کسی  برے مقام یا بدلے کاذکر فرمانا اور لوگوں کا متجسس ہو کر سوال کرنا

معلم اعظم، نبی مکرم ﷺ کے جس اندازِ تکلم سے لوگ مزید طلب علم کی جستجو پاتے تھے اس کی ایک صورت یہ تھی کہ آپ ﷺ کسی بُرے انجام یا بدلے کا ذکر فرماتے تو لوگ اس انجام کی وجہ معلوم کرنے کے لئے تجسس میں سوال کرتے اور رسولِ کریم ﷺ جواب ارشاد فرماتے ہوئے تربیت فرماتےجیسا کہ

اللہ کے غضب کے شکار 4لوگ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَرْبَعَةٌ يُصْبِحُونَ فِي غَضَبِ اللَّهِ، وَيُمْسُونَ فِي سَخَطِ اللَّهِ

چار لوگ ایسے ہیں کہ وہ صبح اللہ کے غضب میں کرتے ہیں اور شام اللہ کی ناراضگی میں۔

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:

مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟

یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟

تو رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(1)عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مرد، (2)مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں، (3)جانور کے ساتھ بدکاری کرنے والے اور (4)مردوں سے بدکاری کرنے والے(المعجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، جلد7، صفحہ63، حدیث:6858)

اللہ کی ناراضگی کے شکار 10افراد

حضور نبی رحمت، شفیع امت ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے دس افراد ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل قیامت کے دن ناراض ہوگا اور ان کے بارے میں جہنم کا حکم فرمائے گا۔

عرض کیا گیا:

يا رسول الله، من هؤلاء؟

یا رسول اللہ !وہ کون ہیں؟

ارشاد فرمایا:

(1) أولهم الشيخ الزاني ان میں سے پہلا شخص بوڑھا زانی ہے ، (2)والإمام الجائر ظالم بادشاہ، (3)ومدمن الخمر شراب کا عادی، (4) ومانع الزكاة زکوٰۃ نہ دینے والا، (5)واكل الربا سود کھانے والا، (6)والذي يطلق ويمسك اپنی بیوی کو طلاق دے کر حرام طریقے سے اپنے پاس رکھنے والا، (7)والذي يحكم بالجور ظلم کا حکم دینے والا، (8)والماشي بالنميمة لوگوں کی چغل خوری کرنے والا، (9)وشاهد الزور جھوٹی گواہی دینے والا، (10) وتارك الصلاة نماز نہ پڑھنے والا اور () والذي ينظر لوالديه بعين الغضب اپنے والدین کو غصے سے دیکھنے والا۔(الزھر الفائح لابن یوسف الجزری، آفات الغفلۃ، صفحہ27)

وہ کم تَر درجہ میں ہوں گے

حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، آپ ﷺ کعبہ معظمہ کے سایہ میں جلوہ گر تھے، جب آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا:

هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ

ربِّ کعبہ کی قسم! وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں ؟

محترم قارئین! غورکیجئے کہ ایک اہم ترین بات سامعین کے دلنشین کرنے کا کیسا انداز تھا ، اس انداز میں کیا کشش تھی خود جنابِ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے الفاظ ملاحظہ کیجئے ، چنانچہ فرماتے ہیں کہ

فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ، فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ، فَقُلْتُ

میں حاضر ہوا اور بیٹھ گیا، لیکن میں ٹھہر نہ سکا پھر میں کھڑا ہوا اور بارگاہِ رسالت میں عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللهِ، فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، مَنْ هُمْ؟

یارسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر قربان، وہ کون لوگ ہیں؟

تو رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

هُمُ الْأَكْثَرُونَ أَمْوَالًا، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا - مِنْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ - وَقَلِيلٌ مَا هُمْ

وہ لوگ جو کثیر مال والے ہیں (وہ قیامت کے دن کم تَر درجہ میں ہوں گے)، سوائے ان کے جنہوں نے اپنے آگے پیچھے، دائیں اور بائیں مال کے بارے میں ایسے اور ایسے اور ایسے کہا (یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے کا کہا) اور وہ بہت کم ہیں۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب تغلیظ عقوبۃ من لایؤدی الزکاۃ، صفحہ385، حدیث:2300)

تین افراد سے اللہ کلام نہ فرمائے گا

حضرت ابوذر غفاری ہی سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

تین افراد کے ساتھ قیامت کے دن اللہ کریم کلام نہ فرمائے گا نہ ہی ان کی طرف نظر فرمائے گا، نہ انہیں پاک فرمائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔

رسولِ کریم ﷺ نے یہ تین بار ارشاد فرمایا

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

خَابُوا وَخَسِرُوا، مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟

وہ خائب و خاسر ہوئے، یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟

ارشاد فرمایا:

الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنفقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ

(تکبر سے ٹخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے والا، دے کر احسان جتلانے والا اور اپنا سامان جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار۔۔الخ، صفحہ65، حدیث:293)