیماری اور ضروریاتِ زندگی کے معامَلات میں بھی تربیت فرمانا

10. بیماروں کی عیادت و تربیت فرمانا

11. مثال بیان کرکے سمجھانا

12. تشبیہ دے کر سمجھانا

13. ذِہْنی سطح کا خیال رکھنا

14. عقائد اور فرائض کی تربیت کا زیادہ اہتمام فرمانا

15. بے کار مَشاغِل کی تشنیع کرنا اور ان سے اجتناب کروانا

16. طالبِ علم کو مرحبا کہنا

17. سائل کی طرف توجہ رکھنا

18. سامعین کو خاموش ہونے کی نصیحت کرنا اور متوجّہ کرنا

19. نام یا کنیت سے مُخاطب کرنا

20. سوال پر حوصلہ افزائی کرنا

21. مسلسل سوالات کا بھی نرمی و خوش اخلاقی سے جواب دینا

22. تربیت کے لئے قَولی اور عَملی دونوں طریقے اپنانا

23. بات واضح اور آسان کرنا

24. حسبِ ضرورت بات کو دُہرانا

25. ہاتھ کے اشارے سے سمجھانا

26. لائنوں اور نقشے وغیرہ کے ذریعے سمجھانا

27. طلبہ کے لئے دعا کرنا

28. ہر میسر موقع پر تربیت کا اہتمام کرنا

29. سامعین کو قریب ہونے کا فرمانا

30. ہاتھ یا بازو پکڑ کر سمجھانا

31. تنبیہ اور تفہیم کے لئے کبھی ضرب لگانا

32. دو یا زائد چیزوں یا افراد کے باہمی تقابل سے سمجھانا

33. پہلے مجمل یعنی مختصر بیان کرنا پھر تفصیل سے سمجھانا

34. صراحۃ بیان فرمانا

35. قابلِ پردہ باتوں کوکنایۃ سمجھانا

36. سوال کرنے کی اجازت دینا

37. جواب میں سوال سے زیادہ باتیں بھی ارشاد فرمانا

38. اپنے سامنے دوسروں کو تربیت کا موقع دینا

یہ چند اندازِ تربیت بیان کئے گئے ہیں، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اگلی اقساط میں ان کی تفصیل اور تربیت و تفہیم کے مزید طریقوں کا بیان کیا جائے گا۔