عازمینِ حج کے لئے فیضانِ مدینہ کراچی میں محفل مدینہ و حج تربیتی اجتماع کا انعقاد 27 اپریل کو منعقد ہوگا

اس سا ل حج پر جانے والے خوش نصیب عازمینِ حج کے
اعزاز میں دعوتِ اسلامی کی جانب سے 27 اپریل 2025ء بروز اتوار عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی
میں حج تربیتی اجتماع و محفلِ مدینہ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق حج تربیتی اجتماع کا آغاز ظہر
کی نماز کے بعد دوپہر تقریباً دو بجے (02:00 PM) تلاو ت و نعت سے ہوگا جس کے بعد انٹرنیشنل مبلغ
و رکنِ شوریٰ مولانا الحاج عبدالحبیب عطاری حج کرنے کے حوالے سے شرکا کی تربیت فرمائیں گے۔ حج کے بارے میں قدم بقدم یعنی مکہ پہنچ کر سب سے
پہلے کیا کرنا ہے؟ کس طرح احرام باندھنا ہے؟ سفرِ حج کی احتیاطیں کیا کیا ہیں؟
ایئر پورٹ کی احتیاطیں؟ منی و عرفات و مزدلفہ میں کس طرح جانا ہے ؟وہاں کیا کرنا
ہے؟ حج کے فرائض کیا کیا ہیں؟واجبات کیا کیا ہیں؟ الغرض پورے
سفرِ حج میں ہمیں کب، کیا اور کس طرح کرنا ہے؟ یہ سب کچھ مکمل تفصیلات کے ساتھ
مولانا حاجی عبدالحبیب عطاری ہمیں بیان کریں گے۔
ظہر و عصر تک جاری رہنے والے اِس اجتماع میں
مغرب کی نماز کے بعد تمام عازمینِ حج کو عشائیہ پیش کیا جائے گا جس کے بعد عشا کی
نماز باجماعت ادا کی جائے گی۔ نمازِ عشا کی ادائیگی کے بعد تقریباً ساڑھے نو بجے (09:30 PM) محفلِ مدینہ کا آغاز ہوگا جس میں نگرانِ شوریٰ
اور اراکین شوریٰ سمیت کثیر عاشقانِ رسول عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں
اور امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانامحمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بیرونِ ملک سے بذریعہ مدنی چینل شرکت فرمائیں گے
۔
محفلِ مدینہ میں مدنی چینل کے معروف ثناخواں حضرات
نعتِ رسولِ مقبول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور مدینے شریف کے متعلق کلام سنا کر حاضرین و ناظرین کے عشقِ رسول کومزید بڑھا ئیں
گے۔
واضح رہے کہ حج تربیتی اجتماع اور محفلِ مدینہ میں عازمینِ حج کے علاوہ بھی اسلامی
بھائی شرکت کر سکتے ہیں یعنی صرف عازمینِ
حج کے لئے ہی ضروری نہیں بلکہ دیگر عاشقانِ رسول بھی آنا چاہیں تو وہ آسکتے ہیں
بلکہ بعض وہ عاشقانِ رسول جو صرف حج کی
تمنا رکھتےہیں اور ظاہری اسباب کے حساب سے حج کی طاقت نہیں رکھتے تو وہ اس محفل
میں حاضر ہوکر حج و عمرہ کی دعا مانگتے ہیں۔ ایسے کئی اسلامی بھائی ہیں جو یہاں
دعائیں کرنے کے صدقے میں حقیقی طور پر حاجی بن گئے اور اللہ پاک نے ان کے لئے اسباب پیدا فرمادیئے۔
تمام عاشقانِ رسول اس حج تربیتی اجتماع و محفلِ مدینہ میں ضرور بالضرور شرکت فرماکر اپنے لئے علمِ دین کا خزانہ حاصل کریں۔

قارئین!
ہماری سوشل لائف میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہیں، جن میں
سے ایک حوصلہ شکنی بھی ہے۔ یاد رکھیے! ہماری تھپکی کسی کو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ
بھی دے سکتی ہے، جبکہ دل شکنی کسی کو کھائی میں گرا سکتی ہے۔ کسی کی زندگی سنوارنے
کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ صرف اس کی ہمت
توڑنے کی دیر ہوتی ہے اسے حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
حوصلہ
شکنی ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی دوسرے کے حوصلے یا اعتماد کو توڑا جاتا ہے، جس سے
وہ شخص ذہنی یا جذباتی طور پر کمزور پڑ جاتا ہے یہ عمل نہ صرف فرد کی خود اعتمادی
کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس سے معاشرتی تعلقات میں بھی دراڑیں آ سکتی ہیں۔
حوصلہ
شکنی کئی صورتوں میں ہو سکتی ہے، جیسے
1) زبان سے: کسی کو اپنی گفتگو سے نیچا دکھانا یا کسی کا مذاق
اڑانا وغیرہ۔
2) منفی رائے یا تنقید: کوشش کرنے والے کی کوشش اور محنت پر
داد نہ دینا یا اس کی اس کاوش کو تسلیم نہ کرنا یا اس پر مسلسل منفی رائے دینا۔
3) نظر انداز کرنا: کسی کی کوششوں اور کامیابیوں کو مسلسل
نظر انداز کرنا یا کسی کے خیالات اور رائے کو مسلسل بے وقعت سمجھنا۔
اسلام میں حوصلہ شکنی کی مذمت: اسلام میں
حوصلہ شکنی کی مذمت کی گئی ہے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنے کی
ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا
مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا
مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ (پ 26،
الحجرات: 11)ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں،
ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں،
ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو۔
بسا
اوقات کسی مسلمان سے بغض ہونے کی وجہ سے بھی اسکی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، چنانچہ
مسلمان سے بغض رکھنے سے متعلق حدیث مبارکہ میں ہے: آپس کے بغض و عداوت سے بچو
کیونکہ یہ (دین کو) مونڈنے والی(یعنی تباہ کر دینے والی) ہے۔ (گناہوں کی معلومات،
ص 130)
اسی
طرح ارشاد پاک ہے: جو کسی مومن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی
کرے وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 160) کسی کی حوصلہ شکنی
کرنا اسے نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔
حوصلہ شکنی کی صورتیں: اب یہاں آپ کے سامنے حوصلہ شکنی کی
ایسی مثالیں پیش کی جائیں گی جن سے حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے:
1)
اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا۔ 2) دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کی صرف منفی
باتیں بیان کرنا اور مثبت باتوں کو چھوڑ دینا۔ 3) بچوں کو نئے نئے تجربات کرنے سے
ڈرانا۔ 4)کوئی مشورہ دے تو اس کا مذاق اڑانا۔ 5) کسی کی پہلی غلطی پر اسے مکمل
ناکام قرار دے دینا۔ 6) کسی کا دوسروں سے بلا ضرورت تقابل کرنا۔
غلطی کی نشاندہی کا طریقہ: حوصلہ شکنی سے بچنے کا ہرگز یہ
مطلب نہیں کہ کسی کو کچھ سمجھایا ہی نہ جائے، نہ اسے اس کی غلطیاں بتا کر درستگی
کی طرف اس کی رہنمائی کی جائے بلکہ کسی کی غلطی کی نشاندہی کرنے کا احسن انداز
ہونا چاہیے کہ سب سے پہلے اس کے کام میں اس کی سچی خوبیوں کو شمار کر کے اس کی
حوصلہ افزائی کی جائے، پھر مناسب انداز و الفاظ سے اسے اس کے کام میں ہونے والی
خرابیوں اور خامیوں کی طرف توجہ دلائی جائے۔ سبحان اللہ! اصلاح کرنے کا یہی انداز
میرے پیر و مرشد کا ہے جنہیں آج کے اس پرفتن دور میں دنیا امیر اہلسنت، امیر دعوت
اسلامی کے نام سے جانتی ہے۔
اصلاح کا حسین انداز: آخری نبی محمد عربی ﷺ کو جب کسی کی
کوئی نا گوار بات معلوم ہوتی تو اس کا پردہ بھی رکھتے اور اصلاح کے لیے یوں فرماتے
(یعنی) لوگوں کو کیا ہو گیا جو ایسی ایسی بات کہتے ہیں۔(ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرتی و
نفسیاتی نقصانات ہوتے ہیں مثلاً نا امیدی، احساس کمتری، ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور
ناکامی کا خوف بڑھتا ہے۔ گھر، دفتر اور اداروں کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ جس کی حوصلہ
شکنی کی جاتی ہے وہ آئندہ آپ کے قریب آنے سے بھی کتراتا ہے اور آپ سے اپنے مسائل
بھی کہنا چھوڑ دیتا ہے۔
کس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے؟ اگر کسی کا کوئی برا کام دیکھیں
تو اسکی حوصلہ شکنی ضرور کریں تاکہ وہ آئندہ اس کام سے باز رہے مثلاً بچے نے کسی
کو مارا، گالی دی یا اسکول میں دوسرے بچے کی کوئی چیز چرا لی تو والدین کو چاہیے
کہ اسکا نوٹس لیں تا کہ بچہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرے، اگر ابھی بچے کی غلطی
نظر انداز کر دی تو وہ آئندہ اس سے بھی بڑی بڑی غلطیاں کر سکتے ہیں۔ اللہ نہ کرے
وہ بچے بڑے ہو کر چوریاں کریں، ڈکیتیاں کریں۔پھر پچھتانے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

جب چل پڑے ہو سفر کو تو پھر حوصلہ رکھو
صحرا کہیں کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے
ہماری
زندگی میں بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی موجود ہیں جن میں ایک حوصلہ شکنی
بھی ہے حوصلہ شکنی محض دشمنی کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ کسی سے ہمدردی کرتے ہوئے
بھی اس کی حوصلہ شکنی ہو جاتی ہے حوصلہ شکنی ایسا مسئلہ ہے جو ہمیں آگے بڑھنے سے اور
کامیاب ہونے سے روکتا ہے جب ہم حوصلہ شکن ہو جاتے ہیں تو ہم اپنے آپ پر شک کرنے
لگتے ہیں اور اپنی منزل کو پانے کی ہمت
کھو دیتے ہیں۔ یاد رکھیے!ہماری ایک تھپکی کسی کو کامیابی کی اونچائیوں تک پہنچا
سکتی ہے جبکہ ایک دل شکنی کسی کو کامیابی سے ناکامی کی کھائی میں گرا سکتی ہے کسی
کے اخلاق کو سنوارنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے
جبکہ بگاڑنا بہت آسان ہے جو انسان کی ہمت کو توڑ دیتی ہے اس کو حوصلہ شکنی کہتے
ہیں۔
ایک
حدیث پاک مروی ہے: لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کو نفع دے۔ (کنز
العمال، جز: 16، 8/54، حدیث: 44147)
حوصلہ شکنی کیسے پروان چڑھتی ہے؟ کسی کی پہلی
غلطی پر مکمل ناکام قرار دے دینا: اس سے متعلق ہمیں سوچنا چاہیے کہ بچہ جب چلتا ہے
تو پہلے اس کے قدم ڈگمگاتے ہیں پھر چلنا سیکھتا ہے، اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی
نہ کرنا، مختلف تبصرے کرنا: جیسے تو نہیں کر سکتا، تیرے بس کا کام نہیں، تو کسی
کام کا نہیں،گوار کہنا، کسی کی معذرت قبول نہ کرنا، کسی سے تقابل کرنا: وہ کر سکتا
ہے تم نہیں کر سکتے، ایک ہی طرح کی کارکردگی دکھانے والے دو افراد میں ایک ہی ایک
کی تعریف کرنا، ہر غلطی پر پرانی غلطیوں کی لسٹ کھول لینا، مصیبت زدہ کی دلجوئی
کرنے کے بجائے ذمہ ٹھہرا دینا، کسی کی کامیابی پر خوش ہونے کی بجائے طنزیہ کہہ
دینا یہ کون سا بڑا کام ہے، مشورہ دینے پر مذاق اڑانا وغیرہ۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات و نتائج: حو صلہ افزائی
سے مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے جب کہ حوصلہ شکنی سے منفی سوچ پروان چڑھتی ہے جس کی
وجہ سے معاشرتی نفسیاتی نقصانات ہوتے ہیں مثلا نا امیدی،احساس کمتری،ڈپریشن،
ناکامی کا خوف پھیلتا ہے۔ حوصلہ شکنی سے دماغی تناؤ بڑھ سکتا ہے جس کی وجہ سے
کمزوری نیند کی کمی جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،صلاحیتوں میں کمی ہو
سکتی ہے، جس کی وجہ سے آپ کسی کے سامنے کھل کر بات نہیں کر سکتے، ذہنی کمزوری کا
باعث بن سکتی ہے جس کی وجہ سے آپ حوصلہ شکنی کرتے ہیں آئندہ وہ آپ کے قریب نہیں
آئے گا اور اپنے مسائل شیئر کرنا چھوڑ دے گا۔

قارئین!
ہماری سوشل لائف میں خوبیوں کیساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہیں جن میں سے
ایک حوصلہ شکنی بھی ہے یاد رکھیے! ہماری ایک تھپکی کسی ہو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ
بھی دے سکتی ہے جبکہ ایک دل شکنی کھائی میں گرا سکتی ہے کسی کی زندگی سنوارنے
کیلیے بہت محنت کرنا پڑتی اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ بگاڑنا بہت آسان ہے
صرف اسکی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے جسکی وجہ سے نفسیاتی اور
معاشرتی نقصانات ہوتے ہیں مثلا:ناامیدی، احساس کمتری، ڈپریشن، پست ہمتی اور ناکامی
کا خوف پھیلتا ہے گھر، دفتر، اور کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے جسکی آپ حوصلہ
شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپکے قریب آنے سے کتراتا ہے اور آپ سے اور آپ سب اپنے
مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
ہمارا
شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے اس دنیا میں دونوں طرح کے لوگ ہیں: حوصلہ افزائی کرنے
والے اور حوصلہ شکنی کرنے والے ہم غور کریں ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوتا؟ شاید آپ
یہ کہیں کہ کے ہم نے کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی تو گزارش ہے کہ یہ کہہ کر کسی
کا حوصلہ نہیں توڑا جاتا کہ میں تمہاری حوصلہ شکنی کر رہی ہوں بلکہ حوصلہ شکنی
کیسے ہوتی ہے؟ میں آپکے سامنے چند صورتیں اور مثالیں رکھتی ہوں کہ کس کس طرح حوصلہ
شکنی ہو سکتی ہے چنانچہ
اچھی
کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا، مختلف
تبصرے کرنا مثلا تو نہیں پڑھ سکتا، تجھ سے نہیں ہوگا، تیرے بس کی بات نہیں، تم
نکمے ہو، نا اہل ہو وغیرہ، کسی کی پہلی غلطی پر ناکام قرار دے دینا۔ ایسوں کو
سوچنا چاہیے کی انسان پچپن میں پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے نہیں لگ جاتا بلکہ گرتا
ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ دوڑنا شروع کرتا ہے، کلاس روم میں سنانے
میں اٹکنے پر اسکو اپنی غلطی دور کرنے کا موقع دیئے بغیر کسی اور طالب علم کو سبق
پڑھنے کا کہہ دینا، کسی کی معذرت قبول نہ کرنا بلکہ بہانے قرار دینا، دوسروں کے
سامنے اپنے پچوں کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا اور کسی سے اہم بات کے دوران فون یا
کسی اور کے ساتھ غیر اہم باتوں میں مصروف ہو جانا۔
ہمیں
غور کرنا چاہیے کہ آج تک ہم سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو چکی ہے بلکہ بعضوں کی
دل آزاری بھی ہوئی ہو گی، چلئے! جب آنکھ
کھلی ہوا سویرا اب جاگ جائیے اور اپنا
حوصلہ شکن رویہ تبدیل کر لیجیے، جنکا دل دکھایا ان سے معافی مانگ لیجیے بالخصوص وہ
حضرات جن کے ماتحت کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جیسے ماں باپ، استاد، مرشد، نگران،
پرنسپل، انہیں خوب احتیاط کرنی چائیے کہ انکی بات زیادہ اثر کرتی ہے۔
حوصلہ
شکنی کے منفی اثرات اور نقصانات سے بچنے کیلیے مفید ٹپس پیش خدمت ہیں:
1۔
جہاں سے حوصلہ افزائی کی امید ہو وہیں سے حوصلہ شکنی ہو جائے تو خود کو سنبھالنا
مشکل ہو جاتا اس لیے اگر اس شعر کے مصداق بن جائیں گے تو ایزی رہیں گے
نہ ستائش کی تمنا مجھے نہ خطرۂ ذم
نہ کسی واہ کی خواہش نہ کسی آہ کا غم
(یعنی
مجھے تعریف کی خواہش ہے نا مذمت کا خوف اسی طرح مجھے اپنی واہ واہ کروانے کی تمنا
نہ کسی آہ کا غم ہے)
2۔ اپنا
مزاج دریا کی طرح بنا لیجیے جو رکتا نہیں ہے بلکہ پتھروں اور چٹانوں کے درمیان سے
راستہ بنا کر چلتا رہتا ہے
3۔ دل
بڑا رکھیے، چکنا شیشہ نہیں بلکہ فوم کے گدے کی طرح بنیں جس پر گرم یا ٹھنڈا جو بھی
پانی گرے اسے پی جاتا ہے۔
4۔
ناکامی اور حوصلہ شکنی کامیابی کے راستے میں آنے والے نوکیلے پتھر ہیں، ان سے
خوفزدہ ہوں گے تو کامیابی کا سفر رک جائے گا اس لئے اپنے دل سے ناکامی کا خوف اور
حوصلہ شکنی کا ڈر جتنا نکال سکتے ہیں نکال دیجیے۔
5۔
حوصلہ شکنی اسی کی ہوتی ہے جس سے غلطی ہوتی ہے اور غلطی اسی سے ہوتی ہے جو کام
کرتا، حادثہ اسی کار کو پیش آسکتا ہے جو روڈ پر آتی ہے گیرج میں کھڑی گاڑی کو نہیں
اس لئے ہمت بڑی رکھئے۔
6۔ آپ
پہلے اور آخری فرد نہیں جسکی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ حوصلہ شکنی کے واقعات سے تاریخ
بھری پڑی ہے۔
ہمارے
مکی مدنی آقا ﷺ کی کفار کیطرف سے کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی (معاذ اللہ) مجنون
کہہ کر پکارا گیا، یہی نہیں بلکہ بعض رشتی دار مخالفت پر اتر آئے جن میں ابو لہب
جو آپکا چچا تھا پیش پیش تھا، طائف کے سفر میں آپ پر پتھر برسائے گئے مشرکین کے
ناروا سلوک کیوجہ سے اپنا شہرمیلاد مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا، آپکو اتنا
ستایا گیا کہ فرمایا اللہ کی راہ میں، میں سب سے زیادہ ستایا گیا ہوں۔ (ترمذی، 4/213،
حدیث: 2480) لیکن آپ نے اس ہمت اور صبر سے حالات سے مقابلہ کیا کہ عقلیں حیران رہ
جاتی ہیں۔
پھر
صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اسلام پر حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑا، کسی کی
ماں نے بات چیت چھوڑ دی تو کسی کو باپ نے ظلم کا نشانہ بنایا، کسی کو تپتی ریت پر
لٹا کر سینے پر وزن رکھ دیا جاتا اور مطالبہ کیا جاتا اسلام چھوڑ دو لیکن راہ حق
پر چلنے والوں کے قد ذرا بھی نا ڈگمگائے۔
بزرگان
دین کے حالات و واقعات پڑھیے تو آپکو سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی کہ حوصلہ شکنی کو
خاطر میں نہیں لائے اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب رہے۔ موجودہ زمانے میں
امیراہلسنت علامہ محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کو دیکھ لیجیے آپ دنیائے
اسلام کی عظیم تحریک دعوت اسلامی کے بانی اور امیر ہیں، کم و بیش 43 سال پہلے جب
دعوت اسلامی کے کام کو بڑھانے کیلیے کوشاں تھے حوصلہ افزائی کرنے والے کم اور
حوصلہ شکنی کرنے والے لوگ زیادہ تھے لیکن امیراہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی اپنے
مقصد سے سچی لگن، کام کرنے کی دھن اور مسلمانوں کو نیکی کے راستے پر گامزن کرنے کی
کڑھن رنگ لائی اور الحمد للہ آج دنیا بھر میں دعوت اسلامی سے لاکھوں کروڑوں عاشقان
رسول وابستہ ہیں۔
پیاری
پیاری اسلامی بہنو! اس طرح کے کئی واقعات خود آپ یا آپکے جاننے والوں کیساتھ پیش
آئے ہوں گے۔ اس لیے دل بڑا رکھیے اور اپنا ذہن بنا لیجیے کہ حوصلہ شکنی کرنے والے
نے اپنا کام کیا، اسکے بعد آپکو چاہیے کہ کامیابی کیطرف اپنا سفر تیز کر دیں۔ اللہ
کریم ہمیں نیک و جائز مقاصد میں کامیابی نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین
قائد اعظم اسٹیڈیم میر پور کشمیر میں 30 اپریل کو اجتماع منعقد ہوگا، نگرانِ شوریٰ خصوصی
بیان فرمائیں گے

دعوتِ اسلامی کی جانب سے 30 اپریل
2025ء کو میر پور کشمیرمیں قائم قائد اعظم اسٹیڈیم میں ایک عظیم الشان اجتماع کا انعقاد کیا جارہا
ہے۔ اجتماع ِ پاک میں خصوصی بیان کے لئے کراچی سے دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ
شوریٰ کے نگران مولانا حاجی محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی تشریف
لارہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اجتما ع کا آغاز رات 09 بجے
تلاو ت و نعتِ رسولِ مقبول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے ہوگا جس کے بعد تقریباً 09:30 PMپر نگرانِ
شوریٰ کے بیان کا آغاز ہوگا۔ یہ اجتماع مدنی چینل پر براہ راست نشر بھی کیا جائے
گا۔
قرب و جوار کے تمام ہی عاشقانِ رسول سے گزارش ہے
کہ اس اجتماعِ پاک میں ضرور بالضرور شرکت فرمائیں۔

حوصلہ
شکنی کا معنی(ہمت توڑنے والا مایوس کن بزدل بنانے والا )موجودہ دور میں اکثر لوگ
شخصیتی بحران (identity
crisis )کے شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ محفلوں میں
بھی تنہائی محسوس کرتے ہیں اور اپنے اندر حوصلے کی اور اعتماد کی کمی پاتے ہیں اس
کی ایک وجہ حوصلہ افزائی کی کمی ہے آج ہم میں سے اکثر لوگ آپس میں طنز تو بہت کرتے
ہیں لیکن حوصلہ افزائی بہت کم اسی طرح چاپلوسی بےجا تعریف تو بہت کرتے ہیں لیکن
رہنمائی بہت کم، ہم حقوق اللہ تو ادا کرتے ہیں لیکن حقوق العباد بھول جاتے ہیں کہ
بندوں کے حقوق سب سے پہلے ہیں مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے اور ان کے حوصلوں
کو توڑا جاتا ہے جس کے سبب سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور مومن کو تکلیف دینا گناہ اور
جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ
یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ
احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ
22، الاحزاب: 58) ترجمہ کنز الایمان: اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے
ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا۔
ہم سب
ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مسلمان بھائی کو کوئی بھی تکلیف
نہ پہنچائیں جو اس کی دل آزاری اور حوصلہ شکنی کا باعث بنے ہمارے بزرگوں کی سیرت
سے ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے کہ حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کی جائے چنانچہ
ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے ایک آیت کی تفسیر کے بارے میں
سوال کیا؟ لوگ جواب نہ دے سکے لیکن آپ کے شاگرد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
نے عرض کیا کہ اس کے متعلق میرے ذہن میں کچھ ہے آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی حوصلہ
افزائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے میرے بھتیجے! اگر تمہیں معلوم ہے تو ضرور بتاؤ
اور اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھو۔ (بخاری، 3/186، حدیث: 4538)
ہم سب
کو اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی سراہے ہمارے حوصلے کو بڑھائے ہمارے جذبے کو
ہماری ہمت کو (boost
up) کرے اسے انرجی دے اسے صحیح سمت دے لیکن ہم
بھول جاتے ہیں کہ اگر ہمیں کسی کے حوصلوں کی ضرورت ہے تو کسی کو ہمارے حوصلوں کی
بھی ضرورت ہے ہمیں اس مثبت سوچ کو بیدار کرنا ہوگا پروان چڑھانا ہوگا کہ ہم لوگوں
کی حوصلہ افزائی کریں اور حوصلہ شکنی سے باز رہیں۔
حوصلہ
شکنی کے درج ذیل نقصانات ہوتے ہیں: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے جبکہ
حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ بیدار ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی اور نفسانی
نقصانات ہوتے ہیں، حوصلہ شکنی سے خود
اعتمادی میں کمی آتی ہے نا امیدی، احساس کمتری، ڈپریشن، ذہنی انتشار، پست ہمتی اور
ناکامی کا خوف پھیلتا ہے اور جس کی آپ حوصلہ
شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپ کے قریب آنے سے کتراتا ہے اور آپ سے اپنے مسائل شیئر
کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
حوصلہ
شکنی کس کی کی جائے؟ اگر کوئی برا کام کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کریں اور یہ حوصلہ
شکنی جائز ہے اور تھوڑا سختی کے ساتھ سمجھائیں تاکہ وہ آئندہ اس کام سے باز رہے
مثلا بچے نے کسی کو مارا گالی دی یا سکول میں کوئی برا کام کیا تو والدین کو چاہیے
کہ اس کو سمجھائیں تاکہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں اسی طرح اگر کوئی گناہوں بھرے
کام کر رہا ہے تو اسے گناہوں سے روکا جائے اس کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ وہ
گناہوں سے باز آجائیں یہ حوصلہ شکنی جائز ہے اور حرام کام پر بھی حوصلہ شکنی کی
جائے تاکہ حرام سے بچ کر نیکیوں والی زندگی گزاریں۔
ہمارے
پیارے آقا ﷺ کی کفار کی طرف سے کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی معاذ اللہ مجنون کہہ
کر پکارا گیا یہی نہیں بلکہ بعض رشتہ دار تو مخالفت پر اتر آئے جن میں ابو لہب جو
آپ کا چچا تھا پیش پیش تھا تین سال تک آپ کا اور خاندان والوں کا سوشل بائیکاٹ کیا
گیا اسی دوران آپ شعب ابی طالب نام کے علاقے میں محصور رہے سجدے کی حالت میں
اونٹنی کی بچہ دانی مبارک کمر پر رکھ دی گئی طائب کے سفر میں آپ پر پتھر برسائے
گئے کہ آپ کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ جانا پڑا آپ کو اتنا ستایا گیا
کہ فرمایا اللہ کی راہ میں میں سب سے زیادہ ستایا گیا ہوں۔ (ترمذی، 4/213، حدیث:
2480) لیکن آپ نے اس ہمت اور صبر سے حالات کا مقابلہ کیا کہ عقلیں حیران رہ جاتی
ہیں۔
اے
عاشقان رسول! اس طرح کے کئی واقعات خود آپ یا آپ کے جاننے والوں کے ساتھ پیش آئے ہوں
گے اس لیے دل بڑا رکھیے اور اپنا ذہن بنا لیجئے کہ حوصلہ شکنی کرنے والے نے اپنا
کام کیا اس کے بعد آپ کو چاہیے کہ کامیابی کی طرف اپنا سفر تیز کر دیں اللہ پاک
ہمیں نیک و جائز مقاصد میں کامیابی نصیب کرے۔ آمین

اللہ
پاک کا بہت بڑا فضل و احسان ہے کہ جس نے ہمیں مسلمان بنایا اور لا تعداد نعمتوں سے
نوازا، ان نعمتوں پر اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ اللہ پاک کی ان نعمتوں
میں سے ایک نعمت زبان بھی ہے اور اس کا اچھا استعمال کرنا اس کا شکر ادا کرنا ہے، جیسا
کہ تصوف کے امام، امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: زبان کا شکر یہ ہے کہ اس
نعمت پر اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کی جائے تو اسی طرح گفتگو کرنا بھی ایک بہت
بڑا فن ہے اسکو با قاعدہ سیکھا جاتا ہے اور سیکھنا بھی چاہیے کیونکہ گفتگو ہماری
زندگی کا ایک خاص حصہ ہے۔
گفتگو
بھی ایک فن ہے جسے سیکھا جاتا ہے۔ آپ کی ذات کا پہلا تعارف آپکی گفتگو ہے۔ ایک
کہاوت ہے کہ بول کہ تو پہچانا جائے کبھی بھی شریعت کے خلاف مت بولئے زبان کے خلاف
جتنے بھی ممکنات گناہ ہیں اس سے ہمیں اپنے آپکو بچانا ہے۔ ہماری گفتگو کی سب سے
بڑی خوبی یہ ہونی چاہئے کہ زبان غیبت،چغلی،وعدہ خلافی، گالی گلوچ،حوصلہ شکنی، دھوکا
وغیرہ ان سب چیزوں سے خالی رہے۔
1۔ لوگوں
کی تعریف اور حوصلہ افزائی کیجئے: خواہ آپ کوئی شخصیت ہوں یا آپ کوئی مدنیہ ہوں یا
استاذ ہوں، جب ہماری ما تحت کوئی غلطی کرتی ہے تو ہم اس کی کیسی خبر لیتے ہیں اسے کتنا
ذلیل و رسوا کرتے ہیں اس کا حال برا کر دیتے ہیں، مگر جب وہی ہمارا ما تحت اگر
کوئی اچھا کام کرتا ہے تو ہم اسکی کتنی تعریف کرتے ہیں اور خاص طور پر اگر آپ Leading
منصب پر ہیں تو اپنی گفتگو میں حوصلہ افزائی زیادہ شامل کریں اور دل شکنی عام زبان
میں جسے کھنچائی کرنا کہتے ہیں پوچھ گچھ کرنا، سختی کرنا اس کا فیصد کم رکھنا
چاہیے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی طالب علم ہے وہ سکول نہیں جانا چاہتا اسی
طرح ملازم کام پر جانے سے بھی جی چراتا ہے اسکی کافی وجوہات ہو سکتی ہونگی لیکن
ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انکی بے عزتی کا خدشہ طالب علم کو استاد سے اور ملازم
کو اپنے مالک سے۔
یاد
رکھیں اگر ہمیں اچھا گفتگو کرنے والا بننا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی گفتگو میں
حوصلہ افزائی زیادہ سے زیادہ رکھیں اسی طرح اگر آپ کسی بڑے منصب پر فائز ہیں Boss
ہیں، استاد ہیں۔ جب کسی سے آپ سختی سے بات کرتے ہیں تو کیوں کرتےہیں؟ کہ میرا ما
تحت صحیح انداز میں کام کرے اسکی Productivity بڑھے۔ یاد رکھئے Productivity
اس وقت بڑھے گی جب وہ ( آپ کاماتحت یا آپ کاطالب علم ) آپ سے محبت کریگا۔ جب وہ آپ
کے ساتھ کام کرنے میں خوشی محسوس کرے گا۔
وہ
ادارے جس میں ماتحت افراد خوش دلی سے کام نہیں کرتے خواہ آپ ان کوگالیاں دے لیں،
خواہ آپ ان کو بے عزت کر لیں، خواہ ان کی کھنچائی کر لیں، خواہ آپ جو مرضی کر لیں
وہ صرف اور صرف اپنی نوکری کو بچانے کی حد تک کام کریگا۔ اس سے بڑھ کر کوئی کام
نہیں کریگا۔ امیر اہلسنت جو ہمارے لئے اس زمانے میں بہترین مثال ہیں، جنہوں نے
لاکھوں کو اپنے پیچھے چلایا آپ فرماتے ہیں: میں نے دعوت اسلامی کا جو کام کیا اور
جو میں نے اسلامی بھائیوں کو آگے بڑھایا دونوں ہاتھوں سے پیٹھ تھپک کر بڑھایا!
ایک
غلط فہمی کا ازالہ: ایسا نہ ہو کہ استاد اپنے شاگرد سے پوچھ گچھ ہی نہ کرے اگر Boss ہے تو ماتحت سے کچھ بھی نہ پوچھے۔ جب آئے، جب جائے، ایسا بھی نہیں
ہوناچاہیے۔ پوچھ گچھ کیجئے، سوالات کیجئے، مگر اصولوں کے ساتھ، طریقہ سے یاد رکھئے!
پوچھ گچھ کرنا الگ ہے بے عزتی کرنا الگ ہے وقت پر کام طلب کرنا اور ہے بے عزتی
کرنا اور ہے اصلاح کرنی ہو تو سب کے سامنے مت کیجئے اور حوصلہ افزائی کرنا ہو تو
سب کے سامنے کیجئے۔
میرے
پیارے آقا مدینے کے داتا ﷺ جب کوئی غلطی دیکھتے یا کوئی ایسا کام دیکھتے جو مناسب
نہ ہوتا تو منبر اقدس پر تشریف لاتے اور لوگوں کو جمع فرماتے بغیر نام لئے ہوئے
ارشاد فرماتے: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسا ایسا کرتے ہیں۔ (ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)مطلب
یہ ہے کہ There
is something wrong کچھ مسئلہ ہے مگر جس نے غلط
کیا سب کے سامنے اس کا بیان بھی نہ ہو۔ نہ جانے وہ اس وقت موجود ہو یا اگرنہ ہو تو
بھی اصلاح کرلے گا۔ ہم غور کریں کہ ہمارا انداز کیسا ہوتاہے کہ سب کے سامنے جھاڑ
دیتے ہیں اصلاح کی نیت سے۔
2۔
قطع تعلق والے جملے استعمال نہ کیجئے: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ایسا کہہ
دیتے ہیں کہ آج کے بعد تم کتنے ہی اچھے بن کر آجاؤ میرے دل میں جگہ نہیں بن سکتی
یقین کریں کہ یہ کہنے کے بعد گویا کہ آپ نے اس شخص کو ہمیشہ کے لیے اپنے آپ سے دور
کر لیا اب تم سونے (Gold) کے بھی بن کر آجاؤ میرے کسی کام کے نہیں پھر
ایسی گفتگو کرنے کے باعث لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کوئی میرے قریب نہیں آتا
معاشرہ سارا خراب ہو گیا و غیره۔ معاشرہ خراب ہوا یا نہیں ہوا الگ بات ہے مگر ان
کی گفتگو ضرور خراب ہوگئی یاد رکھئے! ایسے جملے کبھی نہیں کہنے چاہئیں جس سے آپ لوگوں
کو ہمیشہ کے لئےدور کر دیں۔
جب آپ
کسی کو اس طرح کے جملے ادا کر کے اپنے آپ سے دور کر دیتےہیں تو آہستہ آہستہ اکیلے
پن کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں
خاص
طور پر جو بڑے افراد ہوتے ہیں جن کی قدر Value ہوتی ہے جن کی گفتگو کو serious
لیا جاتا ہے انہیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے دھیان رکھنا چاہیے والدین اپنے بچوں
کو بعض اوقات اس طرح کی باتیں کہہ دیتے ہیں بچے بڑےحساس ہوتے ہیں وہ والدین کی ایک
ایک بات کو بڑا اہمserious تصور کرتے ہیں۔ کیا پتہ آپ کا بچپن میں کہا
گیا کوئی ایک جملہ انہیں بڑے ہونے تک یاد رہ جائے اور وہ آپ سے دوری کا سبب ہو
جائے لہذا ہمیں اس طرح کے جملوں سے بچناچاہیے اگر اس rule
کو ہم follow
کریں گے تو لوگوں کو خود سے دور کرنے سے بچیں گے۔
3۔ القاب
استعمال کیجئے: ہمیں یہ خیال رکھنا ہوتا ہے کہ ہم جس کے ساتھ بات کر رہے ہیں اگر
وہ کوئی قابل قدر شخص ہے جس کا کوئی لقب Title بنتا ہے تو ہمیں وہ لقب Title
استعمال کرناچاہیے اس کی بنیاد یہ ہے کہ دنیا میں 2 چیزیں ایسی ہیں جو خرچ کرنے سے
بڑھتی ہیں:
(1)
