نبی مکرم، معلم اعظم ﷺ کے جس جس اندازِتربیت میں سامعین و مخاطبین کو سوال کرنے کی تحریک و تحریص ملتی تھی ان میں سے چند کا ذکر گزشتہ مضامین میں ہوا، مزید یہاں ملاحظہ کیجئے چنانچہ

کوئی غیر معروف عمل کرنا اور ناظرین کا سوال کرنا

سنن ابوداؤد میں حضرت سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ

کہ رسولِ مکرم ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔

محترم قارئین! حدیث پاک کے راوی حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اس سے پہلے کبھی موزوں پر مسح کرتے نہ دیکھا تھا، چنانچہ یہ ایک غیرمعروف عمل دیکھ کر کچھ متجسس ہوئے اور عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَسِيتَ؟

یارسول اللہ! کیا آپ بھول گئے؟

کریم و رحیم معلم عظیم ﷺ نے فرمایا:

بَلْ أَنْتَ نَسِيتَ، بِهَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ

بلکہ تم بھول گئے مجھے میرے رب عزوجل نے اسی کا حکم دیا ہے۔(سنن ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، جلد1، صفحہ86، حدیث:156)

اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ سے بھی ایک روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ

نبی مکرم ﷺدو قبروں کے پاس سے گزرےتو فرمایا : یہ دونوں( قَبْر والے) عذاب دیئے جارہے ہیں اور کسی بڑی چیزمیں (جس سے بچنا دشوار ہو) عذاب نہیں دیئے جارہے بلکہ ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ اور دوسرا چُغل خوری کیا کرتا تھا پھر آپ ﷺ نے کھجور کی تازہ ٹہنی منگوائی اوراسے آدھوں آدھ چِیرا اور ہر ایک کی قَبْر پر ایک ایک حصّہ گاڑ دیا۔

یوں سبز ٹہنی قبر پر گاڑنا ایک غیر معروف عمل تھا، چنانچہ صحابہ کرام نے عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟

یارسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟

تو ارشاد فرمایا :

لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا

جب تک یہ خشک نہ ہوں تب تک ان دونوں کے عذاب میں تَخفِیف ہوگی۔(صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب ماجاء فی غسل البول، جلد1، صفحہ96، حدیث:218)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بڑا ہی ایمان افروز منظر بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسولِ کریم ﷺکے ساتھ تھے کہ بارش برسی، رسولِ کریم ﷺ نے اپنا کپڑا شریف ہٹادیا یہاں تک کہ آپ پر کچھ بارش پڑگئی ۔

ہم نے عرض کیا :

يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟

یارسول اﷲ !آپ نے یہ کیوں کیا؟

ارشاد فرمایا: یہ بارش ابھی اپنے رب کے پاس سے آئی ہے۔(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ الاستسقاء، باب الدعا فی الاستسقاء، صفحہ348، حدیث:2083)

اس حديث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

(رسول اللہ ﷺ نے ) اپنا سر اور سینہ مبارک کھول کر کچھ قطرے ان اعضاء پرلیئے اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ یہ پانی ابھی عالَم قدس سے آیا ہے،جس میں اِس عالَم کے اجزاء ابھی تک نہیں ملے،لہذا برکت والا ہے اس سے برکت حاصل کرو۔بعض حضرات حج سے آنے والوں کے ہاتھ پاؤں چومتے ہیں اور انکے بدن سے اپنے کپڑے لگاتے ہیں،بعض صوفیاء بیماروں کےلیئے نقش لکھ کر بارش کے پانی سے دھلواکر پلواتے ہیں،ان سب کی اصل یہ حدیث ہے،بارش کے وقت اور کعبہ کو دیکھ کر دعا مانگنا سنت ہے۔(مراٰۃ المناجیح، جلد2، صفحہ392)

قارئین کرام!ان تمام امثلہ احادیث پر غور کرنے سے واضح ہوتاہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے بات سمجھانے اور تربیت کرنے کے لئے کیسے کیسے دلنشین انداز اختیار فرمائے ہیں، اللہ کریم پیارے مصطفےٰ ﷺ کے ان مبارک طریقوں کو ہمیں بھی اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین