دور صحابہ سے لے کر آج تک امت مسلمہ اہل بیت سے محبت رکھتی ہے۔ چھوٹے بڑے سب ہی اہل بیت سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔

آیت مبارکہ: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) (پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

علماء فرماتے ہیں کہ اہل بیت دونوں قسموں یعنی نبی اکرم ﷺکے کاشانَۂ مبارک میں رہنے والوں اور آپ سے نسبتی تعلق رکھنے والوں کو شامل ہے۔پس نبی کریم ﷺکی ازواج مطہرات اہل بیتِ سکنیٰ (حضور ﷺ کے گھر رہنے والیاں) ہیں اور آپ کے رشتہ دار اہل بیت ہیں۔(عقائد ومسائل،ص86)

اہل قرابت کون ہیں؟ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضور اکرم ﷺ،حضرت علی،حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی۔(عقائد و مسائل،ص87)

معلوم ہوا کہ آقا علیہ السلام کے اہل بیت میں حضرت علی، حضرت فاطمہ،حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔

اہل بیت کے ہم پر بہت سے حقوق ہیں، جن میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں:

اہل بیت سے محبت رکھنا: اہل بیت سے محبت رکھنا ہم سب پر ان کا حق ہے چنانچہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو: (1)اپنے نبی اکرم ﷺ کی محبت،(2)نبی اکرم ﷺکے اہل قرابت کی محبت،(3)قرآن پاک کی تلاوت۔(جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

لہذا اپنی اولاد کو ان تین خصلتوں کی تعلیم ضرور دینی چاہیے اور اپنی اولاد کو اہل بیت سے محبت کرنے کا بھی ذہن دینا چاہیے۔

صحیح دلائل سے ثابت ان کے فضائل کا اقرار کرنا: اہل بیت کے فضائل پر بہت سی احادیث وارد ہیں۔ حضرت امام ابو یعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ بیت میری امت کے لئے امان و سلامتی ہیں۔ (نوادر الاصول، 5/130، حدیث: 1133)

ایک اور حدیث صحیح میں آیا ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: تمہارے درمیان ہمارے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی ہے جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پا گیا اور جو سوار نہیں ہوا وہ غرق ہوگیا۔ (عقائد و مسائل،ص89)

یعنی جس طرح کنارے تک پہنچنے کے لیے کشتی کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو اس میں سوار ہو جائے وہ نجات پا گیا اسی طرح عذاب سے نجات کے لیے اہل بیت کی دل سے تعظیم کرنا اور انہیں افضل سمجھنا ضروری ہے۔

ان سے شمنی نہ رکھی جائے: حضرت امام ترمذی،ابن ماجہ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل بیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جوان سے جنگ کرے گا اس سے میری جنگ ہے اور جو ا ن سے صلح کرے اس سے میری صلح ہے۔(عقائد ومسائل،ص85)

کسی کے لیے اس سے بڑھ کر ہلاکت کا سبب کیا ہوگا کہ آقا علیہ السلام اس سے اعلان جنگ فرمادیں اور یہ اسی کے لیے ہوگا جو اہل بیت سے جنگ کرے گا اور مومن اہل بیت سے جنگ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا بلکہ اہل بیت سے جنگ تو مشرکین و منافق ہی کریں گے۔

ان کے بہتر ہونے اور ان کی فضیلت کا یقین رکھنا: حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم تمہارے درمیان وہ شے چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو ہمارے بعد ہر گز گمراہ نہ ہو گے،ان میں سے ایک، دوسری سے بڑھ کر ہے، اللہ پاک کی کتاب جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور ہماری اولاد اور اہل بیت، یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ دونوں ہمارے پاس حوضِ کوثر پر آئیں گے،تم دیکھو کہ ان دونوں کے ساتھ ہمارے بعد کیسا معاملہ کرتے ہو۔(عقائد و مسائل،ص89)

لہذا اہل بیت سے حسن سلوک سے پیش آنا ہمارے لیے فرض ہے کیونکہ امت میں اہل بیت کی فضیلت سب سے بڑھ کر ہے۔

ان کےلیے دعا واستغفار کرنا: حضرت امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دعا روک دی جاتی ہے، یہاں تک کہ محمد مصطفیٰ ﷺاور آپ کے اہل بیت پردرود بھیجا جائے۔(عقائدو مسائل، ص90)

حدیثِ مبارکہ سے اس بات کا انداز لگایا جا سکتا ہے کہ اہل بیت کس قدر مرتبے ومنزلت والے ہیں لہذا ان کی تعظیم و توقیر بجا لانی چاہیے۔

اللہ پاک ہمیں پیارے آقا ﷺکے اہل بیت سے محبت رکھنے اور ان کے حقوق بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے جنت میں داخلے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین