ہر شخص نگہبان ہے ، ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ جس کے ماتحت جتنے زیادہ ہونگے وہ اتنا ہی زیادہ جوابدہ ہو گا۔ پھر جس خوش نصیب نے  اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف، شفقت و محبت ، خیر خواہی، امانتداری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہو گا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائے گا، اسے بروزِ قیامت عرشِ الہی کا سایہ نصیب ہو گا اور اُس کا عدل و انصاف اُس کے لئے باعث نجات ہو گا۔ اس کے برعکس جس حاکم نے اپنی رعایا کے ساتھ خیانت، ظلم و ستم ، دھوکا دہی، حق تلفی کا مظاہرہ کیا ہو گا، اُن کی حاجات و ضروریات کی طرف کوئی توجہ نہ دی ہو گی تو وہ دنیا و آخرت میں نقصان اُٹھائے گا، محشر کی گرمی میں اس کے لئے کوئی سایہ نہ ہو گا، رحمت خداوندی سے محروم رہے گا اس لئے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے ماتحتوں کے حقوق کی ادائیگی کی بھر پور کوشش کرے، جتنا ہو سکے نرمی سے پیش آئے، شفقت و محبت بھرا انداز اپنا ئے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ھوسکے گا۔

1۔انصاف کرناحضرت سیدنا عبد الله بن عمرو بن عاص رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا سے روایت ہے کہ رسول الله صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک انصاف کرنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے" یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے "۔(مسلم، كتاب الامارة ، باب فضيلة الامام العادل الخ، ص 783، حدیث : 4721 ملتقطا)

2۔ظلم نہ کرناحضرت سید نا عائذ بن عمر و رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ وہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لڑکے میں نے رسول الله صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: ” بے شک بدترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پر ظلم کریں، پس تو اپنے آپ کو ان میں شامل ہونے سے بچا۔“(مسلم، کتاب الامارة ، باب فضيلة الامام العادل الخ، ص 785, حدیث: 4733)

3۔خبر گیری کرناحضرت سیدنا عبد الله بن عمرو بن عاص رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے کہ رسول الله صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک انصاف کرنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں نور کےمنبروں پر ہوں گے" یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے"(مسلم، كتاب الامارة ، باب فضيلة الامام العادل الخ، ص783 ، حدیث : 4721 ملتقطا)

4۔دھوکہ نہ دیناحضرت سید نا ابو یعلی معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله تَعَالَ عَلَيْهِ وَ الهِ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ” جب اللہ عَزَّ وَ جَلَّ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔“ ایک روایت میں ہے کہ ”وہ خیر خواہی کے ساتھ اُن کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔ “مسلم شریف کی روایت میں یہ ہے کہ ”جو مسلمانوں کے اُمور پر والی بنایا جائے، پھر اُن کے لئے کوشش نہ کرے اور اُن سےخیر خواہی نہ کرے تو وہ اُن کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہو گا"(مسلم، کتاب الایمان، باب استحقاق الوالى الغاش الخ، ص 78، حدیث: 366 بتغير قليل)

5۔محبت کرناحضرت سید نا عوف بن مالک اشجعی رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا صلَّى اللهُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم اُن سے محبت کرو تم انہیں دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم نفرت کر واور وہ تم سے نفرت کریں، تم اُن پر پھٹکار کرو وہ تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرام عَلَيْهِمُ الرِّضوان نے عرض کی:” یارسول الله صَلَّى اللهُ تَعَالَ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم، کیا اس وقت ہم ان سے تلوار کے ذریعے جنگ نہ کریں؟ فرمایا: ”نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں، اور جب تم میں سے کوئی اپنے حاکم کو کسی گناہ میں ملوث دیکھے تو اسے چاہیے کہ اس گناہ کو برا جانے مگر اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔ (مسلم، كتاب الامارة، باب خيار الائمة وشرارهم ، ص 795 ، حدیث : 4804)

(حاکموں کے لیے دعائے مصطفی)ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا" اے اللہ عزوجل جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت میں مبتلا فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور اور ان سے نرمی سے پیش آئے تو تو بھی اس سے نرمی والا سلوک فرما")(مسلم، كتاب الامارة، باب فضيلة الامام العادل وعقوبة الجائر الخ، ص 784، حدیث: 4722)


ہمارے معاشرے میں نیک کام کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے، حکام  اپنی رعایا کے اعمال سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔ عدل و انصاف کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے منصب پر فائز حضرات عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے اور مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی اولاد، اَساتذہ اپنے شاگردوں اور افسر اپنے نوکروں کے برے اعمال سے چشم پوشی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو،بیوی اپنے شوہر کو،بھائی بہن اور عزیز رشتہ دار ایک دوسر ے کو نیک کاموں کی ترغیبدیتے ہیں نہ قدرت کے باوجود انہیں برے افعال سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم دنیا بھر میں جس ذلت و رسوائی کا شکار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی اوراسی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ قوم تباہی کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

(1)رعایا کی مدد کرنا ۔امیر المؤمنین حضرت سید نا علی المرتضی کرم الله تعالى وَجْهَهُ الكَرِيم ارشاد فرماتے ہیں کہ سر کار مکہ مکرمہ ، سردار من منور صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : ” میری ناراضی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوا کسی کو مددگار نہیں پاتا “المعجم الصغير للطبراني ، الحديث : 71 ، الجزء الاول، ص 31

(2)مدد نہ کرنا۔حضرت سید نا ابو شیخ اور حضرت سید نا ابن حبان رحمه الله تعلی علیهما نقل کرتے ہیں: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ایک بندے کو قبر میں 100 کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا، وہ برابر عرض کرتا رہا یہاں تک کہ ایک کوڑا رہ گیا پس اس ایک کوڑے سے ہی قبر میں آگ بھر گئی۔ جب وہ آگ ٹھنڈی ہوئی اور اُسے افاقہ ہوا تو اس نے پوچھا: ” مجھے کوڑا کیوں مار رہے ہو؟“فرشتوں نے جواب دیا : ” تو نے ایک نماز بغیر وضو کے پڑھی تھی اور ایک مظلوم کے پاس سے گزرا تھا لیکن (قدرت رکھنے کے باوجود ) تو نے اس کی مدد نہ کی تھی ۔التمهيد لابن عبد البر ، يحيى بن سعيد الانصاری، تحت الحديث: 738/32، ج 10، ص 166 -

(3)سزا نہ دینا۔ سُنَنِ ابی داؤد کی روایت میں اس طرح ہے : " غلاموں میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق ہو اسے وہی کھلا ؤ جو خود کھاتے : ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق نہ ہو اسے بھی بیچ دو لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مخلوق کو عذاب نہ دو۔“سنن ابی داود کتاب الادب، باب فى حق المملوك ، الحديث : 5161 ، ص 1600-

(4)معاف کرنا ۔حضور نبی مکرم،نور مجسم ، صلی اللہ علیہ وآلہ نے غلاموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: "اگر وہ اچھاکام کریں تو قبول کرلو اور اگر برائی کریں تو معاف کر دیا کرو لیکن اگر وہ تم پر غلبہ چاہیں تو انہیں بچ دو الترغيب والترهيب ، كتاب القضاء ، باب الترغيب فى الشفقة .... الخ ، الحديث : 3490٫ ،ج٫3ص ،167

(5)جنت کی خوشبو نہ پائے گا ۔حضرت معقل بن یسار  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، 4 / 456، الحدیث: 7150)

(6)نرمی کرنا ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ،میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل وعقوبۃ الجائر۔۔۔ الخ، ص1061، الحدیث: 19(8127))

کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام دعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر دعایا کی دیکھ بال اور ان کے درمیان درست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت سید نا ہشام رحمة الله علیه بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا كعب الاحبار  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران برا ہو تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں لہذا حکمران کو دعایا سے اچھا سلوک کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی ہو ۔" آئیے اب دعایا کے حقوق سنئے "

(2) دعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا:

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لئے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو (المراة المناجیح جلد 5ص416)

(2) دعایا کی ضرورت و حاجت کو پورا کرنا :حضرت عمرو بن مرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت وضرورت کے سامنے حجاب کر دے تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت وحتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چناچہ معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر کر دیا ( المرأة المناجیح جلد 5 ص 419)

(3)رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا :حضرت عبد الله بن عمر اور ابو ھریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حاکم فیصلہ کرے تو کوشش کرے کہ درست فیصلہ کرے تو اس کو دو ثواب ہیں اور جب فیصلہ کرے تو کوشش کرے اور غلطی کرے تو اس کو ایک ثواب ہے۔ (مراۃ المناجیح جلد 5 ص 422)

(4) دعایا پر ظلم نہ کرنا : حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالٰی ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔ (مراة المناجیح جلد 5 ص 429)

(5) دعایا کی خبر گیری : حضرت سیدنا یحیی بن عبد الله اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب ضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس گھر میں جا کر دیکھا تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ میں جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب دیا وہ اتنے عرصہ سے میری خبرگیری کر رہا ہے۔حضرت سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگے اے طلحہ تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا ۔ (اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص 116)


اسلام میں اچھے وعادل حاکم کا بہت مقام و مرتبہ ہے یہاں تک یہ بروز قیامت اللہ پاک کے سب سے زیادہ نزدیک ہوں ہوں گے نور کے ممبروں پر ہوں گے ان کے مقام و مرتبے کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر لازم بہت سے فرائض ورعایا کے حقوق  بھی دین اسلام میں بیان کیے گئے ہیں یہ ان اوصاف سے تب ہی متصف ہو سکیں گے جب یہ اپنے فرائض ورعایا کے حقوق کو پورا کریں گے آئیے ان میں سے چند فرائض وحقوق کا مطالعہ کرتے ہیں

1)خیرخواہی کرناحاکم کو چاہیے کہ رعایہ کے ساتھ حسن سلوک اور خیر خواہی و بھلائی والا معاملہ کریں جس طرح کے رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حاکم کے حوالے سے فرمایافَلَمْ يَحُطُهَا بِنُصْحِهِ لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ . وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعى رعية فلم ينصح ، ۴۵۶/۴، حدیث: ۷۱۵۰، ۱۵۱ بتغير )

2)خبر گیری کرنارعایہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ حاکم رعایا کے معاملات پر نظر اور ان کی خبرگیری کرتا رہے خبرگیری کے حوالے سے رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جسے اللہ عزوجل مسلمانوں کے کسی معاملے کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی حاجت و ضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھرے تو بروز قیامت اللہ پاک اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجی فکر سے کچھ سروکار نہ ہوگا اس کے تحت فیضان ریاض الصالحین میں ہے کہ غافل بادشاہ روز قیامت ذلت کے گھڑے میں ہوگا-

فیضان ریاض الصالحین مکتبہ المدینہ جلد 5صفحہ614٫616

3)عدل و انصاف کرناحاکم پر لازم ہے کہ رعایا پر عدل و انصاف کرے اور ان پر نا انصافی و بے رحمی سے بچے اس کے متعلق حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ایک گھڑی کا عدل ایسے 60 سال کی عبادت سے بہتر ہے جس کی راتیں قیام اور دن روزے کی حالت میں گزرےالزواجر الباب الثاني في الكبائر الظاهرة، ٢٢٦/٢ -

4)رعایہ کے لیے ادارے قائم کرنا ملک میں عام لوگوں کے لیے ادارے قائم کرنا حکمرانوں کے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے تاکہ رعایا سے جہالت و بے رحمی دور ہو جس طرح کے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمت اللہ تعالی علیہ نے کثیر تعلیمی ادارے قائم کیے اور حضور علیہ السلام نے اصحاب صفہ کے لیے صفہ کا مقام منتخب فرمایا

5)عیب نہ ڈھونڈناحاکم کو چاہیے کہ بے وجہ رعایا کی عیب جوئی یا ان کی ٹو میں نہ پڑے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ حاکم جب لوگوں میں تہمت و شک ڈھونڈنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ دے گامرآۃ المناجیح شرح مشکات المصابیح مکتبہ اسلامیہ ج5ص408

پیارے پیارے اسلامی بھائیو اگر ہم اپنے اوپر غور کریں تو تقریبا ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح حاکم حکمران ہے کوئی آفیسر کوئی استاد، کوئی ناظم اورکوئی والد، ہونے کی صورت میں حاکم ہے اگر معاشرے کو پرامن اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو اپنے ماتہتوں کے ساتھ حسن سلوک و پیار و محبت و نرمی سے پیش ائیں اور ان کے تمام حقوق ادا کریں اور اسی طرح جو احادیث وغیرہ میں بیان ہوئے ان پر کار بند رہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقوق و ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے


دین اسلام میں حقوق کی بہت اہمیت ہے . قرآن و حدیث میں حقوق ادا کرنے والوں کی بہت فضیلتیں بیان ہوئی ہیں. اللہ تعالی نے ہر جاندار کے حقوق رکھےہیں جن میں سے دعایا کےبھی حقوق ہیں جو درج ذیل ہیں :

( عیادت کرنا ) نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والعالم نے ارشاد فرمایا . جب مسلمان اپنے بھائی کی عیادت یا اس کی زیادت کو جاتا ہے تو اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے ۔ تو اچھا ہے تیرا چلنا بھی اچھا ہے اور تو نے جنت میں گھر بنا لیا ۔مسند امام اعظم، مسند ابی ھریرہہ جلد 3 ص (25)

صلہ رحمی کرنا ۔حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جو شخص الله عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص الله عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہےوہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے :بخاری، جلد 4 ، جس 136 ) (بخاری.

محبت کرنا ۔پیارے پیارے آقاصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم ان سے محبت کرو تم انہیں دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں تم ان سے پٹکار کرو وہ تم پر لعنت کریں (مسلم ، کتاب الامارۃ ، ص 795 حدث (4854

(4) نرمی سے پیش آنا : میٹھے میٹھے مکی مدنی مصطفیٰ صلی الله : تعالی علیہ والہ ولی نے ارشاد فرمایا . اے اللہ عزو جل جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت میں مبتلا فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان سے نرمی سے پیش آئے تو تو بھی اس سے نرمی والا سلوک فرما ۔ (مسلم ، کتاب الامارة . م ب الامارة . ص 784 حدیث (4722


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں ، شرعی احکام اور شرعی سزاؤں کے نفاذ اور فیصلوں میں عدل وانصاف کی ذمہ داری حاکم اسلام پر ہے : ہر شخص ذمہ دار ہے جو جس منصب پر فائز ہے امانت داری کے ساتھ اُس کے تقاضوں کو پورا کرنا اُس پر لازم ہے حکمرانی بہت بڑی آزمائش ہے اگر حکمرانی کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو یہ وبال جان ہے باعث پکڑ ہے اگر حاکم خوف خدا رکھنے والا ہو، عدل و انصاف سے کام لیتا ہو تو وہ زمین پر اللہ عزوجل کی رحمت کا سایہ ہے رعایا کے لئے بہت بڑی نعمت ہے اللہ عزوجل ہمیں  اپنے ماتحت افراد کے حقوق کی اچھے طریقے سے ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

(1) نرمی کرنا :حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: کہ میں نے اپنے اُس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر اُن پر سختی کرے تو تو بھی اُسے مشقت میں مبتلا فرما اور جو میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ داد بنے اور اُن سے نرمی سے پیش آئے تو تو بھی اُس سے نرمی والا سلوک فرما : (مسلم، کتاب الامارة حديث (4722)

2)حق دلوانا : : الله عزوجل نے ارشاد فرماتا ہے: إِنَّ اللهَ يَا مُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ . ترجمہ کنزالایمان : بے شک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی کاتفسیر صراط الجنان میں ہے عدل اور انصاف کا (عام فہم ) معنی یہ ہے کہ ہر حق دار کو اس کا حق دیا جائے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے اس طرح عقائد. عبادات اور معاملات میں افراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راہ اختیار کرنا بھی عدل میں داخل ہے : صراط الحنان پارہ : 14 النحل: 90)

(3) ظلم نہ کرنا :حضرت سیدنا عائذ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے ، روایت ہے کہ وہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : اے لڑکے میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرما تے سنا بے شک بدترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پر ظلم کریں پس تو اپنے آپ کو ان میں شامل ہونے سے۔ بچا) فیضان ریاض الصالحین جلد 5 میں (612)

4)دھوکا نہ دینا :حضرت سیدنا ابو یعلی معقل بن یسار رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب الله عز وجل، اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ عز و جل اُس پر جنت حرام فرمادے گا۔ ) بخاری، کتاب الاحکام، حدیث (7150)

(5) خبر گیری رکھنا : حضرت سیدنا ابو مریم ازدی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رف اللہ تعالٰی عنہ سے عرض کی کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جسے اللہ عزوجل مسلمانوں کے کسی معاملہ کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی حاجت و ضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھرے تو بروز قیامت اللہ عزوجل کو اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجی و فقر سے کچھ سروکار نہ ہوگا حضرت سید نا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجات کی خبر گیری کے لئے ایک شخص مقرر فرمادیا:(ابو داؤد، کتاب الاخراج حدیث (2948


 اللہ پاک نے ارشاد فرمایاترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللہ و رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللہ و قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا۔(حوالہ سورت نساء آیت نمبر 59)

(1)بدترین ہے وہ حاکم جو لوگوں پر ظلم کرے، ان کی ضروریات کی پر واہ نہ کرے۔

(2) انتہائی کمینہ اور ظالم ہے وہ شخص جو دوسروں کی اشیاء کو چھیننے کی کوش وشش میں لگار ہے۔

(3) حسب منصب ہر سطح پر نیکی کی دعوت دینی چاہئے تاکہ لوگوں میں دینی احکام پر عمل پیرا ہونے کاشعور بیدار ہو۔

(4) رعایا پر بے جا ٹیکس لگانا، بلاوجہ چیزوں کی قیمت بڑھانا اور خواہ مخواہ سخت احکام لاگو کر کے عوام کو پریشان کرنا ظلم و جبر کی علامت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاحضرت سیدنا ابو مریم از دی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی ملے سے عرض کی کہ میں نے رسول کریم رؤف رحیم صلى اللہ تعالى عليه واله وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : " جسے اللہ عزوجل مسلمانوں کے کسی معاملہ کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی حاجت وضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھرے تو بروز قیامت اللہ عزوجل اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجی و فقر سے کچھ سروکار نہ ہو گا۔ " ( یہ فرمان عالی سن کر) حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی حاجات کی خبر گیری کے لئے ایک شخص مقرر فرمادیا (حوالہ ریاض الصالحین حدیث نمبر 658)

اس حدیث پاک میں ان حکمرانوں و عہدے داروں کے لئے سخت وعید ہے جو اپنے عیش میں مگن ہوں اور رعایا کی حاجات و ضروریات کی پروانہ کریں، لوگ فریاد کریں، مسائل کا حل چاہیں لیکن وہ ان کے اسکے جائز مقاصد پورے نہ کریں تو بروز قیامت ایسے حکمرانوں کی پکڑ ہو گی ، ان کی ضروریات و حاجات سے اللہ مراد لا انت کو کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس لئے جسے دنیا میں اللہ ملا جلا نے کسی قوم کی کوئی ذمہ داری دی اسے چاہیے کہ ہے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے لوگوں کی حاجات و ضروریات کا خیال رکھے تا کہ بروز قیامت اللہ ماہ ملا ہے اس کی حاجات کو پورا فرمائے ۔ "مرآۃ المناجیح میں حدیث مذکور کی جو شرح بیان کی گئی ہے اس کا خلاصہ ایک کچھ یوں ہے کہ : "جو حاکم مظلوموں ، حاجت مندوں کو اپنے تک نہ پہنچنے دے، اپنے دروازے پر سخت پہرہ سالوں بٹھادے، ان کی ضروریات کی پروا نہ کرے، ان سے غافل رہے ، ان کی حاجت روائی کا کوئی انتظام نہ کرے نام بس اپنی حکومت سنبھالنے اور اپنے عیش و آرام میں مشغول رہے تو اُس حاکم سے اللہ تعالیٰ اپنے ان مجبور محمد بندوں کا بدلہ اس طرح لے گا کہ نہ تو اس ظالم حاکم کی حاجات و ضروریات پوری فرمائے گا نہ ان کی دعائیں قبول کرے گا اس سزا کا ظہور کچھ دنیا میں بھی ہوگا اور پورا پورا ظہور آخرت میں ہو گا خیال رہے کہ جیسے عادل بادشاہ بروز قیامت قرب الہی میں نور کے منبروں پر ہوں گے ایسے ہی غافل اور ظالم بادشاہ ذلت کےگڑھے میں ہوں گے۔ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعال ملک نے یہ فرمان عالی سن کر ایک محکمہ بنا دیا جس کے ماتحت ہر بستی میں ایک افسر رکھا گیا جو لوگوں کی معمولی ضرور تمیں خود پوری کرے اور بڑی ضرور تھیں آپ رضی اللہ تعالیٰ علیہ تک پہنچائے پھر ہمیشہ اس افسر سے باز پرس کی کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی تو نہیں کرتا۔ (حوالہ مرآة المناجیح جلد 5 ماخوذا 374)


اس عالم رنگ و بو میں انسانوں کی تخلیق کے بعد انہیں تاریکیوں سے نور ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے اللہ تعالی نے نبوت کا سلسلہ جاری کیا ختم نبوت کے بعد اسلامی قانون کو جاری رکھتے ہوئے بندوں سے ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی سے نجات دلا کر جائز حقوق پہنچاۓ اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر باقی رکھنے کے لیے حاکم عطا کیا اس وجہ سے انسانوں میں سے جسے عہدہ و خلافت ملی اسے عہدہ سنبھالنے کے بعد سارے معاملات میں عدل و انصاف سے فریضہ حکومت انجام دینے کے سلسلہ میں تاکیدی حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا

وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ- ترجمہ کنزالعرفان جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ پ 4 آیت نمبر 58 نساءاس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر آدمی اپنے ماتحت کے ساتھ انصاف سے کام لے چونکہ وہ اس کا ذمہ دار ہے۔جیسا کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته الإمام راع ومسئول عن رعيته۔۔۔(«‏‏‏‏ صحيح البخاري، كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَابُ الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى وَالْمُدْنِ 11 (893)،صحیح مسلم/الإمارة 5 (1829)، سنن الترمذی/الجھاد 27 (1507)، سلاطین و حاکم پر حکومت اور نظام ملک کے ساتھ ساتھ رعایا و عوام کے حقوق کو ادا کرنا ہے

آئیے رعایہ کے چند حقوق پڑھتے ہیں:

لوگوں کی پردہ پوشی کرنا حاکم کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی غلطیوں کے بارے میں غیر ضروری تجسس کی کوشش نہ کرے اور معمولی لغزشوں پر لوگوں کو تنگ نہ کرے اور جہاں تک ممکن ہو عفوو درگزر سے کام لے اور لوگوں کے عیبوں کو بلا حاجت شرعی فاش نہ کرے۔ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا: ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا (سنن ترمذي، كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي السَّتْرِ عَلَى الْمُسْلِمِ، حدیث نمبر 1426)

احکام کے نفاذ میں سختی : حاکم کو چاہیے کہ لوگوں کو مشتبہہ کاموں میں پڑھنے اور معصیت کا ارتکاب کرنے میں دلیر نہ ہونے دے اور مشکوک مقامات اور محافل میں شرکت سے اجتناب کرتے ہوئے اچھے کاموں کی ترویج و اشاعت میں کردار ادا کرے جیسا کہ

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سن سنة حسنة فعمل بها، كان له اجرها ومثل اجر من عمل بها لا ينقص من اجورهم شيئا، ومن سن سنة سيئة فعمل بها، كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده لا ينقص من اوزارهم شيئا".رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اسے اس کے (عمل) کا اجر و ثواب ملے گا، اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا، اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے اوپر اس کا گناہ ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہو گا، اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی“

(سنن ابن ماجه، أبواب کتاب السنة، بَابُ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَيِّئَةً، حدیث نمبر 203)

غرباء کی ہم نشینی : حاکم کو چاہیے کہ وہ صاحب دولت اور طاقتور لوگوں کے ساتھ زیادہ میل جول رکھنے کی بجائے غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ وقت بسر کرے ۔ اپنا زیادہ تر وقت فقراء اور اولیا ء اللہ کے پاس گزارے اور اپنے قلب کی اصلاح کے لیے خود کو صلحاء کے ذریعے جلاء بخشتا رہے ۔

غریب پروری: رعایا کا حق یہ بھی ہے کہ حاکم وقت فاقہ زدہ عوام کی حالت زار سے بے خبر نہ رہے اور پوری کوشش کرے کہ کوئی شخص بھوک کا شکار نہ ہو ، حاکم کو چاہیے کہ وہ بیوہ خواتین اور یتیم بچوں کا خاص خیال رکھے اور اس بارے میں قیامت کے دن اللہ تعالی کے حضور پیش ہونے سے ڈرے ۔

رعایا پر رحمت وشفقت:بادشاہ عوام کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا ہے۔اس لیے انہیں رعایا کے ساتھ رحمت و شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔جیسا کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا ”من لا یرحم الناس لا یرحمہ اللہ،جو شخص انسانوں پر رحم نہیں کرتا ہے تو اللہ ایسے شخص پر رحم نہیں فرمائے گا ”(صحیح البخاری/کتاب التوحید 2 حدیث نمبر 7376) صحیح مسلم/الفضائل 15 (2319) اسی طرح حدیثِ نبوی ہے الراحمون یرحمہم الرحمٰن إرحموا اہل الأرض یرحمکم من فی السماء،،رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے تو تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان کا مالک تم پر رحم فرمائے گا

(«‏‏‏‏سنن الترمذی، كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي رَحْمَةِ النَّاسِ (حدیث نمبر 1924)

حاکم کا ظلم نہ کرنا حاکم کا رعایا کے اوپر بلا وجہ ظلم کرنا حرام ہے کیوں کہ ان پر ظلم کرنا یہ عذاب عظیم کا داعی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا وَ مَنْ یَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِیْرًا ترجمہ کنزالعرفان اور تم میں جو ظالم ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔(پ،18،س،فرقان آیت نمبر 19)

رعایا کی حفاظت:حکام پر رعایا کی حفاظت اہم فریضہ ہے۔سرحد کی حفاظت کی خاطر پولیس محکمہ قائم کرے اور ہمیشہ وہاں افواج کو تیار رکھا جائے،نیز یہ بھی حق ہے کہ بادشاہ دین اسلام کی سرپرستی کرتے ہوئے اس کی حفاظت کرے اور اشاعت اسلام کے لیے علماء و فضلاء مقرر کرکے شرک و بدعات کے راستوں کو مسدود کردے۔شریعت کے مطابق ان کی انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اللہ کے اموال کو ان کے صحیح مصارف میں خرچ کرے-

آخر میں اللہ کریم کی بارگاہ عالی میں دعا ہے کہ رب کائنات ہمیں رعایہ کے ان حقوق کا خیال رکھنے حکمران نصیب فرمائے آمین


رعایا اور سلطنت دو ایسے اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کا جزولاینفک ہیں اور ان میں اسے ایک جزو کے نا  ہونے کی صورت میں دوسرے جزو کا عدم ہونا ظاہر و ثابت ہے۔ تاہم ریاست ایک تجریدی شے ہے، جس کا صفحہ ہستی پہ اظہار چند کرداروں کی صورت میں ہوتا ہے اور یہی چند کردار ریاست کے کردار، افکار، بیانیہ اور قانون کو مرتب کر کے رعایا کو اس کی بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ اپنی سوچ، فکر، عمل اور تحریک کو ریاست کے ان بنیادی خدوخال کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو اس طرح منظم کریں کہ منہج ریاست اور انفرادی منہج میں تطبیق قائم ہو جائے اور یوں کسی بھی قسم کے انتشار کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن جہاں جہاں ان دونوں کے درمیان منہج کا اختلاف واقع ہوتا ہے، وہاں داخلی اور خارجی انتشار کے لئے زمین ہموار ہو جاتی ہے تو معاشرہ شکست سے دوچار ہو کر اپنا وجود گنوا بیٹھتا ہے۔

دنیا میں ہم انسان جہاں بھی ہوں، جس شکل میں بھی ہوں اور جن حالات میں بھی ہوں، ہماری زندگی کا دار و مدار دراصل معاشرے کے ہی اوپر ہے اور یہی معاشرہ جب اپنی بنیادی سطح سے بلند ہوتا ہے تو اس میں رعایا اور سلطنت کے نام سے دو گروہ واضح ہو جاتے ہیں، جن میں سے ایک کی حیثیت بالترتیب محکوم اور دوسرے کی حاکم کی ہوتی ہے۔ تاہم جیسے معاشرے میں رہنے والے تمام انسان حقوق و فرائض کی بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہیں، ویسے ہی ان دو طبقات کے اوپر بھی حقوق و فرائض کی ذمہ داری پوری پوری عائد ہوتی ہے۔

کوئی بھی معاشرہ یا ملک اسی صورت میں اجتماعی ترقی کر سکتا ہے کہ جب، وہاں رعایا اور سلطنت کے مابین تقسیم شدہ حقوق و فرائض میں مساوات پائی جاتی ہو اور جہاں ہر دو طبقات اپنی بنیادی ذمہ داریاں امانت داری سے نبھاتے ہیں تاہم جہاں حقوق و فرائض کی ادائیگی میں عدم توازن، یا غفلت کا ہونا روزمرہ کا معمول سمجھا جاتا ہو اور جہاں اس جرم کو جرم ہی نہ مانا جاتا ہو وہاں امن، محبت، قانون کی پاسداری، خوشحالی، امانت، سچائی اور دوسرے نیک اوصاف کو تلاش کرنے کا مطلب گویا وقت کا ضیاع ہے ۔

اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں اور ان عناصر کا جائزہ لیں جو کسی بھی سلطنت کے قیام اور اس کی بقاء کے واسطے لازم ہیں تو ان میں سب سے اہم جزو اس ملک کا آئین ہوتا ہے۔ آئین دراصل وہ دستاویز ہے جو سلطنت اور رعایا کے حقوق و فرائض کی نہ صرف تفصیل واضح کرتی ہے بلکہ، وہ ان ہر دو طبقات کو اپنی اس بنیادی ذمہ داری کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی علاقے میں کسی سلطنت نے استحکام کی حالت کو پا لیا تو اس کے بعد اس نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو واضح کرتے ہوئے اپنے کاروبار سلطنت کے عزائم کو واضح کیا تاکہ سلطنت اور رعایا کے درمیان رشتہ مضبوط ہو سکے اور ساتھ ہی داخلی اور خارجی استحکام بھی میسر آ سکے۔

