پیارے پیارے اسلامی بھائیو! زمانے بھر کا دستور ہے کہ جس کا کھانا اسے کہ گیت گانا ۔ اے عاشقان رسول( صلی اللہ علیہ وسلم)  اللہ کریم نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں اتنی بے شمار کہ اگر ہم اپنی ساری زندگی بھی ان نعمتوں کو شمار کرنے اور ان کا شکر ادا کرنے میں لگا دیں تب بھی یہ نعمتیں شمار نہ کر سکیں گے نہ ہی ان کا شکر ادا کر سکیں گے ۔ اللہ کریم کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہم پر لازم ہے اور دنیا میں جو بھی ہم سے حسن سلوک کرے ہم پر احسان کرے ہمیں اس کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے ۔

شکر اور ناشکری کی تعریف: شکر کا مطلب ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کی جائے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :یااللہ! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں کہ میرا شکر کرنا بھی تو تیری ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جب تو نے یہ جان لیا کہ ہرنعمت میری طرف سے ہے اور اس پر راضی رہا تو یہ شکر ادا کرنا ہے۔اس کے برعکس کسی کی نعمت و احسان پر دل قول اور فعل سے اس کی تعظیم نہ کرنا ناشکری ہے۔آئے اپنے موضوع کی طرف مزید بڑھتے ہیں ۔

پنجتن پاک کی نسبت سے ناشکری کی مذمت پر پانچ احادیث مبارکہ :-

1) حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، 3/ 555، رقم: 93 )

2) … حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے.(شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث: 9119)

3) حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے.(رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزوجل ، 1 / 484، الحدیث: 60)

4) ابن ماجہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، (کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑ آپڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی)۔‘‘ یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔ ’’ (سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ،باب النہی عن إلقاء الطعام، الحدیث: 3353 ،ج 4 ،ص 49)

5) امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کرم اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:نعمتوں کے زوال سے بچو کہ جو زائل ہوجائے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزیدفرماتےہیں:جب تمہیں یہاں وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص515)

اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی ہر نعمت اپنی جگہ مگر ہمیں اللہ کریم کا سب سے زیادہ اس بات پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا نہ صرف اشرف المخلوقات بلکہ مسلمان بنایا نہ صرف مسلمان بلکہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے ہمیں صحیح العقیدہ سنی بنایا ۔لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہمیں اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں ۔

اور ہمیں چاہیے کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ بھلائی کرے تو اس کا بھی دل و جان سے شکر ادا کریں کیوں کہ جو قومیں اپنے محسنین کا شکر ادا کیا کرتی ہیں وہ کامیاب و شاداب ہوا کرتی ہیں۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر گزار بننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ) 


اللہ بے پرواہ خوبوں والا ہے . حضرت موسی علیہ السلام نے  اپنی قوم سے فرمایا ہے بنی اسرائیل ، یاد کرو جب تمہارے رب اعلان فرما دیا کہ اگر تم اپنی نجات اوردشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر ادا کرو گے اور ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطاء کروں گا اور اگر تم کفرو -معصیت کے ذریعے میری نعمت کی ناشکری کروگے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ روح البيان ابراهيم تحت الآية (5)جلد (4) آیت (399 - 400)

ناشکری کے سبب بندے کے درجات میں کمی ہوتی ہے اور ناشکری کی وجہ سے تحت میں ملنے والے فوائد سے محرومی ہو جاتی ہے. ناشکری نعمتوں کے زوال کا سبب ہے. نا شکری اللہ کے عذاب کو بلانا ہے اور نا شکری کے متعلق حضور علیہ السلام

کے کثیر فرامین ہیں جن میں سے چند مندرج ذیل ہیں .

(1) ناشکری کے سبب نعمت بھی عذاب۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطاء فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب وہ شکر کر دیں تو اللہ تعالی ان کی نعمت زیادہ کرنے پر قادر ہے۔ اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ تعالی ان کو عذاب دینے پر قادرہے. اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔رسائل ابن ابی دنیا کتاب الشكر الله الحدیث (80)

(2) تھوڑی نعمتوں پر شکر ادا نہ کرنا گویا زیادہ نعمتوں پر شکر نہ کرنا. حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا ۔ اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔شعب الايمان الثانی والستون من شعب الایمان الخ فصل في المكافاة بالضائع الحديث (19)

(3) ناشکری کی وجہ سے درجات میں کمی اور دنیا میں نعمتوں میں کمی .حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں . الله تعالی دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالی کے لیے شکر ادا کرے اور اس نعمت کی وجہ سے اللہ تعالی کے لیے تواضح کرے تو اللہ تعالی اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے۔ اور جس پر اللہ تعالی نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکریہ ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالی کے لیے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالٰی دنیا میں اس نعمت کا نفع روک لیتا ہے . اور اس کے لیےجہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے۔ پھر اگر اللہ تعالی چاہے گا تو اسے (آخرت میں) عذاب دے گا یا اس سے درگزر فرمائے گا ۔ رسائل ابن الى الدنيا التواضع والخمول (555/3 رقم 93)

(4) : شکریہ ادا نہ کرنا .حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا جسے کوئی عطیہ دیا جائے اگر ہو سکے تو اس کا بدلہ دے دے اور جو کچھ نہ پائے وہ اس کی تعریف کر دے کہ جس نے تعریف کر دی اس نے شکریہ ادا کیا. اورجس نے چھپایا اس نے ناشکری کی اور جو ایسی چیز سے ٹیپ ٹآپ کرے۔ جو اسے نہ دی گئی وہ فریب کے کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔ مراة المناصبح جلد (4) حدیث (3032)

(5) ناشکری کے سبب دوزخ میں جانا . روایت ہے ابھی سعید خدری سے فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام بقر عید یا عید الفطر میں عید گاہ تشریف لے گئے عورتوں کی جماعت پر گزرے تو فرمایا کہ اے بیبیوا خوب خیرات کرو کیونکہ مجھے دیکھا گیا ہے کہ تم زیادہ دوزخ والی ہو انہوں نے عرض کی : حضور یہ کیوں ؟ فرمایا تم لعن طعن زیادہ کرتی تو خاوند کی ناشکری ھو تم سےبڑھ کر کوئی کم عقل دین پر کم عاقل عقلمند آدمی کی مٹ کاٹ دینے والی میں نے نہیں دیکھی عورتوں نے عرض کی حضور ہمارے دین و عقل میں کمی کیونکر ہے فرمایا یہ نہیں ہے کہ عورت کی گواھی مرد کی گواھی سے کم ہے۔ عرض کیا ھاں فرمایا یہ عورت کےعقل کی کمی ہے، فرمایا کیا یہ درست نہیں کہ عورت حیض میں روزہ نماز ادا نہیں کر سکتی عرض کیا ھاں فرمایا یہ اس کے دین کی کمی ہے.مراة المناجيح جلد (1) حدیث (19)


ناشکری کا مطلب ہے کسی کی محنت یا معاونت کی قدر نہ کرنا یا اس پر شکریہ ادا نہ کرنا یہ ایک منفی اور نآپسندیدہ خصوصیت ہے جو انسان کی اخلاقیت کو متاثر کرتی ہےاس کی بجائےہمیشہ لوگوں کی مدد اورمحنت کا قدر کرنا چاہیےاس سے بڑھ کر اگر ہم  اپنے مالکِ کریم عزوجل کی نعمتوں کا شکر ادا نا کرے تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی وہ نعمتیں جو اَن گنت ہیں بے شمار ہیں

ان میں کثیر نعمتیں ایسی ہیں جو بن مانگے عطاء ہوئی۔ایک طرف ظاہری نعمتیں ہیں تو دوسری طرف باطنی نعمتوں کا ایک طویل سلسلہ ہےگویا بندہ اس کی نعمتوں کے سمندر میں ہر وقت غوطہ زن رہتا ہے۔اوپر نگاہ اٹھائے تو اسی کی نعمتوں کے دلکش نظارے ہیں نیچھے دیکھے تو اسی کی نعمتوں کے جال بچھے ہیں دائیں دیکھے تو اسی کے نعمتیں بائیں دیکھے تو اسی کی نعمتیں آگے و پیچھے مڑ کر نظر کرے تو اسی کی نعمتیں ہی نعمتیں اور اگر اِن نعمتوں پر ناشکری کی جائے تو وہ عذاب و آفت ہے چنانچہ حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں

“بےشک اللہ جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور جب اسکی ناشکری کی جاتی ہے تو وہ اسی کو ان کے لئے عذاب بنا دیتا ہے”اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے ترجمۃ کنزالایمان: اگر احسان مانوگے تو میں تمہیں اور دوں گا۔حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :نعمتوں کا یاد کرنا بھی شکر ہے (شعب الایمان للبھقی، حدیث4422، ج4، ص102)

ناشکری کے بارے میں احادیث کی روشنی میں چند مثالیں شامل ہیں جو انسانوں کو شکر کی اہمیت کی طرف ابھارتی ہیں ہیں

اُمُّ الْمومِنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں، تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ ُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے مکانِ عالیشان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا اس کو لے کر پونچھا پھر کھالیا فرمایا، اے عائشہ (رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہا ) اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے لوٹ کر نہیں آئی(سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ،باب النھی عن القاء الطعام،الحدیث3353،ج4،ص49)

یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رِزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:نعمتوں کے زوال سے بچو کہ جو زائل ہوجائے وہ پھر سے نہیں ملتی مزیدفرماتےہیں:جب تمہیں یہاں وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص515)

حضرت سیِّدُنامُغِیْرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:جو تجھے نعمت عطا کرے تُو اس کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا کرے تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی زائل نہیں ہوتی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص514)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبئ مکرم نورِمجسم رسول اکرم شاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کا فرمان ہے : نعمت کا چرچا کرنااس کا شکر ہے اور چرچا نہ کرنا نا شکری ہے۔جو قلیل پر شکر نہیں کرتا وہ کثیر پر شکر نہیں کرسکتا جو لوگوں کا شکریہ نہیں کر سکتا وہ اللہ عزوجل کا شکرادا نہیں کرسکتا (مسلمانوں کی) جماعت میں برکت ہے اور ان سے علیحدہ رہنا سبب عذاب ہے ۔ (المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث18476،ج6،ص394)

اللہ پاک ہمیں اپنی نعمتوں پہ شکر بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے آمین


( ناشکری یہ شکر کی ضد ہے ہر وہ چیز جسکا شکر ادا کرسکتے ہیں اسکا شکرادا نا کرنا ناشکری ہے ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں ناشکری کی بہت بری صورتیں یہ ہیں اللہ تعالی کی دی ہوئ نعمتوں کاشکر ادانا کرنا اللہ پاک نےہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے مثلا آنکھ کان ناک بلکہ انسان کا   اپنا ساراجسم ہی نعمت ہی نعمت ہے اگر انسان ان کا غلط استعمال کرے تو یہ اللہ پاک کی بہت بڑی ناشکری ہے مثلا ہمیں آنکھ عطا فرمائی ہمیں چاہیے کہ اس سے ہمیشہ اچھا ہی دیکھیں نا کہ فلمیں ڈرامے اور بد نگاہی وغیرہ اور دیگر اعضاء مثلا کان سے گانے باجے سن کر انسان ناشکری کرتا ہے زبان سے فحش کلام و گالیاں دے کر ناشکری کا ارتکاب کرتا ہے

ناشکری کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے محسن کے احسان کوہی بھول جاتاہے تم نے مجھ پر کون سے احسانات کئے ہیں قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ترجمہ کنزالایمان ۔بےشک آدمی پنے رب کا بڑا نا شکرا ہے (پارہ 30 العدیت4)

آئیے اب احادیث شریفہ میں ناشکری کی مذمت بیان کی گئی ہے اس کو پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں

نعمت کا عذاب بن جانا ۔1)۔جیساکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ پاک جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ھے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ھے، جب وہ شُکر کریں تو اللہ پاک ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ھے اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ پاک ان کو عذاب دینےپر قادر ھے اوروہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ھے۔(رسائل ابن ابی دنیا،کتاب الشکرللہ،1/ 484، الحدیث: 40)

جب بندےکو اس کا پروردگار عزوجل دنیا میں عزت و عظمت دےمنصب و عہدہ دے راحت و چین و سکون دے جسمانی نعمتیں عطا کرے مال و دولت سےنوازے،ظاھری و باطنی نعمتوں سے نوازے غرض کہ طرح طرح کی نعمتوں کا سلسلہ چلتا رھے تو ان سب نعمتوں کی شُکر گزاری کا بھی گاھے بگاھے سلسلہ چلاتا رھے عاجزی اختیارکرےاور اگرناشکری کرے گا تو نعمتیں دینے والے ربّ عزوجل کو وآپس لینے میں کچھ دیر نہیں لگتی، کہیں یہ نعمتیں اس کے لئے وبالِ جان ھی نہ بن کر رہ جائے ناشُکری کی بِنا پر عذاب میں نہ مبتلا کردے۔

نعمتوں کو بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔2)۔۔۔حدیثِ پاک میں ھےکہ حضرت سیدنانعمان بن بشیررضی اللہ عنہ سے روایت ھے، حضورِ اقدس صلیﷲ علیه وآلہ وسلّم نے فرمایا" جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتاوہ اللہ پاک کابھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ پاک کی نعمتوں کو بیان کرنا شُکرھے اور انہیں بیان نہ کرناناشکری ھے۔(شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 4/ 514، الحدیث: 9119)

اکثر عورتیں جہنم میں : ۔3)۔سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بار عید کے روز عید گاہ تشریف لے جاتے ہوئے خواتین کی طرف سے گزرے تو فرمایا: ''اے عورَتو! صَدَقہ کیا کروکیونکہ میں نے اکثر تم کو جہنَّمی دیکھا ھے ''خواتین نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کی وجہ؟فرمایا:''اس لئےکہ تم لعنت بہت کرتی ھو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ھو۔(صحیح البخاری ج1ص123 حدیث303)بحوالہ سُنّتِ نکاح تذکرہ امیرِاھلسُنّت قسط نمبر3صفحہ نمبر83ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی۔

انسان فطری طور یہ نہیں چاھتا کہ اس کے مال میں کمی ھو اس معاملےمیں انسان چاھتا ھے کہ بس اور مال آئے اور مال آئے کمی نہ ھو اور اگر انسان چاھتا ھے کہ اس کی نعمتیں کم نہ ھوں تو ناشُکری سے بچتا رھے جیسا کہ

4)مسلمانوں کے چوتھے خلیفه حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجہَہُ الْکَرِیم نے فرمایا:

نعمتوں کے زوال سے بچو کہ جو زائل ھو جائے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزید فرماتے ہیں: جب تمہیں یہاں وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص515)

5)حضرت سیِّدُنامُغِیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:جو تجھے نعمت عطا کرے تُو اس کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا کرے تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی زائل نہیں ہوتی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص514)

اللہ تعالیٰ ہمیں ناشکری جیسی قلبی بیماری سے شفاء یابی نصیب فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


قرآن و احادیث میں جس طرح ایسے اعمال و افعال کا ذکر ہے جو منجیات ( نجات دینے والے اعمال) ہیں اسی طرح مہلکات (ہلاکت والے اعمال) کا بھی جگہ جگہ ذکر ہے۔انہیں میں سے ایک مہلک باطنی بیماری نا شکری بھی ہے۔

ناشکری کی مذمت احادیث کی روشنی میں پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے فرمایا: نعمتوں کے زوال سے بچو کہ جو زائل ہوجائے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزید فرماتے ہیںجب تمہیں یہاں وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص515)

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ تعالٰی عَنْہا فرماتی ہیں، تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلَّم اپنے مکانِ عالیشان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر پونچھا پھر کھا لیا فرمایا، عائشہ (رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہا ) اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے لوٹ کر نہیں آئی۔(سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ،باب النھی عن القاء الطعام،الحدیث3353،ج4،ص49) یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رِزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔

رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ میں نے جہنم میں عورتوں کو بکثرت دیکھا۔ یہ سن کر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! اس کی کیا وجہ ہے کہ عورتیں بکثرت جہنم میں نظر آئیں۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ عورتوں میں دو بُری خصلتوں کی وجہ سے۔ ایک تو یہ کہ عورتیں دوسروں پر بہت زیادہ لعن طعن کرتی رہتی ہیں دوسری یہ کہ عورتیں اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی رہتی ہیں چنانچہ تم عمر بھر ان عورتوں کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کرتے رہو۔ لیکن اگر کبھی ایک ذرا سی کمی تمہاری طرف سے دیکھ لیں گی تو یہی کہیں گی کہ میں نے کبھی تم سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔(صحیح البخاری، کتاب الایمان ۔۲۱۔باب کفران العشیروکفر دون کفر، رقم ۲۹، ج۱،ص۲۳ وایضافی کتاب النکاح۸۹،باب کفران العشیر وھو الزوج الخ، رقم ۵۱۹۱، ج۳،ص۴۶۳)

حضرت سیدُنا مُغِیْرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں جو تجھے نعمت عطا کرے تُو اس کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا کرے تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی زائل نہیں ہوتی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص514)

ناشکری کے نقصانات ملاحظہ فرمائیں : ناشکری باعثِ ہلاکت ہے،ناشکری اللہ کو ناپسند ہے،ناشکری ایک بڑا گناہ ہے،ناشکری نعمتوں میں رکاوٹ ہے،ناشکری اللہ کے عذاب کو بلانا ہے،ناشکری اللہ کو ناراض کرنے والا عمل ہے،ناشکری نعمتوں کے زوال کا ذریعہ ہے،ناشکری گھریلو ناچاقی کا سبب ہے،ناشکری سے رزق میں کمی آتی ہے،ناشکری کرنے والا کبھی خوش نہیں رہتا،ناشکری کرنے والا ہر دل عزیز نہیں ہوتا،میں صابر و شاکر رہوں کاش ہر دم،تو ناشکری سے مجھے بچا یا الہی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین محمد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم


اللہ تعالٰی قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :( لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ:) اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرما دیا کہ اگر تم اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر ادا کرو گے اور ایمان و عملِ صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کروں گا اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعے میری نعمت کی ناشکری کرو گے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیت: [5، 4] [399_400]

شکر کی فضیلت اور ناشکری کی مذمت:اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے (1)… حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے((’’وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ‘‘)) یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔ (در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5،7 /9)

(2)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث:9119)

(3)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 / 484، الحدیث: 60)

(4)…سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ((’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘)) یعنی اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، 2 / 123، الحدیث: 1522)

کچھ نا شکری کے نقصانات :

1" نا شکری نعمتوں کے زوال کا ذریعہ ہے

2" نا شکری اللہ کو ناراض کرنے کا سبب ہے

3" نا شکری باعث ہلاکت ہے

4" نا شکری اللہ کے عذاب کو بلانا ہے

5" نا شکری نعمتوں میں رکاوٹ ہے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ رکھے اور ہمیں چاہیے کہ ہمیں اللہ تعالی کی نعمتوں کا زیادہ سے زیادہ شکر کرنا چاہئے اللہ تعالٰی سے دعا کہ اللہ تعالٰی ہمیں اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین


اللہ عزوجل کی بے شمار نعمتیں ساری کائنات کے ذرے ذرے پر پانی کے قطروں کی گنتی سے بھر کر درختوں کے پتوں سے زیادہ دنیا بھر کے پانی کے قطروں سے زیادہ ریت کے ذروں سے زیادہ ہر لمحہ لمحہ ہر گھڑی بن مانگے طوفان بارشوں سے تیز ترس رہی ہیں جن کو شمار کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اس کے باوجود آج کے دور میں بہت سے لوگ اللہ پاک کی نعمتوں کی ناشکری کرتے نظر آتے  ہیں آج ہم انشاءاللہ احادیث کی روشنی میں ناشکری کرنے والوں کے متعلق پڑھیں گے

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا

جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں نہ کرنا ناشکری ہے (شعیب الایمان الثانی والستون من انخ فصل المکافاتہ بالصنائح 6 ، 816 الحدیث 9119 )

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالی جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالی ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ تعالی ان پر عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے ۔(رسائل ابن ابی دنیا کتاب الشکر اللہ عزوجل 484 الحدیث 60)

انسان مختلف صورتوں میں اپنے رب کی ناشکری کرتا ہے اپنے اعضا کے ذریعے اپنے رب کی ناشکری کرتا ہے، مثلا فلمیں ، ڈرامے دیکھوالدین کی نافرمانی کرکے والدین جیسی نعمت کی ناشکری ،الغرض کہ انسان اپنے رب کی طرح طرح سے ناشکری کرتا ہے کر آنکھوں کی ناشکری، گانے باجے سن کر ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رب کی بے شمار نعمتوں کی قدر کرکے اس کا شکر ادا کریں تاکہ وہ رب ہمیں مزید اپنی نعمتوں سے نوازے۔

اللہ کریم ہمیں اپنی ناشکری والے کاموں سے بچا کر اپنا شکر گزار بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کر ہاتھوں کی ناشکری

حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، 3 / 555، رقم::93


شکر گزاری اور نا شکری دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ، اگر شکر گزاری اللہ کی نعمتوں کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے تو ناشکری اللہ کے غضب اور اس کے دردناک عذاب کو واجب کرنے والی ہے

جو مخلوق کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خالق کا بھی شکر ادا نہیں کرتا :حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے(شعب الاایمان الثانی من شعب الاایمان ,الحادیث 9119)

ناشکری اور جہنم ایک مرتبہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ عورتو ! صدقہ کیا کرو کیونکہ میں نے اکثر تم کو جہنمی دیکھا ہے۔ تو خواتین نے عرض کی اس کی کیا وجہ ہے ؟ (آپ نے اس کی 2 وجہیں بیان فرمائیں) (1)تم لعن طعن بہت کرتی ہو (2)اور تم شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ (بخاری ، 1/123حدیث : 304)

نعمت کا عذاب بن جانا حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 /474، الحدیث: 60)

شکر ادا نا کرنے کے نقصان حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول3/555/رقم93)

ناشکری کی وجہ سے رزق کا سلب ہو جانا اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔

ابن ماجہ نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، کہ نبی کریم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم   مکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑ آپڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی ۔(ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ،باب النہی عن إلقاء الطعام,الحدیث 3353:جلد5: صفحہ 49)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ہر حال میں شکر ادا کرنے اور ناشکری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


شکر کا لغوی معنی احسان ماننا قدر پہچاننا اور محسن کا احسان مانتے ہوئے اس کا صلہ ادا کرنا ہےاور جو یہ سب کچھ نہیں کرتا تو وہ ناشکری کہلاتا ہے۔آج ہم انشاءاللہ عزوجل ناشکری کی مذمت احادیث کی روشنی میں سنتے ہیں

شکر ادا کرنا اور نہ کرنا کیا ہےعن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: من ابلي بلاء فذكره فقد شكره، وإن كتمه فقد كفره نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو کوئی چیز ملے اور وہ اس کا تذکرہ کرے تو اس نے اس کا شکر ادا کر دیا اور جس نے اسے چھپایا تو اس نے ناشکری کی،(سنن ابي داود، كِتَاب الْأَدَبِ 12.باب فِي شُكْرِ الْمَعْرُوفِ، حدیث نمبر: 4814)

لوگوں کا شکر ادا کرو قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من لم يشكر الناس، لم يشكر الله "، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا اس نے اللہ عزوجل کا بھی شکر ادا نہیں کیا ۔(سنن ترمذي، كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،35. باب مَا جَاءَ فِي الشُّكْرِ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَيْكَ، حدیث نمبر: 1955)

بہت سی حدیث مبارک میں ناشکری سے منع فرمایا ہے

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالٰی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور ان کو نہ بیان کرنا نا شکری ہے ( شعب الایمان الثانی والستون من شعب الایمان الخ فصل فی المکا فأ تہ بالصنا تو 516/6 الحدیث 9119)

شکر کرنے سے نعمت زیادہ ہوتی ہے اور ناشکری سے نعمت کم ہوتی ہے۔حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے یہ حدیث پھنچی ہے کہ اللہ تعالٰی جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالٰی ان کی نعمت زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب بنا دیتا ہے ( رسأل ابن ابی دنیا کتاب الشکراللہ عزوجل 1 /484 الحدیث 60)

اللہ تعالٰی اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر کرنے اور شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی نا شکری کرنے سے محفوظ فرمائے۔( آمین بجاہ النبی الامین الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا طیبا مبارکا فیہا)


شکر گزاری اور ناشکری دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں شکر گزاری اللہ کی نعمتوں کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے تو نا شکری اللہ  کے غضب اور اس کے درد ناک عذاب ہے

چند احادیث مبارکہ نا شکری کی مذمّت میں جو مخلوق کاشکر ادا نہیں کرتے وہ خالق کا بہی شکر ادا نہیں کرتے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بہی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا بہی شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بہی شکر ادا نہیں کرتا اور انھیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے(شعب الایمان الثانی من شعب الایمان الحدیث 9119)

امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:نعمتوں کے زوال سے بچو کہ جو زائل ہوجائے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزیدفرماتےہیں:جب تمہیں یہاں وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص515)

حضرت سیِّدُنا مُغِیْرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:جو تجھے نعمت عطا کرے تُو اس کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا کرے تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی زائل نہیں ہوتی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص514)

شکر ادا نا کرنے کے نقصان حضرت شیخ ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا گویا وہ ان کے زوال کا سامنا پیدا کرتا ہے ،اور جو شکر ادا کرتا ہے گویا وہ نعمتوں کو اسی سے باندھ کر رکھتا ہے ( التحریر والتنویر ج 1،ص512) نعمتوں کی نا شکری میں مشغول ہونا سخت عذاب کا باعث ہے(تفسیر رازی ج19 ص67)

ناشکری کی مختلف صورتیں حضرت سیدنا حسن بن ابو حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرہ ہے کہ مصیبتیں گنتا رہتا ہے اور نعمتیں بھول جاتا ہے انسان کے پاس ایک چیز ہو تو دوکی خواہش کرتا ہے غریب ہو تو امیر ہونے کی خواہش کرتا ہے اور امیر ہو تو مزید امیر ہونے کی خواہش کرتا ہے یہاں تک کہ انسان رب کی موجود نعمتوں کا ادا کرنے کے بجائے اسکی نعمتوں کی نا شکری میں مصروف رہتا ہے چنانچہ حضرت سیدنا امام حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں بیشک اللہ عزوجل جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کوفائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور جب اس کی نا شکری کی جاتی ہے تو وہ اسی نعمت کو ان کے لیے عذاب بنا دیتا ہے( شکر کے فضائل ص27)

شکر ادانا کرنے کے نقصان حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور اس نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں دراجات بلند فرتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لیے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے پھر اگر اللہ تعالیٰ چائے گا تو اس سے (آ خرت میں) عذاب دے گا یہ اس سے درگزر فرمائے گا (رسائل ابن ابی الدنیا ،التواضع والخصول3/555/رقم 93)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو نا شکری سے بچائے اور شکر ادا کرنے والوں میں شامل کرے آ مین ثم آمین


ناشکری ایک ایسا مضموم فعل ہے جس سے اللہ اور اس کا رسول ناراض ہوتا ہے  فطری طور پر نہیں چاہتا کہ اس کا مال کم ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا مال بڑھ جائے اگر انسان چاہتا ہے کہ اس کا مال بڑھ جائے تو اس کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالی جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالی ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ تعالی ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے( رسائل ابن ابی دنیا کتاب شکر اللہ عزوجل ص 484 حدیث 60 )

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے(شعب الاایمان الثانی من شعب الاایمان ,الحادیث 9119)

سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بار عید کے روز عید گاہ تشریف لے جاتے ہوئے خواتین کی طرف سے گزرے تو فرمایا: ''اے عورَتو! صَدَقہ کیا کروکیونکہ میں نے اکثر تم کو جہنَّمی دیکھا ھے ''خواتین نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کی وجہ؟فرمایا:''اس لئےکہ تم لعنت بہت کرتی ھو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ھو”۔(صحیح البخاری ج۱ /ص۱۲۳ /حدیث۳۰۴)بحوالہ سُنّتِ نکاح تذکرہ امیرِاھلسُنّت قسط نمبر3صفحہ نمبر83ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی۔

حضرت سیِّدُنامُغِیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:جو تجھے نعمت عطا کرے تُو اس کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا کرے تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی زائل نہیں ہوتی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص۵۱۴)

ایک حدیث میں حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ پاک کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ پاک کی نعمتوں کو بیان کرنا بھی شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ ( شعب الایمان الثانی والستون من ششعب لایمان الخ فصل فی ا لمکافات باصناہع حدیث 51 ص 9119 )

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں نعمتوں کے زوال سے بچو کیونکہ جو زائل ہو جائے وہ پھر سے نہیں ملتا اور مزید فرماتے ہیں کہ جو تمہیں یہاں سے وہاں سے نعمتیں ملنے لگی تو نہ شکرے بن کر ان کے تسلسل کو دور نہ کرو ( دین و دنیا کی انوکھی باتیں ص 515 )

