اللہ و الے کون ہیں؟

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ مکرم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ

لوگوں میں سے کچھ لوگ ”اللہ والے“ ہیں۔

کسی کے ”اللہ والا“ ہونے کا زبانِ رسالت سے مژدہ ملنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، پیارے مصطفےٰ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سننے کے بعد لوگوں نے سوال کیا:

مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟

یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟

تو ارشاد فرمایا:

أَهْلُ الْقُرْآنِ هُمْ أَهْلُ اللهِ، وَخَاصَّتُهُ

اہل قرآن(یعنی قرآن پاک حفظ كرنے والے ا وراس پر عمل کرنے والے) وہ لوگ ہیں جو اللہ والے ہیں اور وہ اللہ کے خاص بندے ہیں۔(مسند احمد، مسند المکثرین، مسند انس بن مالک، جلد19، صفحہ305، حدیث:12292،النہایۃ لابن اثیر،جلد1، صفحہ83)

الله كے محبوب چار لوگ

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اللهَ يُحِبُّ مِنْ أَصْحَابِي أَرْبَعَةً أَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ، وَأَمَرَنِي أَنْ أُحِبَّهُمْ

اللہ کریم میرے صحابہ میں سے چار سے محبت فرماتاہے ، اس نے خبر دی ہے کہ وہ ان سے محبت رکھتا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں بھی ان سے محبت رکھوں۔

قارئین کرام! یوں تو رسول کریم ﷺ کے سبھی صحابہ کرام اللہ رب العزّت کے محبوب بندے ہیں جبھی تو قراٰن کریم میں بھی ان کے لئے” و کلا و عداللہ الحسنیٰ“ ارشاد فرمایا ہے۔ البتہ بعض خاص مواقع پر بعض صحابہ کے لئے خصوصی فرمان بھی جاری ہوئے ہیں، جیسا کہ بی بی خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو اللہ کریم نے سلام بھیجا، بی بی عائشہ کی طہارت پر آیات نازل فرمائیں، جناب ابوبکر کو صدیق و عتیق کا لقب دیا وغیرہ۔

بہر حال جب رسولِ کریم ﷺ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تو صحابہ کرام نے عرض کیا:

مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟

یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟

تو ارشاد فرمایا:

إِنَّ عَلِيًّا مِنْهُمْ، وَأَبُو ذَرٍّ الْغِفَارِيُّ، وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَالْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ الْكِنْدِيُّ

علی انہی میں سے ہیں اور(بقیہ تین) ابوذرغفاری اور سلمان فارسی اور مقداد بن اسود الکندی ہیں۔(مسند احمد، تتمہ مسند الانصار، حدیث بریدہ اسلمی، جلد38، صفحہ68)

70ہزار امتی بلاحساب داخل جنت

ایک موقع پر رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ

میری امت میں سے 70ہزار لوگ بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے۔

قارئین کرام! قیامت کے دن دونوں جہاں کا خالق و مالک دنیا میں کئے گئےسبھی اعمال کا حساب لے گا، وہ ایسا دن ہوگا کہ انبیائے کرام علیہم السلام بھی ربّ کریم کا جلال اور خوف اپنے دلوں پر محسوس کر رہے ہوں گے حالانکہ انبیائے کرام یقینی و حتمی طور پر جانتے ہیں کہ وہ قطعی جنتی ہیں، قیامت کی دن کی یہ کیفیت جاننے والے ہر شخص کے ذہن میں ضرور آتا ہے کہ پتا تو چلے آخر وہ کون ہیں جنہیں بلاحساب داخل جنت کیا جائے گا! رسولِ کریم ﷺ کے اس مبارک فرمان نے سامعین کو متوجہ کردیا تو انہوں نے سوال کیا:

مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟

یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟

تو ارشاد فرمایا:

هُمُ الَّذِينَ لَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَكْتَوُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ۔

وه لوگ جو منتر جنتر نہیں کرتے اور نہ داغتے ہیں اور نہ بدشگونی لیتے ہیں اور اپنے رب تعالیٰ پر توکل و بھروسا رکھتے ہیں۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان، صفحہ112، حدیث:525)

شرح بخاری امام قسطلانی میں ہے کہ اس حدیث پاک میں منتر نہ کرنے سے مراد وہ دم وغیرہ ہے جس میں کفریہ یا شرکیہ الفاظ ہوں اور داغنے سے مراد علاج کرتے ہوئے صرف اسی علاج پر بھروسا کرنا اور اللہ پر توکل نہ کرنا ہے۔(ارشادالساری، کتاب الطب، باب من لم یرق، جلد8، صفحہ 396)

اللہ کی خاطر محبت رکھنے والے

رسولِ اکرم نے فرمایا:

إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لَأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ، وَلَا شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى

اللہ کے بندوں میں سے کچھ بندے ایسے ہیں جو نہ تو انبیاء ہیں اور نہ ہی شہداء، بلکہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک ان کا مقام دیکھ کر انبیاء وشہدا ء بھی ان پر رشک کریں گے۔

رسولِ کریم ﷺ کے اس فرمان مبارک میں بات ہی ایسی تھی کہ سامعین کو شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ ان خوش نصیبوں کے بارے میں جاننے کا تجسس رکھتے ہیں ، چنانچہ صحابہ کرام نے عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُخْبِرُنَا مَنْ هُمْ

یارسول اللہ! ہمیں خبردیجئے کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟

پیارے مصطفےٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ، وَلَا أَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا، فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ، وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ لَا يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ، وَلَا يَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ

یہ وہ لوگ ہيں جو رشتہ داری یا مال کے لین دین کے سبب نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے دوسروں سے محبت رکھتے ہیں، اللہ کی قسم!ان کے چہرے نور کے ہوں گے، وہ ایسے نور پر ہوں گے کہ جب لوگ خوفزدہ ہوں گے تو انہیں کوئی خوف نہ ہو گا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے تو انہیں کچھ غم نہ ہوگا۔(سنن ابوداؤد، ابواب الاجارۃ، باب فی الرہن، جلد3، صفحہ402، حدیث:3527)