دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں دنیاۓ زندگی کے تمام معاملات کی رہنمائی اور پاسداری کی گئی ہے حتیٰ کہ کسی کو ناحق قتل کرنے کی بھی مذمت اور وعیدیں بیان کی گئی ہیں

چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خلِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لهُ عَذَابًا عَظِيمًا (پ4,النساء 93) ترجمہ کنز الایمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر نا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ، ان میں سے 4 احادیث درج ذیل ہیں:

(1)بڑا کبیرہ گناہ : حضرت انس رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے: تاجدار رسالت صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الديات، باب قول الله تعالى: ومن احياها,358/4 الحديث: 6871)

(2) قیامت کے دن کا خسارہ : کسی مسلمان کو نا حق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ ( معجم صغير، باب العين، من اسمه على، ص 205 ، الجزء الاول)

(3) دونوں ہی جہنمی : حضرت ابو بکرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے مروی ہے ، رسولِ اکرم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مُصر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنين اقتتلوا - - - الخ، 1 / 23 ، الحديث : 31)

(4) رحمت الٰہی سے محروم: حضرت ابو ہریرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے ، حضور پر نور صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ” یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الديات، باب التغليظ في قتل مسلم ظلما ، 3 / 262، الحديث : 2620)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی ، خاندانی لڑائی، تعصب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

اللّٰہ پاک ہمیں قتل ناحق جیسے کبیرہ گناہوں اور دیگر گناہوں سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 1 / 358، الحدیث:871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 /262، الحدیث: 26220)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

مسلمان کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


میرے پیارے اور میٹھے اسلامی بھائیوں جیسا کہ آپ سب حضرات جانتے ہیں کہ اس دور میں بے شمارفتنے اور فساد پھیلے ہوۓ ہیں جن میں سے ایک ناحق قتل بھی ہے جو اس وقت بہت زیادہ پھیل رہا ہے گلی گلی محلہ محلہ اس برے فساد کا شکار ہے جس کی وجہ سے نا حق قتل پہ قتل ہو رے ہیں جو کہ ہماری دنیاوآخرت کے لۓ نہایت نقصان کا باعث ہے ۔

اللہ پاک ہمیں اس برے فتنے و فساد سے محفوظ فرماۓ(آمین)!

میرے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیوں احادیث طیبہ طاہرہ میں اس کی بے شمار جگہ پر مذمت فرمائ ہے ۔ چنانچہ چند احادیث ناحق قتل کی مذمت میں درج ذیل ہیں؛

1-وَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛اَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْ الدِّمَاءِ0 روایت ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کے قیامت کے دن سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ (مشکوۃ المصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر308 حدیث نمبر 3298)یعنی قیامت کے دن معاملات میں سب سے پہلے خون نہ حق کا فیصلہ ہوگا بعد میں کچھ اور۔

وَعَنِ الْمِقْدَادِبْنِ الْاَسْوَدِ اَنَّہُ قَالَ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَاَیْتَ اِنِّ لَقِیْتُ رَجُلًامِنَ الْکُفَّارِفَاقْتَتَلْنَا فَضَرَبَ اِحْدَی یَدَیَّ بِالسَّیْفِ فقطعھما ثُمَّ لَاذَ مِنِّی بِشَجَرَۃِ فَقَالَ:اَسْلَمْتُ لِلّٰہِ وَفِی رِوَایَۃٍ: فَلَمَّااَھْوَیْتُ لِاَقْتُلَہُ قَالَ:لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَاَقْتُلُہُ بَعْدَ اَنْ قَالَھَا؟قَالَ(لَا تَقْتُلْہُ)فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّہُ قَطَعَ اِحْدَی یَدَیَّ فَقَالَ:رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(لَا تَقْتُلْہُ فَاِنْ قَتَلْتَہُ فَاِنَّہُ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ اَنْ تَقْتُلَہُ وَاِنَّکَ بِمَنْزِلَتَہُ قَبْلَ اَنْ یَقُوْلَ کَلِمَتَہُ الَّتِی قَالَ

