(گزشتہ دو مضامین میں بارگاہِ رسالت میں ہونے والے سوالات کی4صورتوں کا ذکر ہوا، مزید چند صورتیں ملاحظہ کیجئے)

(5)کسی فضیلت، اجر یا مقام دلانے والے اعمال کے متعلق ہونے والے سوالات کا جواب دینا

رسولِ کریم ﷺ کی تشریف آوری کامقصد ہی مخلوقِ خدا کی رہنمائی اور تعلیمِ دینِ الٰہی تھا، اس لئے کوئی کیسا ہی سوال کرتاآپ جواب ارشاد فرماتے، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ کی بارگاہ میں کسی خاص اجر، مقام یا رتبہ ذکر کیا جاتا اور پھر سوال کیا جاتا کہ یہ کس عمل سے مل سکتاہے؟ اس طرح کے سوالات کئی مواقع پر ہوئے، چنانچہ

حضرت سیّدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَلِّمْنِي أَوْ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ قَالَ: «كُنْ مُؤَذِّنًا» قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ قَالَ: «كُنْ إِمَامًا» قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ قَالَ: «فَقُمْ بِإِزَاءِ الْإِمَامِ»

ایک شخص نے رسولِ مکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:مجھے ایسا عمل سکھائیے یا ایسے عمل کی طرف میری رہنمائی کیجئے جو مجھے جنت میں پہنچادے ، ارشاد فرمایا: مؤذن بن جاؤ۔ اس نے عرض کیا: میں اس کی طاقت نہیں رکھتا،توارشاد فرمایا: امام بن جاؤ، اس نے عرض کیا:میں یہ بھی نہیں کرسکتا،تو فرمایا:پھر امام کے برابر میں کھڑے ہوا کرو۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، باب المیم، من اسمہ محمد، جلد7، صفحہ363، حدیث:7737 دارالحرمین، القاھرۃ)

اسی طرح حضرت سیّدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

قال رجلٌ: يا رسولَ الله، دُلَّني على عَمَل يَنفَعُني الله به، قال: «عَلَيْكَ بِرَكْعَتَيِ الفَجْرِ؛ فَإِنَّ فِيهِمَا فَضِيلَةً» .

ایک شخص نے عرض کی:یارسول اللہ!مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جس کے سبب اللہ کریم مجھے نفع عطا فرمائے، ارشاد فرمایا: فجر کی دو رکعات(یعنی سنتّوں ) کو لازم پکڑ لو کیونکہ ان میں بڑی فضیلت ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، مسند عبداللہ بن عمر، جلد13، صفحہ337، حدیث:14147)

جلیل القدر صحابی رسول کہ ذخیرۂ حدیث میں جن کی مرویات سب سے زیادہ ہیں یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:

يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي إِذَا رَأَيْتُكَ طَابَتْ نَفْسِي وَقَرَّتْ عَيْنِي، فَأَنْبِئْنِي عَنْ كُلِّ شَيْءٍ. فَقَالَ: كُلُّ شَيْءٍ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ قَالَ: قُلْتُ : أَنْبِئْنِي عَنْ أَمْرٍ إِذَا أَخَذْتُ بِهِ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ. قَالَ: أَفْشِ السَّلَامَ، وَأَطْعِمِ الطَّعَامَ، وَصِلِ الْأَرْحَامَ، وَقُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، ثُمَّ ادْخُلِ الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ

یارسولَ اللہ! جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرا دل ٹھنڈا ہوجاتاہے اور آنکھوں کو قرار آجاتاہے، آپ مجھے ہر چیز کے بارے میں بتائیے، ارشاد فرمایا: ہرچیز پانی سے پیدا کی گئی ہے، فرماتے ہیں میں نے عرض کی:مجھے ایسی چیز کے بارے میں رہنمائی فرمائیے کہ جسے میں تھام لوں تو جنت میں داخل ہوجاؤں، ارشاد فرمایا:”سلام عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور جب لوگ راتوں میں سو رہے ہوں تم قیام کرو یعنی بارگاہِ الٰہی میں نماز پڑھو، پس تم سلامتی کے ساتھ داخل جنت ہوجاؤ گے۔(مسند احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند ابی ہریرۃ، جلد13، صفحہ314، حدیث:7932)

رہنمائے عالَم و معلّمِ اعظم ﷺ نے مختصر سے چار جملوں میں دینی و دنیوی فوائد کو محیط ایسے امور کو جمع فرمادیا ہے کہ صرف اہلِ اسلام ہی نہیں بلکہ غیر مسلم معاشرے بھی ان میں سے پہلے تین کی اہمیت کے معترف بلکہ ان پر اپنی اپنی طرز سے عامل بھی ہیں، ہر واقف و ناواقف کو سلام کرنا ، دوسروں کو کھانا کھلانا اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا یہ کسی بھی معاشرے، طبقے اور علاقے کی حسنِ معاشرت کے بنیادی قواعد و اصول ہیں جو رسولِ کریم ﷺ نے آج سے 14سو سال قبل ارشاد فرمادئیے۔

(6) یہ انسانی فطرت ہے کہ جو نعمت دوسروں کو ملتی ہے اس کی تمنا دل میں اٹھتی ہے، اس کے مختلف پہلو ہیں، دینِ اسلام اچھے پہلو کی حوصلہ افزائی اور برے پہلو کی مذمت کرتاہے، برا پہلو یہ کہ نعمت دوسرے سے چھن جائے اور ہمیں مل جائے، یہ حسد ہے جو کہ بہت مذموم ہے، جبکہ اچھا پہلو یہ ہے کہ دوسرے سے اس نعمت کے زوال کی تمنا نہ ہو اور اپنے لئے حصول کی تمنا ہو، چونکہ صحابہ کرام اور صحابیات علم اور اجرو ثواب کے بہت حریص تھے اس لئے وہ ایسے مواقع پر بھی سوالات کرتے تھے کہ جب رسولِ کریم ﷺ کسی ایک فرد یا طبقہ کو کسی عمل کا اجر و ثواب بتاتے تھے، چنانچہ ام المؤ منین حضرتِ سیدتنا مَیْمُونَہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے مردوں اور عورتوں کی صف کے درمیان کھڑے ہوکر فرمایا: اے خواتین کے گروہ! جب تم اس حبشی (یعنی حضرتِ سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کی اذان اور اقامت سنوتو جیسے یہ کہے تم بھی اسی طرح کہہ لیاکرو کیونکہ تمہارے لئے ایسا کرنے میں ہر حر ف کے بدلے میں دس لاکھ نیکیاں ہیں، (یہ سن کر ) حضرتِ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا:یہ فضیلت تو عورتوں کے لئے ہے مردوں کیلئے کیاہے؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اے عمر!مردوں کیلئے اس سے دگنا ثواب ہے ۔ (المعجم الکبیرللطبرانی، مسند النساء، ازواج رسول اللہ ﷺ، میمونۃ بنت الحارث، جلد24، صفحہ16، حدیث:28)

اسی طرح عورتیں بھی مردوں کے لئے طرح طرح کی نیکیوں اور اجرو ثواب کا سن کر سرکار دوجہاں ﷺ سے سوال کرتی تھیں، چنانچہ

شعب الايمان میں ہے کہ رسولِ کریم ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے کہ حضرت اسماء بنت یزید حاضرِ بارگاہ ہوئیں اور عرض کی:’’یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں آپ کے پاس خواتین کی ترجمان بن کر آئی ہوں، جہاں تک میری بات ہے یارسول اللہ! میری جان آپ پر قربان، البتہ مشرق ومغرب کی ہر عورت جو میرے آپ کے پاس حاضر ہونے کا سبب جانتی ہے یا نہیں مگر اس کا بھی وہی سوال ہے جو میں پوچھنے آئی ہوں۔ اللہ نے آپ کو مردوں اور عورتوں، سب کی طرف رسول برحق بنا کر بھیجا ہے اور ہم آپ پر اور آپ کو بھیجنے والے اللہ کریم پر ایمان لائی ہیں۔ ہم خواتین پردہ نشین ہو کر گھروں کی حد تک رہتی ہیں، مردوں کی جنسی ضرورتوں کو پوراکرتیں اور ان کے بچوں کو پالتی ہیں، جبکہ مَردوں کو ہم پر کئی طرح سے فضیلت دی گئی، وہ جمعہ، نماز باجماعت، نمازِ جنازہ، مریضوں کی عیادت اور پے درپے حج اورجہاد فی سبیل اللہ میں شریک ہوتے ہیں جبکہ ہم خواتین پیچھے ان کے اموال کی حفاظت اور بچوں کی پرورش کرتی اور کپڑے بُنتی ہیں، اب سوال یہ ہے کہ ان مَردوں کے ثواب میں سے کچھ حِصّہ ہم عورتوں کو بھی ملے گا یا نہیں؟

حضرت اسماء کا یہ سوال سن کر نبی کریم ﷺ صحابہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ’’کیا تم نے کبھی کسی عورت کو اس سے زیادہ اچھے طریقے سے اپنے دین کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا ہے؟’’ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہمارا تو گمان بھی نہیں کہ کوئی عورت اس جیسا سوال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوگی۔ پھر نبی کریم ﷺ حضرت اسماء کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’جاؤ اور اپنے پیچھے سب عورتوں کو بتادو کہ عورت کا اپنے شوہر کی اچھی بیوی بن کر رہنا اور اس کی خوشنودی چاہنا اور اس کے ساتھ ہم آہنگ رہنا ان سب اعمال میں اس کے ساتھ اجر وثواب میں برابری کا ذریعہ ہے۔ حضرت اسماء یہ سن کر خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کرتی اور کلمہ طیبہ کی صدا لگاتی ہوئی وہاں سے لوٹیں۔ (الجامع لشعب الایمان، الشعب ستون، حقوق الاولاد والاھلین، جلد11، صفحہ177، حدیث:8369)

(بقیہ آنے والی قسط میں )