چاہیے کہ ہم اپنے رب کی بے شمار نعمتوں کی قدر کرکے اس کا شکر ادا کریں تاکہ وہ رب ہمیں مزید اپنی نعمتوں سے نوازے۔اللہ کریم ہمیں اپنی ناشکری والے کاموں سے بچا کر اپنا شکر گزار بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


{ناشکری کفرانِ نعم ہے} "اللہ عزوجل کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا نہ کرنا اور ان سے غفلت برتنا کفرانِ نعم کہلاتا ہے"  (الحدیقۃ الندبۃ،الخلق الثامن و الثلاثون۔۔الخ،ج2ص100)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے : وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷)وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنْ تَكْفُرُوْۤا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۸) (پارہ13 ابراھیم:7,8)ترجمہ کنزالعرفان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔اور موسیٰ نے فرمایا: (اے لوگو!) اگر تم اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب ناشکرے ہوجاؤتو بیشک اللہ بے پرواہ ،خوبیوں والا ہے۔

حضرت نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ سے روایت ہےحضورجان عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔الخ،فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 4/ 514، الحدیث:9119)

حضرت جابر سےروایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا "جسے کوئی عطیہ دیا جائے اگر ہوسکے تو اس کا بدلہ دے دے اور جو کچھ نہ پائے وہ اس کی تعریف کردے کہ جس نے تعریف کردی اس نے شکریہ ادا کیا جس نے چھپایا اس نے ناشکری کی اور جو ایسی چیز سے ٹیپ ٹآپ کرے جو اسے نہ دی گئی وہ فریب کے کپڑے بننے والے کی طرح ہے."(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4,حدیث نمبر3023)

مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ سبحان اللّٰه! کیسی پیاری و اعلٰی تعلیم ہے کہ برابر والا برابر والے کو عوض دے،فقیر امیر کو دعائیں دیں،ہم لوگ دن رات حضور انور پر درود شریف کیوں پڑھتے ہیں؟ اس لیے کہ ان داتا کریم کی نعمتوں میں پل رہے ہیں کہ کروڑوں حصہ بھی عوض نہیں دے سکتے تو دعائیں دیں کہ اللہ ان کابھلا کرے،ان کا خانہ آباد،انکے بال بچوں،صحابہ کو شاد رکھے،یہ درود بھی اسی حدیث پر عمل ہے.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا "جو لوگوں کا شکریہ ادا نہ کرے وہ اللّٰه کا شکریہ بھی ادا نہ کرے گا"(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد4,حدیث نمبر3025)

ناشکری سے بچنے کا طریقہ:مصیبتوں پر شکر کے امام امام غزالی علیہ الرحمہ نےچندپہلو بیان فرمائے ہیں

1.ہر مصیبت اور بیماری کے بارے میں یہ تصور کرے کہ اس سے بھی بڑھ کر بیماری اور مصیبت موجود ہے اگراللہ عَزَّ وَجَلَّ اس میں اضافہ فرما دے تو کیا میں روک سکتا ہوں، اسے دور کرسکتا ہوں؟ ہرگز نہیں! پس اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ہے کہ اس نے بڑی مصیبت وبیماری نہیں بھیجی

2.یہ تصور کرکے شکر ادا کرے کہ ہوسکتا ہے اس مصیبت کے بدلے کوئی دینی مصیبت دور کردی گئی ہو

3.یہی شکر کا تیسرا پہلو ہےکہ آپ کی سزا آخرت تک موخر نہیں کی گئ پھر یہ کہ دنیاوی مصائب بعض اسبابِ تسلی سے کم ہو جاتے ہیں تو مصیبت کا اثر بھی ہلکا ہو جاتا ہے جبکہ اخروی سزا اور آزمائش دائمی ہے ۔ اگر دائمی نہ رہے تو بھی کسی تسلی کے ذریعے اس میں کمی نہیں ہوگی کیونکہ اخروی عذاب میں مبتلا لوگوں کیلئے تسلی کا کوئی سبب باقی نہ رہے.

4.مصیبت کا ثواب مصیبت سے بہت زیادہ ہے ۔ (احیاء العلوم ج4 ص377)