وقاص احمد(درجہ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان حسن و
جمالِ مصطفیٰ کراچی پاکستان)
الله پاک کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے کئی ذرائع ہیں ۔
جن میں سے ایک نماز بھی ہے اور نماز نمازِ با جماعت ہو۔ اس کی اہمیت اور تاکید قراٰنِ
مجید اور کئی احادیث مبارکہ میں واضح ہے۔ چنانچہ نماز با جماعت الله پاک کے پیارے
کلام قراٰن مجید کے ذریعے ثابت ہونے والے حکم پر اور احادیث طیبہ پر عمل پیرا ہونے
کا ایک عظیم ذریعہ ہے ۔ الله پاک قراٰن مجید سورۃُ البقرہ کی آیت نمبر 43 میں
ارشاد فرماتا ہے : وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ
کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43) حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس (
یعنی اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا
کرو، کیونکہ جماعت کی نما ز تنہا نماز پرستائیس درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، 1/330)
بیان کردہ آیت میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی ترغیب ہے
اور احادیث طیبہ میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل وارد ہوئے ہیں ۔
نمازِ با جماعت وہ عظیم عبادت ہے کہ جو گناہوں کی بخشش کا سبب ہے ۔ چنانچہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے
کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ
بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727)
غور کیجیے کہ اللہ پاک جماعت سے نماز پڑھنے والے کے گناہوں
کو معاف فرما دیتا۔ نماز با جماعت وہ خوبصورت عبادت ہے کہ جس کے کرنے سے ( یعنی
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے ) اُس کے کرنے والے کو اللہ پاک اپنا محبوب یعنی
پیارا بنا رہتا ہے۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے
سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند
احمد بن حنبل، 2/309 ،حدیث:5112)
سبحان الله ! آج ہم تمنا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہم سے راضی
ہو جائے ۔ لیکن اللہ پاک کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ پاک کو راضی
کرنے اور اس کا پیارا بننے کا ذریعہ بتا دیا ۔ وہ ذریعہ نمازِ با جماعت ہے۔
حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا
سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے
واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/299،حدیث: 10591)
اے عاشقان نماز ! بے شک حاجت پوری ہونے کے لیے صلاۃ الحاجات
پڑھنا اور دیگر اوراد وظائف کرنا بہت اچھی بات ہے مگر جماعت سے نماز فرض ادا کر کے
اپنی حاجت کے لیے دعا مانگنا یہ بہترین عمل ہے ۔ کیونکہ صلا ۃ الحاجات واجب نہیں
مگر جماعت سے فرض نماز پڑھنا واجب ہے۔
علامہ سیِّد محمود احمد رضوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں
:ہر عاقل، بالغ ،حُر(یعنی آزاد) اور قادِر(یعنی جو قدرَت رکھتا ہو) مسلمان
(مرد)پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور بلا عذر(یعنی بغیر کسی مجبوری کے) ایک
بار بھی جماعت چھوڑنے والا گنہگارہے اور کئی بار ترک فسق ہے حضور سیِّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
عُمومی عمل یہ ہی تھا کہ آپ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے اِلَّا (یعنی مگر) یہ
کہ کوئی مجبوری پیش آجاتی۔(فیوض الباری ج ۳ص ۲۹۷ بتغیر قلیل)
لہذا ! ہم میں سے
ہر ایک کو اپنے اوپر غور کرنا چاہیے اور نمازِ با جماعت کی پابندی کرنی چاہیے ۔ اللہ
پاک ہمیں نمازِ با جماعت کی تو فیق عطا فرمائے۔ اٰمین