اللہ تعالٰی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کو ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالٰی کے سامنے  اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا۔ تواضع و انکساری : مسلمان حکمران کو چاہیے کہ وہ تمام مسلمانوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے اور اپنے اقتدار کی طاقت کی وجہ سے کسی بھی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے ۔ حاکم اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ پر متکبر اور جابر کو د شمن رکھتا ہے ۔ آئیے رعایا کے حقوق ملاحظہ کیجیئے۔

عدل و انصاف کرنا :اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :- وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ) اور عدل کرو بے شک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں ۔ حدیث شریف: ہمیں رعایا کے حقوق کو اچھے طریقے سے ادا کرنے والے عدل و انصاف کرنے والے حاکم ملیں۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ حضور اکرم کا مالہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک دنیا میں انصاف کرنے والے قیامت کے دن اللہ تعَالٰی کے سامنے موتیوں کے منبروں پر ہوں گے کیونکہ انہوں نے دنیا میں انصاف کیا-(تفسیردرسنشور،پ 26 الحجرات، تحت الآية : 562/7،9)

دھوکا نہ دینا : رعایا کا حق یہ بھی ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکا نہ کرے. چنانچہ حضرت سیدنا ا بو یعلی معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے۔ اور وہ اس حال میں مرے کے اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام فرمادے گا۔ (بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعى رعية فلم ينصح456/4،حدیث:7150)

عزت بچانا : رعایا کا حق یہ بھی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کرے ۔ اس کی جان کی حفاظت کرے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے دنیا میں اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کی تو روز قیامت اللہ تعالٰی ایک فرشتہ بھیجے گا جو جہنم سے اسکی حفاظت کرے گا۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ التر ہیب من الغیبتہ، رقم الحدیث 39 ، ج 3، ص 334)

غم خواری کرنا : ہمیں اپنے مسلمان بھائی کی غم خواری کرنی چاہیے ۔ اس کی تعزیت کرنی چاہیے۔ ان کا ادب و احترام

کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت ( یعنی اس کی غم خواری) کی تو اسے مصیبت زدہ کے برابر اجر ملے گا۔ (الترغیب والترہیب رقم 6، ج 4،ص179)

سفارش کرنا : رعایا کو چاہیے کہ اپنے ضرورت مند بھائی کی حاجت روائی کرے ۔ اسکی سفارش کرے ۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں کوئی سائل یا ضرورت مند حاضر ہوتا تو آپ فرماتے : ( حاجت روائی میں) اسکی سفارش کرو اجر پاؤ گے ، اللہ تعالٰی اپنے رسول کے ذریعے جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔(صحیح بخاری ، کتاب الادب ، رقم 6027 ، ج 4 ، ص 107)

رعایا کے بارے میں قیامت کے دن حاکم سے سوال ہوگا : رعایا کے بارے میں قیامت کے دن حاکم سے سوال ہوگا ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا ، عبد الله بن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ علم نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا ۔

پس لوگوں کا واقعی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے ۔ اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور غلام اپنے آقا ( سید) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھ ہوگی۔ (صحیح بخاری شریف ، ح : 2554)


اللہ پاک  جب کسی کو حکمرانی کا تاج عطا فرماتا ہے تو ان کے ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں ہماری راہنمائی کی ہے آپ علیہ ‏السلام نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک راعی ونگہبان ہے اور سب سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔‏(صحیح البخاری، ص1057)

جان عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے مزید ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جسے کسی قوم کا حاکم ونگہبان بنائے اور وہ ہر طرح ان کی خیرخواہی نہ کرے تو وہ جنت کی ‏خوشبوبھی نہ پائے گا۔‏ (صحیح البخاری 10582)‏‏

آقائے نامدار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے کا ایک اور فرمان پیش نظر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جسے رعایا کا حاکم ونگہبان بنایا اور وہ اس حال میں مرا کہ اپنی رعایا کے ساتھ غداری ‏کرتاتھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام فرمادے گا۔ (صحیح مسلم شریف ، ص81، ج۱)‏

مندرجہ بالا احادیث اس بات کی طرف راہنمائی فرماتی ہیں کہ حاکم کے ذمہ جو کوئی فرائض ہیں ان ‏کو پورا کرنا اس کی ذمہ داری ہےاور حکمران بروز حشر اللہ تعالی کے سامنے اپنی رعایا کا جواب دہ ہو گا۔ وہ کون سے حقوق ہیں ہم ان میں سے چند حقوق کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

‏ تواضع و انکساری:‏مسلمان حکمران کو چاہیے کہ وہ تما م مسلمانوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے اور اپنے ‏اقتدار کی طاقت کی وجہ سے کسی بھی وجہ سے مسلمان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے۔ حاکم اس ‏بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی ہر متکبر اور جابر کو دشمن رکھتا ہے۔‎ ‎‎

‏ عدل کا نفاذ : ‏حاکم کا عدل وانصاف تمام رعایا کے لیے عام ہونا چاہیے۔ اور اس معاملے میں احسان کے لیے اہل یا نا ‏اہل کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھے۔ حاکمِ وقت کو چایئے کہ وہ اپنے سامنے خلفاءِ راشدین کے ادوار کی مثالیں رکھے ۔ کہ کیسے حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے دور میں اسلام کی خدمت کی ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ‏نے کیسے اسلام کی ترویج کے لئے اپنا کردار ادا کیا، عثمان غنی اور مولی علی رضی اللہ عنہما کیسے حاکم ‏ثابت ہوئے۔

رعایا کی ضرورتوں کا خیال رکھنا: حاکم کا فرض ہے کہ اپنی قوم کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھےجیسے: کھانا پینا، رہائش، علاج و تعلیم ‏وغیرہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :‏لَوْ مَاتَتْ شَاةٌ عَلَى شَطِّ الْفُرَاتِ ضَائِعَةً‎ ‎‏ اگر نہر ِفُرات کے کنارے ایک بکری بھی بھوکی ‏مرگئی

لَظَنَنْتُ اَنَّ اللهَ تَعَالٰی سَائِلِي عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ‎ ‎تو مجھے خطرہ ہے کہ قیامت کے دن ‏اللہ پاک مجھ سے اُس کے بارے میں سُوال فرمائے گا ۔‏ (حلیۃ الاولیاء‏‎ ‎، عمر بن الخطاب‎ ‎،‎ ‎۱‏ / ‏۸۹‏‎ ‎،‎ ‎حدیث : ۱۴۱)

قوم کی خوشی و غمی میں شریک ہونا: رعایا تو اپنے حاکم کے لئے گھر کے افراد جیسی ہوتی ہے، حاکم کو چاہئے کہ اپنی رعایا کے ساتھ ایسا ہی ‏سلوک روا رکھے جیسا کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ ‏حکمرانوں کو چاہئے کہ اپنی قوم کے ساتھ تکبر و غرور کے ساتھ پیش آنے کی بجائے انکی خوشیوں ‏میں شامل ہوں اور انکے دکھوں کو بانٹیں ایسے موقع پر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کی پیاری پیاری ادائیں مد ‏نظر رکھیں کہ کیسے دو عالم کے داتا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ اپنے غلاموں کے خوشیوں میں شامل ہوتے اور ان کے ‏غموں کا مداوا بنتے۔

‎ ‎مشہور مفسرِ قرآن ،‎ ‎مفتی احمد یار خان نعیمی‎ ‎رحمۃا للہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کے اخلاقِ ‏کریمہ میں سے ہے کہ آپ‎ ‎ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ ہر امیر وغریب کے‎ ‎گھر بیمار پرسی کے لئے تشریف لے جاتے۔‏‏(مرآۃ المناجیح ، جلد : 2 ، صفحہ : 407)

نظام مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کا نفاذ: حاکم وقت کافرض ہے کہ اپنی قوم کے درمیان اپنے ملک میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کے عطا کردہ نظام کا ‏نفاذ کرے، سود، رشوت، کرپشن وغیرہ کو جڑ سے ختم کر کے اسلامی طرز عمل کو نافذ کرے فقط یہی ‏ایک واحد طریقہ ہے کہ جس کی مدد سے ملک و قوم کا بھلا ممکن ہے ۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اردو شاعر نے کیا خوب کہا

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں

پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

اللہ پاک ہمارے پیارے ملک پاکستان کو بھی نیک سیرت، صالح حکمران عطا فرمائے۔ ‏ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏


حقیقی حاکم صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہے مگر نظامِ کائنات کو مُنظَّم کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رُسل مبعُوث فرماۓ۔بلآخر جب بابِ نبوت بند ہوگیا تو یہ عظیم فریضہ قرآنی اُصولوں کی روشنی میں"اُولُو الاَمر" کے حوالے کیا. کسی بھی معاشرہ میں معاملات زندگی کو سہی سمت دینے کے لیے  ایک حاکم،امیر یا خلیفہ کا ہونا ضروری ہے خواہ شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر سرپرست کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں چل سکتا جب تک رعایا اس کی معاون نہ ہوں اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے ایک بڑا سبب حاکم اور محکوم کا اپنے حقوق اور فرائض سے دستبردار ہونا ہے کیونکہ جب کوئی اپنے حقوق اور اپنے فرائض سے نا آشنا ہوتا ہے تو وہ اپنے اپنے فیصلے یا اقدامات درست نہیں کر پاتا

[یہ تحریر چار بنیادی نکات پر مشتمل ہے ]

اسلام میں تصور حاکمیت :حقوق حکمران قرآن کی روشنی میں ۔حقوقِ حکمران حدیث کی روشنی میں ۔کیا ہر حاکم کی طاعت ضروری ہے؟۔اسلام میں تصور حاکمیت ۔اسلامی نقطہ نظر سے  تصور حاکمیت کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے حسب ذیل آیات درج ہیں۔

هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِۚ-هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ. (سورۃ الحشر آیت 22)(ترجمۂ کنز العرفان) وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر غیب اور ظاہر کا جاننے والاہے، وہی نہایت مہربان، بہت رحمت والاہے۔

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ(١)مَلِكِ النَّاسِ(٢)اِلٰهِ النَّاسِ(٣)(سورۃ الناس آیت ١،٣) [ترجمۂ کنز الایمان] تم کہو میں اس کی پناہ میں آیا جو سب لوگوں کا رب۔سب لوگوں کا بادشاہ۔سب لوگوں کا خدا

حقوق حکمران قرآن کی روشنی میں:

اس نظام میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں ان کے بنیادی حقوق کا پاسداری ریاست کا فرض ہے. [قرآنی آیات]

(1) جان کا تحفظ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِؕ-اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا. (ترجمہ کنز الایمان) اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے ناحق نہ مارو اور جو ناحق مارا جائے تو بیشک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا ہے تو وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد ہونی ہے.    (سورۃ بنی اسرائیل 33)

(2) حقوق ملکیت کا تحفظ

وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

(ترجمۂ کنز الایمان)

اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔.   (سورۃ البقرہ 188)

(3) عزت کا تحفظ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (ترجمۂ کنز الایمان) اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں   (سورۃ الحجرت 49)

(4) نجی زندگی کا تحفظ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى یُؤْذَنَ لَكُمْۚ-وَ اِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ (ترجمۂ کنز الایمان) پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ جب بھی بے ما لکوں کی اجازت کے ان میں نہ جاؤ اور اگر تم سے کہا جائے وآپس جاؤ تو وآپس ہو یہ تمہارے لیے بہت ستھرا ہے اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے    (سورۃ النور 28)

(5) بغیر ثبوت کے کارروائی نہ کی جائے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (ترجمۂ کنز الایمان) اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ.   (سورۃ یالحجرت 6)

(6) ضمیر و اعتماد وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًاؕ-اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (ترجمہ: کنزالایمان) اور اگر تمہارا رب چاہتا زمین میں جتنے ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں کو زبردستی کرو گے یہاں تک کہ مسلمان ہوجائیں.   (سورۃ یونس:99)

(7) مزہبی دل آزاری سے تحفظ کا حق قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَیْءٍؕ-وَ لَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَاۚ-وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۚ-ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(ترجمہ: کنزالایمان) تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا اور رب چاہوں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور جو کوئی کچھ کمائے وہ اسی کے ذمہ ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی پھر تمہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے وہ تمہیں بتادے گا جس میں اختلاف کرتے تھے  (سورۃ الانعام:164)

حقوقِ حاکم حدیث کی روشنی میں: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ الْجَعْدِ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْوِيهِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَكَرِهَهُ فَلْيَصْبِرْ فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَيَمُوتُ إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة.(صحيح بخاری شریف ، كِتَابُ الأَحْكَامِ، بَابُ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلْإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً،الخ 7142)

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو، خواہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام کو ہی عامل بنایا جائے جس کا سرمنقیٰ کی طرح چھوٹا ہو۔

تشریح : یعنی ادنیٰ حاکم کی بھی اطاعت ضروری ہے بشرطیکہ معصیت الٰہی کا حکم نہ دیں

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا إِمَامٌ عَادِلٌ وَأَبْغَضَ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ وَأَبْعَدَهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا إِمَامٌ جَائِرٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ(جامع  ترمذی حدیث نمبر: 1329 کتاب: حکومت وقضاء کے بیان امام عادل کا بیان حکم: ضعيف)

ترجمہ : ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا:' قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور بیٹھنے میں اس کے سب سے قریب عادل حکمراں ہوگا، اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ نآپسندیدہ اور اس سے سب سے دوربیٹھنے والا ظالم حکمراں ہوگا'۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔تشریح :نوٹ:(سند میں 'عطیہ عوفی'ضعیف راوی ہیں)

کیا ہر حاکم کی طاعت ضروری ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا؟نہیں بلکل ہر حاکم کی طاعت ضروری نہیں ہے بلکہ جو شریعت کو نافذ کرنے والا ہوں اس کی طاعت بس ضروری ہے.

فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(سورۃ محمد،آیت 22)ترجمۂ کنز الایمانتو کیا تمہارے یہ لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو.

[حدیث مبارکہ] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! امانتوں کے ضائع ہونے کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا: جب اُمور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو. (أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانۃ، 5/ 2382، الرقم/ 6131، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 361، الرقم/ 8714، وابن حبان في الصحیح، 1/ 307، الرقم/ 104، والبیھقي في السنن الکبریٰ، 10/ 118، الرقم/ 20150، والدیلمي في مسند الفردوس، 1/ 335، الرقم/ 1322، والمقریٔ في السنن الواردۃ في الفتن، 4/ 768، الرقم/ 381۔)


رعایا اور سلطنت دو ایسے اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کا جزولاینفک ہیں اور ان میں اسے ایک جزو کے عدم ہونے کی صورت میں دوسرے جزو کا عدم ہونا ظاہر و ثابت ہے۔ تاہم ریاست ایک تجریدی شے ہے، جس کا صفحہ ہستی پہ اظہار چند کرداروں کی صورت میں نمو پذیر ہوتا ہے اور یہی چند کردار ریاست کے کردار، افکار، بیانیہ اور قانون کو مرتب کر کے رعایا کو اس کا بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ  اپنی سوچ، فکر، عمل اور تحریک کو ریاست کے ان بنیادی خدوخال کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو اس طرح منظم کریں کہ منہج ریاست اور انفرادی منہج میں تطبیق قائم ہو جائے اور یوں کسی بھی قسم کے انتشار اور خلفشار کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن جہاں جہاں ان دونوں کے درمیان منہج کا اختلاف واقع ہوتا ہے، وہاں داخلی اور خارجی انتشار کے لئے زمین ہموار ہو جاتی ہے اور یوں سول نافرمانی یا طوائف الملوکی کی صورت میں معاشرہ شکست و ریخت سے دوچار ہو کر اپنا وجود گنوا بیٹھتا ہے۔

دنیا میں ہم انسان جہاں بھی ہوں، جس شکل میں بھی ہوں اور جن حالات میں بھی ہوں، ہماری زندگی کا دار و مدار دراصل معاشرے کے ہی اوپر ہے اور یہی معاشرہ جب اپنی بنیادی سطح سے بلند ہوتا ہے تو اس میں رعایا اور سلطنت کے نام سے دو گروہ واضح ہو جاتے ہیں، جن میں سے ایک کی حیثیت بالترتیب محکوم اور دوسرے کی حاکم کی ہوتی ہے۔ تاہم جیسے معاشرے میں رہنے والے تمام انسان حقوق و فرائض کی بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہیں، ویسے ہی ان دو طبقات کے اوپر بھی حقوق و فرائض کی ذمہ داری پوری پوری نسبت سے عائد ہوتی ہے۔

حکمرانی بہت بڑی آزمائش ہے، اگر حکمرانی کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو یہ وبال جان ہے، باعث پکڑ ہے اور اگر حاکم خوف خدا رکھنے والا ہو ، عدل وانصاف سے کام لیتا ہو تو وہ زمین پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کا سایہ ہے، رعایا کے لئے نعمت ہے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا پسندیدہ ہے۔ حدیث ذکور میں اس حاکم کے لئے جنت سے دوری کی وعید ہے جو اپنی رعایا کو دھوکا دے، ان کے ساتھ خیر خواہی نہ کرے، ان کے معاملات کے حل کی کوشش نہ کرے۔

الله عَزَّ وَجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَاخْفِضُ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ المؤمنین ترجمہ کنزالایمان: اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ اپنے پیرو تابع مسلمانوں کے لئے ( ۱۹ ، الشعراء : ۲۱۵)

تفسیر روح البیان میں ہے: یعنی مؤمنین کے لئے نرمی کیجئے ، انہیں اپنی صحبت بابرکت سے نوازیئے ان کی غلطیوں کو تاہیوں سے درگزر کیجئے، ان کے بڑے احوال سے چشم پوشی فرما کر ان کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیجئے

اپنی رعیت کو دھوکا دینے والے پر جنت حرام ہے «وعن معقل بن يسار رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: ‏‏‏‏ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة ‏‏‏‏ متفق عليه» معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھی بندہ جسے اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا حاکم بنا دے اسے جس دن موت آئے وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعیت کو دھوکا دینے والا ہو تو اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1285] 


اللہ تعالی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالی کے سامنے  اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا حکمران کے رعایا پر پانچ حقوق بیان کیے جائیں گے

(1) تواضع انکساریمسلمان کو چاہیے کہ وہ تمام مسلمانوں کے ساتھ تواضع اور انکساری سے پیش ائے۔ اور اپنے اقتدار کی طاقت کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے مسلمان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ ائے۔ حاکم اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی نے قران مجید میں ارشاد فرمایا:۔كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍترجمہ کنزالعرفان: اللہ ہرمتکبر سرکش کے دل پراسی طرح مہر لگا دیتا ہے۔(پ 24 ، س مومن، آیت نمبر 35)

(2)چغلی پر عمل سے اجتناب :رعایا کا دوسرا حق یہ ہے کہ حاکم لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانب والی باتوں پر کان نہ دھرے ۔خاص طور پر فاسق اور خود غرض لوگوں کی باتوں پر یقین نہ کرے کیونکہ اس کا نتیجہ فتنہ فساد اور افسوس اور ندامت ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر ائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔

(3) درگزر کرنا۔اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا: قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ-وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌترجمہ کنزالعرفان:اچھی بات کہنا اور معاف کردینا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو اور اللہ بے پرواہ، حلم والا ہے۔(پ3،س بقرہ، آیت نمبر 263)

اس کی تفسیر میں یوں ہے: کہ اچھی بات کہنا اور معاف کر دینا بہتر ہے اگر سائل کو کچھ نہ دیا جائے تو اس سے اچھی بات کہی جائے اور خوش خلقی کے ساتھ جواب دیا جائے جو اسے ناگوار نہ گزرے اور اگر وہ سوال میں اصرار کرے یا زبان درازی کرے تو اس سے درگزر کیا جائے۔ سائل کو کچھ نہ دینے کی صورت میں اس سے اچھی بات کہنا اور اس کی زیادتی کو معاف کر دینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اسے عار دلائی جائے یا احسان جتایا جائے یا کسی دوسرے طریقے سے اسے کوئی تکلیف پہنچائی جائے۔

تفسیر صراط الجنان : جب کسی کی غلطی کی وجہ سے حاکم ناراض ہو تو پھر اس شخص کو معاف کر دینے کی گنجائش موجود ہو تو حاکم کو چاہیے کہ ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد تین دن گزرنے سے پہلے سے معاف کر دے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔(مستدرک، کتاب الحدود، اول سارق قطعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، 5/ 543، الحدیث: ۸۲۱۶)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ مَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں کی بادشاہت کا مالک تم پر رحم کرے گا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین، 3 / 271، الحدیث: ۱۹۳۱)

( 4) اجتماعی طور پر عدل کا نفاذ کرنا۔

اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ-فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو پھر اگران میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں صلح کروادو اور عدل کرو، بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ (پ26،س حجرات،آیت نمبر9)

وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ- ترجمہ کنزالعرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو 

.شان نزول :ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) دراز گوش پر سوار ہو کر تشریف لے جا رہے تھے .اس دوران انصار کی مجلس کے پاس سے گزر ہوا تو وہاں تھوڑی دیر ٹھہرے اس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو عبداللہ بن ابی نے ناک بند کر لی یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا: حضور اکرم( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے.حضور پر نور( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) تو تشریف لے گئے لیکن ان دونوں میں بات بھر گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ پڑیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی. صورتحال معلوم ہونے پر سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) وآپس تشریف لائے اور ان میں صلح قرار دی اس معاملے کے بارے میں یہ ایت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا:

اے ایمان والو! اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم سمجھا کر ان میں صلح کرا دو پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتی کرے اور صلح کرنے سے انکار کر دے تو مظلوم کی حمایت میں اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کی طرف پلٹ ائے پھر اگر وہ اللہ تعالی کے حکم کی طرف پلٹ ائے تو انصاف کے ساتھ دونوں گروہوں میں صلح کروا دو اور دونوں میں سے کسی پر زیادتی نہ کرو (کیونکہ اس جماعت کو ہلاک کرنا مقصود نہیں بلکہ سختی کے ساتھ راہ راست پر لانا مقصود ہے) اور صرف اس معاملے میں ہی نہیں بلکہ ہر چیز میں عدل کرو.بے شک اللہ تعالی عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ تو وہ انہیں عدل کی اچھی جزا دے گا.(تفسیر صراط الجنان  جلالین مع صاوی ، الحجرات ، تحت الآیۃ : 9، 5/ 1992-1993، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: 9، ص1153، روح البیان، الحجرات، تحت الآیۃ: 9، 9 /73-74، ملتقطاً)

(5)چادر اور چار دیواری کا تحفظ کرنا. رعایا کا پانچواں حق یہ ہے کہ حاکم وقت حکومت کے زور پر عام مسلمان کی چار دیواری کے حق کی خلاف ورزی نہ کریں اور اجازت لیے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہ ہو عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان في بيته فاطلع عليه رجل فاهوى إليه بمشقص فتاخر الرجل " حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تھے (اسی دوران) ایک شخص نے آپ کے گھر میں جھانکا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیر کا پھل لے کر لپکے (کہ اس کی آنکھیں پھوڑ دیں) لیکن وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔(سنن ترمذي كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم 17. باب مَنِ اطَّلَعَ فِي دَارِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، حدیث نمبر: 2708)

اللہ پاک ہمارے وطن عزیز مک پاکستان کو بھی ایسے حکمران نصیب فرمائے جو رعایہ کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوں آمین بجاہ النبی الامین الکریم


ہر شخص نگہبان ہے ، ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ جس کے ماتحت جتنے زیادہ ہونگے وہ اتنا ہی زیادہ جوابدہ ہو گا۔ پھر جس خوش نصیب نے  اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف، شفقت و محبت ، خیر خواہی، امانتداری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہو گا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائے گا، اسے بروزِ قیامت عرشِ الہی کا سایہ نصیب ہو گا اور اُس کا عدل و انصاف اُس کے لئے باعث نجات ہو گا۔ اس کے برعکس جس حاکم نے اپنی رعایا کے ساتھ خیانت، ظلم و ستم ، دھوکا دہی، حق تلفی کا مظاہرہ کیا ہو گا، اُن کی حاجات و ضروریات کی طرف کوئی توجہ نہ دی ہو گی تو وہ دنیا و آخرت میں نقصان اُٹھائے گا، محشر کی گرمی میں اس کے لئے کوئی سایہ نہ ہو گا، رحمت خداوندی سے محروم رہے گا اس لئے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے ماتحتوں کے حقوق کی ادائیگی کی بھر پور کوشش کرے، جتنا ہو سکے نرمی سے پیش آئے، شفقت و محبت بھرا انداز اپنا ئے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ھوسکے گا۔

1۔انصاف کرنا حضرت سیدنا عبد الله بن عمرو بن عاص رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا سے روایت ہے کہ رسول الله صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک انصاف کرنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے" یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے "۔(مسلم، كتاب الامارة ، باب فضيلة الامام العادل الخ، ص 783، حدیث : 4721 ملتقطا)

2۔ظلم نہ کرنا حضرت سید نا عائذ بن عمر و رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ وہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لڑکے میں نے رسول الله صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: ” بے شک بدترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پر ظلم کریں، پس تو اپنے آپ کو ان میں شامل ہونے سے بچا۔“ (مسلم، کتاب الامارة ، باب فضيلة الامام العادل الخ، ص 785, حدیث: 4733)

3۔خبر گیری کرنا حضرت سیدنا عبد الله بن عمرو بن عاص رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے کہ رسول الله صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک انصاف کرنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں نور کےمنبروں پر ہوں گے " یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے" (مسلم، كتاب الامارة ، باب فضيلة الامام العادل الخ، ص783 ، حدیث : 4721 ملتقطا)

4۔دھوکہ نہ دینا۔حضرت سید نا ابو یعلی معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله تَعَالَ عَلَيْهِ وَ الهِ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ” جب اللہ عَزَّ وَ جَلَّ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔“ ایک روایت میں ہے کہ ”وہ خیر خواہی کے ساتھ اُن کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔ “مسلم شریف کی روایت میں یہ ہے کہ ”جو مسلمانوں کے اُمور پر والی بنایا جائے، پھر اُن کے لئے کوشش نہ کرے اور اُن سےخیر خواہی نہ کرے تو وہ اُن کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہو گا"(مسلم، کتاب الایمان، باب استحقاق الوالى الغاش الخ، ص 78، حدیث: 366 بتغير قليل)

5۔محبت کرنا۔حضرت سید نا عوف بن مالک اشجعی رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا صلَّى اللهُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم اُن سے محبت کرو تم انہیں دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم نفرت کر واور وہ تم سے نفرت کریں، تم اُن پر پھٹکار کرو وہ تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرام عَلَيْهِمُ الرِّضوان نے عرض کی:” یارسول الله صَلَّى اللهُ تَعَالَ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم، کیا اس وقت ہم ان سے تلوار کے ذریعے جنگ نہ کریں؟ فرمایا: ”نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں، اور جب تم میں سے کوئی اپنے حاکم کو کسی گناہ میں ملوث دیکھے تو اسے چاہیے کہ اس گناہ کو برا جانے مگر اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔ (مسلم، كتاب الامارة، باب خيار الائمة وشرارهم ، ص 795 ، حدیث : 4804)

حاکموں کے لیے دعائے مصطفی: ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا" اے اللہ عزوجل جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت میں مبتلا فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور اور ان سے نرمی سے پیش آئے تو تو بھی اس سے نرمی والا سلوک فرما")(مسلم، كتاب الامارة، باب فضيلة الامام العادل وعقوبة الجائر الخ، ص 784، حدیث: 4722)


دین اسلام میں حکومت کے قیام کا مقصد معاشرے سے ہر قسم کے ظلم و زیادتی کو دور کرنا ہے اسلامی حکمران شریعت اسلامیہ کا سپاہی رکھوالا ہے وہ معاشرے میں عدل و انصاف کے نظام کو قائم کرنے کا پابند ہے اس کے سامنے ظالم کمزور تر ہو اور مظلوم انتہائی طاقتور جب تک کہ وہ ظالم سے مظلوم کا بدلہ نہ لے لئے اسلامی حکمران غریبوں، مسکینوں یتیموں، بیماروں، اپاہجوں، بیواؤں کا رکھوالا ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی غریب سے غریب تر کو  اپنی عزت و مال کے لٹنے کا ڈر نہ ہو اور وہ صرف امراء و وزراء تک محدود نہ ہو اس کی نوازشات ساری کی ساری صرف منظور نظر لوگوں تک نہ رہیں بلکہ اس کے اندر خلفاء راشدین کی طرح مفلس لوگوں کا پورا پورا خیال ہو اس کے ہوتے ہوئے کسی جابر شخص کو کسی غریب ومسکین کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہو کیونکہ اسلام نے اسے پوری رعایا کا نگران مقرر کیا ہے نہ کہ صرف چند مخصوص لوگوں کا۔دعایا کے حقوق

1 نیکی کی دعوت دنیا :- رحمت یونین علی نے علیہ وسلم نے فرمایا :- نیکی کی طرف راہنمائی کرنے والا بھی نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔ (جامع ترمذی، رقم 2679، ج 4، ص 305)

2 جائز سفارش کرنا :- حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

"(حاجت روائی میں) اسکی سفارش کرو اجر پاؤ گے، اللہ تعالٰی اپنے رسول کے ذریعے جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے" صحیح بخاری، کتاب الادب، نمبر 2027، جلد 4، ص 107)

3 نرم گفتگو کرنا :- حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- "بروز محشر تم میں سے میرے سب سے زیادہ محبوب اور تم میں سے میری مجلس میں سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم اچھے اخلاق والے اور نرم والے ہوں، وہ لوگوں سے الفت رکھتے ہوں اور لوگ ان سے محبت کرتے ہوں۔ اور تم میں میرے ہے سب سے زیادہ قابل نفرت اور قیامت کے دن میری مجلس میںمجھ سے زیادہ دور منہ بھر کر باتیں کرنے والے، باتیں بنا کر لوگوں کو مرغوب کرنے والے اور تکر کرنے والے ہو گئے" (ترمذی، کتاب البرو الصلتہ، ج 3، رقم 2025،ص410)

4 خیر خواہی کرنا:- رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا :- "کوئی بندہ جسے اللہ تعالٰی کسی رعیت کا والی بنائے پھر دعایا کی خیرخواہی سے حفاظت نہ کرنے مگر وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا" (مرآۃ المناجیح شرح مسكوة المصابیح جلد:5 ، حدیث نمبر 3687)

5 شکر اد کرنا:- حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا :- "کہ بادشاہ زمین میں اللہ کا سایہ ہے جس کی طرف اللہ کے بندوں میں سے ہر مظلوم پناہ لیتا ہے تو اگر انصاف کرے تو اس کے لیے ثواب ہے اور رعایا پر شکر واجب ہے اور جب ظلم کرے تو اس پر بوجھ ہے اور دعایا پر صبر واجب ہے" (مرآۃ المناجیح شرح مشکوہ المصابیح جلد:5 حدیث نمبر 3718)


ہر شخص نگہبان ہے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ جس کے ماتحت جتنے زیادہ ہونگے وہ اتنا ہی زیادہ جواب دہ ہوگا۔ بھر جس خوش نصیب نے  اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کے ساتھ شفقت و محبت خیر خواہی ، امانتداری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہوگا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائے گا. اس کے برعکس جس حاکم نے اپنی رعایا کے ساتھ خیانت ظلم و ستم حق تلفی کا مظاہرہ کیا ہوگا وہ رحمت خداوندی سے محروم رہے گا۔ اس لیے ہر شخص کو چاہئے کہ اپنے ماتحتوں کے حقوق کی ادائیگی کی بھ پور کوشش کرے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکے۔

1)خیر خواہی کرنا :-حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو اللہ تعالی نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔ (بخاری کتاب الاحکام حدیث 7150)

(2) انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا ۔ نظام عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے۔ علماء نے فرمایا کہ حاکم کو چاہئے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابرسلوک کرے۔ (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو کو موقع دے دوسرے کو بھی دے

(2) نشست دونوں کو ایک جیسی دے. (3) دونوں کی طرف برابر متوجہ رہے (4) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے (5) فیصلہ دینے۔ میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دلائے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ انصاف کرنے والوں کو قرب الہی میں نور کے منبر عطا لئے جائیں گے۔ (مسلم کتاب الامارة ص 1015 )

(3) رعایا کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا.حکمرانی قائم رکھنے کے لیے رعایا کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دینا فرعون . جیسے بدترین کافر کا طریقہ ہے۔ دیکھا جائے ہمارے دور میں بھی یہی طریقہ رائج ہے مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے حکمران لوگوں کو مختلف مسائل میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ لوگ ان مسائل میں ہی سے نہ نکل پائیں اور ان کی حکمرانی قائم رہے. اس طرز عمل کے نتیجے میں ان حکمرانوں کا جو حال ہوتا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ اللہ تعالی انہیں عقل سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔

(4) ظالم حکمران کی وعید سرکار نامدار مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عالیشان ہے۔ چار قسم کے لوگوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا 1) قسم کھا کر مال بیچنے والا (2) متکبر فقیر .(3) بوڑھا زانی (4) ظالم حاکم (فیضان ریاض الصالحین جلد 5 ص607)

5) محبت کرنا۔ حضرت سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی الله منه؛سے مروی ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم ان سے محبت کرو تم انہیں دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں تم ان پر پھٹکار کرو وہ تم پر لعنت کریں ( فیضانِ ریاض الصالحین جلد 5 ص 611)


کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دین اسلام حکمرانوں کو دعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر دعایا کی دیکھ بال اور ان کے درمیان درست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت سیدنا ہشام رحمة الله علیه بیان کرتے ہیں کہ حضرت سيدنا كعب الاحبار  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہوں تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران برے ہوں تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں لہذا حکمران کو رعایا سے اچھا سلوک کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی ہو ۔ آئیے اب دعایا کے حقوق سنیئے

(1) دعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا : حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لیے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو (مراۃ المناجیح جلد5 ص416)

(2) دعایا کی ضرورت وحاجت کو پورا کرنا :حضرت عمرو بن مرۃ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت ومحتاجی کے سامنے حباب کردے تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت وحتاجی کے سامنے آڑ فرمادے گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر فرما دیا (مراة المناجیح جلد5 ص 419)

(3) رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا۔ حضرت عبد الله بن عمر اور ابو ھریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حاکم فیصلہ کرے تو کوشش کرے کہ درست فیصلہ کرے تو اس کو دو ثواب ہیں اور جب فیصلہ کرے تو کوشش کرے اور غلطی کرے تو اس کو ایک ثواب ہے (مراة المناجیح جلد 5 ص 422)

(4) رعایا پر ظلم نہ کرنا : حضرت عبد الله بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالٰی ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔ (مراة المناجیح جلد5 ص 429)

(5) رعایا کی خبر گیری : حضرت سید یحییٰ بن عبداللہ اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت سیدنا طلحہٰ رضی الله عنه یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا تو

وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب دیا وہ اتنے عرصہ سے میری خبر گیری کر رہا ہے ۔ حضرت سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے ۔ آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگے اے طلحہ تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا ۔( اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص 116)


رعایا اور سلطنت دو ایسے اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کا جزولاینفک ہیں اور ان میں اسے ایک جزو کے عدم ہونے کی صورت میں دوسرے جزو کا عدم ہونا ظاہر و ثابت ہے۔ تاہم ریاست ایک تجریدی شے ہے، جس کا صفحہ ہستی پہ اظہار چند کرداروں کی صورت میں نمو پذیر ہوتا ہے اور یہی چند کردار ریاست کے کردار، افکار، بیانیہ اور قانون کو مرتب کر کے رعایا کو اس کا بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ  اپنی سوچ، فکر، عمل اور تحریک کو ریاست کے ان بنیادی خدوخال کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو اس طرح منظم کریں کہ منہج ریاست اور انفرادی منہج میں تطبیق قائم ہو جائے اور یوں کسی بھی قسم کے انتشار اور خلفشار کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن جہاں جہاں ان دونوں کے درمیان منہج کا اختلاف واقع ہوتا ہے، وہاں داخلی اور خارجی انتشار کے لئے زمین ہموار ہو جاتی ہے اور یوں سول نافرمانی یا طوائف الملوکی کی صورت میں معاشرہ شکست و ریخت سے دوچار ہو کر اپنا وجود گنوا بیٹھتا ہے۔

دنیا میں ہم انسان جہاں بھی ہوں، جس شکل میں بھی ہوں اور جن حالات میں بھی ہوں، ہماری زندگی کا دار و مدار دراصل معاشرے کے ہی اوپر ہے اور یہی معاشرہ جب اپنی بنیادی سطح سے بلند ہوتا ہے تو اس میں رعایا اور سلطنت کے نام سے دو گروہ واضح ہو جاتے ہیں، جن میں سے ایک کی حیثیت بالترتیب محکوم اور دوسرے کی حاکم کی ہوتی ہے۔ تاہم جیسے معاشرے میں رہنے والے تمام انسان حقوق و فرائض کی بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہیں، ویسے ہی ان دو طبقات کے اوپر بھی حقوق و فرائض کی ذمہ داری پوری پوری نسبت سے عائد ہوتی ہے۔

حکمرانی بہت بڑی آزمائش ہے، اگر حکمرانی کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو یہ وبال جان ہے، باعث پکڑ ہے اور اگر حاکم خوف خدا رکھنے والا ہو ، عدل وانصاف سے کام لیتا ہو تو وہ زمین پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کا سایہ ہے، رعایا کے لئے نعمت ہے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا پسندیدہ ہے۔ حدیث ذکور میں اس حاکم کے لئے جنت سے دوری کی وعید ہے جو اپنی رعایا کو دھوکا دے، ان کے ساتھ خیر خواہی نہ کرے، ان کے معاملات کے حل کی کوشش نہ کرے۔

الله عَزَّ وَجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَاخْفِضُ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ المؤمنین ترجمہ کنزالایمان: اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ اپنے پیرو تابع مسلمانوں کے لئے ( ۱۹ ، الشعراء : ۲۱۵) تفسیر روح البیان میں ہے: یعنی مؤمنین کے لئے نرمی کیجئے ، انہیں اپنی صحبت بابرکت سے نوازیئے ان کی غلطیوں کو تاہیوں سے درگزر کیجئے، ان کے بڑے احوال سے چشم پوشی فرما کر ان کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیجئے۔

اپنی رعیت کو دھوکا دینے والے پر جنت حرام ہے۔«وعن معقل بن يسار رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: ‏‏‏‏ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة ‏‏‏‏ متفق عليه» معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھی بندہ جسے اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا حاکم بنا دے اسے جس دن موت آئے وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعیت کو دھوکا دینے والا ہو تو اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1285] [بخاري 7150]،[مسلم، الايمان142]،


اللہ تعالیٰ جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعال کے سامنے  اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا۔

1)حکمران کی اطاعت ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے (يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوْا أَطِيْعُوْ اللّٰهَ وَأَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الَّامْرِ مِنْکُمْ) ترجمہ: مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں. (سورۃ النساء آیت 59)

2 )حاکم کی بات سننا۔ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ ان کی ذمہ داری کا بار (بوجھ) ان پر ہے اور تمہاری ذمہ داری کا بوجھ تم پر . (صحیح مسلم )

3) حاکم کی اطاعت کرنا لازم۔مسلمان پر لازم ہے کہ وہ سنے اور اطاعت کرے خواہ وہ کام اسے پسند ہو یا نآپسند مگر یہ کہ اسے نافرمانی والا حکم دیا جائے تو پھر نہ سنے اور نہ اطاعت کرے( صحیح مسلم و صحیح بخاری)

4)ظالم حکمران کی وعید ۔سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے۔چار قسم کے لوگوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔(1) قسم کھا کر مال بیچنے والا (2)متکبر فقیر(3) بوڑھازانی (4)ظالم حاکم۔( ریاض الصالحین جلد 5 ص 607)5

5)رمایا کا غداد ۔نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالٰی نے جسے رعایا کا حاکم و نگہبان بنایا اور وہ اس حال میں مرا کہ اپنی رعایا کے ساتھ غداری کرتا تھا تو اللہ تعالٰی اس پر جنت کی حرام فرما دے گا۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 81)


اللہ تعالٰی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے زمہ عوام کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے بروز حشر اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں حکمران  اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا ۔

(1) رعایا کی خبر گیری رکھنا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک کوڑا خانہ کے پاس سے گزرے تو وہاں رک گئےرفقا کو اس کی بدبو سے اذیت ہوئی تو آپ نے فرمایا یہ تمہاری دنیا ہے جس کی تم حرص و لالچ کرنے اور اسی کے گن گاتے ہو ۔( اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص (117)

(2) رعایا کے ساتھ محبت کرنا۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمیشہ مسکینوں کے ساتھ محبت فرماتے اور ان کے ساتھ کھانا تناول فرمانے حتی کہ اس وجہ سے آپ کے جسم میں کمزوری پیدا ہوگئ آپ رضی آللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ کھجوروں کا شیرہ تیار کر کے کھانے کے ساتھ آپ کو پلایا کرتی تھیں ( اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص (525)

(3) رعایا کی خیر خواہی کرنا۔ حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں مجھے کسی مسلمان گھرانے کی مہینہ پھر یا ہفتہ بھر یا جتنے دن اللہ عزوجل چاہے اتنے دن کفالت کرنا نفلی حج کرنے سے زیادہ محبوب ہے اور میں اپنے کسی مسلمان بھائی کو الله عز وجل کی رضا کے لیے ایک ذانق کے برابر مال ہدیہ کروں یہ مجھے اللہ عزوجل کے راستے میں دنیا خرچ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔( اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص 575)

(4) دعایا کو دھوکا دینے والے حکم کا انجام۔حضرت سیدنا ابو یعلیٰ معقل بن یسار سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو الله اس پر جنت حرام فرما دے گا (فیضان ریاض الصالحین ج 5 ص 603)