7 مارچ 2022 ء بروز پیرشعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران و اقبال ٹاؤن کے ذمہ دار ثناء المصطفٰی عطاری  نے سیکٹر ٹاؤن شپ کےایڈمن افسر ٹریفک محمد حسیب ، محمد نعمان اور DSP کے ریڈر عباس سے ملاقات کی۔

اس کے علاوہ تھانہ ٹاؤن شپ کے پولیس آفیسرز اور ریسکیو آفس میں آفس انچارج محمد نواز سے ملاقات کی اور مکتبۃالمدینہ کی شائع کردہ کتب و رسائل تحفے میں دیئے۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ، کانٹینٹ: مصطفی انیس) 


7مارچ 2022ء بروز پیر شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نےسمن آباد لاہور کے ذمہ دار سے ملاقات کی اور ٹاؤن کے اندر مدنی کاموں پر مدنی مشورہ کیا ۔

ٹاؤن ذمہ دار اقبال عطاری کے دل کے سٹنٹ ڈھلنے پر ان کی عیادت کی اور صوبائی ذمہ دار رابطہ برائے شخصیات لیاقت عطاری نے ان کے لئے صحت یابی کی دعا کی ۔

اس کے علاوہ اجتماع شب براءت کے سلسلے میں ہمراہ عزیز بھٹی ٹاؤن کے ذمہ داران نے تھانہ SHO عدنان سے ملاقات کی اور صوبائی ذمہ دار لیاقت بھائی کے ساتھ اجتماع گاہ کا وزٹ کیا ۔ (رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ، کانٹینٹ: مصطفی انیس)


دعوتِ اسلامی کےزیر اہتمام  8مارچ 2022ء بروز منگل فیصل آباد سرکاری ڈویژن کے ساتھ بذریعہ انٹر نیٹ مدنی مشورے کا سلسلہ ہوا جس میں پنجاب صوبہ نگران ، فیصل آباد سرکاری ڈویژن نگران اور ڈسٹرکٹ نگران اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

پاکستان مجلس مشاورت نگران اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کو مختلف دینی کام کرنے، رمضان سالانہ ڈونیشن جمع کرنے کا ذہن دیا اور سافٹ ویئر انٹری رپورٹ کا جائزہ پیش کیا ۔ مزید منسلک اسلامی بہنوں کا ڈیٹا مکمل کروانے کا ہدف دیا اور گلی گلی بچیوں کے مدرسۃالمدینہ کے شعبے پر نگران اسلامی بہنوں کو خصوصی تعاون کی ترغیب دلائی۔


دعوتِ اسلامی کے تحت 8مارچ  2022ءبروز منگل پاکستان کے شہر راولپنڈی میں شعبہ فیضان مرشد کی ذمہ داراسلامی بہنوں کا بذریعہ انٹرنیٹ مدنی مشورہ ہوا جس میں پاک سطح فیضان مرشد ذمہ دار ، پاک سطح دفتر ذمہ دار اور صوبہ سطح فیضان مرشد ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

پاکستان مجلس مشاورت نگران اسلامی بہن نے دینی کام کرنے کے حوالے سے اپڈیٹ نکات پر بریفنگ دی اور اس حوالے سے اسلامی بہنوں کی طرف سے کئے جانے والے سوالات کے جوابات دیئے۔مزید سافٹ ویئر میں انٹری کروانے اور تقرری مکمل کرنے سے اہدا ف دیئے ۔


دعوتِ  اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں حج و عمرہ ذمہ دار اسلامی بہنوں کے مدنی مشورے کا انعقاد ہوا جس میں عالمی سطح حرمین طیبین ذمہ دار ، مدنی ریجن ذمہ دار اور عمرہ پر جانے والی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

نگران عالمی مجلس مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کو سفر مدینہ میں نیک اعمال پر عمل کرنےکا ذہن دیا، نیکی کی دعوت دینے کے حوالے سے تربیت کی اور انفرادی کوشش کرنے ، درس و بیان کا حلقہ لگانے پر اہداف بھی دیئے جس پر اسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔


سراج الاُمَّہ، امامُ الاَئِمَّہْ، فَقِیْہِ اَفْخَمْ،اِمام ِاعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے علم و فضل کا آفتاب بنایا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور لقب ’’ امامُ الاَئِمَّہ‘‘ہے،جس کا معنی’’اماموں کا امام‘‘ ہے۔ علمِ تفسیر،علمِ حدیث،علمِ فقہ اور دین کے دیگر فنون کے ماہرین،علماء اورائمہ کا اگر شجرہ علمی دیکھا جائے تو وہ اُوپر جا کر امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے جاملتا ہے اور بعد کے ائمہ و علماء بالواسطہ یا بلاواسطہ امامِ اعظم رضی اللہ عنہ کے شاگرد بنتے ہیں۔ مثلاً فقہ کے ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا شجرہ علمی ملاحظہ ہو:

٭ امام ِمالک : یہ امام اعظم کے بلا واسطہ شاگرد ہیں۔

٭ امام شافعی : امام اعظم کے شاگرد امام محمداور امام محمد کے شاگرد امام شافعی ہیں۔

٭ امام احمد بن حنبل : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی اور امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل ہیں۔

علم حدیث کے ہزاروں علمائے کرام،محدثین کا شجرہ علمی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔ سرِدَست چھ مشہور ائمہ،اصحاب صحاح ستہ یعنی امام بخاری،امام مسلم،امام ابوداؤد،امام نسائی،امام ترمذی اور امام ابن ماجہ کا شجرہ علمی ملاحظہ ہو:

٭ امام بخاری : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام بخاری ہیں۔

٭ امام مسلم : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی، امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام مسلم ہیں۔

٭ امام ابوداؤد : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام ابوداؤد ہیں۔

٭ امام نسائی : امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل،امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام ابو داؤد اور امام ابو داؤد کے شاگرد امام نسائی ہیں۔

٭ امام ترمذی :امام اعظم کے شاگرد امام محمد،امام محمد کے شاگرد امام شافعی،امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل،امام احمد بن حنبل کے شاگرد امام بخاری اور امام بخاری کے شاگرد امام ترمذی ہیں۔

٭ امام ابن ماجہ : امام اعظم کے شاگرد امام عبداللہ بن مبارک،امام عبداللہ بن مبارک کے شاگرد امام ابوبکر بن ابی شیبہ اور امام ابو بکر بن ابی شیبہ کے شاگرد امام ابن ماجہ ہیں۔

وللہ الحمد ۔

اللہ کریم ہمیں بھی امام ِاعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا علمی و روحانی فیضان نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین  صلی اللہ علیہ وسلم

کَتَبَہُ: ابوالحقائق راشدعلی عطاری رضوی مدنی۔


برکاتِ نام محمد

Wed, 9 Mar , 2022
2 years ago

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات و صفات کو اللہ پاک نے بےشمار خوبیوں اور کمالات سے نوازا ہے،آپ کی شان و عظمت یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی آپ سے نسبت ہوجائے تو اس چیز کی عظمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کا مقام و مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت و اخلاق کی طرح آپ ﷺ کے نام مبارک کی برکتیں بھی بے شمار ہیں۔

آنحضرتﷺ کے دو مشہور نام:

یوں تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم کے بہت سے نام ہیں مگر دو نام ”محمد“ اور” احمد“ بہت مشہور ہیں، نام محمد کے معنی ہیں ”بہت ہی حمد کئے ہوئے“ ۔

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ آپ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )ابھی میرے شکم میں تھے کہ والدِ نامدار حضرت عبداللہ رضی اللہُ عنہ نے سفر کی حالت میں مدینۃ المنورہ میں انتقال فرمایا اور کسی نے خواب میں آ کر مجھے پاؤں کی جُنبش سے اُٹھا یا اورارشاد فرمایا:اے آمنہ!تجھے بشارت ہو کہ تیرے شکمِ اطہر میں پرورش پانے والی ذات تمام جہانوں سے بہتر ہے، جب ان کی ولادت ہوجائے تو ان کا نام محمد رکھنا اور اپنے اس معاملے پر کسی کو آگاہ نہ کرنا۔([1])

اگر ہم بھی اس مُعزز و مُکرم نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اپنے بیٹوں کا نام محمد رکھیں تویہ مُبارک نام ہماری بخشش و مغفرت کا ذَرِیعہ بن سکتاہے چنانچہ نام محمد کی فضیلت پر چند احادیث ملاحظہ ہوں۔

(1) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :جو میری محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کا نام محمد یا احمد رکھے گا اللہ پاک باپ اور بیٹے دونوں کو بخشے گا ۔([2])

(2) بروزِ قیامت دو شخص اللہ پاک کے حضور کھڑے کئے جائیں گے،حکم ہو گا اِنہیں جنت میں لے جاؤ! وہ عرض کریں گے : اے ہمارےرب!ہم کس عمل کی بدولت جنت کے قابل ہوئے، ہم نے توکوئی کام جنت کا نہیں کیا؟ اللہ پاک فرمائے گا :جنت میں جاؤ !میں نے قسم ارشاد فرمائی ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔([3])

(3) جس مشورے میں اِس نام (یعنی محمدنام) کا آدمی شریک ہو اس میں برکت رکھی جاتی ہے ۔([4])

(4)تمہارا کیا نقصان ہے کہ تمہارے گھروں میں دو یا تین محمد ہوں۔([5])

(5) رحمتِ عالم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے میرے نام سے برکت کی امید کرتے ہوئے میرے نام پر نام رکھا،قیامت تک صبح وشام اس پر برکت نازل ہوتی رہے گی ۔([6])

(6) مولا مشکل کشا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم بیٹے کا نام محمد رکھو تو اس کی عزّت کرو اور مجلس میں اس کے لئے جگہ کشادہ کرو اور اس کی نسبت برائی کی طرف نہ کرو ۔ ([7])

صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:محمد بہت پیارا نام ہے،اس نام کی بڑی تعریف حدیثوں میں آئی ہے ۔اگر تصغیر کا اندیشہ نہ ہو تو یہ نام رکھا جائے اور ایک صورت یہ ہے کہ عقیقہ کا نام یہ ہو اور پکارنے کے لئے کوئی دوسرا نام تجویز کر لیا جائے ، اس صورت میں نام کی بھی برکت ہو گی اور تصغیر سے بھی بچ جائیں گے۔ جب کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے تو اسے چاہيے اِس نامِ پاک کی نسبت کے سبب اس کے ساتھ حسن ِ سلوک کرے اور اس کی عزت کرے ۔

یادرکھئے ! جن کے نام محمد و احمد یا کسی مُقدس ہستی کے نام پر رکھے جائیں تو ان کا اَدب بھی ہم پر لازِم ہے۔ لیکن فی زمانہ ہمارے معاشرے میں نام تو اچھے اچھے رکھے جاتے ہیں لیکن بَدقِسمتی سے ان مبارک اَسماء کا احترام بالکل نہیں کیا جاتا اور ا نہیں بگاڑ کر عجیب و غریب ناموں سے پکارا جاتا ہے حالانکہ ہمارے اَسلافِ کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کی یہ عادت کریمہ تھی کہ مُقدس ناموں کا حتی الامکان اَدب واحترام بجا لایا کرتے چنانچہ مشہور بادشاہ،سُلطان محمود غَزنوی ایک زَبر دَست عالمِ دین اور صوم و صلوٰۃ کے پابندتھے اور باقاعدگی کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کیا کرتے آپ نے اپنی ساری زِندگی دینِ اسلام کے مُطابق گزاری اور پرچمِ اسلام کی سربُلَندی اور اِعلائے کلمۃ اللہ کے لئے بہت سی جنگیں لڑیں اورفتح یاب ہوئے ۔ آپ شجاعت وبہادری کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عظیم مَنصب پر بھی فائز تھے۔آپ کے فرمانبردار غلام ایازکا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد تھا۔محمود غزنوی رحمۃُ اللہِ علیہ جب بھی اس لڑکے کو بُلاتے تو اس کے نام سے پُکارتے،ایک دن آپ نے خِلافِ معمول اُسے اے اِبنِ ایاز ! کہہ کر مُخاطب کیا۔ ایاز کو گمان ہوا کہ شاید بادشاہ آج ناراض ہیں اس لئے میرے بیٹے کو نام سے نہیں پکارا ، وہ آپ کے دَربار میں حاضِر ہوا اور عرض کی: حضور! میرے بیٹے سے آج کوئی خَطا سَرزد ہوگئی جو آپ نے اس کا نام چھوڑ کر اِبنِ ایاز کہہ کر پکارا؟ آپ نے فرمایا :میں نام محمد کی تعظیم کی خاطِر تمہارے بیٹے کا نام بے وضو نہیں لیتا چونکہ اس وَقت میں بے وضو تھا اس لیے لفظِ محمد کو بِلا وضو لبوں پر لانا مناسب نہ سمجھا۔ہمیں بھی چاہئے کہ ہم برکت والے پاکیزہ نام رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کا ادب و احترام بھی کریں۔

مؤلف:احمد رضا بن عبد الحمید عطاری المدنی

Date:26-02-2022



[1] البدایہ و النھایہ،4/ 720،ملخصا

2 کنزالعمال،16/175،حدیث:45215

[3] فردوس الاخبار،2/503،حدیث:8515،ملتقطا،ملخصا

[4] کنز العمال،16/175،حدیث:45216،ملتقطا ملخصا

[5] طبقات الکبری،5/40،حدیث:622،ملخصا

[6] کنزالعمال،16/175،حدیث:45213

[7] تاریخ بغدادا،3/305


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

لَکَ الْحَمْدُ یَا اللہ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ

اللہ تعالیٰ نے قلمِ رضا کوایسی جامعیّت اور قُوت عطافرمائی ہےکہ امامِ اہلسنت، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جس مسئلہ کی تحقیق میں بھی کوئی کتاب ،رسالہ یا فتویٰ تحریر فرماتے ہیں ،تواُس مسئلےکواَلَمْ نَشرَح (یعنی واضح) کردیتے ہیں۔یوہیں جس موضوع پربھی اَشعار لکھتے ہیں تو اُس کی مَنظرکَشی کا حق ادا فرمادیتے ہیں، جسے دیکھ کرفنِ شاعری کےماہرین حیران اور انگشُت بدنداں (یعنی حیران) ہوجاتےہیں۔ اس کی زبردست مثال اِنتہائی مختصرسےوقت میں لکھاجانےوالاکلام’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ہے، جوکہ67اَشعار پر مشتمل ہے۔ امامِ اہلسنت علیہ الرّحمہ نے اس قصیدے میں حَسین تخیُّلات کےساتھ ساتھ جابجا آیاتِ قراٰنیہ اوراَحادیثِ نَبویّہ کی زبردست عَکاسی اور ترجمانی فرمائی ہے نیز آپ رحمۃ اللہ علیہ نےاس قصیدے میں سفرِ معراج کےمختلف مرحلوں کوبڑےفصیح و بلیغ اَلفاظ میں بصورتِ شعرپیش فرمایاہے۔ساتھ ہی ساتھ امامِ عشق و محبت رحمۃ اللہ علیہ نےاِس قصیدےمیں اُردو زبان کے رائج اِستعاروں اورمُحاروں کا کثرت سےاستعمال کیاہے۔ اس قصیدےکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مجدِّدِ اعظم،اعلیٰ حضرت رحمۃا للہ علیہ نےواقعۂ معراج کی مناسبت سےکعبہ و حطیم،مسجدِ اَقصیٰ ونمازِ اَقصیٰ ،جِبرَئِیل و بُراق ،آسمان و عرشِ اَعظم، سِدرۃُالمنتہیٰ و جنّت اور لامکان و دیدارِ رحمن کاتذکرہ بڑےلطیف اَنداز میں فرمایاہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگرکسی کو سفرِ معراج کےنقطۂ آغاز (یعنی ابتداء)سےلےکراِس کےمقامِ عُروج ورِفعت (اختتام و تکمیل)تک کامختصربیان اُردوزبان میں بصورتِ نظم پڑھنا ہوتووہ امامِ اہلسنت،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اس مبارَک اورمنفرد’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ کو ملاحظہ کرلے۔

شرح قصیدہ معراجیہ:

اللہ ربُّ العزت کے فضل وکر م سےحقیر سراپا تقصیر نے اس مبارَک قصیدے کی شرح :’’لَمَعَانُ الْاَنْوَارِ الْاَحْمَدِیَۃِ فِی تَوْضِیْحِ الْقَصِیْدَۃِ الْمِعْرَاجِیَۃِ‘‘ بنام شرح قصیدۂ معراجیہ‘‘تحریر کرنے کی سعادت پائی ہے۔ اِس شرح میں راقم الحروف نے بنیادی طور پر دو باتوں کا اہتمام کرنے کی سعی کی ہے۔

(1) عوام الناس کیلئے کلامِ اعلیٰ حضرت کی عام فہم تشریح کرنا۔

(2) معجزۂ معراج سے متعلق اس مبارَک قصیدے کے اَشعار میں بیان کردہ مضامین کی تائید میں قرآن و سنت کی نصوص اور اَقوالِ ائمہ و علما کو ضبط ِ تحریر میں لانا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں پائی جانے والی فصاحت و بلاغت کی صنعتوں کی نشاندہی اور تفصیل کو قصداً تحریر نہیں کیا؛ تاکہ کلام طویل نہ ہوجائے اور عوام کو سمجھنے میں یہ طوالت مخل نہ ہو۔المختصر! اِس شرح کا صفحۂ قرطاس پر منقش ہونا محض فضلِ ربّانی سے ہے، ورنہ راقم الحروف بے بَضاعت اپنی بے مائیگی کا معترف ہے۔ اِس شرح میں اگر کوئی خوبی و عمدگی ہے تو وہ خاص فضلِ سبحانی اورخدا کی مہربانی سے ہےاور اگرتحریر میں کوئی نقص و خامی ہے تو وہ راقم حقیر سراپا تقصیر کی طرف سے ہے۔

سگِ درگاہِ اعلیٰ حضرت

ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی


بچپن کے معاملات:

جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ شیر خواری کے دنوں میں دن بھر والدہ ماجدہ کا دودھ نہ پیتے اور افطار کے وقت پی لیا کرتے۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سانس کے سا تھ ’’ھو ھو‘‘ کی آواز اس طرح نکلتی جیسے آپ رحمۃ اللہ علیہ ذکرِ الہی میں مشغول ہوں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو کھلونوں سے کھیلا کرتے اور نہ ہی بچوں کے دیگر مشاغل اختیار فرماتے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نظریں جھکا کر چلا کرتے اگر راہ چلتے اچانک کسی مسلمان پر نظر پڑ جاتی تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا واللہ ! یہ کوئی عام بچہ نہیں اس کی آنکھوں میں عجیب روشنی ہے جو براہِ راست دلوں کو متاثر کرتی ہےاگر نظر کسی غیر مسلم پر پڑ تی تو اس کی بگڑی سنور جاتی اور وہ اپنا باطل مذہب ترک کردیتا اور کلمہ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔اے کاش ! ہم بھی بزرگانِ دین کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے نظریں جھکا کر چلنے والے بن جائیں۔

بارگاہِ رسالت سے فیوض و برکات :

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارے کھڑا تھا کہ ایک با رعب صاحب، حشمت نورانی صورت والے بزرگ گھوڑے پر تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے بٹھالیا، میں نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے پوچھا۔آپ کون ہیں ؟ ار شاد فرمایا: میں علی بن ابی طالب ہوں۔ میں نے پھر عرض کی: مجھے کہاں لے جار ہے ہیں؟ فرمایا: پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے تمہیں ان کی بارگاہ میں لے جارہا ہوں۔ فرماتے ہیں:پھر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری ہوئی تو وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی جلوہ فرما تھے ،مجھے دیکھتے ہی نبیوں کے سلطان رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھائے اور ارشاد فرمایا، میرے ہاتھ پکڑ لو پھر دستِ اقدس پر بیعت کی اور کلمے کی تلقین فرمائی ، حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میں نے کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ پڑ ھا تو درجات و مقامات کا کوئی حجاب باقی نہ رہا ۔اس کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھ پر توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں صدق( سچائی) پیدا ہوگئی ۔ توجہ فرما نے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مجلس سے رخصت ہوگئے پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں عدل و محاسبہ نفس پیدا ہوگیا پھر آپ رضی اللہ عنہ بھی رخصت ہوگئے ان کے بعد حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے میری جانب توجہ فرمائی جس سے میرے اندر حیا اور سخاوت کا نور جگمگا اٹھاپھر وہ بھی اس نورانی مجلس سے رخصت ہوگئے اس کےبعد حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھ پر توجہ فرمائی تو میرا جسم علم و شجاعت اور حلم سے بھر گیا، پھر پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر خاتون جنت حضرت سیدتنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا :تم میرے فرزند ہو پھر میں نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہا کے قدمین شریفین کا بوسہ لیا اور ان کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں پہن لیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر دستگیر حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ عنہا کے سپرد فرمادیا حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے مجھے مخلوقِ خدا کی ر ہنمائی کا ار شاد فرمایا: حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے جو کچھ بھی دیکھا اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔

سائلو ! دامنِ سخی کا تھام لو

کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا

مفلسو! ان کی گلی میں جا پڑو

باغ خلد اکرام ہو ہی جائے گا

دل کی بات جان لی :

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر رحمۃاللہ علیہ نے اپنے ایک وزیر کے ہاتھ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اشرفیوں کی دو تھیلیاں بھیجیں اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کنویں کے پاس بیٹھے کھیتوں کو پانی دے رہے تھے آپ رحمۃاللہ علیہ نے دونوں تھیلیاں کنویں میں پھینک دیں وزیر کو بڑا تعجب ہوااوراس کےدل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ اشرفیاں مجھے مل جاتیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دل کی بات جان لی اور جب کنویں کی طرف نظر فرمائی تو اس سے پانی کی بجائے اشرفیاں نکلنے لگیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت دیکھ کر وزیر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں گرگیا، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار پھر اس پر نظر فرما کر عشقِ حقیقی کا جام پلایا اور وہ دونوں اشرفیوں سے بھری تھیلیاں اس کے حوالے کردیں۔

راہِ حق دکھا دی :

ایک مرتبہ حضرت سلطان باہو رحمۃاللہ علیہ شاہ راہِ پرلیٹےہوئےتھے کہ غیر مسلموں کا ایک گروہ گزراان میں سے ایک بطورِ حقارت آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ٹھوکر ماری اور کہا:ہمارے لئے راستہ بناؤ،آپ نے اٹھتے ہی فرمایا: ”لا الہ الا انت محمد رسول اللہ“ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے کلمہ طیبہ جاری ہونا تھا کہ غیر مسلموں کا پورا گروہ کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

مٹی سونا بن گئی :

جب آپ شور کورٹ میں کاشتکاری کرتے تھے تو افلاس و نادری سے تنگ ایک سفید پوش بزرگ سید صاحب بزرگوں اور فقیروں کی تلاش میں مار ے مارے پھرتے کہ کہیں سے کوئی اللہ کا بندہ مل جائے او راس کی روح سے میری غربت اورتنگی دور ہوجائے اسی طلب میں وہ ایک فقیر کی خدمت میں رہنے لگےاور اس کی خدمت کرتے ، ایک فقیر کو ان کے حال پر رحم آیا پوچھا تیری مراد اور حاجت کیا ہے اس سید نے عرض کی : میرا بہت بھاری کنبہ ہے اور میں قرض دار ہوگیا ہوں جوان لڑکیاں اور لڑکے ہیں افلاس اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کی شادی بھی نہیں کرسکتا ظاہر ی اسباب ختم ہوچکے ہیں اب تو خالی مددکے سوائے میری تنگ دستی کا علاج ممکن نہیں تب اس فقیر نے کہا کہ میں تجھے ایک مردِ کامل کا پتا بتاتا ہوں سوائے اس کے کہ تیرا علاج کسی کے پاس نہیں ہیں تو سخی سلطان باہو کے پاس شور کورٹ چلا جاان کی بارگاہ میں عرض پیش کرنا وہ پریشان حال سید صاحب سلطان العارفین کے پاس پہنچ گئے لیکن ان کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہی تھی جب دیکھا کہ آپ رحمۃاللہ علیہ کھیتوں میں ہل چلا رہے ہیں جبکہ انہیں وہاں کے لوگوں سےپتا چل چکا تھا کہ لوگ آپ کو فقیر کی حیثیت سے نہیں کسان کی حیثیت سے جانتے ہیں یہ حالت دیکھ کر مایوس ہو کر واپس موڑنے ہی والے تھے کہ سلطان العارفین نے جو ان کی قلبی کیفیت سے آگاہ ہو چکے تھے ان کو آواز دی آپ کی آواز سن کر ان سید صاحب کوکچھ حوصلہ ملا ، دل میں کہنے لگے اب خود بلایا ہے تو عرض پیش کرنے میں کیا حرج ہے، سید صاحب نے قریب آکر سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا خیریت پوچھی کہ کس وجہ سے یہاں آئے ہوسید صاحب نے اپنی ساری مشکلات سناد ی آپ نے فرمایا : شاہ صاحب مجھے پیشاب کی حاجت ہے آپ میرا ہل پکڑ کر رکھیں میں پیشاب سے فارغ ہولوں، غرض آپ نے پیشاب کیا مٹی کے ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد وہ ڈھیلے ہاتھ میں لے لیا، سید صاحب سے مخاطب ہوئے شاہ صاحب آپ نے مفت تکلیف اٹھائی میں تو ایک جٹ آدمی ہوں، سید صاحب کا دل پہلے ہی سفر کی تھکاوٹ اور مایوسی سے جلا ہوا تھا طیش میں آکر بولے: ہاں یہ میری سزا ہے! سید ہو کر آج ایک جٹ کے سامنے سائل کی حیثیت سے کھڑا ہوں حضرت سلطان العارفین کو جلال آیا اور اپنی زبان مبارک سےشعرپڑھتے ہوئے وہ پیشاب والا ڈھیلا زمین پر دے مارا، آپ کے پیشاب والا ڈھیلا اس زمین کے جن جن ڈھیلوں سے لگتا گیا وہ سونا بن گیا، سید صاحب یہ حالت دیکھ کر دم بہ خود ہو گئے ، آپ کے قدموں پر گر کر رونے لگے اور معافی مانگنے لگے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: شاہ صاحب یہ وقت رونے کا نہیں یہ ڈھیلے چپکے سے اٹھالو اور چلتے بنو ورنہ لوگوں کو پتا چل گیا تو نہ تیری خیر ہے اور نہ میری چنانچہ سید صاحب نے ان سونے کے ڈھیلوں کو جلدی سے اپنی چادر میں ر کھ لئے اور آپ کے پاؤں چومتے ہوئے وہاں سے چل دیئے۔

وفات و مدفن :

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 63 سال اس دارِ فانی میں دینِ اسلام کی تعلیمات عام کیں اور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میں یکم جمادی الاخر ی ۱۱۰۲ھ بمطابق 2 مارچ 1691 ءشبِ جمعہ تیسرے پہر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے سفر آخرت اختیار فرمایا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک دریائے چناب کے مغربی کنارے پر واقعہ قلعہ قہرکان سے کچھ فاصلے پر ہے جس کے چاروں جانب پختہ دیواریں ہیں۔

(مأخد: رسالہ : فیضانِ سلطان باہو)

از: بنت اجمل عطاریہ (طالبہ جامعۃ المدینہ گرلز)


عظیم الشان مدنی مرکز کے افتتاح کی تقریب 4 مارچ 2022ء  جمعہ کے دن رکھی گئی جس میں خصوصی شرکت کے لئے پاکستان سے جانشینِ امیر اہلسنت حاجی مولانا عبید رضا عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی ، مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا حاجی محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی اور ترجمان دعوتِ اسلامی و رکن شوریٰ حاجی مولانا عبد الحبیب عطاری ترکی استنبول پہنچے۔

نمازجمعہ سے قبل افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس میں حاجی عبد الحبیب عطاری نے تلاوت قرآن مجید کی اور بارگاہ رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ہدیۂ نعت پیش کیا جس کے بعد مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران حاجی مولانا محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے سنتوں بھرا بیان فرمایا ، جانشینِ امیر اہلسنت حاجی مولانا عبید رضا عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے خطبۂ جمعہ دیا اور جمعہ کی نماز پڑھائی۔

اس افتتاحی تقریب میں یوکے سے سید فضیل رضا عطاری اور یوکے کے چند اسلامی بھائیوں سمیت استنبول کے گردو نواح کے کثیر عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔

نگرانِ شوریٰ نے مدنی مرکز کے افتتاح کی خوشی میں نمازِ جمعہ کے بعدعاشقانِ رسول میں مٹھائی بھی تقسیم کی۔

واضح رہے کہ اس مدنی مرکز میں درسِ نظامی (یعنی عالم کورس)کے لئے جامعۃ المدینہ، حفظ و ناظرہ کے لئے مدرسۃ المدینہ اور دعوت اسلامی کے دیگر شعبہ جات کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ 


7مارچ 2022ء بروز پیر شعبہ تحفظِ اوراقِ مقدسہ کے ذمہ داران نےدینی کاموں کے سلسلے میں فیضانِ مکہ مدینہ رحمان سٹی شاہدرہ لاہورکا دورہ کیا جہاں انہوں نے قائم کارخانے میں اوراق مقدسہ کےتحفظ کے لئے بکسز تیار کرنے کے مختلف حصوں کا جائزہ لیا۔

اس موقع پر صوبۂ پنجاب ذمہ دار محمد رضا عطاری اور لاہور ڈویژن ذمہ دار محمد عالم عطاری نے ڈسٹرک شیخوپورہ کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ کیا جس میں انہوں نے ذمہ داران کی کوششوں کو سراہتے ہوئے مختلف نئے تیار کئے جانے والے بکسز پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔

اس کے علاوہ شعبے کے دینی کاموں، خود کفالت اور رمضان عطیات میں بھرپور انداز میں اپنا حصہ ملانے کے حوالے سے ذہن سازی کی جس پر ذمہ داران نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ:محمد ناصر عطاری ذمہ دار ڈسٹرک شیخوپورہ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پچھلے دنوں شعبہ آئمہ مساجد دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی سے بذریعہ انٹرنیٹ مدنی مشورہ ہوا جس میں صوبائی ذمہ داران اور ناظمین اعلیٰ نے شرکت کی۔

اس مدنی مشورے میں رکنِ مرکزی مجلسِ شوریٰ حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے ذمہ داران کی تربیت کرتے ہوئے انہیں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ائمہ مساجد کے ذریعے تمام مساجد میں سنت اعتکاف کروانے کی تیاریوں کے حوالے سے مدنی پھول دیئے۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)