اسلام ایک ایسا آفاقی مذہب ہے جس کے تمام احکامات میں اللہ پاک نے دینی و دنیاوی بے شمار فوائد اور حکمتیں مخفی (یعنی پوشیدہ) رکھی ہیں۔ اور پھر ان احکام پر عمل کرنے کے جذبے کو بڑھانے کے لیے بے شمار فضائل بیان فرمائے انہیں احکام میں سے فضائل سے مالا مال عمل باجماعت نماز پڑھنا بھی ہے۔

باجماعت نماز کے فضائل پر پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش خدمت ہیں۔

(1) کامل مؤمن کی حیثیت سے اللہ سے ملاقات: امام الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اللہ سے کامل مؤمن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہیے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔( صحيح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب صلاة الجماعۃ من سنن الهدی،1/ 452، حدیث: 254)

(2)باجماعت نماز گناہوں کی بخشش کا ذریعہ: حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727)

(3) باجماعت نماز دعا کی قبولیت کا ذریعہ:حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/299،حدیث: 10591)

اے عاشقان نماز! بے شک حاجت پوری ہونے کے لیے صلاة الحاجت اور دیگر اوراد و وظائف پڑھنا بہت اچھی بات ہے مگر جماعت سے فرض نماز ادا کر کے اپنی حاجت کے لیےدعا مانگنا یہ بہترین عمل ہے۔(فیضانِ نماز ص 141 مطبوعہ مکتبہ المدینہ)

(4) باجماعت نماز شیطان سے حفاظت کا ذریعہ: نبی اکرم ‌نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک شیطان انسان کے لیے اسی طرح کا بھیڑیا ہے، جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے، جو دور جانے والی اور علیحدہ رہنے والی بکری کو پکڑ لیتا ہے، پس تم گھاٹیوں سے بچو اور جماعت، عام مسلمانوں اور مسجد کو لازم پکڑو۔ (مسند احمد، ج36/ 358 ،حدیث: 22029)

(5) نابینا صحابی کو افضل پر عمل کا حکم:حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن اُمِّ مَکْتوم رضی اللہ عنہ ے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ مدینۂ منورَہ میں موذی جانور بکثرت ہیں اور میں نابینا ہوں تو کیا مجھے رُخصت ہے کہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں ؟ فرمایا: ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح‘‘ سنتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں ! فرمایا: ’’تو (باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے) حاضر ہو۔ (نَسائی، ص148،حدیث:848)حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت حاشیے میں ارشاد فرماتے ہیں :نابینا کہ اٹکل (یعنی راستے کی پہچان) نہ رکھتا ہو نہ کوئی لے جانے والا ہو خصوصاً درندوں (یعنی پھاڑ کھانے والے جانوروں) کا خوف ہو تو اُسے ضرور رخصت ہے مگر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےانھیں (یعنی حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم) افضل پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی کہ اور لوگ سبق لیں جو بلاعذر یعنی (بغیر مجبوری) گھر میں پڑھ لیتے ہیں ۔(بہار شریعت، 1/ 579)

جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا

خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا