نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے اسمائے پاک بےشمار ہیں۔اسما کا کثیر ہونا صفات کی کثرت کی وجہ سے ہوتا ہے۔قرآنِ پاک میں اللہ پاک نے اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا کثیر اسمائے مبارکہ سے نام رکھا جن میں سے دس اسمائے پاک درج ذیل ہیں:1۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:محمد وہ ہے،جس کی بہت زیادہ حمد کی جائے بوجہ اس کی کثرتِ خصال کے۔(تفسیرروح البیان، پارہ 22، ص 57، مکتبہ غوثیہ)فضیلت: سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس کے لڑکا پیدا ہوا اور وہ میری محبت اور میرے نامِ پاک سے تبرک کیلئے اس کا نام محمد رکھے، وہ اور اس کا لڑکا دونوں بہشت میں جائیں۔(فتاویٰ رضویہ، 15/280، مکتبہ غوثیہ بحوالہ کنز العمال، 16/422،حدیث:45223)مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے سارے حروف کے بے نقطہ ہونے میں راز:کلمہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے سب حروف بے نقطہ ہیں۔اس میں علمائے عجم نے ایک لطیفہ لکھا ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے جسم پر مکھی نہ بیٹھتی تھی، لہٰذا یہ کلمہ پاک کلی نقطوں سے محفوظ رہا کہ وہ شبیہ مکھیوں کے ہیں۔ (فتاوی رضویہ،19/ 373، مکتبہ غوثیہ)2۔احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:احمد کا معنی ہے:بہت ہی حمد فرمانے والے۔(مراة المناجیح،8/48، قادری پبلشرز) آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(ربّ کریم کی) سب سے زیادہ حمد کرنے والے ہیں۔(تفسیر مظہری،9/ 383، ضیاء القرآن پبلیکیشنز)خصوصیت:نام محمد و احمد کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ کے نامِ مبارک کی ایسی حفاظت فرمائی کہ کسی نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانہ اقدس سے پہلے یہ دونوں نام نہیں رکھے۔(شفا شریف، 1/208، کتب خانہ امام احمد رضا)رَحْمَةٌ لِّلْعٰلَمِیْن:عالم میں جتنی چیزیں داخل ہیں، سیدِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمان سب کیلئے رحمت ہیں۔(صراط الجنان،6/ 386،مکتبۃ المدینہ) رب کی صفت رَبُّ الْعٰلَمِیۡن اور حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی صفت ہے رَحْمَةٌ لِّلْعٰلَمِیْن ، یعنی جس کا خدا پاک ربّ ہے، اس کیلئے حضور علیہ الصلوة والسلام رحمت ہیں۔(شانِ حبیب الرحمن، ص 157، حسن پبلیشرز)خَاتَمُ النَّبِیّٖن:ختم کا معنی ہے:ما یطبع بہ(وہ شے جس سے مہر لگائی جائے) اب معنی یہ ہوا کہ حضور علیہ الصلوة والسلام وہ ذات ہیں،جن سے انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر مہر لگادی گئی کہ آپ پر نبوت ختم ہوگئی،آپ آخری نبی ہیں۔(تفسیرروح البیان، پارہ 22، ص 65، مکتبہ غوثیہ)حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ:حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ کا معنی ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں تمہیں بھلائی پہنچانے پر حریص ہیں۔ (تفسیرصراط الجنان، 273/4، مکتبۃ المدینہ) کوئی اپنی اولاد کے آرام کا حریص ہوتا ہے، کوئی اپنی عزت کا، مگر محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنہ اولاد کے،نہ اپنے آرام کے،بلکہ تمہارے حریص ہیں،اسی لئے ولادتِ پاک معراج، حتی کہ بوقتِ وصال بھی ہمیں یاد فرمایا۔(شانِ حبیب الرحمن،ص 120، حسن پبلشرز)اَلْقَلَم:قلم بھی سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا نامِ پاک ہے، آپ علیہ الصلوة والسلام کو قلم اس لئے کہتے ہیں کہ جیسے تحریر سے پہلے قلم ہوتا ہے، ایسے ہی عالم سے پہلے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہوئے۔(شانِ حبیب الرحمن،ص 268، حسن پبلشرز)سِرَاجًا مُّنِیْرًا:سراج منیر بھی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا اسمِ گرامی ہے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ الصلوة و السلام کو چمکادینے والا آفتاب بناکر بھیجا۔(تفسیرصراط الجنان،8/ 59)حقیقت میں آپ کا وجودِ مبارک ایسا آفتاب عالمِ تاب ہے، جس نے ہزارہا آفتاب بنادئیے اسی لئے اس کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا۔(تفسیرصراط الجنان،8/ 60)اَلنَّجْم:نجم بھی حضور علیہ الصلوة و السلام کا نامِ نامی ہے،ربِّ کریم ارشاد فرماتا ہے:وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی(پ27،النجم:1) آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ اس پیارے چمکتے تارے محمد مصطفیٰ (صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم) کی قسم! جب وہ معراج کی رات آسمانوں سے اترے۔(تفسیرصراط الجنان،9/ 545)اَوْلٰی:اسمِ مبارک اَولیٰ کے معنی ہیں،نزدیک تر۔(شانِ حبیب الرحمن،ص 178،حسن پبلشرز)دنیا میں سب سے زیادہ قریب ہماری جان ہے۔ اگر جسم کو ذرا بھی تکلیف پہنچ جاوے تو روح کو خبر ہوجاتی ہے اور جان سے بھی زیادہ قریب مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہیں۔(شانِ حبیب الرحمن،ص 179، حسن پبلشرز)10۔بُرہان:بُرہان کے معنی دلیل،جس سے دعوے کو مضبوط کیا جاتا ہے، یہاں دلیل سے مراد معجزات ہیں،جس قدر معجزے پہلے پیغمبروں کو ملے، وہ سب کے سب حضور علیہ الصلوة والسلام کو عطا ہوئے اور اس کے علاوہ اور بےشمار معجزات ملے،بلکہ حق تو یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوة والسلام اَز سر تا قدمِ پاک خود اللہ کی وحدانیت کی دلیل ہیں،لہٰذا بُرہان سے مراد حضور علیہ الصلوة و السلام کی ذاتِ پاک ہے۔(شانِ حبیب الرحمن،ص 71)

دئیے معجزے انبیاء کو خدا نے ہمارا نبی معجزہ بن کے آیا