اے عا شقان صحابہ و اہلِ بیت! جوشخص اللہ پاک کے آخری نبی
محمد عربیﷺ سے محبت کرتا ہے تو وہ یقیناً ان کی آل پاک سے بھی محبت رکھتا ہے اور
ان کے صحابہ سے بھی محبت کرتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اگر کسی کے اندر عشق رسول
دیکھنا ہے تو یہ دیکھے کہ وہ صحابہ و اہلِ بیت سے کس قدر محبت رکھتا ہے۔
کیوں جہنم
میں جاؤں سینے میں عشق اصحاب و آل رکھاہے
(وسائل
بخشش)
بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی اہلِ بیت کرام علیہم الرضوان
کی شان اور ان کی عظمت و رفعت ظاہر ہوتی ہے جس سے ہم پر ان کےحقوق آتے ہیں جیسا کہ
ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ
(1) میری
شفاعت میری امت کے اس شخص کے لیے ہے جو میرے گھرانے (یعنی اہلِ بیت)سے محبت رکھنے
والا ہو۔(تاریخ بغداد، 2/144)
(2) اس وقت تک
کوئی کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں
اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے
زیادہ پیاری نہ ہو جائے۔(شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)
صحابہ کا گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ
سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یارسول اللہ
(وسائل بخشش، ص330)
(3) حضرت علی خواص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بعض اہل علم نے
یہاں تک فرمایا ہے کہ ساداتِ کرام اگرچہ نسب میں رسول اللہ ﷺ سے کتنے ہی دور ہوں
ان کا ہم پر حق ہے کہ اپنی خواہشوں پر ان کی رضا کو مقدم کریں اور ان کی بھرپور
تعظیم کریں اور جب یہ حضرات زمین پر تشریف فرما ہوں تو اونچی نشست پر نہ بیٹھیں۔ (نور
الابصار، ص129)
(4) ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو شخص اولاد عبد المطلب میں
کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وہ روز قیامت
مجھ سے ملے گا۔ (تاریخ بغداد، 10/102)
(5) پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک اس بندے پر غضب
فرمائے گا جس نے میری آل کو تکلیف پہنچائی۔ (جمع الجوامع، 1/410)