روایت ہے حضرت مقداد ابن اسود سےانہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فرمائیے اگر میں کسی کافر ادمی سے ملوں پھر ہم جنگ کریں تو وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ دےپھر وہ مجھ سے کسی درخت کی پناہ لے لے پھر کہے کہ میں اللہ کے لیے اسلام لے ایا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب میں نے اسے قتل کرنا چاہا تو وہ بولا لا الہ الا اللہ تو اس کے کہنے کے بعد میں اسے قتل کر دوں? فرمایا قتل نہ کرو پس وہ بولے یا رسول اللہ اس نے میرا ایک ہاتھ کاٹ دیا ہےتو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا .مت قتل کرواگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے درجے میں ہوگا جو قتل کرنے سے پہلے تمہارا تھا اور تم اس کے درجے میں ہو جو اس کے کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا۔(مشکاۃالمصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر308،حدیث نمبر3299)

وَعَنْ ابْنِِ عُمَرَ قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَنْ یَزَالَ الْمُوْمِنُ فِیْ فُسْحَۃٍ مِنْ دِیْنِہِ مَا لَمْ یُصِبْ دَمًا حَرَامًا) ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مسلمان اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے جب تک کہ حرام خون نہ کرے۔ (مشکاۃالمصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر 308،حدیث نمبر3297)

یعنی مسلمان ادمی کیسا ہی گنہگار ہو مگر وہ اسلام کی گنجائش رحمت الہی کی وسعت میں رہتا ہے اللہ سے نا امید نہیں ہوتا مگر قاتل ظالم اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں رہتا کل قیامت میں اس طرح ائے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا (آیس من رحمۃ اللہ )حدیث شریف میں ہے کہ جو قتل مومن میں ادھی بات سے بھی مدد کرے وہ بھی رب تعالی کی رحمت سے مایوس ہے بعض نے فرمایا کہ ظالم قاتل کو دنیا میں نیک اعمال کی توفیق نہیں ملتی۔

وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ اَعَانَ عَلَی قَتْلِ مُوْمِنٍ شَطْرَ کَلِمَۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ آیسُ مِنْ رَحْمَۃِ

اللّٰہِ)0

حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو کوئ مسلمان کے قتل میں آدھی بات سے بھی مدد کی تو وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے نا امید۔(مشکاۃالمصابیح،جلد دوم، صفحہ نمبر311،حدیث نمبر 3328)

وَ عَنْ اَبِی سَعِیْدٍ وَ اَبِی ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ :(لَوْاَنَّ اَھْلَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ الشْتَرَکُوْا فِی دَمِ مُوْمِنٍ لَاَکَبَّھُمُ اللّٰہُ فِی النَّارِ

حضرت ابو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر زمین و اسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالی انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے۔(مشکاۃالمصابیح ،جلد دوم،صفحہ نمبر309/310،حدیث نمبر3311)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام ایک امن و امان اور محبت پھیلانے والا دین ہے۔ اسلام ہمیں نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں سے بھی محبت کرنے کا درس دیتا ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی مال اور لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں"۔

یہ مومن کی پہچان ہے کہ وہ کسی کے آبرو میں دخل اندازی نہیں کرتا، کسی کے اموال نہیں لوٹتا، لوگوں کی زندگی کے ساتھ نہیں کھیلتا، کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ قتلِ ناحق بھی ظلم ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔ اسلام تو جانوروں کو مارنے سے بھی روکتا ہے، تو انسان کو قتلِ ناحق کا کیسے حکم دے سکتا ہے۔ ہمیں قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں بھی مذمت ملتی ہے اور احادیثِ مبارکہ میں بھی قتلِ ناحق کی مذمت ملتی ہے۔

قارئین کرام چند احادیث قتلِ ناحق کی مذمت میں درج ذیل ہیں۔

1- بڑا گناہ "حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے"۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی، ومن احیاھا، 4/ 358، الحدیث: 6871) (صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)

2- اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جانا : حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: "اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے"۔ (معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول۔ صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)

3- قاتل اور مقتول دونوں جہنمی: حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: "جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا"۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31۔ صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)

4- قاتل اللّٰہ عزوجل کی رحمت سے محروم : حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: "جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے"۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620۔ (صراط الجنان جلد 4، سورۃ النساء، آیت 93، ص99)

5- دین کی وسعت میں رہنا: حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہےکہ سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : "مومن ہمیشہ اپنے دِین کی وُسعت اور کشادگی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ ناحق قتل نہ کرے".(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ: ومن یقتل مؤمنا۔۔۔الخ، 4/ 356، حدیث:6862۔ 76 کبیرہ گناہ، ص23)

ناحق قتل کرنے تک دِین میں وُسعت:عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی فرماتے ہیں : "اِس کےدو معنی ہیں : (1) جب کوئی شخص کسی جان کو ناحق قتل کردےتو جان بوجھ کر قتل کرنےکی وعید کے سبب اُس کا دِین اُس پر تنگ ہوجاتا ہے ، قتل سے قبل اُس کا دِین اُس پر وسیع ہوتاہے۔ (2) ناحق قتل کرنےوالا شخص اپنے اس گناہ کی وجہ سے تنگی میں رہتا ہے ، ناحق قتل کرنے سےقبل وہ وُسعت میں ہوتا ہے".

دِین میں کشادگی سے مراد :عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : جب تک بندہ ناحق خون نہ بہائے وہ اپنے دِین کی وُسعت میں ہوتا ہے اور اسے اپنے ربّ سے رحمت کی امید ہوتی ہے۔

قارئین کرام احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتلِ ناحق کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی کس قدر بڑی سزا ہے۔ ناحق قتل کرنے والا اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ جب بندہ ناحق قتل ، شراب وغیرہ گناہوں میں پڑتا ہے تو شیطان اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہے اور پھر اسے ہر شر کی طرف لے جاتا ہے اور ہر بھلائی سے پھیر دیتا ہے۔

قارئین کرام آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ جس کو دل کرتا ہے قتل کردیتا ہے، کہیں سیاسی وجوہات سے، تو کہیں علاقائی اور صوبائی تَعَصُّب کی وجہ سے، یونہی کہیں زبان کے نام پر ان میں سے کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ قتل کی اجازت صرف مخصوص صورتوں میں حاکمِ اسلام کو ہے اور کسی کو نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی صحبت اچھی رکھیں، بُرے دوستوں کی صحبت سے بچے، اور لوگوں کو قتلِ ناحق کی وعید سنائے۔

اللہ تعالی ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اے عاشقان رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل از زمانہ ،زمانہ جاہلیت تھا چاروں طرف جہالت پھیلی ہوئی تھی پورے معاشرے میں جنگل کا قانون تھا یعنی کسی کی جان و مال و خاندان اور عزت کی حفاظت نہ تھی ۔اس معاشرے میں دو لوگوں کے درمیان ہونے والی چھوٹی سے لڑائی کا انجام بسا اوقات کئی قبیلوں میں جنگ کی صورت میں نظر آتا ہے اور بدلے اور لڑائی میں سینکڑوں لوگ ناحق قتل ہو جاتے تھے پھر آقا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے وہی بدمعاش معاشرہ امن کا گہوارہ بن گیا اور اس نے دوسرے انسانوں کی عزت و مال و جان کی حفاظت کو اپنے اوپر لازم کر لیا

قتل ناحق کی آسان تعریف: جس شخص کو اسلام نے شرعاً کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے سے منع کیا ہو خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اس کو قتل کرنا قتل ناحق کہلاتا ہے ۔

چار یاران نبی علیہ السلام کی نسبت سے قتل ناحق احادیث کی مذمت میں 4 احادیث پاک ملاحظہ ہوں

(1) حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ ۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4/ 358، الحدیث 6871)

اس حدیث پاک سے واضح ہو جاتا ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے لہذا ہمیں خود کو اور دوسروں کو اس کبیرہ گناہ سے بچانے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے ۔

(2) حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205، الجزء الاول)

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ دنیا میں لوگوں کو ناحق قتل کرنے والے کل بروز قیامت خسارے میں ہوں گے لہذا ہم سب پر لازم ہے کہ ہم غصے اور لڑائی جھگڑوں سے دور رہیں تاکہ اس مہلک اور خطرناک گناہ قتلِ ناحق سے بچ سکیں

(3) حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو اس حدیث پاک میں ہمارے لیے نصیحت حاصل کرنے کے بے شمار مدنی پھول ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ناحق قتل کرنے والے جہنم کےحقدار ہیں

(4)حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔ ‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کردہ حدیث پاک سے ہمیں درس عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے میں مدد کرنے والوں کی دونوں آنکھوں کے درمیان قیامت میں لکھا جائے گا کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے ۔پیارے پیارے اسلامی بھائیو کتنا ہی بد بخت ہے وہ مسلمان جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے اور جس کی پیشانی پر لکھ دیا جائے کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے اس کا کل بروز قیامت کیا حال ہو گا اللہ کی پناہ۔

میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیو گزشتہ ذکر کردہ احادیث پاک سے یہ بات آپ پر شیشے کی طرح صاف ہو گئی ہو گی کہ کسی کو ناحق قتل کرنا کس قدر اخلاقی اور شرعی طور پر برا کام ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔آج کل ہمارے معاشرے میں معمولی سی لڑائی ،گالی گلوچ اور فقط طعنے بازی سے چلتے چلتے بات قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے آئیے اہتمام میں آپ کے ساتھ قتل ناحق کے ارتکاب کا شرعی حکم بھی عرض کرتا چلوں

اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا

اللہ کریم کی بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ حضور سیدی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں قتل و غارت سے کوسوں دور رہنے کی توفیق عنایت فرمائے اور دعوت اسلامی کے دینی ماحول اور ولی کامل مرشدی و سیدی امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی صحبت بابرکت نصیب فرمائے آمین ثم آمین بجاہ خاتم النبیین الامین صلی اللہ علیہ وسلم ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیوں ناحق قتل کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے کہ حدیث مبارکہ میں اس کی بہت ساری مذمت کی گئی ہے ہم اس مضمون میں ناحق قتل کے متعلق کچھ احادیث مبارکہ نقل کرتے ہیں۔چنانچہ

1۔۔وَ عَنْ اَبِی سَعِیْدٍ وَ اَبِی ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ :(لَوْاَنَّ اَھْلَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ الشْتَرَکُوْا فِی دَمِ مُوْمِنٍ لَاَکَبَّھُمُ اللّٰہُ فِی النَّارِ حضرت ابو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر زمین و اسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالی انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے۔ (مشکاۃالمصابیح ،جلد دوم،صفحہ نمبر309/310،حدیث نمبر3311)

2۔۔۔وَعَنْ ابْنِِ عُمَرَ قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛(لَنْ یَزَالَ الْمُوْمِنُ فِیْ فُسْحَۃٍ مِنْ دِیْنِہِ مَا لَمْ یُصِبْ دَمًا حَرَامًا

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مسلمان اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے جب تک کہ حرام خون نہ کرے۔ (مشکاۃالمصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر 308،حدیث نمبر3297)

یعنی مسلمان ادمی کیسا ہی گنہگار ہو مگر وہ اسلام کی گنجائش رحمت الہی کی وسعت میں رہتا ہے اللہ سے نا امید نہیں ہوتا مگر قاتل ظالم اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں رہتا کل قیامت میں اس طرح ائے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا (آیس من رحمۃ اللہ )حدیث شریف میں ہے کہ جو قتل مومن میں ادھی بات سے بھی مدد کرے وہ بھی رب تعالی کی رحمت سے مایوس ہے بعض نے فرمایا کہ ظالم قاتل کو دنیا میں نیک اعمال کی توفیق نہیں ملتی۔

3۔۔وَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛اَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْ الدِّمَاءِ0 روایت ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کے قیامت کے دن سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ (مشکوۃ المصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر308 حدیث نمبر 3298)

وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ اَعَانَ عَلَی قَتْلِ مُوْمِنٍ شَطْرَ کَلِمَۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ آیسُ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ

حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو کوئ مسلمان کے قتل میں آدھی بات سے بھی مدد کی تو وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے نا امید۔

(مشکاۃالمصابیح،جلد دوم، صفحہ نمبر311،حدیث نمبر 3328)

5۔۔ وَعَنِ الْمِقْدَادِبْنِ الْاَسْوَدِ اَنَّہُ قَالَ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَاَیْتَ اِنِّ لَقِیْتُ رَجُلًامِنَ الْکُفَّارِفَاقْتَتَلْنَا فَضَرَبَ اِحْدَی یَدَیَّ بِالسَّیْفِ فقطعھما ثُمَّ لَاذَ مِنِّی بِشَجَرَۃِ فَقَالَ:اَسْلَمْتُ لِلّٰہِ وَفِی رِوَایَۃٍ: فَلَمَّااَھْوَیْتُ لِاَقْتُلَہُ قَالَ:لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَاَقْتُلُہُ بَعْدَ اَنْ قَالَھَا؟قَالَ(لَا تَقْتُلْہُ)فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّہُ قَطَعَ اِحْدَی یَدَیَّ فَقَالَ:رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(لَا تَقْتُلْہُ فَاِنْ قَتَلْتَہُ فَاِنَّہُ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ اَنْ تَقْتُلَہُ وَاِنَّکَ بِمَنْزِلَتَہُ قَبْلَ اَنْ یَقُوْلَ کَلِمَتَہُ الَّتِی قَالَ

روایت ہے حضرت مقداد ابن اسود سےانہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فرمائیے اگر میں کسی کافر ادمی سے ملوں پھر ہم جنگ کریں تو وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ دےپھر وہ مجھ سے کسی درخت کی پناہ لے لے پھر کہے کہ میں اللہ کے لیے اسلام لے ایا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب میں نے اسے قتل کرنا چاہا تو وہ بولا لا الہ الا اللہ تو اس کے کہنے کے بعد میں اسے قتل کر دوں? فرمایا قتل نہ کرو پس وہ بولے یا رسول اللہ اس نے میرا ایک ہاتھ کاٹ دیا ہےتو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا .مت قتل کرواگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے درجے میں ہوگا جو قتل کرنے سے پہلے تمہارا تھا اور تم اس کے درجے میں ہو جو اس کے کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا۔(مشکاۃالمصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر308،حدیث نمبر3299)

پیارے اسلامی بھائیوں درج ذیل احادیث مبارکہ میں ناحق قتل کے متعلق سنا کہ ناحق قتل کتنا برا جرم ہے اللہ پاک تمام مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ناحق قتل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اِسلام تکریم اِنسانیت کا دین ہے، یہ اپنے ماننے والوں کو نہ صرف امن و امان، تحمل و برداشت کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے مال و جان کی حفاظت کا حکم بھی دیتا ہے، دین اسلام میں انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے ، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں

(1)مالک کائنات عزوجل کا فرمان ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(نساء:93) ترجمۂ کنز العرفان اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

(2) دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (مائدہ:32 ) ترجمہ کنزالعرفان : جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔

یہ آیتِ مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا لگاتے ہیں۔

قتل ناحق کی مذمت پر (5) فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

(5)... حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3 / 261، الحدیث: 2619)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، جس کا دل کرتا ہے وہ بندوق اٹھاتا ہے اور جس کو دل کرتا ہے قتل کردیتا ہے، کہیں سیاسی وجوہات سے، تو کہیں علاقائی اور صوبائی تَعَصُّب کی وجہ سے، یونہی کہیں زبان کے نام پر تو کہیں فرقہ بندی کے نام پر۔

اللہ پاک ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب فرماۓ اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی کو ناحق قتل کرنے پر بہت سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں اور امت کو اس سنگین گناہ سے باز رہنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے۔

حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے کے لیے ایسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسے تمہارے اس مہینے (ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) اور تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ تم سب اپنے پروردگار سے جاکر ملو گے، پھر وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ لہٰذا میرے بعد پلٹ کر ایسے کافر یا گم راہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘ (صحیح بخاری۔ باب حجۃالوداع)

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: ﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی انسان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی بات کہنا۔‘‘ (صحیح بخاری)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض‘‘ (سنن ابی داؤد: 4270)

حضرت ابودردا رضی اللہ تعالی عنہسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہوگیا ہو یا جس نے عمدا ًکسی مومن کو قتل کیا ہو‘‘(سنن ابی دائود)۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ(قتل ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے (صحیح البخاری: 7072)۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، حتی کہ وہ اسے رکھ دے (صحیح مسلم 2616)۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ناحق اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے سے محفوظ فرمائے امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ابھی ہم انشاءاللہ ناحق قتل کرنے پہ پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے کیونکہ اسلام کی تعلیمات میں انسانی جان کی حرمت بہت زیادہ ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے آج ہمارہ معاشرہ سینکڑوں برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اجتماعی طور پر خود کو شریعت سے دور کر لیا ہے۔ اگرچہ انفرادی طور پر ہمارے معاشرے میں اب بھی خیر موجود ہے۔معاشرتی طور پر جو برائیاں اور جرائم عروج پکڑ رہے ہیں ، اُن میں ایک کسی انسان کو ناحق قتل کرنا بھی ہے۔ اب لوگوں کے ہاں کسی دوسرے کو قتل کرنا معمولی ہوتا جارہا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ہو جس دن ملک کے اندر لوگوں کی ایک تعداد قتل نہ ہو رہی ہو۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعہ روزانہ کی بنیاد پر قتل کی خبریں ملتی ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں اسے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ شمار کیا گیا اوراس کی حرمت پر کثیر آیات و احادیث وارد ہیں۔

میرے عزیز یاد رکھ!اسلام اپنے ماننے والوں کو محبت ، اخوت، تحمل و برداشت اور عزت و احترام کا درس دیتا ہے۔ اسلام میں انسانی جان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اور اہمیت کیوں نہ ہو کہ انسان ہی تو خلیفۃ الارض ہے۔دنیا میں رہنے والے وہ تمام افراد جو اسلام کو ماننے والے ہیں۔ اللہ اور اُس کے رسول صلى الله عَلَيْهِ وَالہ وسلم نے انھیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا ہے۔ اب وہ ایک ہی جگہ رہتے ہوں یا ان میں سے ایک مشرق میں اور دوسرا مغرب میں ہو پھر بھی وہ بھائی چارگی کے رشتہ میں قائم ہیں مگر ہم اس چیز کو نہیں سمجھ رہے آپ نے کٸ مرتبہ سنا اور پڑھا ہو گا کہ کعبہ بہت عظمت والا ہے اس کی بڑی شان ہے مگر یہاں پہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ، وَيَقُولُ: مَا أطيبك وأطيب رِيحَكِ، مَا أَعْظَمَكِ وأعظم حرمتك، والذي نفس محمد بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِندَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ، مَالِهِ، وَدَمِهِ، وَأَنْ تَظُنُّ بِهِ إلا خيرا.میں نے رسول الله صلى الله عَلَيْهِ وآلہ وسلم کو کعبة اللہ کا طواف کرتے دیکھا اور اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرما رہے تھے: (اے کعبہ !) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے۔ تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظمت والی ہے۔ اُس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلى الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم کی جان ہے، اللہ کےنزدیک مومن کے مال و خون کی حرمت تیری حرمت سے کہیں زیادہ ہے۔ اور ہمیں مومن کے ساتھ اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے۔ ( ابن ماجه، السنن، ج 3، ابواب الفتن، الرقم: 3961)

اب دیکھیں یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مومن کے خون کی حرمت کو کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ فرمارہے ہے اور ایک ہم ہے کہ ہم ناحق قتل کرتے ہے۔پوری دنیا اگر ایک ہی لمحے میں تباہ ہو جائے تو یہ تصور ہی انسان کو اندر سے ہلانے کے لیے کافی ہے۔ اور اللہ کے نزدیک اس پوری دنیا کا تباہ ہو جانا کسی انسان کے ناحق قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے:لزوال الدُّنيا أَهُونُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَبْلِ مُؤْمِنٍ بغير حق. ساری دنیا کا تباہ ہو جانا اللہ کے نزدیک مومن کے ناحق قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔ ( قزويني، السنن ، ج 3 ، كتاب الديات ، الرقم : 2628)

اور ہم جو عبادات و ریاضات کرتے ہے اس کی کیا وجہ ہے بس یہی کہ اللہ پاک اس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیں جبکہ ہم جب ناحق قتل کرتے ہے تو اس پراپنی واہ واہ چاہ رہے ہوتے ہے اوراس قتل پہ خوش بھی ہو رہے ہوتے ہے جبکہ کسی ۔ مومن کا ناحق قتل اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ رب العزت قاتل کی عبادات قبول نہیں کرتا۔

چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے رسول الله صلى الله علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

من قتل مؤمناً، فاغتبط بقتله، لم يقبل الله منه صرفاً ولا عدلاً جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور پھر اس کے قتل پر خوش ہوا، اللہ تعالیٰ اس کی فرض اور نفلی عبادت قبول نہیں کرے گا۔ (سجستانی، السنن، ج 6، کتاب الفتن، الرقم : 4221)

تو ہمیں ان احادیث سے پتہ چلا کہ ناحق قتل کرنے سے ہماری عبادات قبول نہیں کی جاۓ گٸ ۔ ناحق قتل کرنا ساری دنیا کے تباہ ہو جانے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اور کعبتہ اللہ کی بہت زیادہ شان و عظمت ہے مگر مومن کی عظمت اس سے بھی زیادہ ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو ناحق قتل کرنے سے محفوظ رکھے۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اور محترم اسلامی بھائیو ایک مومن مسلمان فضیلت والے اعمال سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ قبیح اور برے کاموں سے بھی بچتے ہیں جیسے وہ کسی کو ایذا نہیں دیتے کسی کو قتل ناحق نہیں کرتے ۔

قتل ناحق کی احادیث میں بہت مذمت کی گئی ہے آئیے چند احادیث پڑھ کر اپنے آپ کو اس گناہ سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں

(1)اللہ کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔۔ ان گناہوں میں سے رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قتل ناحق کو بھی شمار فرمایا۔ ( مسلم کتاب الایمان، باب بیان الکبائر و اکبرھا صفحہ 60،حدیث89)

اس حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوئی کسی کو قتل ناحق نہیں کرنا چاہیے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ۔

(2)نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو ۔ ( بخاری کتاب العلم باب الانصات للعلماء 1 صفحہ 63 حدیث 121)

اس حدیث پاک کی مختلف تاویلیں کی گئی ہیں اظہر قول کے مطابق معنی یہ ہیں کہ یہ فعل یعنی ایک دوسرے کو قتل کرنا کفار کے افعال کی طرح ہے ۔

(3)حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ عزوجل کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے ۔ ( نسائی کتاب تحریم الدم، باب تعظیم الدم، صفحہ 652،حدیث 3992)

(4)حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا بڑے گناہوں میں سے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ناحق قتل کرنا والدین کی نافرمانی ہے ۔ ( بخاری،کتاب الایمان والنذور، باب الیمین الغموس،4 صفحہ 295 حدیث 6675)

(5)نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے آدھے کلمے کے ذریعے بھی کسی مسلمان کے قتل پر مدد کی وہ اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ شخص رحمت الہی سے مایوس ہے ۔ (ابن ماجہ ،کتاب الدیات،باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما،3 صفحہ 262 حدیث 2620)

(6)اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کا ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا ۔حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا ۔ (معجم صغیر باب العین من اسمہ علی صفحہ 205 الجز الاول)

(7)حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ارشاد فرمایا اس لیے کہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر حریص ہوتا ہے ۔( بخاری، کتاب الایمان ،باب و ان طائفتان من المؤمنین الخ 1 صفحہ 23 حدیث 31)

دیکھا آپ نے پیارے اسلامی بھائیو قتل ناحق کی احادیث میں کتنی مذمت بیان کی گئی ہے مگر افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے

اللہ کریم کی بلند بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں دیگر گناہوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ قتل ناحق جیسے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ترجمۂ کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی گئی ہے مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت میں جو احادیث مبارکہ وارد ہوئیں وہ تو بہت ہیں البتہ ان میں سے چند درج ذیل ہیں

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاھا،385/4.حدیث6871)

2۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی رسول ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مروی ہے،اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،1 / 23حدیث 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے،اللہ پک کے آخری نبی رسول عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا،262/3. حدیث 2620)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

مسلمانوں کا باہمی تعلق کیساہونا چاہئے؟ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق کیسا ہونا چاہئے، اس بارے میں 5 احادیث پیش کرتا ہوں۔

(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاسے مروی ہے، حضورِ پر نور شافع یوم النشور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون۔۔۔ الخ، 15/1 حدیث 10)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسندکرتا ہے۔(بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ۔۔۔ الخ، 14/1 الحدیث: 13)

(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے ۔ تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا۔ انسان کے لیے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ۔ مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے ، اس کا خون، اس کا مال، اس کی آبرو۔ یعنی عزت (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ ص1484 حدیث: 32.(2564)

(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے مروی ہے ,اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی ،محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ و ہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ دے اور بری باتوں سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان369/3 حدیث: 1928)

(5)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان : مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ ، ص52،حدیث 116(62)

مسلمان کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔

اس سے ثابت ہوا کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ناجائز و گناہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے لھذا اپنے آپ کو اللہ پاک کی بے نیازی سے ڈراتے ہوئے جس نے یہ فعل قبیح کیا وہ توبہ بھی کرے اور آئندہ اپنے آپ کو سنتوں کا پابند بنانے کی کوشش کرتا رہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سنتوں کا عامل بنائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس گناہ کبیرہ سے بچنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے محبوبِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ابن ابی لیلیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے یہ لائق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوف زدہ کرے (صحیح بی داد 5004)

محبوبِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مسلمان بھائی کو صرف خوف زدہ کرنے سے بھی منع فرمایا : تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من قتل معاہداً لم یرح رائحة الجنة، وإن ريحها لتوجد من مسیرة أربعین عامًا، وإن الجنة لا یدخلها قتلي" (صحیح بخاری) "جو شخص معاہدہ کر کے کسی کو قتل کرے، وہ جنت کی خوشبو نہیں سمتا، حتی کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے، اور جنت میں اس کا دخول ہوتا ہے۔"

مومن کے خون کی اہمیت کا اندازہ: حضور جان کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نے فرمایا: ’’اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا‘‘(صحیح الترمذی : 139)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔

حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا (صحیح البخاری: 7080)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے (صحیح البخاری : 1739)۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (اسے ہر وقت مغفرت کی امید رہتی ہے) جب تک ناحق خون نہ کرے جہاں ناحق کیا تو مغفرت کا دروازہ تنگ ہو جاتا ہے۔ (صحیح البخاری 6862)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہلاک کرنے والے وہ امور کہ جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، ان میں سے ایک وہ ناحق خون کرنا ہے، جس کو اللہ تعالی نے حرام کیا ہے۔ (صحیح البخاری 6863)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔

اللہ پاک اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں حضور علیہ سلام کے ارشادات پے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ کریم عزوجل ہمارے ہاتھ اور زبان کی شر سے دوسرے مسلمانوں کو محفوظ فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