اللہ پاک نے ارشاد فرمایاترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللہ و رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللہ و قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا۔(حوالہ سورت نساء آیت نمبر 59)

(1)بدترین ہے وہ حاکم جو لوگوں پر ظلم کرے، ان کی ضروریات کی پر واہ نہ کرے۔

(2) انتہائی کمینہ اور ظالم ہے وہ شخص جو دوسروں کی اشیاء کو چھیننے کی کوش وشش میں لگار ہے۔

(3) حسب منصب ہر سطح پر نیکی کی دعوت دینی چاہئے تاکہ لوگوں میں دینی احکام پر عمل پیرا ہونے کاشعور بیدار ہو۔

(4) رعایا پر بے جا ٹیکس لگانا، بلاوجہ چیزوں کی قیمت بڑھانا اور خواہ مخواہ سخت احکام لاگو کر کے عوام کو پریشان کرنا ظلم و جبر کی علامت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاحضرت سیدنا ابو مریم از دی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی ملے سے عرض کی کہ میں نے رسول کریم رؤف رحیم صلى اللہ تعالى عليه واله وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : " جسے اللہ عزوجل مسلمانوں کے کسی معاملہ کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی حاجت وضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھرے تو بروز قیامت اللہ عزوجل اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجی و فقر سے کچھ سروکار نہ ہو گا۔ " ( یہ فرمان عالی سن کر) حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی حاجات کی خبر گیری کے لئے ایک شخص مقرر فرمادیا (حوالہ ریاض الصالحین حدیث نمبر 658)

اس حدیث پاک میں ان حکمرانوں و عہدے داروں کے لئے سخت وعید ہے جو اپنے عیش میں مگن ہوں اور رعایا کی حاجات و ضروریات کی پروانہ کریں، لوگ فریاد کریں، مسائل کا حل چاہیں لیکن وہ ان کے اسکے جائز مقاصد پورے نہ کریں تو بروز قیامت ایسے حکمرانوں کی پکڑ ہو گی ، ان کی ضروریات و حاجات سے اللہ مراد لا انت کو کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس لئے جسے دنیا میں اللہ ملا جلا نے کسی قوم کی کوئی ذمہ داری دی اسے چاہیے کہ ہے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے لوگوں کی حاجات و ضروریات کا خیال رکھے تا کہ بروز قیامت اللہ ماہ ملا ہے اس کی حاجات کو پورا فرمائے ۔ "مرآۃ المناجیح میں حدیث مذکور کی جو شرح بیان کی گئی ہے اس کا خلاصہ ایک کچھ یوں ہے کہ : "جو حاکم مظلوموں ، حاجت مندوں کو اپنے تک نہ پہنچنے دے، اپنے دروازے پر سخت پہرہ سالوں بٹھادے، ان کی ضروریات کی پروا نہ کرے، ان سے غافل رہے ، ان کی حاجت روائی کا کوئی انتظام نہ کرے نام بس اپنی حکومت سنبھالنے اور اپنے عیش و آرام میں مشغول رہے تو اُس حاکم سے اللہ تعالیٰ اپنے ان مجبور محمد بندوں کا بدلہ اس طرح لے گا کہ نہ تو اس ظالم حاکم کی حاجات و ضروریات پوری فرمائے گا نہ ان کی دعائیں قبول کرے گا اس سزا کا ظہور کچھ دنیا میں بھی ہوگا اور پورا پورا ظہور آخرت میں ہو گا خیال رہے کہ جیسے عادل بادشاہ بروز قیامت قرب الہی میں نور کے منبروں پر ہوں گے ایسے ہی غافل اور ظالم بادشاہ ذلت کےگڑھے میں ہوں گے۔ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعال ملک نے یہ فرمان عالی سن کر ایک محکمہ بنا دیا جس کے ماتحت ہر بستی میں ایک افسر رکھا گیا جو لوگوں کی معمولی ضرور تمیں خود پوری کرے اور بڑی ضرور تھیں آپ رضی اللہ تعالیٰ علیہ تک پہنچائے پھر ہمیشہ اس افسر سے باز پرس کی کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی تو نہیں کرتا۔ (حوالہ مرآة المناجیح جلد 5 ماخوذا 374)


اس عالم رنگ و بو میں انسانوں کی تخلیق کے بعد انہیں تاریکیوں سے نور ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے اللہ تعالی نے نبوت کا سلسلہ جاری کیا ختم نبوت کے بعد اسلامی قانون کو جاری رکھتے ہوئے بندوں سے ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی سے نجات دلا کر جائز حقوق پہنچاۓ اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر باقی رکھنے کے لیے حاکم عطا کیا اس وجہ سے انسانوں میں سے جسے عہدہ و خلافت ملی اسے عہدہ سنبھالنے کے بعد سارے معاملات میں عدل و انصاف سے فریضہ حکومت انجام دینے کے سلسلہ میں تاکیدی حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا

وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ- ترجمہ کنزالعرفان جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ پ 4 آیت نمبر 58 نساءاس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر آدمی اپنے ماتحت کے ساتھ انصاف سے کام لے چونکہ وہ اس کا ذمہ دار ہے۔جیسا کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته الإمام راع ومسئول عن رعيته۔۔۔(«‏‏‏‏ صحيح البخاري، كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَابُ الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى وَالْمُدْنِ 11 (893)،صحیح مسلم/الإمارة 5 (1829)، سنن الترمذی/الجھاد 27 (1507)، سلاطین و حاکم پر حکومت اور نظام ملک کے ساتھ ساتھ رعایا و عوام کے حقوق کو ادا کرنا ہے

آئیے رعایہ کے چند حقوق پڑھتے ہیں:

لوگوں کی پردہ پوشی کرنا حاکم کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی غلطیوں کے بارے میں غیر ضروری تجسس کی کوشش نہ کرے اور معمولی لغزشوں پر لوگوں کو تنگ نہ کرے اور جہاں تک ممکن ہو عفوو درگزر سے کام لے اور لوگوں کے عیبوں کو بلا حاجت شرعی فاش نہ کرے۔ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا: ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا (سنن ترمذي، كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي السَّتْرِ عَلَى الْمُسْلِمِ، حدیث نمبر 1426)

احکام کے نفاذ میں سختی : حاکم کو چاہیے کہ لوگوں کو مشتبہہ کاموں میں پڑھنے اور معصیت کا ارتکاب کرنے میں دلیر نہ ہونے دے اور مشکوک مقامات اور محافل میں شرکت سے اجتناب کرتے ہوئے اچھے کاموں کی ترویج و اشاعت میں کردار ادا کرے جیسا کہ

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سن سنة حسنة فعمل بها، كان له اجرها ومثل اجر من عمل بها لا ينقص من اجورهم شيئا، ومن سن سنة سيئة فعمل بها، كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده لا ينقص من اوزارهم شيئا".رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اسے اس کے (عمل) کا اجر و ثواب ملے گا، اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا، اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے اوپر اس کا گناہ ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہو گا، اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی“

(سنن ابن ماجه، أبواب کتاب السنة، بَابُ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَيِّئَةً، حدیث نمبر 203)

غرباء کی ہم نشینی : حاکم کو چاہیے کہ وہ صاحب دولت اور طاقتور لوگوں کے ساتھ زیادہ میل جول رکھنے کی بجائے غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ وقت بسر کرے ۔ اپنا زیادہ تر وقت فقراء اور اولیا ء اللہ کے پاس گزارے اور اپنے قلب کی اصلاح کے لیے خود کو صلحاء کے ذریعے جلاء بخشتا رہے ۔

غریب پروری: رعایا کا حق یہ بھی ہے کہ حاکم وقت فاقہ زدہ عوام کی حالت زار سے بے خبر نہ رہے اور پوری کوشش کرے کہ کوئی شخص بھوک کا شکار نہ ہو ، حاکم کو چاہیے کہ وہ بیوہ خواتین اور یتیم بچوں کا خاص خیال رکھے اور اس بارے میں قیامت کے دن اللہ تعالی کے حضور پیش ہونے سے ڈرے ۔

رعایا پر رحمت وشفقت:بادشاہ عوام کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا ہے۔اس لیے انہیں رعایا کے ساتھ رحمت و شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔جیسا کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا ”من لا یرحم الناس لا یرحمہ اللہ،جو شخص انسانوں پر رحم نہیں کرتا ہے تو اللہ ایسے شخص پر رحم نہیں فرمائے گا ”(صحیح البخاری/کتاب التوحید 2 حدیث نمبر 7376) صحیح مسلم/الفضائل 15 (2319) اسی طرح حدیثِ نبوی ہے الراحمون یرحمہم الرحمٰن إرحموا اہل الأرض یرحمکم من فی السماء،،رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے تو تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان کا مالک تم پر رحم فرمائے گا

(«‏‏‏‏سنن الترمذی، كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي رَحْمَةِ النَّاسِ (حدیث نمبر 1924)

حاکم کا ظلم نہ کرنا حاکم کا رعایا کے اوپر بلا وجہ ظلم کرنا حرام ہے کیوں کہ ان پر ظلم کرنا یہ عذاب عظیم کا داعی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا وَ مَنْ یَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِیْرًا ترجمہ کنزالعرفان اور تم میں جو ظالم ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔(پ،18،س،فرقان آیت نمبر 19)

رعایا کی حفاظت:حکام پر رعایا کی حفاظت اہم فریضہ ہے۔سرحد کی حفاظت کی خاطر پولیس محکمہ قائم کرے اور ہمیشہ وہاں افواج کو تیار رکھا جائے،نیز یہ بھی حق ہے کہ بادشاہ دین اسلام کی سرپرستی کرتے ہوئے اس کی حفاظت کرے اور اشاعت اسلام کے لیے علماء و فضلاء مقرر کرکے شرک و بدعات کے راستوں کو مسدود کردے۔شریعت کے مطابق ان کی انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اللہ کے اموال کو ان کے صحیح مصارف میں خرچ کرے-

آخر میں اللہ کریم کی بارگاہ عالی میں دعا ہے کہ رب کائنات ہمیں رعایہ کے ان حقوق کا خیال رکھنے حکمران نصیب فرمائے آمین


رعایا اور سلطنت دو ایسے اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کا جزولاینفک ہیں اور ان میں اسے ایک جزو کے نا  ہونے کی صورت میں دوسرے جزو کا عدم ہونا ظاہر و ثابت ہے۔ تاہم ریاست ایک تجریدی شے ہے، جس کا صفحہ ہستی پہ اظہار چند کرداروں کی صورت میں ہوتا ہے اور یہی چند کردار ریاست کے کردار، افکار، بیانیہ اور قانون کو مرتب کر کے رعایا کو اس کی بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ اپنی سوچ، فکر، عمل اور تحریک کو ریاست کے ان بنیادی خدوخال کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو اس طرح منظم کریں کہ منہج ریاست اور انفرادی منہج میں تطبیق قائم ہو جائے اور یوں کسی بھی قسم کے انتشار کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن جہاں جہاں ان دونوں کے درمیان منہج کا اختلاف واقع ہوتا ہے، وہاں داخلی اور خارجی انتشار کے لئے زمین ہموار ہو جاتی ہے تو معاشرہ شکست سے دوچار ہو کر اپنا وجود گنوا بیٹھتا ہے۔

دنیا میں ہم انسان جہاں بھی ہوں، جس شکل میں بھی ہوں اور جن حالات میں بھی ہوں، ہماری زندگی کا دار و مدار دراصل معاشرے کے ہی اوپر ہے اور یہی معاشرہ جب اپنی بنیادی سطح سے بلند ہوتا ہے تو اس میں رعایا اور سلطنت کے نام سے دو گروہ واضح ہو جاتے ہیں، جن میں سے ایک کی حیثیت بالترتیب محکوم اور دوسرے کی حاکم کی ہوتی ہے۔ تاہم جیسے معاشرے میں رہنے والے تمام انسان حقوق و فرائض کی بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہیں، ویسے ہی ان دو طبقات کے اوپر بھی حقوق و فرائض کی ذمہ داری پوری پوری عائد ہوتی ہے۔

کوئی بھی معاشرہ یا ملک اسی صورت میں اجتماعی ترقی کر سکتا ہے کہ جب، وہاں رعایا اور سلطنت کے مابین تقسیم شدہ حقوق و فرائض میں مساوات پائی جاتی ہو اور جہاں ہر دو طبقات اپنی بنیادی ذمہ داریاں امانت داری سے نبھاتے ہیں تاہم جہاں حقوق و فرائض کی ادائیگی میں عدم توازن، یا غفلت کا ہونا روزمرہ کا معمول سمجھا جاتا ہو اور جہاں اس جرم کو جرم ہی نہ مانا جاتا ہو وہاں امن، محبت، قانون کی پاسداری، خوشحالی، امانت، سچائی اور دوسرے نیک اوصاف کو تلاش کرنے کا مطلب گویا وقت کا ضیاع ہے ۔

اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں اور ان عناصر کا جائزہ لیں جو کسی بھی سلطنت کے قیام اور اس کی بقاء کے واسطے لازم ہیں تو ان میں سب سے اہم جزو اس ملک کا آئین ہوتا ہے۔ آئین دراصل وہ دستاویز ہے جو سلطنت اور رعایا کے حقوق و فرائض کی نہ صرف تفصیل واضح کرتی ہے بلکہ، وہ ان ہر دو طبقات کو اپنی اس بنیادی ذمہ داری کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی علاقے میں کسی سلطنت نے استحکام کی حالت کو پا لیا تو اس کے بعد اس نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو واضح کرتے ہوئے اپنے کاروبار سلطنت کے عزائم کو واضح کیا تاکہ سلطنت اور رعایا کے درمیان رشتہ مضبوط ہو سکے اور ساتھ ہی داخلی اور خارجی استحکام بھی میسر آ سکے۔

لہٰذا جب ایک ریاست اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو گویا اس نے اپنے اور رعایا کے درمیان حقوق و فرائض کی تقسیم کو واضح کر کے ہر دو کے درمیان ایک حد قائم کر دی ہے کہ جس کو پلٹنے کا مطلب گویا اس توازن میں انتشار لا کر بنیادی ڈھانچے کو گرانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب ایک سلطنت اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو وہ اپنے آپ کو اور رعایا کو اس بات کا کلی پابند کرتی ہے کہ ہر دو طبقات اس آئین کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے اپنی زندگی کا لائحہ عمل اور اپنی سوچ کا محور اس کو ہی مانیں گے۔

جب ایک سلطنت اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو گویا وہ کاروبار حکومت کا آغاز کرتی ہے، جس کے تحت اس نے اپنی رعایا کو اس کے وہ تمام بنیادی حقوق جس کا وعدہ اس نے آئین کے اندر کیا ہے ان کو فراہم کرے گی۔ اور دوسری طرف رعایا اسی آئین کو تسلیم کرتے ہوئے اس مدعا کو دہراتی ہے کہ وہ اپنی سلطنت کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال کر اس کو مضبوط اور مستحکم کرے گی۔

لہذا ریاست کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی حق ہے کہ عوام ریاست کے ساتھ وفاداری کرے تاکہ ریاست اور رعایا میں مستحکم رشتہ قائم ہو سکے اور جب ریاست اور رعایا ایک دوسرے کے وفادار ہونگے تو ایک قابل رشک اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پائے گا۔


ہمارے معاشرے میں نیک کام کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے، حکام  اپنی رعایا کے اعمال سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔ عدل و انصاف کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے منصب پر فائز حضرات عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے اور مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی اولاد، اَساتذہ اپنے شاگردوں اور افسر اپنے نوکروں کے برے اعمال سے چشم پوشی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو،بیوی اپنے شوہر کو،بھائی بہن اور عزیز رشتہ دار ایک دوسر ے کو نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں نہ قدرت کے باوجود انہیں برے افعال سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم دنیا بھر میں جمقدمہ                             

ہمارے معاشرے میں نیک کام کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے، حکام اپنی رعایا کے اعمال سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔ عدل و انصاف کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے منصب پر فائز حضرات عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے اور مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی اولاد، اَساتذہ اپنے شاگردوں اور افسر اپنے نوکروں کے برے اعمال سے چشم پوشی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو،بیوی اپنے شوہر کو،بھائی بہن اور عزیز رشتہ دار ایک دوسر ے کو نیک کاموں کی ترغیبدیتے ہیں نہ قدرت کے باوجود انہیں برے افعال سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم دنیا بھر میں جس ذلت و رسوائی کا شکار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی اوراسی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ قوم تباہی کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

(1)رعایا کی مدد کرنا ۔میر المؤمنین حضرت سید نا علی المرتضی کرم الله تعالى وَجْهَهُ الكَرِيم ارشاد فرماتے ہیں کہ سر کار مکہ مکرمہ ، سردار من منور صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : ” میری ناراضی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوا کسی کو مددگار نہیں پاتا “المعجم الصغير للطبراني ، الحديث : 71 ، الجزء الاول، ص 31

(2)مدد نہ کرنا۔حضرت سید نا ابو شیخ اور حضرت سید نا ابن حبان رحمه الله تعلی علیهما نقل کرتے ہیں: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ایک بندے کو قبر میں 100 کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا، وہ برابر عرض کرتا رہا یہاں تک کہ ایک کوڑا رہ گیا پس اس ایک کوڑے سے ہی قبر میں آگ بھر گئی۔ جب وہ آگ ٹھنڈی ہوئی اور اُسے افاقہ ہوا تو اس نے پوچھا: ” مجھے کوڑا کیوں مار رہے ہو؟“فرشتوں نے جواب دیا : ” تو نے ایک نماز بغیر وضو کے پڑھی تھی اور ایک مظلوم کے پاس سے گزرا تھا لیکن (قدرت رکھنے کے باوجود ) تو نے اس کی مدد نہ کی تھی ۔التمهيد لابن عبد البر ، يحيى بن سعيد الانصاری، تحت الحديث: 738/32، ج 10، ص 166 -

(3)سزا نہ دینا۔۔۔۔ سُنَنِ ابی داؤد کی روایت میں اس طرح ہے : " غلاموں میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق ہو اسے وہی کھلا ؤ جو خود کھاتے : ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق نہ ہو اسے بھی بیچ دو لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مخلوق کو عذاب نہ دو۔“سنن ابی داود کتاب الادب، باب فى حق المملوك ، الحديث : 5161 ، ص 1600-

(4)معاف کرنا ۔۔۔حضور نبی مکرم،نور مجسم ، صلی اللہ علیہ وآلہ نے غلاموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: "اگر وہ اچھاکام کریں تو قبول کرلو اور اگر برائی کریں تو معاف کر دیا کرو لیکن اگر وہ تم پر غلبہ چاہیں تو انہیں بچ دو ۔الترغيب والترهيب ، كتاب القضاء ، باب الترغيب فى الشفقة .... الخ ، الحديث : 3490٫ ،ج٫3ص ،167

(6)جنت کی خوشبو نہ پائے گا ۔ حضرت معقل بن یسار  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، 4 / 456، الحدیث: 7150)

(7)نرمی کرنا ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ،میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل وعقوبۃ الجائر۔۔۔ الخ، ص1061، الحدیث: 19(8127))


کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام دعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر دعایا کی دیکھ بال اور ان کے درمیان درست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت سید نا ہشام رحمة الله علیه بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا كعب الاحبار  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران برا ہو تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں لہذا حکمران کو دعایا سے اچھا سلوک کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی ہو ۔" آئیے اب دعایا کے حقوق سنئے "

(2) دعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا:حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لئے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو (المراة المناجیح جلد 5ص416)

(2) دعایا کی ضرورت و حاجت کو پورا کرنا :حضرت عمرو بن مرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت وضرورت کے سامنے حجاب کر دے تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت وحتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چناچہ معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر کر دیا ( مراة المناجیح جلد 5 ص 419)

(3)رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا : حضرت عبد الله بن عمر اور ابو ھریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حاکم فیصلہ کرے تو کوشش کرے کہ درست فیصلہ کرے تو اس کو دو ثواب ہیں اور جب فیصلہ کرے تو کوشش کرے اور غلطی کرے تو اس کو ایک ثواب ہے۔ (مراۃ المناجیح جلد 5 ص 422)

(4) دعایا پر ظلم نہ کرنا : حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالٰی ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔ (مرأة المناجیح جلد 5 ص 429)

(5) دعایا کی خبر گیری : حضرت سیدنا یحیی بن عبد الله اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب ضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس گھر میں جا کر دیکھا تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ میں جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب دیا وہ اتنے عرصہ سے میری خبرگیری کر رہا ہے۔حضرت سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگے اے طلحہ تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا ۔ (اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص 116)


اسلام میں اچھے وعادل حاکم کا بہت مقام و مرتبہ ہے یہاں تک یہ بروز قیامت اللہ پاک کے سب سے زیادہ نزدیک ہوں ہوں گے نور کے ممبروں پر ہوں گے ان کے مقام و مرتبے کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر لازم بہت سے فرائض ورعایا کے حقوق  بھی دین اسلام میں بیان کیے گئے ہیں یہ ان اوصاف سے تب ہی متصف ہو سکیں گے جب یہ اپنے فرائض ورعایا کے حقوق کو پورا کریں گے آئیے ان میں سے چند فرائض وحقوق کا مطالعہ کرتے ہیں

1)خیرخواہی کرنا حاکم کو چاہیے کہ رعایہ کے ساتھ حسن سلوک اور خیر خواہی و بھلائی والا معاملہ کریں جس طرح کے رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حاکم کے حوالے سے فرمایافَلَمْ يَحُطُهَا بِنُصْحِهِ لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ . وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعى رعية فلم ينصح ، ۴۵۶/۴، حدیث: ۷۱۵۰، ۱۵۱ بتغير

2)خبر گیری کرنا رعایہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ حاکم رعایا کے معاملات پر نظر اور ان کی خبرگیری کرتا رہے خبرگیری کے حوالے سے رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جسے اللہ عزوجل مسلمانوں کے کسی معاملے کا والی و حاکم بنائے پھر وہ ان کی حاجت و ضرورت اور محتاجی سے چھپتا پھرے تو بروز قیامت اللہ پاک اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجی فکر سے کچھ سروکار نہ ہوگا اس کے تحت فیضان ریاض الصالحین میں ہے کہ غافل بادشاہ روز قیامت ذلت کے گھڑے میں ہوگا- فیضان ریاض الصالحین مکتبہ المدینہ جلد 5صفحہ614٫616

3)عدل و انصاف کرنا حاکم پر لازم ہے کہ رعایا پر عدل و انصاف کرے اور ان پر نا انصافی و بے رحمی سے بچے اس کے متعلق حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ایک گھڑی کا عدل ایسے 60 سال کی عبادت سے بہتر ہے جس کی راتیں قیام اور دن روزے کی حالت میں گزرے ۔الزواجر الباب الثاني في الكبائر الظاهرة، ٢٢٦/٢ -

4)رعایہ کے لیے ادارے قائم کرنا ملک میں عام لوگوں کے لیے ادارے قائم کرنا حکمرانوں کے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے تاکہ رعایا سے جہالت و بے رحمی دور ہو جس طرح کے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمت اللہ تعالی علیہ نے کثیر تعلیمی ادارے قائم کیے اور حضور علیہ السلام نے اصحاب صفہ کے لیے صفہ کا مقام منتخب فرمایا

5)عیب نہ ڈھونڈنا ۔حاکم کو چاہیے کہ بے وجہ رعایا کی عیب جوئی یا ان کی ٹو میں نہ پڑے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ حاکم جب لوگوں میں تہمت و شک ڈھونڈنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ دے گا۔مرآۃ المناجیح شرح مشکات المصابیح مکتبہ اسلامیہ ج5ص408

پیارے پیارے اسلامی بھائیو اگر ہم اپنے اوپر غور کریں تو تقریبا ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح حاکم حکمران ہے کوئی آفیسر کوئی استاد، کوئی ناظم ،کوئی والد، کوئی نگران ،ہونے کی صورت میں حاکم ہے اگر معاشرے کو پرامن اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو اپنے ماتہتوں کے ساتھ حسن سلوک و پیار و محبت و نرمی سے پیش ائیں اور ان کے تمام حقوق ادا کریں اور اسی طرح جو احادیث وغیرہ میں بیان ہوئے ان پر کار بند رہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقوق و ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے


دین اسلام میں حقوق کی بہت اہمیت ہے . قرآن و حدیث میں حقوق ادا کرنے والوں کی بہت فضیلتیں بیان ہوئی ہیں. اللہ تعالی نے ہر جاندار کے حقوق رکھےہیں جن میں سے دعایا کےبھی حقوق ہیں جو درج ذیل ہیں :

عیادت کرنا : نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والعالم نے ارشاد فرمایا . جب مسلمان اپنے بھائی کی عیادت یا اس کی زیادت کو جاتا ہے تو اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے ۔ تو اچھا ہے تیرا چلنا بھی اچھا ہے اور تو نے جنت میں گھر بنا لیا ۔ (مسند امام اعظم، مسند ابی ھریرہہ جلد 3 ص25)

صلہ رحمی کرنا ۔حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جو شخص الله عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص الله عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہےوہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے :بخاری، جلد 4 ، جس 136 ) (بخاری.

محبت کرنا ۔پیارے پیارے آقاصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم ان سے محبت کرو تم انہیں دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں تم ان سے پٹکار کرو وہ تم پر لعنت کریں ۔(مسلم ، کتاب الامارۃ ، ص 795 حدث (4854

(4) نرمی سے پیش آنا : میٹھے میٹھے مکی مدنی مصطفیٰ صلی الله : تعالی علیہ والہ ولی نے ارشاد فرمایا . اے اللہ عزو جل جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت میں مبتلا فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان سے نرمی سے پیش آئے تو تو بھی اس سے نرمی والا سلوک فرما ۔ (مسلم ، کتاب الامارة . م ب الامارة . ص 784 حدیث (4722


اللہ تعالٰی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کو ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالٰی کے سامنے  اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا۔ تواضع و انکساری : مسلمان حکمران کو چاہیے کہ وہ تمام مسلمانوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے اور اپنے اقتدار کی طاقت کی وجہ سے کسی بھی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے ۔ حاکم اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ پر متکبر اور جابر کو د شمن رکھتا ہے ۔ آئیے رعایا کے حقوق ملاحظہ کیجیئے۔

عدل و انصاف کرنا :اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :- وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ) اور عدل کرو بے شک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں ۔ حدیث شریف: ہمیں رعایا کے حقوق کو اچھے طریقے سے ادا کرنے والے عدل و انصاف کرنے والے حاکم ملیں۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ حضور اکرم کا مالہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک دنیا میں انصاف کرنے والے قیامت کے دن اللہ تعَالٰی کے سامنے موتیوں کے منبروں پر ہوں گے کیونکہ انہوں نے دنیا میں انصاف کیا-(تفسیردرسنشور،پ 26 الحجرات، تحت الآية : 562/7،9)

دھوکا نہ دینا : رعایا کا حق یہ بھی ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکا نہ کرے. چنانچہ حضرت سیدنا ا بو یعلی معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے۔ اور وہ اس حال میں مرے کے اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام فرمادے گا۔ (بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعى رعية فلم ينصح456/4،حدیث:7150)

عزت بچانا : رعایا کا حق یہ بھی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کرے ۔ اس کی جان کی حفاظت کرے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے دنیا میں اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کی تو روز قیامت اللہ تعالٰی ایک فرشتہ بھیجے گا جو جہنم سے اسکی حفاظت کرے گا۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ التر ہیب من الغیبتہ، رقم الحدیث 39 ، ج 3، ص 334)

غم خواری کرنا : ہمیں اپنے مسلمان بھائی کی غم خواری کرنی چاہیے ۔ اس کی تعزیت کرنی چاہیے۔ ان کا ادب و احترام

کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت ( یعنی اس کی غم خواری) کی تو اسے مصیبت زدہ کے برابر اجر ملے گا۔ (الترغیب والترہیب رقم 6، ج 4،ص179)

سفارش کرنا : رعایا کو چاہیے کہ اپنے ضرورت مند بھائی کی حاجت روائی کرے ۔ اسکی سفارش کرے ۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں کوئی سائل یا ضرورت مند حاضر ہوتا تو آپ فرماتے : ( حاجت روائی میں) اسکی سفارش کرو اجر پاؤ گے ، اللہ تعالٰی اپنے رسول کے ذریعے جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔(صحیح بخاری ، کتاب الادب ، رقم 6027 ، ج 4 ، ص 107)

رعایا کے بارے میں قیامت کے دن حاکم سے سوال ہوگا : رعایا کے بارے میں قیامت کے دن حاکم سے سوال ہوگا ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا ، عبد الله بن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ علم نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا ۔

پس لوگوں کا واقعی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے ۔ اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور غلام اپنے آقا ( سید) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھ ہوگی۔ (صحیح بخاری شریف ، ح : 2554)


اللہ پاک  جب کسی کو حکمرانی کا تاج عطا فرماتا ہے تو ان کے ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں ہماری راہنمائی کی ہے آپ علیہ ‏السلام نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک راعی ونگہبان ہے اور سب سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔‏(صحیح البخاری، ص1057)

جان عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے مزید ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جسے کسی قوم کا حاکم ونگہبان بنائے اور وہ ہر طرح ان کی خیرخواہی نہ کرے تو وہ جنت کی ‏خوشبوبھی نہ پائے گا۔‏ (صحیح البخاری 10582)‏‏

آقائے نامدار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے کا ایک اور فرمان پیش نظر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جسے رعایا کا حاکم ونگہبان بنایا اور وہ اس حال میں مرا کہ اپنی رعایا کے ساتھ غداری ‏کرتاتھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام فرمادے گا۔ (صحیح مسلم شریف ، ص81، ج۱)‏

مندرجہ بالا احادیث اس بات کی طرف راہنمائی فرماتی ہیں کہ حاکم کے ذمہ جو کوئی فرائض ہیں ان ‏کو پورا کرنا اس کی ذمہ داری ہےاور حکمران بروز حشر اللہ تعالی کے سامنے اپنی رعایا کا جواب دہ ہو گا۔ وہ کون سے حقوق ہیں ہم ان میں سے چند حقوق کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

‏ تواضع و انکساری:‏مسلمان حکمران کو چاہیے کہ وہ تما م مسلمانوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے اور اپنے ‏اقتدار کی طاقت کی وجہ سے کسی بھی وجہ سے مسلمان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے۔ حاکم اس ‏بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی ہر متکبر اور جابر کو دشمن رکھتا ہے۔‎ ‎‎

‏ عدل کا نفاذ : ‏حاکم کا عدل وانصاف تمام رعایا کے لیے عام ہونا چاہیے۔ اور اس معاملے میں احسان کے لیے اہل یا نا ‏اہل کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھے۔ حاکمِ وقت کو چایئے کہ وہ اپنے سامنے خلفاءِ راشدین کے ادوار کی مثالیں رکھے ۔ کہ کیسے حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے دور میں اسلام کی خدمت کی ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ‏نے کیسے اسلام کی ترویج کے لئے اپنا کردار ادا کیا، عثمان غنی اور مولی علی رضی اللہ عنہما کیسے حاکم ‏ثابت ہوئے۔

رعایا کی ضرورتوں کا خیال رکھنا: حاکم کا فرض ہے کہ اپنی قوم کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھےجیسے: کھانا پینا، رہائش، علاج و تعلیم ‏وغیرہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :‏لَوْ مَاتَتْ شَاةٌ عَلَى شَطِّ الْفُرَاتِ ضَائِعَةً‎ ‎‏ اگر نہر ِفُرات کے کنارے ایک بکری بھی بھوکی ‏مرگئی

لَظَنَنْتُ اَنَّ اللهَ تَعَالٰی سَائِلِي عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ‎ ‎تو مجھے خطرہ ہے کہ قیامت کے دن ‏اللہ پاک مجھ سے اُس کے بارے میں سُوال فرمائے گا ۔‏ (حلیۃ الاولیاء‏‎ ‎، عمر بن الخطاب‎ ‎،‎ ‎۱‏ / ‏۸۹‏‎ ‎،‎ ‎حدیث : ۱۴۱)

قوم کی خوشی و غمی میں شریک ہونا: رعایا تو اپنے حاکم کے لئے گھر کے افراد جیسی ہوتی ہے، حاکم کو چاہئے کہ اپنی رعایا کے ساتھ ایسا ہی ‏سلوک روا رکھے جیسا کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ ‏حکمرانوں کو چاہئے کہ اپنی قوم کے ساتھ تکبر و غرور کے ساتھ پیش آنے کی بجائے انکی خوشیوں ‏میں شامل ہوں اور انکے دکھوں کو بانٹیں ایسے موقع پر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کی پیاری پیاری ادائیں مد ‏نظر رکھیں کہ کیسے دو عالم کے داتا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ اپنے غلاموں کے خوشیوں میں شامل ہوتے اور ان کے ‏غموں کا مداوا بنتے۔

‎ ‎مشہور مفسرِ قرآن ،‎ ‎مفتی احمد یار خان نعیمی‎ ‎رحمۃا للہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کے اخلاقِ ‏کریمہ میں سے ہے کہ آپ‎ ‎ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ ہر امیر وغریب کے‎ ‎گھر بیمار پرسی کے لئے تشریف لے جاتے۔‏‏(مرآۃ المناجیح ، جلد : 2 ، صفحہ : 407)

نظام مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کا نفاذ: حاکم وقت کافرض ہے کہ اپنی قوم کے درمیان اپنے ملک میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کے عطا کردہ نظام کا ‏نفاذ کرے، سود، رشوت، کرپشن وغیرہ کو جڑ سے ختم کر کے اسلامی طرز عمل کو نافذ کرے فقط یہی ‏ایک واحد طریقہ ہے کہ جس کی مدد سے ملک و قوم کا بھلا ممکن ہے ۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اردو شاعر نے کیا خوب کہا

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں

پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

اللہ پاک ہمارے پیارے ملک پاکستان کو بھی نیک سیرت، صالح حکمران عطا فرمائے۔ ‏ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏


حقیقی حاکم صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہے مگر نظامِ کائنات کو مُنظَّم کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رُسل مبعُوث فرماۓ۔بلآخر جب بابِ نبوت بند ہوگیا تو یہ عظیم فریضہ قرآنی اُصولوں کی روشنی میں"اُولُو الاَمر" کے حوالے کیا. کسی بھی معاشرہ میں معاملات زندگی کو سہی سمت دینے کے لیے  ایک حاکم،امیر یا خلیفہ کا ہونا ضروری ہے خواہ شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر سرپرست کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں چل سکتا جب تک رعایا اس کی معاون نہ ہوں اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے ایک بڑا سبب حاکم اور محکوم کا اپنے حقوق اور فرائض سے دستبردار ہونا ہے کیونکہ جب کوئی اپنے حقوق اور اپنے فرائض سے نا آشنا ہوتا ہے تو وہ اپنے اپنے فیصلے یا اقدامات درست نہیں کر پاتا

[یہ تحریر چار بنیادی نکات پر مشتمل ہے ]

اسلام میں تصور حاکمیت :حقوق حکمران قرآن کی روشنی میں ۔حقوقِ حکمران حدیث کی روشنی میں ۔کیا ہر حاکم کی طاعت ضروری ہے؟۔اسلام میں تصور حاکمیت ۔اسلامی نقطہ نظر سے  تصور حاکمیت کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے حسب ذیل آیات درج ہیں۔

هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِۚ-هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ. (سورۃ الحشر آیت 22)(ترجمۂ کنز العرفان) وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر غیب اور ظاہر کا جاننے والاہے، وہی نہایت مہربان، بہت رحمت والاہے۔

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ(١)مَلِكِ النَّاسِ(٢)اِلٰهِ النَّاسِ(٣)(سورۃ الناس آیت ١،٣) [ترجمۂ کنز الایمان] تم کہو میں اس کی پناہ میں آیا جو سب لوگوں کا رب۔سب لوگوں کا بادشاہ۔سب لوگوں کا خدا

حقوق حکمران قرآن کی روشنی میں:

اس نظام میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں ان کے بنیادی حقوق کا پاسداری ریاست کا فرض ہے. [قرآنی آیات]

(1) جان کا تحفظ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِؕ-اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا. (ترجمہ کنز الایمان) اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے ناحق نہ مارو اور جو ناحق مارا جائے تو بیشک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا ہے تو وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد ہونی ہے.    (سورۃ بنی اسرائیل 33)

(2) حقوق ملکیت کا تحفظ

وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

(ترجمۂ کنز الایمان)

اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔.   (سورۃ البقرہ 188)

(3) عزت کا تحفظ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (ترجمۂ کنز الایمان) اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں   (سورۃ الحجرت 49)

(4) نجی زندگی کا تحفظ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى یُؤْذَنَ لَكُمْۚ-وَ اِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ (ترجمۂ کنز الایمان) پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ جب بھی بے ما لکوں کی اجازت کے ان میں نہ جاؤ اور اگر تم سے کہا جائے وآپس جاؤ تو وآپس ہو یہ تمہارے لیے بہت ستھرا ہے اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے    (سورۃ النور 28)

(5) بغیر ثبوت کے کارروائی نہ کی جائے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (ترجمۂ کنز الایمان) اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ.   (سورۃ یالحجرت 6)

(6) ضمیر و اعتماد وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًاؕ-اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (ترجمہ: کنزالایمان) اور اگر تمہارا رب چاہتا زمین میں جتنے ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں کو زبردستی کرو گے یہاں تک کہ مسلمان ہوجائیں.   (سورۃ یونس:99)

(7) مزہبی دل آزاری سے تحفظ کا حق قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَیْءٍؕ-وَ لَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَاۚ-وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۚ-ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(ترجمہ: کنزالایمان) تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا اور رب چاہوں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور جو کوئی کچھ کمائے وہ اسی کے ذمہ ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی پھر تمہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے وہ تمہیں بتادے گا جس میں اختلاف کرتے تھے  (سورۃ الانعام:164)

حقوقِ حاکم حدیث کی روشنی میں: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ الْجَعْدِ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْوِيهِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَكَرِهَهُ فَلْيَصْبِرْ فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَيَمُوتُ إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة.(صحيح بخاری شریف ، كِتَابُ الأَحْكَامِ، بَابُ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلْإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً،الخ 7142)

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو، خواہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام کو ہی عامل بنایا جائے جس کا سرمنقیٰ کی طرح چھوٹا ہو۔

تشریح : یعنی ادنیٰ حاکم کی بھی اطاعت ضروری ہے بشرطیکہ معصیت الٰہی کا حکم نہ دیں

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا إِمَامٌ عَادِلٌ وَأَبْغَضَ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ وَأَبْعَدَهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا إِمَامٌ جَائِرٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ(جامع  ترمذی حدیث نمبر: 1329 کتاب: حکومت وقضاء کے بیان امام عادل کا بیان حکم: ضعيف)

ترجمہ : ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا:' قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور بیٹھنے میں اس کے سب سے قریب عادل حکمراں ہوگا، اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ نآپسندیدہ اور اس سے سب سے دوربیٹھنے والا ظالم حکمراں ہوگا'۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔تشریح :نوٹ:(سند میں 'عطیہ عوفی'ضعیف راوی ہیں)

کیا ہر حاکم کی طاعت ضروری ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا؟نہیں بلکل ہر حاکم کی طاعت ضروری نہیں ہے بلکہ جو شریعت کو نافذ کرنے والا ہوں اس کی طاعت بس ضروری ہے.

فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(سورۃ محمد،آیت 22)ترجمۂ کنز الایمانتو کیا تمہارے یہ لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو.

[حدیث مبارکہ] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! امانتوں کے ضائع ہونے کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا: جب اُمور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو. (أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانۃ، 5/ 2382، الرقم/ 6131، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 361، الرقم/ 8714، وابن حبان في الصحیح، 1/ 307، الرقم/ 104، والبیھقي في السنن الکبریٰ، 10/ 118، الرقم/ 20150، والدیلمي في مسند الفردوس، 1/ 335، الرقم/ 1322، والمقریٔ في السنن الواردۃ في الفتن، 4/ 768، الرقم/ 381۔)


رعایا اور سلطنت دو ایسے اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کا جزولاینفک ہیں اور ان میں اسے ایک جزو کے عدم ہونے کی صورت میں دوسرے جزو کا عدم ہونا ظاہر و ثابت ہے۔ تاہم ریاست ایک تجریدی شے ہے، جس کا صفحہ ہستی پہ اظہار چند کرداروں کی صورت میں نمو پذیر ہوتا ہے اور یہی چند کردار ریاست کے کردار، افکار، بیانیہ اور قانون کو مرتب کر کے رعایا کو اس کا بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ  اپنی سوچ، فکر، عمل اور تحریک کو ریاست کے ان بنیادی خدوخال کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو اس طرح منظم کریں کہ منہج ریاست اور انفرادی منہج میں تطبیق قائم ہو جائے اور یوں کسی بھی قسم کے انتشار اور خلفشار کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن جہاں جہاں ان دونوں کے درمیان منہج کا اختلاف واقع ہوتا ہے، وہاں داخلی اور خارجی انتشار کے لئے زمین ہموار ہو جاتی ہے اور یوں سول نافرمانی یا طوائف الملوکی کی صورت میں معاشرہ شکست و ریخت سے دوچار ہو کر اپنا وجود گنوا بیٹھتا ہے۔

دنیا میں ہم انسان جہاں بھی ہوں، جس شکل میں بھی ہوں اور جن حالات میں بھی ہوں، ہماری زندگی کا دار و مدار دراصل معاشرے کے ہی اوپر ہے اور یہی معاشرہ جب اپنی بنیادی سطح سے بلند ہوتا ہے تو اس میں رعایا اور سلطنت کے نام سے دو گروہ واضح ہو جاتے ہیں، جن میں سے ایک کی حیثیت بالترتیب محکوم اور دوسرے کی حاکم کی ہوتی ہے۔ تاہم جیسے معاشرے میں رہنے والے تمام انسان حقوق و فرائض کی بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہیں، ویسے ہی ان دو طبقات کے اوپر بھی حقوق و فرائض کی ذمہ داری پوری پوری نسبت سے عائد ہوتی ہے۔

حکمرانی بہت بڑی آزمائش ہے، اگر حکمرانی کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو یہ وبال جان ہے، باعث پکڑ ہے اور اگر حاکم خوف خدا رکھنے والا ہو ، عدل وانصاف سے کام لیتا ہو تو وہ زمین پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کا سایہ ہے، رعایا کے لئے نعمت ہے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا پسندیدہ ہے۔ حدیث ذکور میں اس حاکم کے لئے جنت سے دوری کی وعید ہے جو اپنی رعایا کو دھوکا دے، ان کے ساتھ خیر خواہی نہ کرے، ان کے معاملات کے حل کی کوشش نہ کرے۔

الله عَزَّ وَجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَاخْفِضُ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ المؤمنین ترجمہ کنزالایمان: اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ اپنے پیرو تابع مسلمانوں کے لئے ( ۱۹ ، الشعراء : ۲۱۵)

تفسیر روح البیان میں ہے: یعنی مؤمنین کے لئے نرمی کیجئے ، انہیں اپنی صحبت بابرکت سے نوازیئے ان کی غلطیوں کو تاہیوں سے درگزر کیجئے، ان کے بڑے احوال سے چشم پوشی فرما کر ان کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیجئے

اپنی رعیت کو دھوکا دینے والے پر جنت حرام ہے «وعن معقل بن يسار رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: ‏‏‏‏ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة ‏‏‏‏ متفق عليه» معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھی بندہ جسے اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا حاکم بنا دے اسے جس دن موت آئے وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعیت کو دھوکا دینے والا ہو تو اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1285] 


اللہ تعالی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالی کے سامنے  اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا حکمران کے رعایا پر پانچ حقوق بیان کیے جائیں گے

(1) تواضع انکساریمسلمان کو چاہیے کہ وہ تمام مسلمانوں کے ساتھ تواضع اور انکساری سے پیش ائے۔ اور اپنے اقتدار کی طاقت کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے مسلمان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ ائے۔ حاکم اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی نے قران مجید میں ارشاد فرمایا:۔كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍترجمہ کنزالعرفان: اللہ ہرمتکبر سرکش کے دل پراسی طرح مہر لگا دیتا ہے۔(پ 24 ، س مومن، آیت نمبر 35)

(2)چغلی پر عمل سے اجتناب :رعایا کا دوسرا حق یہ ہے کہ حاکم لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانب والی باتوں پر کان نہ دھرے ۔خاص طور پر فاسق اور خود غرض لوگوں کی باتوں پر یقین نہ کرے کیونکہ اس کا نتیجہ فتنہ فساد اور افسوس اور ندامت ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر ائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔

(3) درگزر کرنا۔اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا: قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ-وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌترجمہ کنزالعرفان:اچھی بات کہنا اور معاف کردینا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو اور اللہ بے پرواہ، حلم والا ہے۔(پ3،س بقرہ، آیت نمبر 263)

اس کی تفسیر میں یوں ہے: کہ اچھی بات کہنا اور معاف کر دینا بہتر ہے اگر سائل کو کچھ نہ دیا جائے تو اس سے اچھی بات کہی جائے اور خوش خلقی کے ساتھ جواب دیا جائے جو اسے ناگوار نہ گزرے اور اگر وہ سوال میں اصرار کرے یا زبان درازی کرے تو اس سے درگزر کیا جائے۔ سائل کو کچھ نہ دینے کی صورت میں اس سے اچھی بات کہنا اور اس کی زیادتی کو معاف کر دینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اسے عار دلائی جائے یا احسان جتایا جائے یا کسی دوسرے طریقے سے اسے کوئی تکلیف پہنچائی جائے۔

تفسیر صراط الجنان : جب کسی کی غلطی کی وجہ سے حاکم ناراض ہو تو پھر اس شخص کو معاف کر دینے کی گنجائش موجود ہو تو حاکم کو چاہیے کہ ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد تین دن گزرنے سے پہلے سے معاف کر دے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔(مستدرک، کتاب الحدود، اول سارق قطعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، 5/ 543، الحدیث: ۸۲۱۶)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ مَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں کی بادشاہت کا مالک تم پر رحم کرے گا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین، 3 / 271، الحدیث: ۱۹۳۱)

( 4) اجتماعی طور پر عدل کا نفاذ کرنا۔

اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ-فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو پھر اگران میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں صلح کروادو اور عدل کرو، بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ (پ26،س حجرات،آیت نمبر9)

وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ- ترجمہ کنزالعرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو 

.شان نزول :ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) دراز گوش پر سوار ہو کر تشریف لے جا رہے تھے .اس دوران انصار کی مجلس کے پاس سے گزر ہوا تو وہاں تھوڑی دیر ٹھہرے اس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو عبداللہ بن ابی نے ناک بند کر لی یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا: حضور اکرم( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے.حضور پر نور( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) تو تشریف لے گئے لیکن ان دونوں میں بات بھر گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ پڑیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی. صورتحال معلوم ہونے پر سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) وآپس تشریف لائے اور ان میں صلح قرار دی اس معاملے کے بارے میں یہ ایت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا:

اے ایمان والو! اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم سمجھا کر ان میں صلح کرا دو پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتی کرے اور صلح کرنے سے انکار کر دے تو مظلوم کی حمایت میں اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کی طرف پلٹ ائے پھر اگر وہ اللہ تعالی کے حکم کی طرف پلٹ ائے تو انصاف کے ساتھ دونوں گروہوں میں صلح کروا دو اور دونوں میں سے کسی پر زیادتی نہ کرو (کیونکہ اس جماعت کو ہلاک کرنا مقصود نہیں بلکہ سختی کے ساتھ راہ راست پر لانا مقصود ہے) اور صرف اس معاملے میں ہی نہیں بلکہ ہر چیز میں عدل کرو.بے شک اللہ تعالی عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ تو وہ انہیں عدل کی اچھی جزا دے گا.(تفسیر صراط الجنان  جلالین مع صاوی ، الحجرات ، تحت الآیۃ : 9، 5/ 1992-1993، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: 9، ص1153، روح البیان، الحجرات، تحت الآیۃ: 9، 9 /73-74، ملتقطاً)

(5)چادر اور چار دیواری کا تحفظ کرنا. رعایا کا پانچواں حق یہ ہے کہ حاکم وقت حکومت کے زور پر عام مسلمان کی چار دیواری کے حق کی خلاف ورزی نہ کریں اور اجازت لیے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہ ہو عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان في بيته فاطلع عليه رجل فاهوى إليه بمشقص فتاخر الرجل " حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تھے (اسی دوران) ایک شخص نے آپ کے گھر میں جھانکا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیر کا پھل لے کر لپکے (کہ اس کی آنکھیں پھوڑ دیں) لیکن وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔(سنن ترمذي كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم 17. باب مَنِ اطَّلَعَ فِي دَارِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، حدیث نمبر: 2708)

اللہ پاک ہمارے وطن عزیز مک پاکستان کو بھی ایسے حکمران نصیب فرمائے جو رعایہ کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوں آمین بجاہ النبی الامین الکریم