پیارے پیارے اسلامی بھائیوں آج میں آپ کے سامنے ناحق قتل کی مذمت لکھوں گا اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے درست لکھنے کی توفیق عطاءفرمائے۔ الله عز و جل فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (تفسیر صراط الجنان)پارہ 2 آیت (178)

ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (ترجمۂ کنز الایمان)

امام بخاری اپنی صحیح البخارى میں ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے راوی کر نبی کریم صل الله عالم نے فرمایا الله تعالیٰ کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ مبغوض تین شخص ہیں حرم میں الحاد کرنے والا اور اسلام میں طریقہ جاہلیت کا طلب کرنے والا اور کسی مسلمان شخص کا ناحق خون طلب کرنے والا تاکہ اسے بہائے۔ (صحيح البخارى كتاب الديات، حصہ 4 ص 362)

امام ترمذی ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنھ سے روایت کرتے ہیں ہے کہ اگر آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو الله تعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا (جامع الترمذی کتاب الديات ج 3 ص 100)

ابوداود اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنھ سے راوی رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ مومن تیز رو اور صالح رہتا ہے جب تک حرام خون نہ کرے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے۔( سنن ابی داود کتاب الفتن ج 4 صے 139)

ابو داود وہ ابو الدرداء سے اور نسائی معاویہ رضي الله عنه سے۔ راوی ھے کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ امید ہے کہ گناہ کو اللہ بخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہو تے مر جائے یا جسے نے کسے مرد مومن کو قصداً ناحق قتل کیا(سنن ابی داؤد، کتاب الفتن، ج4، ص139)

الله تبارک وتعالیٰ نے سے دعا ہے کہ ہم کو کسی مسلمان شخص کو ناحق قتل کرنے سے بچے، رہنے کی توفیق عطاء فرمائے

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام ایسا مذہب ہے جو سب سے زیادہ حقوق دینے والا ہے۔ اسلام واحد مذہب ہے جس نے باقاعدہ جانوروں کے حقوق بیان کئے حتی کہ سینگھ والی بکری اگر بغیر سینگھ والی بکری کو مارے گی تو بروز قیامت وہ بھی حساب دے گی (صحیح مسلم ، حدیث 2582)۔ اور انسان تو پھر اشرف المخلوقات ہے تو اسکے حقوق اور زیادہ کثرت اور شدت سے بیان کئے گئے حتی کہ قرآن کریم میں ایک انسان کے قتل ناحق کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف شمار کیا گیا ۔ اس سے انسان کی عظمت اور قتل نا حق کی قباحت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ آئیے قتل نا حق کی مذمّت میں کچھ احادیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں۔

1.."قتل ناحق کتنا بڑا گناہ" ؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کسی مومن کو نا حق قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے" ۔ ( سنن ترمذی، کتاب الدیات، الحدیث 1403)

2."قاتل کا کوئی عمل قبول نہیں" حضرت عبادہ بن صامت رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٫٫جو کسی مومن کو نا حق قتل کرے پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اسکا کوئی عمل قبول نہیں فرمائے گا نہ نفل اور نہ ہی فرض،، (سنن ابو داؤد:4270)

3."مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے ہولناک " حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٫٫قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مومن کو نا حق قتل کرنا اللّٰہ پاک کے ہاں پوری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے ،،(سنن نسائی:3997)

4. "قتل ناحق کبیرہ گناہ" حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے" ( صحیح بخاری، کتاب الدیات، الحدیث 6871)

5.."رحمت سے مایوسی" حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، الحدیث: 2620)

6.."دین کی وسعت ختم"حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عمر رضی اللّٰہ عنھما سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’مومن ہمیشہ اپنے دِین کی وُسعت اور کشادگی میں رہتا ہےجب تک کہ وہ ناحق قتل نہ کرے ۔ ‘‘( صحیح بخاری،کتاب الدیات ،حدیث :6862)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!! بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ قتلِ نا حق کی گندگی میں لت پت ہو گیا ہے ۔ ذرا سی بات پر طیش میں آکر قتل کر دینا رواج بن گیا ہے ۔ یہ سب تعلیمات نبویہ "علی صاحبھا الصلاۃ والتسلیم"

سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ قرآن و حدیث میں موجود قتل ناحق کے بارے وعیدات کا مطالعہ کرے ۔ کیونکہ جب یہ وعیدات ذھن میں ہوں گی تو وہ اس نحوست سے بچنے میں کار آمد ثابت ہوں گی ان شاءاللہ ۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے اور قتل نا حق جیسے کبیرہ گناہوں سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ سیدنا خاتم النبیین علیہ الصلاۃ والتسلیم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حدیث مبارکہ نمبر ایک فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ عزوجل کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (کتاب 76 کبیرہ گناہ صفحہ نمبر 23)

حدیث نمبر دو حدیث پاک میں ہے جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا اور اس پر خوش ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کا نہ تو کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ نفل۔ (کتاب سیرت الانبیاء صفحہ نمبر 127)

حدیث مبارکہ نمبر تین عن ابي سعيد وابي هريرۃ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لو ان اهل السماء والارض اشتركوا في دم مؤمن لا قبهم الله في النار رواه ترمزي فقال هذا حديث غريب ترجمہ حضرت ابو سعید اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہما سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے راوی فرمایا اگر زمین و اسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائے تو اللہ تعالی انہیں اگ میں اوندھا ڈال دے گا۔ (کتاب مرأۃ مناجیح جلد پانچ صفحہ نمبر 241)

حدیث نمبر چار۔ امام مالک نے سعید بن مسیب رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے پانچ یا سات نفر کو ایک شخص کو دھوکا دے کر قتل کرنے کی وجہ سے قتل کر دیا اور فرمایا اگر صنعاء کے سب لوگ اس خون میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا امام بخاری نے اپنی صحیح میں اسی کے مثل ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے۔ ( کتاب بہار شریعت جلد تین با صفحہ نمبر 772)

حدیث مبارکہ کا نمبر پانچ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور پرنور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں ائے گا کہ اس کی دونوں انکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے۔ (کتاب صراط الجنان جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 276)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو کسی کو نا حق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے بہت زیادہ افسوس ہے کہ اج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا غنڈہ گردی دہشت گردی ڈکیتی خاندانی لڑائ تعقب والی لڑائیاں عام اور مسلمان کے خون کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ہیں گروپ اورجتھے اورعسکری ونگ بنے ہوۓہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93)ترجمہ. . کنزالایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

ترجمہ کنز الایمان اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہاللہ تعالی نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر حدیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے

حدیث نمبر 1حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے تاجدار مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے ۔(صحیح بخاری شریف کتاب الدیات باب قول اللہ تعالی جلد 4. 358 حدیث نمبر 6871)

حدیث نمبر 2 کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر زمین و اسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی سب کو اوندے منہ جہنم میں ڈال دے گا (معجم الصغیر باب العین من اسمۀ علی صفحہ نمبر205الجزءالاول )

حدیث نمبر 3 …حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا جلد،1 23 الحدیث31)

حدیث نمبر4 حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ قتل نا حق کی نحوست سے محفوظ فرمائے اور ہمیں دوسرے لوگوں کو اس سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے

امین امین ثم امین جزاک اللہ خیرا

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


مسلمان کا کسی کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اب دور حاضر میں بھی ناحق قتل ہو رہے ہیں اب سگے بھائی ایک دوسرے کو زمین کے بدلے قتل کر رہے ہیں۔ناحق قتل کے متعلق کچھ احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:

(1)ظلماقتل کس کے حصے میں: حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جس سے بھی ظلم قتل کیا جاتا ہے تو حضرت ادم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کے حصے میں اس کا خون ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کو ایجاد کیا۔ (بخاری, کتاب الاعصام, ج 4,ص 513, حدیث 7321)

(2)دین کی وسعت اور کشادگی میں رکاوٹ قتل ناحق: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا مومن ہمیشہ اپنے دین کی وسعت اور کشادگی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ نہ حق قتل نہ کرے۔ (بخاری, کتاب الدیات ,ج 4 ,ص 356, حدیث 6862)

(3)قیامت کے دن قاتل کو ہزار مرتبہ قتل: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں بروز قیامت قاتل کو ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا عاصم بن ابی النجنود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے ابو زرعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جس سے اس نے قتل کیا اس کی ہزار ضربیں.(کتاب الفتن, ج 8 ,ص 644, حدیث 330)

(4)مومن کا قتل دنیا کے زوال سے برھ کر: حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ عزوجل کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے. (ترمذی, کتاب الدیات,ج 3, ص98, حدیث 1400)

(5)قاتل و مقتول دونوں اگ میں:حضرت سیدنا ابوبکر ندی بن حارث ثقفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں لے کے ایک دوسرے پر حملہ اور ہوں تو قاتل مقتول دونوں اگ میں ہیں راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعال علیہ وسلم قاتل تو واقعی حقدار ہیں مگر مقتول کا کیا قصور ہے تو فرمایا وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا.(بخاری,کتاب العلم, ج 1, ص 23, حدیث 31)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بات بات پر قتل کرنا عام ہو چکا ہے اللہ عزوجل ہمیں اس مذموم گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ عزوجل قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو زندہ رکھا اس نے سب انسانوں کو زندہ رکھا (پارہ 6،سورہ مائدہ، ایت 32) پیارے پیارے اسلامی بھائیو قتل ناحق کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے. شریعت مطہرہ میں بھی انسانی جان کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل کے نزدیک دنیا کا ظاہر ہو جانا ایک مسلمان کے قتل سے اسان ہے۔ (ترمذی, الحدیث 1400)

ظلما قتل بہت سے گناہوں کا باعث ہے اس قتل کی وجہ سے قابیل نبی زادہ ہونے کے باوجود ہلاک ہوا اور بنی اسرائیل اولاد انبیاء ہونے کے باوجود تباہ ہوئے حسد کینہ قتل ہزار جرموں کی جڑ ہے اسی طرح کسی مرتے ہوئے کی جان بچانا بھی بہت بڑی نیکی ہے حدیث شریف میں ہے کہ ایک بدکار عورت نے ایک پیاس سے مرتے ہوئے کتے کو پانی پلا کر اس کی جان بچا لی تو وہ بخشی گئی جب کتے کی جان بچانے کا یہ ثواب ہے تو مرتے ہوئے ادمی کی جان بچانے کا کتنا ثواب ہوگا اسی کے برعکس ایک مسلمان کو ناحق قتل کرنے پر کتنا عذاب ہوگا ائیے قتل ناحق کی مذمت پر کچھ احادیث پڑھتے ہیں:

(1) مرد مومن کا خون: حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ اگر اسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو اللہ تعالی جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا۔ (ترمذی،الحدیث 1403،ج 3،ص 100)

(2) جنت کی خوشبو نہ سونگھنے پائے:حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی معاہد (زمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا اور بے شک جنت کی خوشبو 40 برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔ (صحیح البخاری،حدیث 3166،ج 2،ص 365)

(3) قیامت کے دن سب سے پہلا فیصلہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (صحیح البخاری،حدیث 6864،ج 4،ص 357)

(4) دین کے سبب کشادگی: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی حرام خون نہ کرے۔ (صحیح البخاری،حدیث 6862،ج 4،ص 356)

(5)قتل ناحق نیک عمل میں رکاوٹ: حضرت ابوالدردء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن تیز رو (یعنی نیکی میں جلدی کرنے والا) اور صالح رہتا ہےجب تک قتل ناحق نہ کرے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے.(یعنی قتل ناحق کی نحوست سے انسان توفیق خیر سے محروم رہ جاتا ہے اسی کو تھک جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔) (سنن ابی داؤد،حدیث 427،ج 4،ص 139)

اللہ عزوجل ہمیں قتل ناحق کے گناہ سے محفوظ فرمائے اور مسلمانوں کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے. شریعت میں قتل عمد کی سزا دنیا میں فقط قصاص یعنی قتل کا بدلہ قتل ہے قتل ناحق ہمارے معاشرے میں بہت سے اسباب کی وجہ سے پایا جاتا ہے جن میں سے مال کی حرص،حسد، جائیداد کے جھگڑے، تکبر، گھریلو ناچاکی اور،غصہ بہت عام ہے اسی طرح قتل ناحق سے بچنے کے لیے گھر میں مدنی ماحول بنانا چاہیے تاکہ گھریلو ناچاقی اور جھگڑے ختم ہو سکیں دل سے دنیا کی محبت نکال دیں اسی طرح قران مجید میں ناحق قتل کی پرزور مذمت کی گئی ہے چنانچہ قران پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا.(پارہ 5، سورۃ النساء، ایت 93)

ترجمہ کنز الایمان:اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے ائیے قتل ناحق کی مذمت پر چند احادیث پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

(1) حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مومن ہمیشہ اپنے دین کی وسعت اور کشادگی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ ناحق قتل نہ کرے۔ (ریاض الصالحین،ج 3،ص 221)

(2) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جس نے مومن کے قتل پر ایک لفظ کے ذریعے بھی مدد کی تو وہ اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں انکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ شخص اللہ عزوجل کی رحمت سے نا امید ہے۔ (ریاض الصالحین،ج 3،ص221)

(3) حدیث پاک میں ہے کہ مومن ہمیشہ نیکی میں جلدی کرتا یعنی جب تک مومن ناحق خون نہ بھائی اس وقت تک اسے نیک اعمال میں جلدی کرنے کی توفیق ملتی رہتی ہے اور جب وہ ناحق خون بہائے تو اس کے گناہ کی نحوست کی وجہ سے وہ اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ (ریاض الصالحین،ج 3،ص221,222)

(4)حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑے گناہ یہ ہیں اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا والدین کی نافرمانی کرنا کسی شخص کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (سنن النسائی،حدیث 4016)

(5) حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی زمی کو ناحق قتل کرے اللہ تعالی اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ (سنن النسائی،حدیث 4751)

اللہ عزوجل ہمیں قتل ناحق کے گناہ سے محفوظ فرمائے اور مسلمانوں کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے۔ اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہے ۔

(1) کسی جان کو قتل کرنا: حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا۔ والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا بخاری کتاب ادب، حدیث 5977 ص (506)

(2) کبیر گناه:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کبیرہ گنا ہوں میں سے سب سے بڑے گناہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا کسی کو کو ناحق قتل کرنا اور سود کھانا ہے (مجمع الزوائد حدیث 12382 ص291)

(3) 7 کبیرہ گنا ہوں سے بچو :حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "7 کبیرہ گنا ہوں سے بچو پھر ان میں سے چند بیان فرمائے اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھرانا، کسی جان کو قتل کرنا اور جنگ سے بھاگ جانا۔ مراةالمناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 1 حدیث 49)

(4) ہلاک کرنے والے امور : حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہےکہ ناحق حرام خون بہانا ہلاک کرنے ۔ والےان امور میں سے ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ (المرجع السابق حدیث (6863)

(5) ساری دنیا کا مٹ جانا :حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اللہ عزوجل کے نزدیک ساری دنیا کامٹ جانا کسی مسلمان کے (ناحق قتل سے زیادہ آسان ہے۔ (الترمذی حدیث 1395 ص 1793)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا ، غنڈہ گردی ، دہشت گردی . ڈکیتی، خاندانی لڑائی ، تعصب والی لڑائیاں عام ہیں ۔ مسلمانوں کا خون پانی ب کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوتے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ایک مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بڑا گناہ ہے۔اپنے گھنائونے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے! اِسلام میں ایک مومن کی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ اِس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

(1)قیامت میں سب سے پہلے خون کا حساب: کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔(صحیح البخاری 6533: صحیح مسلم 1678)

(2) مقتول قاتل کو عرش تک لے جائے گا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا روز قیامت مقتول قاتل کو لے کر ائے گا اس قاتل کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا وہ کہے گا اے میرے رب اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا۔ (صحیح البخاری 3029)

(3)انسانی خون کی حرمت: نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے۔ ( صحیح البخاری6484)

(4)ناحق خون ریزی کے سنگین نتائج: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں ہلاک کرنے والے وہ امور ہیں جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو گا ان میں سے ایک ناحق حرمت والا خون بہانا بھی ہے۔ (بخاری،کتاب الدیات،6470)

(5)دین و دنیا کو تنگ کر دینے والا عمل: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (اس کے لیے اعمال صالحہ کرنا اسان اور توبہ قبول ہوتی رہتی ہے) جب تک ناحق خون نہ کریں (جہاں ناحق خون کیا تو اعمال صالحہ اور مغفرت کا دروازہ تنگ ہو جاتا ہے)۔ (صحیح بخاری: 6862 باب قول اللہ تعالٰی ومن یقتل مومنا متعمدا)

اللہ عزوجل ہمیں گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج کل بدامنی،بے راہ روی اور قتل و غارت گری میں پاکستان تو ایک طرف پورا عالم اسلام ہی بدنام ہے۔ ہر طرف زبوں حالی،بے چارگی اور بے بسی کا عالم ہے۔دل کی دنیا میں زلزلے کی سی کیفیت ہے۔

ہر جانب آگ و بارود کی بارش ہورہی ہے۔فائرنگ صبح و شام ہو رہی ہے۔انسانی خون ،ندی نالوں کی طرح بہہ رہا ہے۔بستیاں روئی کے گالوں کی طرح اڑ رہی ہیں۔ روزانہ ہزاروں انسان چشم زدن میں موت کے منھ میں چلے جارہے ہیں۔عمارتیں زمین بوس ہورہی ہیں۔بچے اپنی کاپیوں اور کتابوں کے ساتھ اسکولوں اور مدرسوں میں دفن ہور ہے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہورہے ہیں۔بچوں اور نوجوانوں کی نسل مٹ رہی ہے۔کوئی کسی کوپرسادینے والا نہیں ہے۔کوئی کسی کے گلے میں بانہیں ڈال کر رونے والا نہیں ہے، روتی بہنوں اور بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے۔

ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ہر کسی کو اپنی اور اپنوں کی فکر ہے۔ہر ایک کو اپنے زخموں کے لیے مرہم کی تلاش ہے۔جہاں بھی بم دھماکہ ہوتا ہے،کٹے ہوئے اعضا بکھرے نظر آتے ہیں۔بہتاہوا انسانی خون دکھائی دیتا ہے، ملبے کے نیچے سے نیم جاں مدد کے لیے پکار رہے ہوتے ہیں۔ بچے لاوارث ہورہے ہیں۔بوڑھے ماں باپ اپنا سہارا کھو رہے ہیں۔مائیں اپنے معصوم بچوں پر آہ وبکا کر رہی ہیں۔نوجوان لڑکیاں اپنوں کی تلاش میں سر گرداں ہیں۔ بہنیں اپنے بھائیوں کی راہ تک رہی ہیں۔

سائرن سے فضائیں گونج رہی ہیں

گولیاں زندگی کو ڈھونڈ رہی ہیں

روشنی جیسے بڑھتی جا رہی ہے

فائرنگ تیز ہوتی جا رہی ہے

اڑ رہی ہے خون کی خوش بو

راج کر رہی ہے پھر دہکتی لو

بین کر رہی ہیں بہنیں کہیں

بوڑھی بیمار مائیں کہیں سکتے میں ہیں

حال تو یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر قتل کر ڈالنا عام ہوگیا ہے، حقیر سی بات پر باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو،بھائی بھائی کو اور بھائی بہن کو،شوہر بیوی کو اور ہر شخص قریبی رشتے دار کو مار ڈالنے پر تیار ہوتا ہے۔انسان کی جان تو مچھر اور مکھی سے بھی کم تر ہوگئی ہے۔آئے روز بوری بند لاشیں ملتی ہیں۔روزانہ درجنوں قتل معمولی بات بن گئی ہے۔کسی کو احساس زیاں تک نہیں ہورہا۔

۔اللہ تعالیٰ نے تو قتل ناحق کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے

ناحق قتل کرنے پر کئی احادیث وارد ہوئی ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

موجودہ دور اہل ایمان کے لیے آزمائشوں، ابتلاآت اور امتحانات کا دور ہے۔ ہر طلوع ہونے والی صبح اپنے ساتھ نئے نئے فتنے لے کر آتی ہے اور ہر رات اپنے پیچھے لاتعداد فتنوں کے اثرات و نقوش چھوڑ جاتی ہے۔

یہ پر آشوب ماحول اور پر فتن ساعتیں صاحبان ایمان کے لیے کچھ نامانوس اور اوپری ہر گز نہیں، کیوں کہ آج سے چودہ سو برس پیش تر ہی ہمارے پیارے نبی، جناب نبی کریم، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ان باتوں کی خبر دے دی تھی ۔ حضرات علمائے کرام فرماتے ہیں کہ قرب قیامت کی چھوٹی چھوٹی علامات پوری ہوچکی ہیں۔ اب صرف بڑی نشانیاں باقی ہیں۔

احادیث مبارکہ میں جناب نبی کریم، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”آخری زمانے“ کی جو متعدد نشانیاں بتائی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قتل و قتال بہت عام ہوجائے گا۔ آج ہم کھلی آنکھوں اس امر کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ معاشرے سے امن و امان عنقا ہے۔ کسی کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ نہیں۔ہر شخص غیر محفوظ ہے۔امیر ہو یا غریب، افسر ہو یا نوکر،خواص ہوں یا عوام، حد یہ کہ عالم ہو یا عامی، کسی کو جان کی امان حاصل نہیں ہے۔ ہر طرف عدم تحفظ کی فضا عام ہے۔ ہر کوئی اس خوف کاشکار ہے کہ کوئی اندھی گولی اس کی زندگی کا چراغ گل نہ کردے۔ انسانی جان پانی سے زیادہ سستی ہوچکی ہے۔ ذاتی و نفسانی مفادات کے لیے دوسرے انسان کی جان لے لینا سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ حالاں کہ قرآن و حدیث کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک انسان کی جان بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور جو اس معاملے میں اللہ کی بتائی گئی حد کو پامال کرتا ہے، اس کے لیے عنداللہ ذلت و رسوائی کا طوق تیار ہے۔

5 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن بیت اللہ کو دیکھا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”اے کعبہ! تم بہت عظمت والے ہو اور تمہاری حرمت بھی بہت بڑی ہے۔ (لیکن) ایک مومن و مسلمان (کی جان) اللہ رب العالمین کے ہاں تم سے زیادہ محترم و مکرم ہے۔“ (نضرة النعیم: 5298/11)

کسی کو بلاجواز قتل کرنے والا پورے سماج اورمعاشرے پر ظلم وزیادتی کرتا ہے۔ اس جرم عظیم کے باعث قاتل کی دنیوی اور اخروی زندگی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس سے سکون و چین چھین لیا جاتا ہے۔ پھر سب سے بڑی حقیقت یہ کہ کل اس قاتل نے خود موت کا پیالہ پینا ہے اور اپنے اعمال کا مکمل جواب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔آمین !

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام انسانوں کو خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر ، سب کو حقوق فراہم کرتا ہے ، سب کی جان کی حفاظت کرتا ہےیہاں تک کہ اللہ رب العزت نے سورۃ المائدۃ آیت 32 میں ارشاد فرمایا کہ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ

ترجمہ کنز العرفان: جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا.

مذکورہ آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ نہ صرف ناحق مسلمان کو قتل کرنا بہت برا ہے بلکہ کسی کافر کو بھی بغیر کسی وجہ سے قتل کرنا بہت برا کام ہے کیوں کہ آیت مبارکہ میں لفظ نفس کا بولا گیا ہے جو کہ مسلمان و کافر معاہد مراد ہے دونوں کے لیے برابر ہے۔

قتل ناحق سے مراد ایسا قتل کرنا ہے جس کا حکم شریعت کی طرف سے نہ ہو۔ اسی طرح قتل نا حق کی مذمت میں بے شمار احادیث طیبہ وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

حدیث 1: صحیحین میں عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲصلَّی اﷲتعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ''قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔'' (''صحیح البخاري''،کتاب الدیات،باب قول اللہ تعالٰی(ومن یقتل مؤمنا متعمداً...إلخ )، ،الحدیث:6864، ج4، ص357)

حدیث2: امام بخاری اپنی صحیح میں عبداﷲ بن عَمْرْورضی اﷲ تعالٰی عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲصلَّی اﷲتعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ''جس نے کسی معاہد (ذمی)کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا اور بے شک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔'' (''صحیح البخاري''،کتاب الجزیۃوالموادعۃ،باب إثم من قتل معاھدا بغیرجرم،الحدیث: 3166،ج2،ص365)

حدیث 3: امام ترمذی اور نسائی عبداﷲبن عَمْرْورضی اﷲتعالٰی عنہما سے اور ابن ماجہ براء بن عازب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی کہ رسول اﷲصلَّی اﷲتعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ''بے شک دنیا کا زوال اﷲ(عزوجل)پر آسان ہے۔ ایک مرد مسلم کے قتل سے ''۔ (''جامع الترمذي''،کتاب الدیات،باب ماجاء في تشدید قتل المؤمن ، الحدیث:1400،ج3،ص99)

حدیث 4: امام ترمذی ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ اگر آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو اﷲتعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا۔ (''جامع الترمذي''،کتاب الدیات،باب الحکم في الدماء،الحدیث: 1403،ج3،ص100)

حديث ٥: حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مسلمان اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے جب تک کہ حرام خون نہ کرے۔ (''مشکاۃ المصابیح'' ، کتاب القصاص ، الفصل الاول ،الحدیث : 3447 ، ج2 ، ص 1027)

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل ناحق کتنا سنگین جرم اور اللہ رب العزت کو ناراض کرنے کا سبب ہے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس سمیت تمام گناہوں سے بچا کر رکھےاور گزشتہ گناہ معاف فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ  عَزَّوَجَلَّ  کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

مسلمان کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔ ا

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