علم: جتنا آپ خرچ کریں گے جتنا آپ share کریں گے جتنا آپ لوگوں کودیں گے اللہ کی
رحمت سے اس سے بڑھ کر آپ کو ملے گا۔
(2)
عزت: عزت دینے سے بڑھتی ہے اگر آپ کسی کو عزت دیں گے آپکی عزت میں کمی نہیں ہوگی
بلکہ آپکی عزت میں اضافہ ہو گا جتنی محبت دیں گے جتنی عزت دیں گے ان شاء اللہ اس
سے بڑھ کر آپ کو ملے گا۔ بعض لوگ جب گفتگو کرتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں جب تک آگے
والے کو نیچا نہ دکھائے اس کی بے عزتی اگر نہ کی دل آزاری نہ کی تو انکو لگتا ہے
مزہ نہیں آیا اور بعض لوگ تو معاذ اللہ گالیاں دیتے ہیں، دل شکنی کرتے ہیں برے نام
رکھتےہیں اور بعض لوگ کسی آگے والے کا مذاق اڑانا اسکے عادی ہوتے ہیں اگر چار لوگ
بیٹھے ہوں تو کسی نہ کسی ایک کو نشانہ target بنا لیتے ہیں مثلا اس کے لباس پر، اس کی شکل
پر، اس گفتگو پر کسی کمزور چیز کو لے کر اس کو برا بھلا کہیں گے۔ اور یہ سمجھتے
ہیں کہ میں بڑا فنکار ہوں، زبردست گفتگو کرنے والاہوں مگر ایسا نہیں۔
ہو
سکتا ہے کہ آپ کے سامنے مسکرا رہا ہے لیکن یاد رکھیں! یہ خوشی کی ہنسی نہیں بلکہ
کھسیانی ہنسی ہوتی ہے۔ کون چاہتا ہے کہ چار لوگوں کے سامنے کوئی اسکی بے عزتی کرے،
اسکا برا نام رکھاجائے، اسکا مذاق اڑایا جائے جیسے آپ نہیں چاہتے کہ کوئی آپ کے
ساتھ ایسا کرے اسی طرح کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ یہ معاملہ ہو۔
فرمان
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ: چھوٹے سے بچے کو بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت
ہوتی ہے اور بڑی عمر کے شخص، بزرگ کو بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے حوصلہ
افزائی کا سب سے اہم حصہ وہ الفاظ ہوتے ہیں۔
اسکے چند طریقے:
(1)
سب سے پہلے ہمیں اپنا یہ ذہن بنانا ہے کہ آج کے بعد مجھے اپنی گفتگو میں حوصلہ
افزائی کرنی ہے ایک اس کا طریقہ یہ ہے کہ سامنے والے کا اگر کوئی لقب title
ہے تو اس کو پکاراجائے مثلا اگر کوئی مفتی صاحب ہے انکا کوئی نام بھی تو ہو گا آپ ان
کا نام لیکر بات کریں یا مفتی صاحب کہہ کر بات کریں یقینا انکا نام استعمال ہونے
پر اتنا خوش نہیں ہونگے جتنا ان کا لقب (مفتی صاحب)استعمال کرنے پر خوش ہونگے، اسی
طرح اگر کوئی حافظ قرآن ہے تو اگر اس کا نام لے کر بھی پکاریں گے تو بھی بات ہو
جائے گی لیکن جب ان کو حافظ صاحب کہہ کر مخاطب کریں گے تو بہت خوشی ملے گی۔ تو جس
کا title
ہو لیکن جھوٹ نہیں ہونا چاہیے بلا وجہ مبالغہ نہیں ہونا چاہیے اور وہ واقعی اس لقب
کا مستحق ہے تو استعمال کرنا چاہیے۔
کسی
نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ لوگوں کو دیکھ کر القاب title
بنائے جاتے تھے کہ شمس العلماء (یعنی علماء میں مثل سورج ) یہ ایک بہت بڑے فقیہ کا
لقب ہے کہ انکا علم اتنازیادہ تھا کہ انکو شمس العلماء کا لقب خطاب دیا گیا اور آج
زمانہ یہ ہے کہ لوگ لقب کے ذریعے اپنی شخصیت بنانا چاہتے ہیں یہ خرابی ہے جسے ہمیں
اصلاح کرنی ہے کہ خواہ مخواہ کے لقب نہیں دینے کہ وہ مستحق ہی نہیں قابل ہی
نہیں ہم کہہ رہے ہیں علامہ صاحب اور اس کو
دو مسئلہ بھی نہیں آتے جو غلط ہے وہ غلط ہیں سب آگے نہیں بڑھانا ہے۔
اعتراض
کہ یہ تو علماء دین دار لوگوں کی بات ہو گی اب عام لوگوں میں بھی کیا یہی معاملہ
رکھنا ہے؟ جی ہاں! آپ کے بچوں میں بھی کچھ خصوصیت ہوتی ہے آپ ان کی حوصلہ افزائی کیجئے
اگر کسی بچے کے اندر کوئی اچھی خصوصیت ہے تو اس کا تذکرہ کیجیے ہم برائیاں تو بہت
بیان کرتے ہیں لیکن اس کی خصوصیات بیان کریں یاد رکھئے! فن گفتگو میں یہ بات کہی
جاتی ہے کہ جتنا آپ گفتگو میں اچھی چیزوں کاتذکرہ کرتے ہیں اتنا ہی ماحول میں اچھی چیزوں کا اضافہ ہوتا ہے
اسی طرح جس ماحول میں بری چیزوں کا تذکرہ زیادہ ہوگا وہ برائیاں repeat
ہوتی رہیں گی بار بار ہوتی رہیں گی۔
سائنسی
تحقیق کے مطابق ہم وہی کرتے ہیں جو ہمارے دل و دماغ میں ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی
ہے کہ بات کرنے سے پہلے دماغ حکم دیتا ہے پھر منہ گفتگو کرتا ہے ہم جو بھی کرتے
ہیں اپنے ذہن کے مطابق کرتے ہیں اگر ہم اپنے بچے کو، ماتحت کو، ساتھی کو کسی بھی
شخص کو برے القابات سے پکاریں گے تو بار بار وہ بات اس کے دماغ میں مضبوط اور پختہ
ہوتی چلی جائے گی۔
ایک
تحقیق کی گئی ناکام لوگوں پر تو معلوم ہوا کہ بچپن میں انکے ماں باپ ان کو کہا
کرتے تھے کہ تو کچھ بھی نہیں بن سکتا، تو کسی کام کا نہیں اب اس کی وجہ کیا بنی کہ
ان کے ماں باپ بچپن میں ان کو اس طرح کے جملہ بکثرت کہا کرتے تھے تو یہ باتیں انکے
ذہن میں بیٹھ گئیں اور ان کا ذہن بھی خود کہنےلگا کہ واقعی تو تو کسی کام کا نہیں،
تو تو کچھ بھی نہیں کر سکتا تو واقعی انہوں نے کچھ نہیں کیا اور وہ کچھ نہیں بنے۔
اور
وہ لوگ جو زندگی میں کامیاب ہوئےتو بچپن میں انکے ماں باپ، انکے اساتذہ، انکے
دوستوں نے انہیں کہا تھا کہ بھائی تیرے اندر فلاں بننے کی صلاحیت نظر آتی ہے، تو
تو بہت آگے جائے گا، آپ کی کیا بات ہے آپ تو بہت بڑے آدمی بنیں گے اسی لئے بعض
اوقات ایک جملہ کسی کی زندگی کا turning point بن جاتا ہے۔
جانشینِ عطار حاجی عبید رضا عطاری دینی کاموں کے
سلسلے میں 30 اپریل کو بنگلہ دیش کے دورے
پر روانہ ہونگے

مجلس انٹرنیشنل افیئرز دعوتِ اسلامی کی جانب سے
ملنے والی اطلاعات کے مطابق شیخِ طریقت
امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہکے
بڑے بیٹے اور خلیفہ و جانشین حضرتِ مولانا حاجی عبید رضا عطاری
مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی 30 اپریل 2025ء کو دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں
میں شرکت کے لئے بنگلہ دیش روانہ ہورہے ہیں۔
خلیفۂ امیر اہل سنت بنگلہ دیش میں ہونے والے
دعوتِ اسلامی کے تین روزہ اجتماع میں بھی خصوصی شرکت و بیان
فرمائیں گے جبکہ ذمہ داران کے درمیان مدنی مشورے، شخصیات سے ملاقاتیں اور دیگر
تنظیمی ایکٹیوٹیز آپ کے شیڈول کا حصہ رہیں گی۔
بنگلہ دیش کے تمام عاشقان رسول سے گزارش کی جاتی
ہے کہ شکلباہا، کرنافولی ، چٹاگانگ میں 30
اپریل سے شروع ہوکر 02 مئی 2025ء کو اختتام پذیر ہونے والے اس اجتماعِ پاک میں خود بھی شرکت کریں اور دوسروں کو بھی اس میں
شرکت کی دعوت دیں۔
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمد اکرم،گلشن معمار کراچی

دنیاوی طور پر دیکھا جاۓ تو بیٹیوں سے والدین اور خاندان کو بظاھر کوئ منفعت حاصل
نہیں ہوتی بلکہ اسکے بر عکس ان کی شادی کے کثیر اخراجات کا بار باپ کے کاندھوں پر آ پڑتا ہے اسی لیے
بعض نادان بیٹیوں کی ولادت پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور والدہ کو کو طعنے دیے جاتے
ہیں۔دور جاہليت میں بھی بیٹی پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اور ان کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا جب کہ بیٹی کی پیدائش پر
مختلف بشارتوں سے نوازا گیا ہے۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھہ سے
روایت ہیکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عظمت نشان
ہےکہ:جسکے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے ایذا نہ دے اور نہ ہی برا جانے اور نہ بیٹے
کو بیٹی پر فوقیت دے تو اللہ اس شخص کو جنت میں داخل فرماۓ گا۔
( المستدرک للحاکم،کتاب البر ولصلتہ،حدیث ٤٢٨،ج٥،ص٢٤٨)
حضرت نبیط بن شریط
رضی اللہ عنھ سے روایت ہیکہ آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:بیٹیوں کو برا مت کہو میں بھی بیٹیوں والا ہوں بے شک بیٹاں تو بہت محبت
کرنے والیاں غمگسار اور بہت زیادہ مہربان ہوتی ہیں۔
مسند الفردوس للدیلمی،حدیث٧٥٥٦،ج٢،ص٤١٥)
سرورکائنات نے نہ صرف تعلیمات ارشاد فرمایئں،عملا بھی اسکی
مثال قائم کی۔چناچہ
١۔حضرت زینب رضی
اللہ سے محبت:
حضرت زینب ،رسول اکرم ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں جو اعلان
نبوت سے دس قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں،جنگ بدر کے حضوراکرم پر نور ﷺ نے انہں مدینہ
بلالیا۔جب یہ ہجرت کے ارادہ سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے باہر نکلیں تو کافروں نے
ان کا راستہ روک لیا۔ایک ظالم نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سےزمین پر گرادیا جسکی
وجہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا۔آپ ﷺ کو اس واقعہ سے بہت صدمہ ہوا چنا نچہ ان کے فضا
ئل میں ارشاد فر ما یا:ھی افضل بناتی اصیبت فی یعنی یہ میری بیٹیو ں میں اس اعتبار
میں فضیلت والی ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھا ئ۔
)شرح اللامتہ الزرقانی،باب فی ذکر اولاد الکرم ج٢،ص٣١٨
،ماخوذً)
حضرت زینب نے راہ خدا میں ہجرت کی اور اس دوران جو تکلیف
اٹھائ اس کا اثر بہت دیر تک رہا اور اسی تکلیف میں آپکی وفات ہوئ آپ ﷺ کو اپنی پیاری
بیٹی کی وفات سے غم پہنچا آپ ﷺ نے خود نماز جنازہ پڑھائی اور کفن کے لیے اپنا تہبند شریف دیا اور خود
اپنے مبارک ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔
حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں جب آپ ﷺ قبر سے باہر تشریف لاۓ تو چہرہ مبارک پر پر یشانی
اور غم کے آثار تھے پوچھنے پر ارشاد فرمایا:مجھے قبر کا دبانا اور موت کی شدت یاد
آئ ،لہذا میں نے بارگاہ الہی میں دعا کی کہ میری بیٹی پر آسانی ہو بے شک میری یہ بیٹی
طویل عرصہ بیمار رہی ہے۔
)علل الدار قطنی ،١٢/٢٥١،حدیث ٢٦٧٩(
ان روایت سے معلوم ہوتا ہےکے آپ ﷺ کو اپنی بیٹی سے کس قدر
محبت تھی۔
٢۔حضرت رقیہ رضی
اللہ عنہا۔
حضرت رقیہ رضی اللی عنہا ،رسولکریم کی دوسری بیٹی ہیں
آپ اعلان نبوت سے سات سال پہلے مکہ مکرمہ مین پیدا ہوئں ،آپ سے بھی حضوراکرم ﷺ بھت
محبت فرمایا کرتے تھے انہں اپنی توجہ میں رکھتے اور ان کے ہاں تحفے بھی بھیجا کرتے
تھے۔
ایک دن آپ ﷺ نےحضرت اسامہ بن زید رضی اللہ کو رکابی میں
گوشت دے کر ان کے ہاں بھیجا جب یہ واپس آۓ تو آپ ﷺ نے ان ک ساتھ حضرت رقیہ و حضرت عثمان غنی کا زکر خیر کیا۔
(معجم کبیر ،١/٤٢٢ ،حدیث ٩٥ ملحصاً)
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ اور حضرت رقیہ نے حبشہ کی
طرف ہجرت کی اور ان کی حبشہ روانگی کے بعد کچھ دن تک خیر یت معلوم نہ ہوئ تو آپ ﷺ
فکرمند ہوۓ اور جب ان کی خیر یت کی خبر
سنی تو یوں دعا دی:اللہ پاک ان دونوں کی حفاظت فرماۓ۔
(المطالب العالیہ ،کتاب المناقب،مناقب عثمان بن عفان رضی
اللہ ١٦/٥٣ حدیث ٣٩١٦)
٣۔حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا۔
حضرت ام کلثوم ،حضرت رقیہ سے چھوٹی ہیں آپ اعلان نبوت سے
پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہویئں۔
حضور اکرم (ﷺ) کی اپنی بیٹی حضرت ام کلثوم (رضی اللہ عنہا)
سے محبت کا ایک واقعہ یہ ہے:
حضرت ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) ایک بار بیمار ہوئیں تو حضور
اکرم (ﷺ) ان کے پاس آئے اور ان کی عیادت کی۔
حضور اکرم (ﷺ) نے ان سے پوچھا:بیٹی!تم کیسے ہو؟
حضرت ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) نے جواب دیا:میں تھوڑی سی بیمار
ہوں، لیکن اللہ کی حمد ہے کہ میں بہتر ہو رہی ہوں۔
حضور اکرم (ﷺ) نے ان کے لیے دعا کی اور ان کے لیے مغفرت کی
درخواست کی۔
یہ واقعہ حضور اکرم (ﷺ) کی اپنی بیٹی سے محبت اور شفقت کا ایک
مثال ہے۔
(حوالہ:ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، جلد 2، صفحہ 655)
٤۔خاتون جنت حضرت فا طمہ الزہرا رضی اللہ عنہا۔
آپ ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے پیاری اور لاڈلی شھزادی ہیں
آپ جب بھی اپنے والد محترم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے،ان کی طرف
متوجہ ہوجاتے،پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے،اسے بوسہ دیتے پھر ان کو اپنے
بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے۔
( ابی داود،کتاب الادب باب ما جاءفی القیام،حدیث ٥٢١٧،ج٤)
حضرت عبد اللہ ابن
عمر رضی اللہ فرماتے ہیں ،نبی اکرم ﷺ جب
سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے
واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ سے ملاقات فرماتے۔(شان خاتون جنت ص ١٤٧)
اللہ کے محبوب ﷺ کا ارشاد ہے:فاطمہ تمام اہل جنت یا یا مومینین
کی عورتوں کی سردار ہے مزید فرمایا فاطمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو
ناراض کیا اسنے مجھے ناراض کیا۔(شان خاتون جنت ،صفحہ ١٤٧)
الغرض آپ ﷺ کو اپنی تمام شہزایوں سے بے پناہ محبت تھی آپ ﷺ نے ان کی ہر طرح سے تعليم و تربیت فرمائ
جو بیٹیوں کی تعلیم وتربیت اور حسن اخلاق کے بارے میں بشارتیں دیں اسے عملاً بھی کرکے دکھایا۔
مصطفےٰ کی بیٹیوں پر ہم گفتگو کیا کریں
رحمت و فضل خدا ہیں مصطفےٰ کی بیٹیاں
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمد فہیم کھتری،فیض مدینہ نارتھ کراچی

اسلام سے قبل عورت ظلم و ستم کا شکار تھی، اس کی حیثیت کا
کوئی لحاظ نہ تھا ، ماں ہو یا بیٹی، بہن ہو یا بیوی سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہان کا
جاتا۔اس کی حیثیت اس کھلونے کی تھی جو مردوں کی تسکین جان کا باعث تھا، عربوں کے
ہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تو برصغیر میں ہندووں کے ہاں بیوہ کو مرد کی
چتا (لکڑیوں کا ڈھیر جس پر ہندو مردے کو چلاتے ہیں) میں زندہ ڈال دیا جاتا۔
آخر کار جب نبی کریم ﷺ خدا کی طرف سے دین اسلام لے کر تشریف
لائے تو دنیا بھر کی ستائی ہوئی عورتوں کی قسمت چمک اٹھی اور اسلام کی بدولت مردوں
کی طرح عورتوں کے بھی حقوق مقرر کئے گئے۔
( کتاب:صحابیات و صالحات کے اعلی اوصاف، صفحہ:104 )
یہ نبی کریم ﷺ علیہ کی عورتوں کے متعلق تعلیم تھی پھر نبی
کریم ﷺ نے اسلام میں بیٹیوں کے مقام کو واضح کیا.
چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب کسی کے ہاں بیٹی
کی ولادت ہوتی ہے تو اللہ اس کے گھر
فرشتوں کو بھیجتا ہے، جو آکر کہتے ہیں:اے گھر والو ا تم پر سلامتی ہو۔پھر فرشتے
اپنے پروں سے اس لڑکی کا احاطہ کر لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں
ایک کمزور لڑکی کمزور عورت سے پیدا ہوئی، جو اس کی کفالت کرے گا قیامت تک اس کی
مدد کی جائے گی
(کتاب:بیٹی کی پرورش، صفحہ:12)
ایک اور مقام پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس شخص کی تین بیٹیاں
ہوں اور وہ ان پر صبر کرے ، انہیں کھلائے پلائے اور ان کو اپنی کمائی سے کپڑے
پہنائے تو وہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ سے حجاب بن جائیں گی
(کتاب:بیٹی کی پرورش، صفحہ:13)
حضور اکرم صلی علیہ وسلم کی شہزادیاں:
حضور اکرم صلی علیہ وسلم کی تمام اولاد سوائے ابراہیم کے جو
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے تھے حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ
عنہا سے تھی. صاحبزادیاں بالاتفاق چار تھیں.
