ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں              آیت تطہیر سے ظاہر ہے شان اہل بیت

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اہل بیت اطہار وہ مقدس و عظمت والی ہستیاں ہیں کہ ان کا ذکر اللہ پاک کی کتاب قرآن پاک میں صراحتاً آرہا ہے۔ اسی طرح بکثرت احادیث مبارکہ میں اہل بیت اطہار کی فضیلت کا ذکر ہے۔ آئیے سب سے پہلے جانتے ہیں کہ اہل بیت اطہار کون ہیں جن کی اس قدر فضیلتیں ہیں۔

اہل بیت اطہار کون ہیں؟دعوتِ اسلامی کے شعبہ المدینہ العلمیہ کی کتاب گلدستہ عقائد واعمال کےصفحہ نمبر 49 پر ہے: حضور تاجدار مدینہ ﷺکے نسب اور قرابت کے لوگوں کو اہل بیت کہا جاتا ہے۔اہل بیت میں نبی کریم ﷺکی ازواج مطہرات،حضرت فاطمہ،حضرت علی مرتضیٰ،حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں۔ (خزائن العرفان، ص780)

آئیےپہلے ان کے چند فضائل جان لیتے ہیں پھر ہم پر ان کےکیا حقوق ہیں ان کو بھی جاننے کی کوشش کریں گے۔

ا ن سے اللہ نے نجس و ناپاکی دور فرمائی،انہیں خوب پاک کیا،جو چیز ان کے مرتبے کے لائق نہیں اس سے ان کو دور رکھا۔ ان پر دوزخ کی آگ حرام کی، صدقہ ان پر حرام کیا گیا،کیونکہ صدقہ دینے والوں کا میل ہوتا ہے اور اگر وہ جن کی حضور شفاعت کریں گے وہ اہل بیت اطہار ہیں اور بھی بے شمار ان کے فضائل ہیں مگر ہم انہی پر اختصار کرتے ہیں۔ اب کچھ حقوق اہل بیت جانتے ہیں جو کہ ان کے ہم پر ہیں۔

(1)اہل بیت سے محبت و عقیدت رکھنا: اہل بیت اطہار سے محبت رکھنا فرائض دین میں سے ہے۔ ان سے محبت نبی کریم ﷺ سے محبت کی دلیل ہے کیونکہ جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیز اس کی محبوب ہو جاتی ہے۔ لہذا جس کو نبی کریم ﷺسے محبت ہوگی اسے اہل بیت اطہار سے بھی محبت ہوگی۔ اہل بیت اطہار سے محبت کرنے کی تعلیم قرآن مجید میں بھی مذکور ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

حدیثِ مبارکہ میں اہل بیت سے محبت کا فرمایا گیا ہے، چنانچہ ہمارے پیارےا ٓقا ﷺنے فرمایا: اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ: (1)اپنے نبی ﷺکی محبت،(2)اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت،(3) قرآن پاک کی قراءت۔(جامع صغیر،1/25)

مزید ایک روایت میں فرمایا: ہمارے اہل بیت کی محبت لازم پکڑ لو۔(معجم اوسط،حدیث:2230)

(2)اہل بیت کی تعظیم و توقیر(ادب): ادب سے کسی کی پہچان ہوتی ہے اور اہل بیت سے محبت رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعظیم و توقیر کرنا بھی ان کا اہم ترین حق ہے۔ ہمارے صحابہ کرام جو کہ خود بہت فضیلتوں و برکتوں والے ہیں، وہ بھی صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے اہل بیت کی خوب تعظیم و توقیر کرتے اور اہل بیت میں سے حضرت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو تو بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان محبت وادب کے پیش نظر کندھوں پر بھی اٹھا لیتے۔اہل بیت کے ادب میں یہ آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت زید رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے رکاب تھامی، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ اے ابن عم رسول اللہ ﷺ!انہوں نے کہا:ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ علماء کے ساتھ ادب کریں۔ اس پر حضرت زید رضی اللہ عنہ گھوڑے سے نیچے اترے اورحضرت عبد اللہ بن عباس (جو کہ اہل بیت سے ہیں)کے ہاتھ پر بوسہ دیااور فرمایا: ہمیں یہی حکم ہے کہ اہل بیت اطہار کے ساتھ ایسا ہی کریں۔(معجم کبیر،5/106، حدیث:4746)

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

یَا اَہلَ بَیت ِرَسُول ِاللہِ حُبُّکُمْ فُرِضَ مِنَ اللہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزلَہُ

کَفَاُکمْ مِن عَظیم ِالْقدرِ اَنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلیکُمْ لَا صَلٰوۃَ لَہُ

ترجمہ: اے رسول کریم کے اہل بیت اطہار !تم سے محبت کرنا قرآن میں اللہ پاک نے فرض قرار دیا ہے۔

اے اہل بیت !تمہاری عظمت و فضیلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ جس نے تم پر درود نہ بھیجا اس کی نماز نہیں ہے۔(شرح جامع ترمذی،7/230)

(3)ان سے بغض و عداوت نہ رکھی جائے: ان کا ایک حق عظیم یہ بھی ہے کہ ان سے بغض و عداوت نہ رکھی جائے، ان کی کسی بات سے ان کا اختلاف نہ کیا جائے، ان کی شان میں گستاخی نہ کی جائے۔جو شخص اہل بیت سے بغض رکھے وہ منافق ہے۔(فضائلِ صحابہ لامام احمد، 2/661، حدیث: 1126)

حضرت ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے، رسولُ اللہ ﷺنے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ! جو شخص آل محمد سے بغض و عداوت رکھے گا وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا:یہ رحمت خداوندی سےمحروم ہے۔ وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا اور وہ کافر ہو کر مرے گا۔(نواسہ سید الابرار، ص 173)

(4)ان کی پیروی اور تعلیمات پر عمل: اہل بیت اطہار وہ ہستیاں ہیں کہ ان کی پیروی و ان کی تعلیمات پر عمل دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے اور بھٹکنے سے بچنے کے لیے بہترین اور مضبوط رسی ہے اور ذریعہ نجات ہے جسے مضبوطی سے تھامنے کا حکم ملا ہے،چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں تم میں دوچیزیں چھوڑتا ہوں، جب تک تم انہیں نہ چھوڑو گے ہر گز گمراہ نہ ہوگے: (1)ایک کتاب اللہ اور (2)دوسری میری آل (یعنی اہل بیت )۔(ترمذی،3/433)

ایک اور روایت میں ہے: اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے کہ جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے کترایا وہ ہلاک ہوا اور برباد ہوا۔(ترمذی،5/433)

(5)ان کا حق پہچاننا اور اسے اداکرنا: اہل بیت اطہار کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے حقوق کو جانا جائے اور پھر ان کو پورا کیا جائے۔ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ ان کی رائے کو اپنی رائے سے مقدم رکھا جائے۔ ان کا خیال رکھا جائے اوران کے جملہ حقوق کا علم حاصل کرنا اور پھر ان حقوق کو ادا کرتے ہوئے اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کا طالب ہونا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو میری عترت (اہل بیت) و انصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین حال سے خالی نہیں یا تو منافق ہے یا حرامی یا حیضی بچہ۔ (شعب الایمان،2/232،حدیث:1614)

اللہ پاک ہمیں اہل بیت کے جملہ حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ن کا حقیقی محب بنائے۔آمین بجاہ النبی الامین