رسولِ
کریم ﷺ کا مختصر اور مجمل کلام فرمانا اور
سامعین کا سوالات کرنا
معلم اعظم، جنابِ رسولِ اکرم ﷺ کی ذاتِ والا
صفات سے بڑھ کر کائنات میں کوئی ایک بھی ایسی ہستی نہ گزری جس کے اندازِ
تربیت و تفہیم انسانی فطرت کے کثیر تر
پہلوؤں کو محیط ہوں، یہ آپ ﷺ کا امتیازی
اور منفر د ترین وصف ہے، گزشتہ مضامین میں یہ بیان ہوا کہ آپ ﷺ کبھی اچھائی کا ایسا ذکر کرتے کہ سامعین متجسس ہو کر مزید کا
سوال کرتے ، کبھی برائی کا ایسا ذکر کرتے
کہ سامعین مزید وضاحت سننے کے لئے تیار ہوجاتے، اسی طرح ایک اندازِ تفہیم یہ بھی
تھا کہ کوئی مختصر جامع لیکن مجمل کلام
فرماتے جسے سنتے ہی سامعین الرٹ ہوجاتے اور مزید وضاحت کا مطالبہ کرتے جیسا کہ
حضرت سیّدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا:
إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ إِنَّ
الدِّينَ النَّصِيحَةُ إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ
بے شک دین خیرخواہی ہے، بے شک دین خیر خواہی ہے،
بے شک دین خیرخواہی ہے ہیں۔
یہ ایک ایسا کلام ہے کہ سننے والا مزید وضاحت چاہتا ہے، چنانچہ
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا :
لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟
یارسول اللہ !(دین ) کس کے لئے خیرخواہی ہے؟
تو آپ ﷺ
نے ارشاد فرمایا :
لِلَّهِ وَكِتَابِهِ وَرَسُولِهِ،
وَأَئِمَّةِ الْمُؤْمِنِينَ، وَعَامَّتِهِمْ،
اللہ تعالیٰ
، اس کی کتاب، اس کے رسولﷺ،ائمہ مسلمین اور عام مسلمانوں کے لئے ۔
اس حدیث پاک کی شرح میں علمائے کرام فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے لیے خیرخواہی کا معنی یہ ہے
کہ اللہ تعالیٰ کو تمام خوبیوں کا جامع
ماننا ، تمام عیوب سے پاک ماننا، اللہ تعالیٰ کو معبود برحق اور شریک سے پاک ماننا
، اس کی اطاعت کرنا، اس کی نافرمانی سے اجتناب کرنا ،اس کا شکر ادا کرنا، اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرنا اور اس سےمحبت
کرنا وغیرہ۔
کتابُ اللہ کے لیے خیرخواہی کا معنی یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا یہ
اعتقاد رکھنا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، کوئی اس کی مختصر ترین سورت کی مثل
بھی نہیں لاسکتا ، اس کے احکام پر عمل کرنا ، اس کی تلاوت کرنا وغیرہ، یونہی
اللہ تعالیٰ کی دیگر کتابوں پر بھی ایمان
لانا کتابُ اللہ کے لیے نصیحت کے معنی میں
شامل ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے لئے خیرخواہی کا معنی یہ ہے
کہ اُن کی رسالت کی تصدیق کرنا ، جو کچھ
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے لے کر آئے اس پر ایمان لانا، ان کی اطاعت کرنا، ان کی
تعظیم وتوقیر کرنا ، ان کی سنت پر عمل کرنا اِس کی دعوت کو عام کرنا ، ان سے اور
ان کے صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی
اللہ عنہم سے محبت کرناوغیرہ،
ائمہ مسلمین کے لئے خیرخواہی کا معنی یہ ہے
کہ اگر اس سے مراد حکام کو لیا جائے تو
معنی ہوگا جو کچھ شریعت کے مطابق حکم کریں اس میں ان کی بات ماننا، ان کے خلاف
بغاوت نہ کرنا ، ان کو حق کی تلقین کرنا وغیرہ۔اور علما ہوں تو اس کا معنی ہوگا کہ
شرعی احکام میں ان کی اطاعت کرنا ان کی تعظیم وتکریم کرنا وغیرہ
اور عام مسلمانوں کے لیے خیرخواہی کا معنی یہ ہے
کہ اُن کی دین ودنیا کے بھلائی کے کاموں میں رہنمائی کرنا ، اس کے لیے قول وفعل کے ذریعے
ان کی مدد کرنا ، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنا وغیرہ۔
(جامع
العلوم والحکم، ص106، 107، الفتح المبین،ص 253تا257، المعین علی تفہم الاربعین، ص226تا228،)
ایک
خاص طبقہ کو مخاطب کرکے انجام بیان کرنا اور اس پر ہونے والے سوالات کا جواب دینا
ناصح و مصلح اور
معلم و مربی کا سب سے بڑا وصف یہی ہوتا ہے کہ وہ گفتگو و نصیحت کے لئے ہمیشہ
ایسا انداز اختیار کرتے جو سامع کو متوجہ
و متنبہ کردے، پیارے رسولِ کریم ﷺ کائنات بھر کے معلمین و مصلحین کے لئے معلم اعظم ہیں، آپ ﷺ کا نصیحت و ہدایت دل میں اتاردینے والا ایک مبارک انداز یہ
بھی ہے کہ آپ ﷺ مخاطبین میں سے ایک طبقہ
یا گروہ کو خاص کرکے انہیں کسی اچھے کا برے انجام کی خبر دیتے ، سننے والے فوراً
متنبہ و متجسس ہو کر سوال کرتے ، جیسا
کہ ایک موقع پر عورتوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:
يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ،
تَصَدَّقْنَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ
اے عَورَتو! صدقہ کیا کرو کیونکہ میں نے اکثر تم
کو جہنَّمی دیکھا ہے۔
جب کسی مخاطب کو کسی برے انجام کا کہا جائے تو لازمی سی بات ہے کہ اسے
تجسس ہوتاہے اور وہ وجہ جاننے کی کوشش کرتاہے، اسی طرح عورتوں نے بھی عرض کیا:
وَبِمَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟
یارسول اللہ!وہ کس سبب سے؟
ارشاد فرمایا:
تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ،
وَتَكْفُرْنَ العَشِيرَ
اس لئے کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اوراپنے شوہر کی
ناشکری کرتی ہو۔(صحیح بخاری، کتاب الحیض، باب ترک الحائض الصوم، جلد1، صفحہ123،
حدیث:304)