حضرت زینب رضی اللہ
عنہا:
صاحبزادیوں میں سب سے بڑی حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں.
بعثت سے دس سال پہلے جب حضرت محمد ﷺ کی عمر مبارک تیس سال کی تھی آپ پیدا ہوئیں.
ہجرت کرتے وقت کافروں نے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دے جس سے نبی کریم ﷺ کے قلب
کو بڑی چھوٹ لگی۔چنانچہ آپ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں ارشاد فرمایا:
یہ مری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت فضیلت والی ہے کہ میری
طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔
(صحابیات و صالحات کے اعلی اوصاف صفحہ:228)
حضرت زینب رضی اللہ
عنہا کی ایک بیٹی تھی جس کا نام امامہ تھا حضور ﷺ امامہ سے بڑی محبت کرتے تھے۔نماز
میں بھی ان کو اپنے کندھے پر رکھ لیتے جب رکوع کرتے تو اتار دیتے اور جب سجدہ سے
سر اٹھاتے تو پھر سوار کرلیتے ایک دفعہ نجاشی نے حضور ﷺ کی خدمت میں ایک حلہ بھیجا
جس میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی انگوٹھی کا نگینہ حبشی تھا۔ حضور اکرم صلی علیہ
اللہ علیہ وسلم نے وہ انگوٹھی امامہ کو عطا فرمائی۔
(سیرت رسول عربی صفحہ:(622)
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا:
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ، حضور بنی کریم ﷺ کی شہزادی ہیں۔آپ
کی شادی ابو لہب کے بیٹے سے ہوئی تھی پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔غزوۂ
بدر کے وقت یہ بیمار تھیں اسی وقت ان کا بیس سال کی عمر میں انتقال ہوگا۔حضور اکرم
ﷺ غزوۂ بدر کے سبب جنازہ میں شریک نہ ہو سکے۔
(کتاب:سیرت رسول عربی صفحہ:623)
حضرت ام کلثوم رضی
اللہ عنہا:
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادی ہیں۔آپ اپنی کنیت کے ساتھ ہی مشہور ہیں۔پہلے
آپ کی شادی ابو لہب کے بیٹے سے ہوئی۔ابو لہب کا بیٹا عتیبہ نے اپنے باپ کے کہنے پر
ان کو طلاق دے دی اور نبی کریم ﷺ سے گستاخی سے پیش آیا۔حضور اکرم ﷺ کی قمیص مبارک
پھاڑ دی تو حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا:یا اللہ!اپنے کتوں میں سے ایک کتے
کو اس پر مسلط کر دے
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت ام کلثوم رضی
اللہ عنہا سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح ہوا ، جب آپ رضی اللہ عنہا کا
انتقال ہوا تو نبی کریم ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
(کتاب:سیرت رسول عربی صفحہ:624)
حضرت فاطمہ زہراء
رضی اللہ عنہا:
حضرت الزہراء رضی
اللہ عنہا شہنشاہ کونین ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی
ہیں۔آپ خاتوں جنت ہیں یعنی جنت میں سب عورتوں کی سردار ہیں۔
(کتاب:سیرت مصطفےٰ:صفحہ:697)
حضور اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا:
⭐فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرے جسم کا حصہ (ٹکڑا) ہے جو اسے
ناگوار ، وہ مجھے ناگوار جو اسے پسند وہ مجھے پسند، روز قیامت سوائے میرے نسب، میرے
سبب اور میرے ازدواجی رشتوں کے تمام منقطع (ختم) ہو جائیں گے۔
(کتاب:خاتوں جنت صفحہ:23)
⭐ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تمام جہانوں کی عورتوں اور سب جنتی
عورتوں کی سردار ہیں۔مزید فرمایا ، فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے
ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
(کتاب:خاتوں جنت ، صفحہ 24)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تصویر مصطفےٰ ﷺ ہیں:
چنانچہ ام المومنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
کہ میں نے چال ڈھال، شکل و شباہت (رنگ روپ) اور بات چیت میں فاطمہ (رضی اللہ عنہا)
سے برھ کر کسی کو حضور اکرم ﷺ سے مشابہ نہیں دیکھا اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کے استقبال کے لئے کھڑے
ہو جاتے، آپ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ تھام کر اُن کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر
بٹھاتے۔
اور جب حضور اکرم ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے
تو آپ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کی تعظیم کے لئے قیام فرماتیں ، آپ ﷺ کے مبارک
ہاتھوں کو تھام کر بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔
(کتاب:خاتوں جنت صفحہ:26 27 )
سبحان اللہ کتنا ہی پیارا انداز ہے پیار و شفقت فرمانے کا۔
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمد انور،جھمرہ سٹی فیصل آباد

قبل از اسلام عورت کی حیثیت
اسلام سے قبل اگر
دنیا کے مختلف معاشروں میں عورت کی حیثیت دیکھی جائے تو معلوم ہو گاکہ عورتیں
مردوں کی محکوم تھیں، مرد خواہ باپ ہوتا یا شوہر، بیٹا ہوتا یا بھائی، ان سے جیسا
چاہے سلوک کرتا، عورتوں کی حيثيت بس ایک خدمتگار کی سی تھی، ان کے ساتھ جانوروں سے
بدتر سلوک کیا جاتا تھا اور انہیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا
لیکن اسلام کی صبح
نور کیا طلوع ہوئی ہر طرف کفر اور ظلم و ستم کا اندھیرا بھی ختم ہو گیا اور یوں بیٹیوں
کو اسلام کی برکت سے ایک نئی زندگی ملی۔جو لوگ پہلے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے میں
فخر محسوس کرتے تھے ، اب بیٹیوں کو اپنی آنکھوں کا تارہ سمجھنے لگے کیونکہ بے کسوں
کے غمخوار ، حبیب پروردگار ﷺ پاک علیہ والہ وسلم نے ان کے سامنے نہ صرف اپنی شہزادیوں
سے محبت کا عملی نمونہ پیش کیا بلکہ یہ مدنی ذہن بھی بنایا کہ بیٹیوں کو عار نہ
سمجھا جائے کیونکہ یہ اللہ پاک کی رحمت اور مغفرت کا ذریعہ ہیں۔
.اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّى اللہ پاک نے اولاد
بالخصوص بیٹیوں کی پرورش کے متعلق فضائل بیان فرما کر ان کی اہمیت کو بھی خُوب
اُجاگر فرمایا۔
چنانچہ بیٹیوں کے فضائل پر مشتمل حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں
قيامت تک مدد کی بشارت
حضور پاک، صاحب لولاک ﷺ پاک علیہ و آلہ و سلم کا فرمانِ
رحمت نشان ہے:جب کسی کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ہے تو اللہ عَزَّ وَ جَلَّ اس کے
گھر فرشتوں کو بھیجتا ہے ، جو آکر کہتے ہیں:اے
گھر والو!تم پر سلامتی ہو۔پھر فرشتے اپنے پروں سے اس لڑکی کا احاطہ کر لیتے ہیں
اور اس کے
سر پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں:ایک کمزور لڑکی کمزور عورت سے
پیدا ہوئی، جو اس کی کفالت کرے گا قیامت تک اس کی مدد کی جائے گی۔(1)
[1] المعجم الصغیر، الجزء ا، ١/ ٣٠
حضور ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں اللہ پاک نے حضور ﷺ کو بیٹیوں کی
رحمت سے نوازا آپ کو اپنی شہزادیوں سےبہت محبت تھی چنانچہ
رسول خدا صلى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ الہ وسلم کی اولاد پاک
کے نام مبارک ملاحظہ فرمائیں
سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالک و مختار صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم کے تین
شہزادے:
(1)... حضرت سيدنا قاسم رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہ
(2)... حضرت عَبْدُ اللہ رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہ
(3)... حضرت ابراہیم رَضِيَ اللہ تَعَالَى
عَنْہ
اور چار شہزادیاں:
(1)... حضرت سَيِّدَ تُنا زينب رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا
(2)... حضرت رُ فِيہ رَضِيَ اللہ تَعَالَى
عَنْہا
(3)... حضرت اُمِّ کُلثوم رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا
(4).. حضرتِ فَاطِمَہ رَضِيَ اللہ تَعَالَى
عَنْہا
رسول اللہ ﷺ کو سب سے پیاری حضرت فاطمتہ رضی اللہ عنہا تھیں
چنانچہ:
جگر گوشۂ رسول
اللہ کے محبوب،
دانائے غیوب، منزہ عَنِ الْعُيُوبِ صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم
کا ارشاد ہے:فاطمہ (رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا) تمام اہل جنت یا مؤمنین کی
عورتوں کی سردار ہے۔مزید فرمایا:فاطمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو
ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔(مِشْكُوۃ الْمَصَابِيح، کتاب المناقب، باب مناقب
اہل بيت النبي صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم، ج2، ص 435-436، الحديث:6138 - 6139)
رسول اللہ ﷺ
نے حضرت فاطمتہ الزہرہ کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی قرار دیا
جس سے رسولِ کریم ﷺ کی ان سے محبت ظاہر ہوتی ھے کیونکہ یہ فطری عمل ہے کہ جس سے
محبت ہوتی ھے اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے محبت ہوجاتی ھے اور جس سے محبوب کو
ایذا ھوتی ھے محب کو وہ ناگوار ھوتی ہیں
اللہ پاک ہمیں اہل بیعت کی سچی محبت نصیب فرمائے آمین
(آقا شہزادی کونماز کے لئے بیدار کرتے
حضرت انس بن مالک
رَضِيَ اللہ تَعَالَى عنہ فرماتے ہیں:چھ مہینے تک نبی اکرم صَلَّى اللہ تَعَالَى
عَلَيْہ وَالِہ وَسَلَّم کا یہ معمول رہا کہ نمازِ فجر کے لئے جاتے ہوئے حضرت سیدہ
فاطمۃ الزہراء رَضِيَ اللہ تَعَالَى عَنْہا کے گھر کے پاس سے گزرتے تو فرماتے:اے
اہل بیت!نماز ، اللہ عَزَّ وَ جَلَّ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو!کہ تم سے
ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( التَّرْمِذي، كتاب
تفسير القرآن، باب ومن سورۃ الاحزاب، ص 741، حدیث:3206)
حضرت زینب بنت رسول اللہ ﷺ
رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں
نا خوشگوار واقعہ:رسول کریم ﷺ نے مدینہ پاک ہجرت کرنے کے
بعد بی بی زینب رضی اللہ عنہا کو لینے کے لئے دو صحابہ کرام کو مکہ شریف بھیجا جن
میں سے ایک حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے دیور
کنانہ آپ کو لے کر مکے سے روانہ ہوئے ، کفار کو جب اس کی خبر ہوئی تو ایک جماعت
مزاحمت کے لئے پہنچ گئی۔انہوں نے حضرت زینب کو نیزہ سے ڈرا کر اونٹ سے گرا دیا جس
سے ان کا حمل ضائع ہو گیا ، یہ دیکھ کر کنانہ نے ترکش سے تیر نکال کر سامنے رکھ دیئے
اور کہا کوئی بھی سامنے آیا تو وہ ان سے بچ کر نہیں جا سکے گا! لوگ ڈر کر پیچھے ہٹ
گئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ٹھہرو
ہماری بات سن لو!محمد (ﷺ ) کی بیٹی کو دن دہاڑے لے کر جاؤ گے تو یہ ہماری کمزوری کی
دلیل ہوگی ، ویسے بھی ان کی بیٹی کو روکنے کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ، لہذا ابھی تم
انہیں واپس لے جاؤ جب شور شرابا کم ہو جائے تو رات کو انہیں چوری چھپے لے جانا گنا
نہ نے اس تجویز کو قبول کر لیا اور انہیں واپس لے گئے ، چند روز بعد ایک رات کو
انہیں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کے پاس پہنچا دیا اور وہ
انہیں نہایت ادب و عزت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینے لے آئے۔
(السيرۃ النبويۃ لابن ہشام، ص 271)
پیارے آقا کی محبت:حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات ک
بعد رسول اللہ صلى اللہ عليہ و الہ و سلم ان کی قبر میں
اترے تو آپ مغموم و پریشان تھے پھر جب باہر تشریف لائے تو پریشانی اور غم کے آثار
زائل ہو چکے تھے ، فرمایا:مجھے زینب کی کمزوری یاد آگئی تو میں نے اللہ رب العزت کی
بارگاہ میں اس کی قبر کی تنگی اور غم میں تخفیف کا سوال کیا، تو اللہ پاک نے ایسا
ہی کیا اور اسے اس پر آسان فرما دیا
معرفۃ الصحابۃ، 140/5
حضرت رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ
گلشن مصطفے کے مہکتے پھولوں میں سے ایک پھول حضرت رقیہ رضی
اللہ عنہا بھی ہیں جو رسولِ کریم ﷺ کی بیٹیوں میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے چھوٹی
اور حضرت ام کلثوم و بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہما سے بڑی ہیں۔
تیمار داری پر خصوصی عنایت جنگِ بدر کے وقت حضرت رقیہ سخت بیمار
ہو گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان کو ان کی تیمار داری کا حکم دیا ، بیوی کی تیمار
داری کے باعث جنگ میں شرکت نہ کرنے کے باوجود رسول اللہ صلى اللہ عليہ والہ وسلم
نے انہیں مجاہدین بدر میں شمار فرمایا ، مالِ غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا اور شر
کائے بدر کے برابر اجر عظیم کی خوشخبری بھی عطا فرمائی۔معرفۃ الصحابۃ، 141/5
ماخوذاً
حضرت ام کلثوم بنت رسول اللہ ﷺ
حضرت اُم کلثوم اپنی ماں حضرت خدیجہ کے ساتھ بہت مشابہت
رکھتی تھیں۔ان کے دل کا سرور اور آپ علیہ سلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔
حضرت اُمِ کلثوم کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔6 سال تک حضرت عثمان
کے ساتھ خوشگوار گھریلو زندگی بسر کرنے کے بعد شعبان و ہجری میں حضرت ام کلثوم کا
انتقال ہو گیا۔آپ کے غسل و کفن کے انتظامات کی حضور نے خود نگرانی فرمائی، خود
نماز جنازہ پڑھائی اور آپؐ کی مغفرت کی دعا مانگی۔تمام صحابہ کرام نے نماز جنازہ میں
شرکت کی۔آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔
سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات کا آپ کو سخت ملال ہوا۔
صحیح بخای میں ہے کہ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک بار آپ ام کلثوم کی قبر
پر تشریف فرما تھے اور آپ کی آنکھوں سے شدت غم کی وجہ سے آنسو جاری تھے۔
کا ہر عمل ہمارے لیے مشعل راہ ھے سبحان اللہ آقا ﷺ کی اپنی
شہزادیوں سے کیسی محبت تھی اللہ پاک ہمیں
بھی حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
اللہ پاک ہمیں اولاد کے حقوق ادا کرنے اور خصوص بالخصوص بیٹیوں
سے شفقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ نور حسین،معراج کے سیالکوٹ

حضور اکرم ﷺکی چار بیٹیاں تھیں:حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ،
حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ
عنہا۔آپ ﷺ اپنی چاروں بیٹیوں سے بہت محبت فرماتے۔حضور اکرم ﷺحضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا کے ساتھ بہت ہی شفقت اور محبت کا معاملہ فرمایا کرتے۔نبی اکرم ﷺجب سفر پر تشریف
لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملتے اور جب سفر سے واپس
تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے۔
(1) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب ﷺکی خدمتِ اقدس میں حاضر
ہوتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہو جاتے ، ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ، پھر ان کا ہاتھ اپنے
ہاتھ میں لے لیتے ، اسے بوسہ دیتے پھر ان کو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے۔اسی طرح
جب آپ ﷺحضرت فاطمہرضی اللہ عنہاکے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ ﷺکو دیکھ کر کھڑی
ہو جاتیں ، آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتیں پھراس کو چُومتیں اورآپﷺ کو اپنی
جگہ پر بٹھاتیں۔( ابی داؤد، کتاب الادب ، با ب ماجاء فی القیام، حدیث 5217، ج4 ص454)
(2) حضرت ز ینب رضی
اللہ عنہا رسول اکرم ، نورِ مجسم ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں جو اعلانِ نبوت سے دس
سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔جنگ ِ بدر کے بعد حضور پرنور، شافعِ یوم النشور ﷺنے
ان کو مکہ سے مدینہ بلالیا۔جب یہ ہجرت کے ارادہ سے اونٹ پر سوار ہوکر مکہ سے باہر
نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا۔ایک ظالم نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین
پر گرا دیا جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا۔نبی کریم رء وف رّحیم ﷺ کو اس واقعے
سے بہت صدمہ ہوا چنانچہ آپ نے ان کے فضائل میں ارشادفرمایا: ھِیَ اَفْضَلُ
بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّ یعنی یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے فضیلت والی ہے
کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔جب آٹھ ہجری میں حضرت زینب رضی
اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا تو نمازِ جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے قبر میں
اتارا۔(شرح العلامۃ الزرقانی ، باب فی ذکر اولادہ الکرام ، ج2، ص318، ماخوذاً)
(3) حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نجاشی
بادشاہ نے حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک ﷺ کی خدمت میں کچھ زیورات بطورِ
تحفہ بھیجے جن میں ایک حبشی نگینے والی انگوٹھی بھی تھی۔نبی کریم ﷺ نے اس انگوٹھی
کو چھڑی یا انگشتِ مبارکہ سے مس کیا اور اپنی نواسی امامہ کو بلایا جو شہزادیٔ
رسول حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں اور فرمایا:اے چھوٹی بچی!اسے تم
پہن لو۔( ابی داود، کتاب الخاتم، باب ماجاء فی ذھب للنساء ، حدیث4235، ج4، ص125)
(4) حضرتِ ابوقتا دہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت
کرتے ہیں کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ
الْعُیوب ﷺہمارے پاس تشریف لائے تو آپ (اپنی نواسی)امامہ بنت ابوالعاص کو اپنے
کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے وقت انہیں
اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔
(بخاری ، کتاب الادب، باب رحمۃ الولد ،
حضرت اُمِّ سلمہ رضی
اللہ عنہا جب حضورِ اقدس ﷺ کے نکاح مبارک میں آئیں تو ان کی ایک بیٹی زینب دودھ پیتی
تھیں ، رسولُ اللہ ﷺ تشریف لاتے تو بڑی محبت سے پوچھتے:زُناب کہاں ہے؟ زُناب کہاں
ہے؟ كبرىٰ للنسائی ، 5 / 294 ، حدیث:8926