لہٰذا جب ایک ریاست اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو گویا اس نے اپنے اور رعایا کے درمیان حقوق و فرائض کی تقسیم کو واضح کر کے ہر دو کے درمیان ایک حد قائم کر دی ہے کہ جس کو پلٹنے کا مطلب گویا اس توازن میں انتشار لا کر بنیادی ڈھانچے کو گرانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب ایک سلطنت اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو وہ اپنے آپ کو اور رعایا کو اس بات کا کلی پابند کرتی ہے کہ ہر دو طبقات اس آئین کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے اپنی زندگی کا لائحہ عمل اور اپنی سوچ کا محور اس کو ہی مانیں گے۔

جب ایک سلطنت اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو گویا وہ کاروبار حکومت کا آغاز کرتی ہے، جس کے تحت اس نے اپنی رعایا کو اس کے وہ تمام بنیادی حقوق جس کا وعدہ اس نے آئین کے اندر کیا ہے ان کو فراہم کرے گی۔ اور دوسری طرف رعایا اسی آئین کو تسلیم کرتے ہوئے اس مدعا کو دہراتی ہے کہ وہ اپنی سلطنت کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال کر اس کو مضبوط اور مستحکم کرے گی۔

لہذا ریاست کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی حق ہے کہ عوام ریاست کے ساتھ وفاداری کرے تاکہ ریاست اور رعایا میں مستحکم رشتہ قائم ہو سکے اور جب ریاست اور رعایا ایک دوسرے کے وفادار ہونگے تو ایک قابل رشک اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پائے گا۔


ہمارے معاشرے میں نیک کام کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے، حکام  اپنی رعایا کے اعمال سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔ عدل و انصاف کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے منصب پر فائز حضرات عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے اور مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی اولاد، اَساتذہ اپنے شاگردوں اور افسر اپنے نوکروں کے برے اعمال سے چشم پوشی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو،بیوی اپنے شوہر کو،بھائی بہن اور عزیز رشتہ دار ایک دوسر ے کو نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں نہ قدرت کے باوجود انہیں برے افعال سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم دنیا بھر میں جمقدمہ                             

ہمارے معاشرے میں نیک کام کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے، حکام اپنی رعایا کے اعمال سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔ عدل و انصاف کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے منصب پر فائز حضرات عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے اور مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی اولاد، اَساتذہ اپنے شاگردوں اور افسر اپنے نوکروں کے برے اعمال سے چشم پوشی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو،بیوی اپنے شوہر کو،بھائی بہن اور عزیز رشتہ دار ایک دوسر ے کو نیک کاموں کی ترغیبدیتے ہیں نہ قدرت کے باوجود انہیں برے افعال سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم دنیا بھر میں جس ذلت و رسوائی کا شکار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی اوراسی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ قوم تباہی کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

(1)رعایا کی مدد کرنا ۔میر المؤمنین حضرت سید نا علی المرتضی کرم الله تعالى وَجْهَهُ الكَرِيم ارشاد فرماتے ہیں کہ سر کار مکہ مکرمہ ، سردار من منور صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : ” میری ناراضی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوا کسی کو مددگار نہیں پاتا “المعجم الصغير للطبراني ، الحديث : 71 ، الجزء الاول، ص 31

(2)مدد نہ کرنا۔حضرت سید نا ابو شیخ اور حضرت سید نا ابن حبان رحمه الله تعلی علیهما نقل کرتے ہیں: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ایک بندے کو قبر میں 100 کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا، وہ برابر عرض کرتا رہا یہاں تک کہ ایک کوڑا رہ گیا پس اس ایک کوڑے سے ہی قبر میں آگ بھر گئی۔ جب وہ آگ ٹھنڈی ہوئی اور اُسے افاقہ ہوا تو اس نے پوچھا: ” مجھے کوڑا کیوں مار رہے ہو؟“فرشتوں نے جواب دیا : ” تو نے ایک نماز بغیر وضو کے پڑھی تھی اور ایک مظلوم کے پاس سے گزرا تھا لیکن (قدرت رکھنے کے باوجود ) تو نے اس کی مدد نہ کی تھی ۔التمهيد لابن عبد البر ، يحيى بن سعيد الانصاری، تحت الحديث: 738/32، ج 10، ص 166 -

(3)سزا نہ دینا۔۔۔۔ سُنَنِ ابی داؤد کی روایت میں اس طرح ہے : " غلاموں میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق ہو اسے وہی کھلا ؤ جو خود کھاتے : ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق نہ ہو اسے بھی بیچ دو لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مخلوق کو عذاب نہ دو۔“سنن ابی داود کتاب الادب، باب فى حق المملوك ، الحديث : 5161 ، ص 1600-

(4)معاف کرنا ۔۔۔حضور نبی مکرم،نور مجسم ، صلی اللہ علیہ وآلہ نے غلاموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: "اگر وہ اچھاکام کریں تو قبول کرلو اور اگر برائی کریں تو معاف کر دیا کرو لیکن اگر وہ تم پر غلبہ چاہیں تو انہیں بچ دو ۔الترغيب والترهيب ، كتاب القضاء ، باب الترغيب فى الشفقة .... الخ ، الحديث : 3490٫ ،ج٫3ص ،167

(6)جنت کی خوشبو نہ پائے گا ۔ حضرت معقل بن یسار  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، 4 / 456، الحدیث: 7150)

(7)نرمی کرنا ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ،میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل وعقوبۃ الجائر۔۔۔ الخ، ص1061، الحدیث: 19(8127))


کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام دعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر دعایا کی دیکھ بال اور ان کے درمیان درست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت سید نا ہشام رحمة الله علیه بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا كعب الاحبار  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران برا ہو تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں لہذا حکمران کو دعایا سے اچھا سلوک کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی ہو ۔" آئیے اب دعایا کے حقوق سنئے "

(2) دعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا:حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لئے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو (المراة المناجیح جلد 5ص416)

(2) دعایا کی ضرورت و حاجت کو پورا کرنا :حضرت عمرو بن مرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت وضرورت کے سامنے حجاب کر دے تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت وحتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چناچہ معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر کر دیا ( مراة المناجیح جلد 5 ص 419)

(3)رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا : حضرت عبد الله بن عمر اور ابو ھریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حاکم فیصلہ کرے تو کوشش کرے کہ درست فیصلہ کرے تو اس کو دو ثواب ہیں اور جب فیصلہ کرے تو کوشش کرے اور غلطی کرے تو اس کو ایک ثواب ہے۔ (مراۃ المناجیح جلد 5 ص 422)

(4) دعایا پر ظلم نہ کرنا : حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالٰی ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔ (مرأة المناجیح جلد 5 ص 429)

(5) دعایا کی خبر گیری : حضرت سیدنا یحیی بن عبد الله اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب ضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس گھر میں جا کر دیکھا تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ میں جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب دیا وہ اتنے عرصہ سے میری خبرگیری کر رہا ہے۔حضرت سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگے اے طلحہ تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا ۔ (اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص 116)


اسلام میں اچھے وعادل حاکم کا بہت مقام و مرتبہ ہے یہاں تک یہ بروز قیامت اللہ پاک کے سب سے زیادہ نزدیک ہوں ہوں گے نور کے ممبروں پر ہوں گے ان کے مقام و مرتبے کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر لازم بہت سے فرائض ورعایا کے حقوق  بھی دین اسلام میں بیان کیے گئے ہیں یہ ان اوصاف سے تب ہی متصف ہو سکیں گے جب یہ اپنے فرائض ورعایا کے حقوق کو پورا کریں گے آئیے ان میں سے چند فرائض وحقوق کا مطالعہ کرتے ہیں

1)خیرخواہی کرنا حاکم کو چاہیے کہ رعایہ کے ساتھ حسن سلوک اور خیر خواہی و بھلائی والا معاملہ کریں جس طرح کے رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حاکم کے حوالے سے فرمایافَلَمْ يَحُطُهَا بِنُصْحِهِ لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ . وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعى رعية فلم ينصح ، ۴۵۶/۴، حدیث: ۷۱۵۰، ۱۵۱ بتغير

2)خبر گیری کرنا رعایہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ حاکم رعایا کے معاملات پر نظر اور ان کی خبرگیری کرتا رہے خبرگیری کے حوالے سے رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جسے اللہ عزوجل مسلمانوں کے کسی معاملے کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی حاجت و ضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھرے تو بروز قیامت اللہ پاک اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجی فکر سے کچھ سروکار نہ ہوگا اس کے تحت فیضان ریاض الصالحین میں ہے کہ غافل بادشاہ روز قیامت ذلت کے گھڑے میں ہوگا- فیضان ریاض الصالحین مکتبہ المدینہ جلد 5صفحہ614٫616

3)عدل و انصاف کرنا حاکم پر لازم ہے کہ رعایا پر عدل و انصاف کرے اور ان پر نا انصافی و بے رحمی سے بچے اس کے متعلق حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ایک گھڑی کا عدل ایسے 60 سال کی عبادت سے بہتر ہے جس کی راتیں قیام اور دن روزے کی حالت میں گزرے ۔الزواجر الباب الثاني في الكبائر الظاهرة، ٢٢٦/٢ -

4)رعایہ کے لیے ادارے قائم کرنا ملک میں عام لوگوں کے لیے ادارے قائم کرنا حکمرانوں کے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے تاکہ رعایا سے جہالت و بے رحمی دور ہو جس طرح کے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمت اللہ تعالی علیہ نے کثیر تعلیمی ادارے قائم کیے اور حضور علیہ السلام نے اصحاب صفہ کے لیے صفہ کا مقام منتخب فرمایا

5)عیب نہ ڈھونڈنا ۔حاکم کو چاہیے کہ بے وجہ رعایا کی عیب جوئی یا ان کی ٹو میں نہ پڑے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ حاکم جب لوگوں میں تہمت و شک ڈھونڈنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ دے گا۔مرآۃ المناجیح شرح مشکات المصابیح مکتبہ اسلامیہ ج5ص408

پیارے پیارے اسلامی بھائیو اگر ہم اپنے اوپر غور کریں تو تقریبا ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح حاکم حکمران ہے کوئی آفیسر کوئی استاد، کوئی ناظم ،کوئی والد، کوئی نگران ،ہونے کی صورت میں حاکم ہے اگر معاشرے کو پرامن اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو اپنے ماتہتوں کے ساتھ حسن سلوک و پیار و محبت و نرمی سے پیش ائیں اور ان کے تمام حقوق ادا کریں اور اسی طرح جو احادیث وغیرہ میں بیان ہوئے ان پر کار بند رہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقوق و ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے