قرآن و حدیث میں قتل ناحق کی مذمت بار بار آئی ھے۔کسی کام کے منع کرنے کا بار بار ذکر ہونا اس چیز کی اہمیت کو اجاگر کرتا ھے کہ اس چیز کو نا کرنے کی کتنی زیادہ تاکید ھے جیسے کہ ماقبل میں قتل ناحق کی مذمت کا ذکر ہوا۔ یہ بات اظھر من الشمس ھے کہ قرآن و حدیث میں قتل نا حق کی کتنی زیادہ مذمت آئی ھے اور کتنی تاکید کیساتھ منع کیا گیا ھے کہ قتل نا حق سے بچتے رہنا چاہیے لیکن جو ہمارا آج کا عنوان ھے وہ ھے قتل نا حق کی مذمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں ۔

ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کردے چاہے وہ احکامات قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں یا وہ احکامات احادیث مبارکہ میں بیان ہوئے

بحیثیت مسلمان ہم سب کو چاہیے کہ ہم مسلمانوں بھائیوں کے تمام حقوق کا خیال رکھیں بالخصوص مسلمان کی جان کے معاملے میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں خدانخواستہ انجانے میں ہم کسی بھی مسلمان کے خون بہانے میں ملوث نا ہوجایے ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں ۔

جب قابیل نے حضرت ہابیل علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے والد محترم حضرت آدم علیہ السلام کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے قتل کیا اور یہ بدبختی قابیل کے کھاتے میں آئی کہ حدیث مبارکہ میں یہ بات بیان کی گئی ھے کہ جس کا مفہوم یہ ھے کہ قیامت تک جو شخص کسی دوسرے شخص کو نا حق قتل کرے گا تو اس کے قتل کا گناہ بھی قابیل کے نامعہ اعمال میں لکھا جائے گا کہ اس نے سب سے پہلے انسان کے قتل کی ابتداء کی ۔

حدیث پاک ھے کہ آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان بزبان حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی میں لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ھے '' بحوالہ سنن ابن ماجہ جلد نمبر 2 ص 874 باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما

دیکھا آپ نے حدیث پاک میں حدیث پاک میں قتل نا حق کی مذمت کس طرح بیان کی گئی کہ آدھے کلمے سے بھی جس نے قتل کے معاملے میں مدد کی اللہ تعالیٰ اس کی پیشانی میں لکھے گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ھے ۔

ایک تو اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دھتکار دیا جائے گا دوسرا اس کو سب کے سامنے سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور غضب الٰہی کی یہ صورت رسوائی ہی رسوائی ھوگی ہم۔اللہ تعالیٰ کی اس کے غصب سے پناہ مانگتے ہیں۔

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا بروز قیامت بڑے خسارے کا شکار ہوگا ۔ فرمان مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم بزبان سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل ہونے پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا" بحوالہ معجم الصغیر جلد اول ص 205

مسلمانوں کے آپس میں قتل ناحق کرنے کے بارے میں وعیدیں ہمیں قرآن و حدیث میں کثیر مقامات پر ملتی ھیں کہ مزکورہ حدیث میں یہ بات گزری ھے کہ اگر سارے بندے بھی ایک مسلمان کے قتل کرنے پر جمع ہو جائیں تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ تمام بندوں کو جہنم میں داخل فرمادے تو بھی اللہ تعالی کو کوئی پرواہ نھیں ۔

اس سے ہمیں قتل ناحق کے مذموم ہونے کے بارے میں بات معلوم ہوئی کہ قتل نا حق اللہ تعالیٰ انتہائی ناپسند ھے سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ھے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ھے "کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنیم میں جائیں گے" راوی فرماتے ھیں کہ میں نے عرض کی مقتول جہنم میں کیوں جائے گا فرمایا اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا( بحوالہ بخاری شریف کتاب الایمان جلد اول ص نمبر 23 حدیث 31)

آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ و سلم کا فرمان عالیشان ھے کہ 'جس نے غیر مسلم شہری یعنی معاہد کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ھے" (بحوالہ۔بخاری شریف کتاب الجزیہ )

ایک اور جگہ فرمان مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ھے کہ جس کسی معاہد کو قتل نا حق کیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرمادے گا (بحوالہ سنن نسائی کتاب القسامۃ حدیث نمبر 474)

دین اسلام کا یہ حسن ھے کہ اس نے مسلمانوں اور غیر مسلم کو عدل و انصاف کیساتھ حقوق مہیا کیے ہیں اور عملی طور پر انھیں اس عمل کرکے بھی سمجھادیا ھے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قتل ناحق سے بچائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک کا کرم ہے جس نے ہمیں عقل سلیم کی دولت سے مشرف فرما کر دیگر مخلوقات پر شرف عطا فرمایا اس عقل سلیم کی بدولت ہم اس بات سے واقف ہو سکتے ہیں کہ معاشرے میں کونسی چیزیں قابل تعریف ہیں اور کونسی چیزیں ہمیں ذلت کے گہرے کنووں میں دھکیل سکتی ہے انہیں بری چیزوں میں سے ایک قتل ناحق بھی ہے آئیے اس کے بارے میں اسلام ہماری کیا رہنمائی کرتاہے جانتے ہیں احادیث و فرمان الٰہی کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ: کنزالایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب

تفسیر: صراط الجنان: {وَ مَنْ یَّقْتُلْ: اور جو قتل کرے۔} اس سے پہلی آیت میں غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دینے کا حکم بیان کیا گیا اور اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی گئی ہے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ:93، 4 / 182)

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت: کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: ء871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31) افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

مسلمانوں کا باہمی تعلق کیساہونا چاہئے؟ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق کیسا ہونا چاہئے، اس بارے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون۔۔۔ الخ، 1 / 15، الحدیث: 10)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسندکرتا ہے۔(بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ۔۔۔ الخ,1( 16، الحدیث: 13)

(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے ۔ تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا۔ انسان کے لیے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ۔ مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے ، اس کا خون، اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ۔۔۔ الخ، ص1386، الحدیث: 32(2562)

(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے ،سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ و ہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ دے اور بری باتوں سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، 3 / 369، الحدیث: 1928)

(5)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ ، ص52، الحدیث: 116(65)

مسلمان کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔ لہذا ہمیں ہمیشہ ایسی بری عادات سے بچنا ہے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ: کنزالایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب

تفسیر: صراط الجنان: {وَ مَنْ یَّقْتُلْ: اور جو قتل کرے۔} اس سے پہلی آیت میں غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دینے کا حکم بیان کیا گیا اور اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی گئی ہے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: 93، 4 / 182)

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت: کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

مسلمانوں کا باہمی تعلق کیساہونا چاہئے؟ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق کیسا ہونا چاہئے، اس بارے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون۔۔۔ الخ، 1 / 15، الحدیث: 10)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسندکرتا ہے۔(بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ۔۔۔ الخ، 1 / 16، الحدیث: 13)

(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے ۔ تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا۔ انسان کے لیے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ۔ مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے ، اس کا خون، اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ۔۔۔ الخ، ص1386، الحدیث: 32(2564))

(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے ،سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ و ہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ دے اور بری باتوں سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، 3 / 369، الحدیث: 1928)

(5)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ ، ص52، الحدیث: 116(64))

مسلمان کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج کل معاشرے میں قتلِ ناحق عام ہوچکا ہے ۔ غیرت کہ معاملے میں قتل، معمولی لڑائی جھگڑے پہ قتل، زمینی تنازع پہ قتل، جائیداد کہ لیے قتل، شک کی بنیاد پہ قتل، ماورائے عدالت قتل، خواہشات کی تکمیل کہ لیے قتل اور دیگر چھوٹی چھوٹی باتوں پہ قتل کرنا لوگ معمولی سمجھتے ہیں ہر طرف خونِ "مسلم ارزاں"(سستا) ہے ۔

حالانکہ دینِ اسلام میں کسی کا ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے : رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ کنزالایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب

کثیر احادیث میں قتلِ ناحق کی سخت وعید و مذمت بیان کی گئ ہے۔

قتلِ ناحق کی مذمّت میں 4 روایات ملاحظہ فرمائیں:

1 حضرت انس (رَضِیَ اللّہ عَنْہُ) سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو(ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

2 حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) فرماتے ہیں کہ بروزِ قیامت قاتل کو ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا ۔ عاصم بن اَبِی النَّجُوْد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کہا :’’اے ابو زُرعہ ہزار مرتبہ ؟‘‘ ابو زُرعہ (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) نے فرمایا:’’جس آلہ سے اس نے قتل کیا اس کی ہزار ضربیں۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الفتن، باب من کرہ الخروج فی الفتنۃ وتعوذ عنھا،8/644،حدیث:330)

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے میں ہوگا۔

3 حضرت ابوبکرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

4 حضرتِ سَیِدُناابن مسعود (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (شعب الإیمان، باب فی تحریم النفوس والجنایات علیہا،4/344، حدیث:5341)

یاد رہے!! کسی مسلمان کا قتل حلال سمجھ کر کیا تو یہ کفر ہے اور اگر حرام جانتے ہوۓ کیا تو کبیرہ گناہ ہے

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج کل ہمارا معاشرہ طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ہے معاشرے میں برائیوں کی طرف رجحان بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے چھوٹی سی بات پر گھر کے گھر اُجر جاتے ہیں بھائی بھائی کے ساتھ دشمنی رکھے ہوا ہے ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار سے دشمنی رکھے ہوئے ہے ذرا سی زمین کے ٹکڑے کی خاطر قتل ہورہے ہیں قتل اس طرح عام ہوتا جارہا ہے جیسے قتل وغارت کرنا کوئی گناہ ہی نہیں ہے ،غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔ حالانکہ قرآن وسنت میں ناحق قتل وغارت کرنے کی بہت سخت ترین وعیدات بیان کی گئی ہیں الله پاک قرآنِ پاک کی سورۃ النساء میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَاوَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًاعَظِیمًا۝ُ

(ترجمہ کنزالایمان) اورجو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ (تفسیر صراط الجنان)

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت: کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے چار احادیث درج ذیل ہیں:

(1)حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4/358، الحدیث:6871)

(2)کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، صفحہ 205، الجزء الاول)

(3)حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،1/23،الحدیث: 31)

(4)حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، (3/262، حدیث: 2620)

مسلمان کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


انسان گھل مل کر رہنے میں انسیت پاتا ہے اور اسی کو پسند کرتا ہے ۔ اور جہاں چند لوگ مل کر رہیں وہاں ایک دوسرے کی عزت کی رعایت کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات کو بھی اخلاقی طریقہ سے بیان کرنے کا ذہن ہونا چاہیے مگر افسوس بد قسمتی سے انسیت کی جگہ بغضیت کو ہر کوئ پالے ہوئے ہے اور شکاری کی طرح ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے موقع کی تاک پر بیٹھے ہوۓ ہے ۔

شروع شروع گالی گلوچ سے آغاز ہوتا ہے اور بات ختم کرنے کی بجائے مقابل کو ختم کرنے کی ہر کوشش کرتے ہوئے قتل نا حق جیسے گناہ کبیرہ کے گھڑے میں بھی گرتے نظر آتے ہیں

آئیے قارئین کرام قتل ناحق کے متعلق احادیث کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔ سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔“ان گناہوں میں سے رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےقتْلِ ناحق کو بھی شمار فرمایا ( مسلم،کتاب الایمان،باب بیان الکبائرواکبرھا،ص60،حدیث: 89 )

دریافت کیا گیا: سب سے عظیم گناہ کون سا ہے؟ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرمایا: تیرا کسی کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ہم سَرقرار دینا حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ سائل نے عرض کی : پھر کون سا ؟ فرمایا: تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔عرض کی گئی: پھر کون سا ؟ فرمایا : تیرا اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرنا ۔(مسلم،کتاب الایمان،باب بیان الکبائرواکبرھا،ص59،حدیث: 86 )

صرف احادیثِ کثیرہ میں قتل ناحق کی مذمت بیان نہیں کی گئ ہے بلکہ اس کبیرہ گناہ کی مذمت قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ مذکور ہے آئیے

ایک آیت پاک ملاحظہ کرتے ہیں: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ: کنزالایمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

معلوم ہوا جان بوجھ کر قتل کرنے والے کا بدلہ جہنم میں ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ” جس نے کسی ذمی کو ( ناحق ) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا ۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے ۔“ ( صحيح البخاري بَابُ إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ حديث 3166 ط دار طوق النجاة )

سب سے پہلے قتل کس نے کیا ؟ روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :’’ جو بھی شخص ناحق مارا جاتا ہے اس کے قتل کا بوجھ حضرت آدم کے بیٹے ، ( قابیل ) جو سب سے پہلا قاتل تھا ، پر بھی ہو گا کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کو جاری کیا تھا ۔‘‘ (صحيح البخاري جزء 2 ص 79 ط دار طوق النجاة,)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ قیامت کا زمانہ قریب ہوگا، تو عمل کم ہوجائیں گے بخل پیدا ہوجائے گا، فتنے ظاہر ہوجائیں گے اور ہرج کی کثرت ہوگی لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ہرج کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : قتل، قتل اور شعیب ویونس ولیث اور زہری، کے برادر زادہ بواسطہ زہری، حمید، حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں۔ صحیح بخاری :باب ظهور الفتن ،جزء 9ص 48 حديث 7061 ط دار طوق النجاة)

اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرنے والا بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام تکریم انسانیت کا دین ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو نہ صرف امن و آشتی تحمل و برداشت بقاء باہمی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے عقاید و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سیکھاتا ہے۔

* اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجھ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا خون بہانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ *

اسلام اس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسان کی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پشت ڈال کر دامن اسلام پر قتل و غارت کے حامی ہونے بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو مسلمان کہلا کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں کو خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سرانجام دے دی۔

* سورۃ النساء* آیت نمبر 93 وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ: کنزالایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ ""

*قتل ناحق کرنے کی مذمت * :

1- حضرت ابو ہریرە رضی الله تعالٰی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی مومن کو قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو الله تعالٰی ان سب کو جہنم میں دھکیل دے گا ۔ ( ترمذی، کتاب الدیات ، باب الحکم فی الدماء ، 100/3 ، الحدیث : 1603 )

2- حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے: رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک دنیا کا ختم ہوجانا ایک مسلمان کےظلما قتل سے زیادہ سہل ہے ۔ ( ابن ماجہ ، کتاب الدیات ، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما ، 261/3 ، الحدیث، 2619 )

3- حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ""بڑے کبیرہ گناھوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ ( بخاری، کتاب الدیات، باب قول الله تعالٰی ، ومن احیاھا 358/4 ، الحدیث، 2871 )

4- حضرت ابو ہریرە رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے الله کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا "" جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرفی جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن الله کی بارگاہ میں اس حال میں آے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا 'یہ الله کی رحمت سے مایوس ہے '۔ ( ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما ، 242/3 ، الحدیث، 2620)

مسلمان کو قتل کرنا کیسا : اگر مسلمان کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اگر قتل کو حرام ہی سمجھا پھر یہ قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج کل معاشرہ تباہی کے گڑھے میں پھنسلتا چلا جارہاہے ایک دوسرے کو قتل کرنا انٹرنیشنل پرابلم بن چکا ہےآئے دن نیوز پر خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ بھائی نےبھائی کو قتل کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ بس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرنے میں دھلے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے اسلام میں ناحق قتل کرنے کے بارے میں بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں رب العالمین ارشاد فرماتا ہے

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) (پ 5،النساء ،93) ترجمه كنزالايمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

اس کے علاؤہ کثیر احادیث مبارکہ میں قتل ناحق کی مذمت بیان کی گئی ہے

1: نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205، الجزء الاول)

2: رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

3: حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

غور کریں جب ایک حرف جتنی مدد کرنے پر رب کی رحمت سے مایوسی کا پٹہ گلے میں ڈال دیا جائے گا تو جو قتل ہی کر ڈالے ؟

4: تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینے کی دھمکی دی جاتی ہے

انسانیت کا نام ہی مٹتا چلا جا رہا ہے جبکہ اس معاملے میں رب العالمین اور رحمۃ للعالمین عزوجل و صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرمان عبرت بالکل واضح ہیں معاشرے میں اس گندے جراثیم کی بنیادی وجہ اگر دیکھا جائے تو لا علمی ہے اور دین سے دوری ہے اگر ہم اپنی نسلوں کو علم دین کے شعلوں کا پروانہ وار بنا دیں تو امید ہے کہ معاشرہ گلاب کی خوشبوؤں سے مہک اُٹھے گا اسکے ساتھ ساتھ اگر ہم دعوت اسلامی کا دینی ماحول اپنالیں تو دل نفرتوں کے کیچڑ سے نکل کر محبتوں کی بہار بن جائے گے

اللّٰہ پاک ہمیں دین اسلام کے قوانین پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی کا ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے جس کا ذکر بہت سی احادیث مبارکہ میں ہوا ہے۔ ناحق قتل کرنے کے بارے میں کچھ احادیث درج ذیل ہیں:

1:لا ترجعوا بعدي كفاره يضرب بعضكم رقاب بعض(صحیح مسلم ج 1ص58) ترجمہ: میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردنیں مارنا شروع کر دیں۔ اور رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

2:لا يَزَالُ الْعَبْدُ فِي فَحَةٍ مِنْ دِينِهِ مَا لَمْ يَصُبُ دَمَّا حَرَامًا (صحیح مسلم ج ا ص 58) بندہ ہمیشہ اپنے دین کی وسعت میں ہوتا ہے جب تک حرام خون تک نہ پہنچے۔

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:

3:اولُ مَا يَقْضِي بَيْنَ بدر النَّاسِ يَوْمَ القِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ -( صحیح بخاری ج 2 ص 1014) قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون (قتل) کا فیصلہ ہو گا۔

آپ کا ارشاد گرامی ہے:

4: لَقَتْلُ مُؤْمِنَ أَعْظَمُ عِنْداللهِ مِن زَوَالِ الدُّنْيَا( .السنن الکبریٰ للبیہقی ج 8ص (22) کسی مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کے زوال سے بھی بڑا (جرم) ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

5:لا تَقْتُلُ نَفْسَ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ علَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلُ كُفْلَ مِنْ دَمِهَا لِأَنَّهُ أُولُ مِن سَن القَتْلِ (صحیح مسلم ج2 ص 60) جب کوئی نفس ظلم کے طور پر قتل ہوتاتواس کا گناہ حضرت آدم علیہ السلام کےپہلے بیٹے (قابیل) پر ہوتا ہے، وہ اس کے خون کا ذمہ دار ہے، کیونکہ اس نےسب سے پہلے قتل کا طریقہ جاری کیا۔

حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:

6: كُلِّ ذَنْب عَسَى اللَّهُ أَن يغفره الا الرجل. يَمُوتُ كَافِرًا او الرَّجُلُ يَقْتُلُ مُؤْمِنًا متعمدا،(مسند امام احمد بن حنبل ج 4 ص 99) قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو بخش دے ، مگر جو شخص حالت کفر میں مر جائے یا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو کسی کو نا حق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے بہت زیادہ افسوس ہے کہ اج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا غنڈہ گردی دہشت گردی ڈکیتی خاندانی لڑائ تعقب والی لڑائیاں عام اور مسلمان کے خون کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ہیں گروپ اورجتھے اورعسکری ونگ بنے ہوۓہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ. . کنزالایمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

ترجمہ کنز الایمان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہاللہ تعالی نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر حدیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے :

حدیث نمبر 1: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے تاجدار مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے ۔ (صحیح بخاری شریف کتاب الدیات باب قول اللہ تعالی جلد 4. 358 حدیث نمبر 6871)

حدیث نمبر 2 : کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر زمین و اسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی سب کو اوندے منہ جہنم میں ڈال دے گا ۔ (معجم الصغیر باب العین من اسمۀ علی صفحہ نمبر205الجزءالاول )

حدیث نمبر 3: حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا جلد،1 23 الحدیث31)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ قتل نا حق کی نحوست سے محفوظ فرمائے اور ہمیں دوسرے لوگوں کو اس سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے

امین امین ثم امین جزاک اللہ خیرا

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


1۔ ایک مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بڑا گناہ ہے: اپنے گھنائونے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے! اِسلام میں ایک مومن کی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ اِس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَی اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘(ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔‘‘(ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم: 183)

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘(ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام دینِ فطرت ہے، مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا خلافِ فطرتِ سلیمہ ہے لہٰذا اسلام نے قتلِ ناحق کی شدید مذمت کی ہے چنانچہ الله پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) ترجمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے تیار رکھا بڑا عذاب۔(پ5، النسآء: 93)

قراٰنِ مجید کے علاوہ کئی فرامینِ مصطفےٰ قتلِ ناحق کی مذمت پر دلالت کرتے ہیں، ان میں سے 4 ملاحظہ کیجئے:

(1)دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ: اﷲ پاک کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔(موسوعہ ابن ابی الدنیا، 6/234، حدیث: 231)

(2)عبادت قبول نہ ہو: جس شخص نے کسی مؤمن کو ظلماً ناحق قتل کیا تو اﷲ پاک اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔(ابوداؤد،4/139، حدیث: 4270)

(3)مقتول قاتل کو گریبان سے پکڑے گا: بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُو نے اسے کیوں قتل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔(معجم اوسط،1/ 224، حدیث:766)

(4)سب سے پہلے قتلِ نا حق کا فیصلہ: قیامت کے دن سب سے پہلے خونِ ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوقُ العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔(مراٰۃ المناجیح،2/306، 307)

ہمارا معاشرہ جہاں دیگر بہت سی برائیوں کی لپیٹ میں ہے وہیں قتلِ ناحق بھی معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے۔ ذرا سی بات پر جھگڑا کیا ہوا اور نادان فوراً ہی قتل پر اُتر آتے ہیں، وراثت کی تقسیم پر جھگڑا، بچوں کی لڑائی پر جھگڑا، جانور دوسرے کی زمین میں کچھ نقصان کر دے تو جھگڑا، کسی کی کار یا موٹرسائیکل سے ٹکر ہو جائے اگرچہ نقصان کچھ بھی نہ ہو پھر بھی جھگڑا، بعض اوقات اس جھگڑے کی انتہا قتل ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت واپس آ چکا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، اپنے اندر صبر، حوصلہ اور برداشت کا جذبہ پیدا کریں، خوفِ خدا، عشقِ مصطفےٰ اور جہنم کا ڈر اگر ہر دل میں پیدا ہوجائے تو معاشرے کو اس بُرے مرض سے نکلنے میں دیر نہیں لگے گی۔

اللہ پاک ہمارے معاشرے سے اس کبیرہ گناہ کا خاتمہ فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