پیارے اسلامی بھائیوں! الله پاک ہمیں علم دین سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے- جس طرح ہم بہت سے گناہوں میں علم دین نہ سیکھنے کی وجہ سے مبتلا ہو جاتے ہیں اسی طرح قتل ناحق ہونے کی بھی بہت بڑی وجہ علم دین سے دوری ہے- افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل کرنا،غنڈہ گردی،دہشت گردی،ڈکیتی ،خاندانی لڑائی ،تعصب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ,گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔

یاد رہے کہ قتل ناحق حرام، سخت ترین کبیرہ گناہ ہے اور گناہ نہ سمجھتے ہوئے ناحق قتل کیا جائے تو کفر ہے

احادیث میں کثرت سے قتل ناحق کی بہت سخت وعیدیں آںٔی ہیں ان احادیث میں سے چند ذیل میں درج کی گئی ہیں:

1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری ،کتاب الدیات ،باب قول اللہ تعالی ومن احیاھا،358/4, الحدیث:6871, دار الکتب العلمیہ 1419ھ)

2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا" یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے-" (ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما, 262/3, الحدیث :2620 ،دارالمعرفہ بیروت1420ھ)

3)حضرت برا بن غازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلما قتل ہونے سے زیادہ سہل ہے- (ابن ماجہ ،کتاب الدیات ،باب الغلیظ فی قتل مسلم ظلما، 261/3, الحدیث:2619,دارالمعرفہ بیروت 1420ھ)

4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کسی مسلمان مومن کو ناحق قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ پاک ان سب کو جہنم میں دھکیل دے- (ترمذی ،کتاب الدیات، باب الحکم دی الدماء, 100/3,الحدیث:1403' دارالفکر بیروت1414ھ)

5)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ناحق حرام خون بہانہ ہلاک کرنے والے ان امور میں سے ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں- (بخاری, کتاب الدیات ,باب قول اللہ تعالی ومن یقتل مومنا ،356/4, الحدیث:6863, دارالکتب العلمیہ بیروت 1419ھ)

قتل ناحق سے بچے رہنے کے لیے: (1) اس گناہ سے بچے رہنے کے لیے اپنے غصے کو قابو میں رکھیے-(اس کے لیے حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کا رسالہ "غصے کا علاج" کا مطالعہ مفید ہے-) (2) علم دین(فرض علوم) سیکھیے-(3)عاشقان رسول کی صحبت اختیار کریں اور قتل ناحق کی وعیدیں ذہن نشین رکھیں تو انشاء اللہ الکریم بچے رہنے کا ذہن بنےگا-

ایک اہم بات: ان احادیث سے اسلام کی اصل تعلیمات واضح ہوتی ہیں کہ اسلام کس قدر سلامتی والا دین ہے اس میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اسلام کو انتہا پسند کہہ کر مسلمانوں کے خلاف پروپگینڈے کرتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علم دین سیکھنے، قتل ناحق سے بچے رہنے اور دور حاضر کے فتنوں سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرمائے- (آمین)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلام بھائیو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کسی بھی مسلمان کو نا حق قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی اس گناہ سے بچیں اور اپنے دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی اس گناہ سے دور رہنے کی تلقین کریں ابھی اس کی مذمت کے بارے میں احادیث نبوی کی روشنی میں جانتے ہیں :

فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

(1)حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، «أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْيَهُودِ قَتَلَ جَارِيَةً مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَى حُلِيٍّ لَهَا، ثُمَّ أَلْقَاهَا فِي الْقَلِيبِ، وَرَضَخَ رَأْسَهَا بِالْحِجَارَةِ، فَأُخِذَ، فَأُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ حَتَّى يَمُوتَ، فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ

[ترجمہ]

عبدالرزاق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں معمر نے ایوب سے خبر دی انہوں نے ابو قلابہ سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ یہود کے ایک آدمی نے انصار کی ایک لڑکی کو اس کے زیورات کی خاطر قتل کر دیا ،پھر اسے کنویں میں پھینک دیا ،اس نے اس کا سر پتھر سے کچل دیا تھا اسے پکڑ لیا گیا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مر جانے تک پتھر مارنے کا حکم دیا چنانچہ اسے پتھر مارے گئے حتی کہ وہ مر گیا {صحیح مسلم شریف حدیث نمبر 4363}

ایک مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(2) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى،‏‏‏‏ عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَكَمِ الْبَجَلِيُّ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ،‏‏‏‏ وَأَبَا هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ يَذْكُرَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ،‏‏‏‏ وَأَهْلَ الْأَرْضِ،‏‏‏‏ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ،‏‏‏‏ لَأَكَبَّهُمُ اللَّهُ فِي النَّارِ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر آسمان اور زمین والے سارے کے سارے ایک مومن کے خون میں ملوث ہو جائیں تو اللہ پاک ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا {سنن ترمزی حدیث نمبر 1398 }

(3)حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْدِيُّ بْنُ سُلَيْمَانَ هُوَ الْبَصْرِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ فَلَا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا

{ترجمہ } نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی ایک ذمی کو قتل کیا جس کو اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ حاصل تھی تو اس نے اللہ عزوجل کے عہد کو توڑ دیا لہذا وہ جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو 70 سال کی مسافت (دوری) سے آتی ہے

[سنن ترمزی حدیث نمبر 1403 ]

{4} حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض‘‘ (سنن ابی داؤد: 4270

پیارے اسلامی بھائیو دیکھا آپ نے کے قتل نا حق کی کتنی سخت وعیدیں آئیں ہیں احادیث مبارکہ میں لہذا ہمیں کسی بھی مسلمان کو نا حق قتل نہیں کرنا چاہیے اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اس سب پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام ایک پر امن دین ہے جس میں ہر چیز کے تحفظ کا درس ملتا ہے حتی کہ بلاوجہ ایک چیونٹی کو مارنے کی بھی اجازت نہیں انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے دین اسلام انسان کی جان مال عزت سب کا تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ کسی انسان کی کو نقصان پہنچانا چاہے وہ نا حق قتل کرنا ہو مال چھین لینا ہو یا عزت کو پامال کرنا ہو اسلام اس کو سخت ناپسند کرتا ہے اور ایسا کرنے والے کے لیے طرح طرح کی سزائیں بیان کی گئیں ہیں قتلِ ناحق اسلام کو کتنا نا پسند ہے قرآن و حدیث میں اس کی سخت وعیدیں آئی ہیں کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے جس کی بدلہ جھنم ہے چنانچہ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا

اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔(النساء آیت نمبر 93)

کسی مسلمان کو نا حق کرنے کی مذمت کئی احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں صرف تین حالتوں کے علاؤہ کسی مسلمان کا قتل جائز نہیں

" الله پاک کی آخری نبی محمّد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“ (صحيح البخاري 9 / 5، كتاب الديات،دار طوق النجاة)

کسی ایک مسلمان کا ناحق قتل ہونا پوری کائنات کے ختم ہونے سے بڑا ہے: حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ قرار دیا ہے: لَزَوَالُ الدُّنْيَا جَمِيْعًا أَهْوَنُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ سَفْکِ دَمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔ (ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم:183)

مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبادت بھی ردّ کر دی جائے گی۔ حضرت عبد ﷲ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَتَلَ مُوْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اﷲُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا. جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔ (أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظيم قتل المؤمن، 4: 103، رقم: 4270)

مقتول اپنے قاتل کو گریبان سے پکڑے گا: فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم :بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط،ج 1،ص224، حدیث:766)

بروز حشر سب سے پہلا فیصلہ: فرمانِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم : قیامت کے دن سب سے پہلے خون ِناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

نوٹ: حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج2ص307،306)

زمین و آسمان والے مل کربھی قتل کریں تو؟ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم:اگر آسمان و زمین والے ایک مردِ مؤمن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ پاک سب کو اوندھا کرکے جہنم میں ڈال دے گا۔ (ترمذی،ج 3،ص100، حدیث: 1403)

ہمارا معاشرہ جہاں دیگر کئی برائیوں کی طرف بڑھتا جا رہا ہے وہیں ایک مسلمان کو نا حق قتل کرنا بھی بہت عام ہوتا جا رہا ہے چھوٹی چھوٹی لڑائیوں پر قتل ہورہے ہیں زمینی فسادات پر بھائی بھائی کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے بسا اوقات تو ایک دھماکے میں کئی مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر دیا جاتا ہے۔ الله پاک ایسے لوگوں کو ہدایت دے اور مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے کہ مسلمان اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے جب تک کہ حرام خون نہ کرے ۔حدیث نمبر 3297 [ مشکوت المصابیح • جلد نمبر دوم ص 308](بخاری ))

حضرت عبداللہ ابن مسعود نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔ حدیث نمبر 3298 مشکوت [ المصابیح جلد دوم ص 308 ](مسلم بخاری)

حضرت اسامہ بن زید سے فرماتے ہیں کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہینہ کے کچھ لوگوں کی طرف بھیجا تو میں نے ان میں سے کسی ایک شخص کے سر پر پہنچا تو اسے نیزہ مارنے لگا تو اس نے کہہ دیا ((لا الہ الا اللہ)) مگر میں نے اس کو نیزہ مار کر قتل کر دیا پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اپ کو اس واقعے کی خبر دی فرمایا کہ تم نے اسے قتل کر دیا حالانکہ وہ گواہی دے چکا تھا ( لا الہ الا اللہ) کی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے بچنے کے لیے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےفرمایا تم نے اس کا دل کیوں نہ چیر لیا۔حدیث نمبر 3300 [ مشکوت المصابیح جلد دوم ص 308 ]۔مسلم بخاری ]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو کسی عہد و پیمان والے کو قتل کر دے وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو 40 سال کی راہ سے محسوس کی جاتی ہے ۔ حدیث نمبر 3301 مشکوت [ المصابیح جلد دوم ص 308 ] (بخاری )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہاڑ سے چھلانگ لگا کر اپنے اپ کو ہلاک کر لے تو وہ دوزخ کی اگ میں چھلانگ لگاتا رہے گا اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور جو زہر پی کر اپنے اپ کو ہلاک کرے تو اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ دوزخ کی اگ میں ہمیشہ ہمیشہ پیتا رہے گا اور جو اپنے اپ کو لوہے سے ہلاک کرے تو اس کا لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ دوزخ کی اگ میں ہمیشہ ہمیشہ اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا ۔ [ حدیث نمبر 3302 مشکوت المصابیح جلد دوم ص 308 ](مسلم بخاری)

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا تو اس سے کہا گیا کہ تیرے ساتھ یہ حرکت کس نے کی . کیا فلاں نے کی. یا فلاں نے. حتی کہ اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر سے اشارہ کر دیا پھر یہودی کو لایا گیا اس نے اقرار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکم دیا تو اس کا سر پتھروں سے کچل دیا جائے۔ [[ حدیث نمبر 3307 مشکوت المصابیح جلد دوم ص 309 ]( مسلم بخاری )

حضرت عبداللہ ابن عمرو سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کے مٹ جانا اللہ تعالی کے لیے ہاں أسان ہے مسلمان ادمی کے قتل سے۔ [ حدیث نمبر 3310 مشکوت المصابیح جلد دوم ص 309 ] ترمذی نسائی ) اور بعض نے اسے موقوف بیان کیا اور وہ ہی زیادہ صحیح ہے

حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا : اگر زمین و اسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالی انہیں اگ میں اوندھا ڈال دے اور فرمایا یہ حدیث غریب ہے۔ [ حدیث نمبر 3311 مشکوت المصابیح جلد دوم ص 309 تا 310 تک ]

حضرت ابن عباس سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا کہ قیامت کے دن مقتول قاتل کو لائے گا کہ اس کی پیشانی وسر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور مقتول کی رگیں خون بہاتی ہوں گی اور عرض کرے گا یا رب اس نے مجھے قتل کیا تھا حتی کہ اسے عرش کے قریب کر دے گا ۔ [ حدیث نمبر 3312 مشکوت المصابیح جلد دوم ص 310 ](ترمذی نسائی، ابن ماجہ )

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے معاشرے میں ناحق قتل کرنے سے ہمیں بچائے اور ہمیں اللہ تعالی اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین ثم امین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں انسانوں کو مختلف احسانات سے نوازا ہے وہیں شریعت میں گناہوں کی سزائیں اور وعیدیں بیان فرمائی ہے-کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا بھی ہے- قتل ناحق گناہ کبیرہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے- نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے قتل ناحق کی حدیث مبارکہ میں مذمت ارشاد فرمائی ہے-

اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْ مِناً مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَھَنَّمُ خَالِدًا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهُ وَاَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِیْماً (پارہ 5 ٫النساء :93)

ترجمہ کنزالایمان:اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللّٰہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا ہے بڑا عذاب

(1)ایک مومن کا قتل:نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!بے شک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللّٰہ کے نزدیک دنیا تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے- (بحوالہ:نسائی کتاب التحریم الدم ص 652٫ حدیث 3992)

(2)بڑا کبیرہ گناہ:حضرت انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے (بحوالہ:بخاری شریف کتاب الدیات الحدیث:2751)

(3) اللّٰہ پاک کی رحمت سے مایوس: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے کسی مومن کو قتل کرنے پر مدد کی اگر چہ آدھی بات سے٬ وہ اللّٰہ عزوجل سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا:اٰیِسٌ مِّنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ: یعنی اللّٰہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے-(بحوالہ:سنن ابن ماجہ ابواب الدیات حدیث 2637)

(4)نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان با برکت نشان ہے:تم میں سے کوئی قتل ہونے والے کے پاس موجود نہ رہے٬ شاید!وہ مظلوم ہو اور اس پر بھی غضب نازل ہو جائے (بحوالہ:مسند امام احمد بن حنبل حدیث 1983)

(5) حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی مومن کو قتل کرنے میں اگر زمیں و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللّٰہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے (بحوالہ ترمذی شریف جلد 3 حدیث 100)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا٬خاندانی لڑائی عام ہے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے- ہمیں صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے اور فیصلوں میں جلدی نہیں کرنی چاہئے- اللّٰہ پاک ہمیں ناحق قتل اور لڑائیوں سے بچنے اور آپس میں محبت و سلوک سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


قتل ناحق ایک ایسی مذموم صفت ہے جس کے ذریعے بندہ کی عزت و آبرو متأثر اور دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر ہوتی ہے نیز اس کی فعل کی مذمت و برائی احادیث کریمہ میں بھی بیان ہوئی چنانچہ۔۔۔

1۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کسی مومن کو قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللّٰه تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے ۔ (ترمذی، کتاب الدیات، باب الحکم فی الدماء، 3 / 100، الحدیث: 1403

2۔حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3 / 261، الحدیث: 2619)

3....حضرت ابو الدرداء رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راویت ہے رسول اﷲ صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ’’مومن تیز رو( یعنی مومن نیکی میں جلدی کرنے والا ہوتا ہے۔) اور صالح رہتا ہے جب تک حرام خون نہ کر لے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے۔ (یعنی قتل ناحق کی نحوست سے انسان توفیق خیر سے محروم رہ جاتاہے اسی کو تھک جانے سے تعبیر فرمایا۔) بہار شریعت حصہ 17 ص753 ۔ ’’ سنن أبي داود ‘‘ ،کتاب الفتن والملاحم،باب في تعظیم قتل المؤمن،الحدیث: 4270 ،ج 4 ،ص 139۔)

4۔حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راویت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’امید ہے کہ گناہ کو اﷲ بخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہی مر جائے یا جس نے کسی مرد مومن کو قصداً ناحق قتل کیا۔( ’’ سنن أبي داود ‘‘ ،کتاب الفتن ۔۔۔ إلخ،باب في تعظیم قتل المؤمن،الحدیث: 4270 ،ج 4 ،ص 139)

5....حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ’’ مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی حرام خون نہ کر لے۔( ’’ صحیح البخاري ‘‘ ،کتاب الدیات،باب قول اللّٰہ تعالٰی{ وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا۔۔۔ إلخ }،الحدیث: 6862 ،ج 4)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ قتل نا حق کبیرہ گناہوں میں سے ہے آئیے ہم احادیث کی روشنی میں اس کے بارے میں مزید جانتے ہیں چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اسمان والے اور زمین والے سب کے سب کسی ایک مرد مومن کے قتل میں شریک ہیں تو اللہ تعالی ان سب کو دوزخ کی اگ میں الٹا دے گا یعنی اللہ تعالی ان سب کو منہ کے بل دوزخ میں گرا دے گا ۔ [مشکوة المصابیح جلد نمبر 2 حدیث نمبر3311]

ایک اور حدیث میں حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں اپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن مقتول اپنے قاتل کو اس طرح پکڑ کر لائے گا کہ قاتل کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور خود اس کی رگوں میں خون بہہ رہا ہوگا اور اس کی زبان پر یہ الفاظ ہوں گے پروردگار اسے نے مجھے قتل کیا میری فریاد رسی کر یہاں تک کہ مقتول اس قاتل کو کھینچتا ہوا عرش الہی کے قریب لے جائے گا [مشکوة المصابیح جلد نمبر 2 حدیث نمبر3312]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن مقتول اپنا پورا حق قاتل سے لے گا اور مظلومیت کی کیفیت کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہوگا اور اللہ تعالی اس کو راضی کرے گا ۔

ایک اور حدیث میں حضرت ابو درداء نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اپ نے فرمایا مسلمان اس وقت تک نیکی کی طرف سبقت کرتا ہے اور اللہ تعالی اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں مشغول رہتا ہے جب تک وہ خون حرام کا ارتکاب نہیں کرتا اور جب وہ خون حرام کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ تھک جاتا ہے [مشکوة المصابیح جلد نمبر 2 حدیث نمبر3314]

یعنی جب تک وہ خون حرام کا ارتکاب نہیں کرتا تو وہ نیکی اور بھلائی کرنے میں چست رہتا ہے اللہ تعالی اس کو بھلائی کی طرف سبقت کرنے کی توفیق دیتا ہے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ادا کرنے پر قائم رہتا ہے اور جب وہ خون حرام کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کی وہ نیکی اور چستی ختم ہو جاتی ہے اب وہ نیک اور صالح عمل سے کٹ رہ جاتا ہے اور اللہ تعالی اس کو نیکی کی توفیق نہیں دیتا

اور حضرت ابو درداء رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اپ نے فرمایا گناہ کے بارے میں یہ امید ہے کہ اللہ تعالی اس کو بخش دے گا مگر اس شخص کو نہیں بخشے گا جو شرک کی حالت میں مر جائے یا جس نے کسی مسلمان کا قتل کیا ہو ۔ [مشکوة المصابیح جلد نمبر 2 حدیث نمبر3315]

ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ناحق قتل کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ جس کا مرتکب دوزخ میں الٹے منہ کے بل پھینکا جائے گا اللہ تعالی ہم سب کو ایسے گناہ سے محفوظ فرمائے اور ہر وقت اپنے خوف میں رکھے امین بجاہ نبی الامین صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو ناحق قتل کرنے سے منع فرمایا ہے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کر نا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے شریعت میں اسلحہ کے ساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا دنیا میں فقط قصاص ہے یعنی قتل کا بدلہ قتل ہے یعنی یہی متعین ہے احادیث کریمہ میں قتل ناحق کی مذمت بہت جگہ بیان کی گئی ہے آئے ان میں سے چند احادیث کریمہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اللّٰہ پاک مجھے حق اور سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

حدیث نمبر1 حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے ميں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا ۔ صحیح بخاری کتاب الدیات الحدیث نمبر 6864 جلد 4 صفہ نمبر 307

حدیث نمبر2 امام ترمزی ابو سعید اور وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ اگر آسمان اور زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو اللّٰہ تعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا ۔ ( جامع الترمذی باب الحکم فی الدماء الحدیث نمبر1403 جلد نمبر3 صفہ نمبر100 )

حدیث نمبر3 ابو داود انہیں سے اور نسائ حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ امید ہے کہ گناہ کو اللّٰہ پاک بخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہی مر جائے یا جس نے کسی مرد مومن کو قصداً ناحق قتل کیا ۔ ( سنن أبي داؤد کتاب الفتن والملاحم باب فی تعظیم قتل المومن الحدیث نمبر4270 جلد4 صفہ139 )

حدیث نمبر4 امام بخاری اپنی صحیح میں ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا الله عزوجل کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ مبغوض تین شخص ہیں (1) حرام الحاد کرنے والا( نمبر2) اسلام میں طریقہ جاہلیت کا طلب کرنے والا اور (نمبر3) کسی مسلمان شخص کا ناحق خون طلب کرنے والا تاکہ اسے بہائے ۔ ( صحیح بخاری کتاب الدیات باب من طلب دم أِمرئ بغیر حق الحدیث نمبر6882 جلد4 صفہ نمبر362)

حدیث نمبر5 اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بیشک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللّٰہ پاک کے نزدیک دنیا کے تباہ کر جانے سے زیادہ بڑا ہے ۔ ( نسائ کتاب تحریم الدم تعظیم الدم صفہ652 الحدیث نمبر3992 دارالکتب *العلمیہ بیروت * )

ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اس کبیرہ گناہ سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں قتل ناحق کی نحوست سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے مذہب دینِ اسلام میں انسانی جان کو بہت قیمتی جانا جاتا ہے کہ ایک جان کا ناجاٸز قتل بھی گوارہ نہیں کیا جاتا بلکہ ایک بھی جان کے ناجاٸز قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالٰی ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ - ترجمہ کنزالعرفان: جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔(پارہ:6،المائدہ:32)

ناحق قتل کا حکم: اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے۔(صراط الجنان،ج:2،ص:311)

دورِ حاضرہ میں عوام کی اکثریت دین سے دور جاتی اور دنیا کی پیچھے بھاگی جا رہی ہے جس کے سبب گناہوں کا سیلاب بہتا جا رہا ہے اور چھوٹی چھوٹی بات پر معاملہ قتل و غارت گری تک چلا جاتا ہے۔ بھاٸی بھاٸی کا مال کے لالچ میں قتل کر دینا، اولاد کا ماں باپ کو جاٸیداد کے چکر میں قتل کر دینا، سڑک پر دو بندے ٹکرا جاٸیں تو معمولی نقصان کے بدلے انسانی جان کا نقصان کر دینا، بیوی نے چھوٹی سی غلطی کی تو مارمار کر جان لے لینا، فکرِ معاش کی وجہ سے بھی اپنی اولاد کا ناجاٸز قتل کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ کسی نے گالی دی تو قتل کردینا الغرض بڑے مساٸل تو بڑے، اب چھوٹی سی چھوٹی بات پر قتلِ عام ہوا جا رہا ہے۔ جبکہ احادیثِ مبارکہ میں قتل ناحق کے متعلق بہت سخت وعیدات بیان ہوئیں ہیں۔

شریعتِ اسلامیہ ہر مسلمان کی جان کو نا صرف اہمیت دیتی بلکہ پوری دنیا سے بڑھ کر مومن کی جان کو افضل قرار دیا ہے، فرمانِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم : اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا تباہ ہو جانا ایک مسلمان کے قتل سے ہلکا ہے۔(ترمذي، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16، الحدیث:1395)

ناحق قتل کا گناہ کوٸی چھوٹا نہیں ہے بلکہ اس کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے، فرمانِ تاجدارِ رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم : بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک (ناحق) کسی جان کو قتل کرنا ہے۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4: 358، الحدیث: 6871)

مسمان کو قتل کرنے کی سختی کا اندازہ اس فرمانِ تاجدارِ  رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ،ص52، الحدیث: 116(64)

جہاں قتل کرنے کی بہت سخت وعیدات ہیں اسی طرح صرف قتل کرنے کی کوشش کرنے والے کی لیے بھی بہت سخت وعید ہے، فرمانِ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم : جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے، عرض کیا گیا: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے کی کوشش میں تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1: 23، الحدیث: 31)

اس حدیثِ پاک سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو جانی دشمنیاں رکھتے، ایک دوسرے کی تاک میں رہتے اور موقع ملنے پر قتل کردیتے ہیں کہ اس صورت میں قاتل و مقتول دونوں ہی جہنمی ہیں، کیونکہ مقتول بھی قتل کا پورا ارادہ رکھتا تھا، بس فرق اتنا کہ اسکے حصے میں قتل کرنے کے بجاۓ قتل ہونا آیا۔

اور ان لوگوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اصلاً قتل کرتے تو نہیں لیکن قاتل کے مددگار ہوتے ہیں، کیونکہ گناہ کے کام میں مدد کرنا بھی گناہ ہے۔ یہاں تک کہ اس کام میں اپنی رضامندی ہونا بھی جرمِ عظیم ہے، فرمانِ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم : جس نے مومن کے قتل پر حرف جتنی مدد بھی کی تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ تعالٰی  کی رحمت سے مایوس ہے‘‘۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3: 262، الحدیث: 2620)

دنیا تو دنیا، قاتل کی آخرت بھی تباہ ہوگی کیونکہ قیامت والے دن بھی قتلِ ناحق کا معاملہ پہلے حل کیا جاۓ گا کہ حساب کتاب کی ابتدا ان دونوں (یعنی قاتل و مقتول) سے ہوگی، فرمانِ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم : قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے میں  لوگوں  کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔(البخاری ،کتاب الدیات،باب قول اللہ تعالٰی اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۔۔۔ إلخ،4: 357، الحدیث:6864)

اللہ عالٰی ہمیں انسانی جان کی قدر سمجھنے اور قتلِ ناحق سے بچے رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام دین فطرت ہے. کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا خلافِ فطرت سلیمہ ہے. لہذا اسلام نے قتل ناحق کی شدید مذمت کی ہے چنانچہ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ترجمہ کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب ۔ (النساء آیت نمبر 93)

قرآن مجید کے علاوہ کئی احادیث کریمہ بھی ایسی ہیں جو قتل ناحق کی مذمت پر دال ہیں چنانچہ

قتل کب جائز ہے: " الله پاک کی آخری نبی محمّد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کا جو اللہ کے ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“ (صحيح البخاري 9 / 5، كتاب الديات،دار طوق النجاة)

دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ قرار دیا ہے: لَزَوَالُ الدُّنْيَا جَمِيْعًا أَهْوَنُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ سَفْکِ دَمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. ﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔ (ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم:183)

عبادت قبول نہ ہو: جو شخص کسی مسلمان کو ناحق قتل کرتا ہے اس کی کوئی عبادت قبول نہیں ہو گی چاہے فرض ہو یا نفل.

چنانچہ حضرت عبد ﷲ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَتَلَ مُوْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اﷲُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا. جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔ (أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظيم قتل المؤمن، 4: 103، رقم: 4270)

مقتول قاتل کو گریبان سے پکڑے گا : ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ :بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط،ج 1،ص224، حدیث:766)

سب سے پہلے قتل نا حق کا فیصلہ: بروز محشر سب سے پہلے قتل کا فیصلہ کیا جائے گا چنانچہ فرمان آخری نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم ہے قیامت کے دن سب سے پہلے خون ِناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔(مراٰۃ المناجیح،ج2ص307،306)

ہمارا معاشرہ جہاں دیگر بہت سی برائیوں کی لپیٹ میں ہے وہی قتلِ ناحق بھی معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے، ذرا سی بات پر جھگڑا کیا ہوا اور نادان فوراً ہی قتل پر اتر آتے ہیں. وراثت کی تقسیم پر جھگڑا، بچوں کی لڑائی پر جھگڑا، جانور دوسرے کی زمین سے کچھ نقصان کر دے تو جھگڑا، کسی کی کار یا موٹر سائیکل سے ٹکر ہو جائے اگرچہ نقصان کچھ بھی نہ ہو پھر بھی جھگڑا. ایسا لگتا ہے کہ زمانہ جاہلیت واپس آ چکا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں. اپنے اندر صبر، حوصلہ اور برداشت کا جذبہ پیدا کریں،

خوف خدا، عشق مصطفیٰ اور جہنم کا ڈر اگر ہر دل میں پیدا ہو جائے تو معاشرے کو اس مرضِ کریہہ سے نکلنے میں دیر نہیں لگے گی.

اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے سے اس لعنت کا خاتمہ فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج ہمارے معاشرے میں پھیلنے والے گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ قتلِ ناحق بھی ہے ۔قتل ناحق کبھی تو جاٸیداد کی وجہ سے کیا جاتا ہے تو کبھی زبان,رنگ,نسل کی وجہ سے ہوتا ہے ۔کبھی علاقاٸ تعصب تو کبھی سیاسی وجوہات قتلِ ناحق کی وجہ ہوتی ہے ۔دین اسلام نے انسانی جان کو بہت عزت اور عظمت دی ہے ۔جہاں دین اسلام نے انسانی جان کی عزت و عظمت بیان کی ہے وہیں انسانی جان کی بے حرمتی اور اسکو ناحق قتل کرنے کی شدید وعیدیں بھی بیان کی ہیں ۔چنانچہ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا۔

ترجمہ کنزالعرفان:اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(النساء آیت 93)

احادیث طیبہ میں بھی قتلِ ناحق کی کٸ وعیدیں بیان کی گٸ ہیں ۔جن میں سے 5 درج ذیل ہیں۔

(1)قیامت کے دن سب سے پہلے فیصلہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:-أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَاءِ.(البخاری 6864)ترجمہ:لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کے بارے میں فیصلہ کیا جاۓ گا۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان (علیہ رحمة رحمة الحنان) نے اس حدیث پاک کے تحت فرمایا:یعنی قیامت کے دن معاملات میں سب سے پہلے خون ناحق کا فیصلہ ہوگا بعد میں دوسرے فیصلےاورعبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا بعد میں دوسرے حسابات ہوں گے لہذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ قیامت کے دن پہلے نماز کاحساب ہوگا کہ یہ حدیث معاملات کے متعلق ہے اوروہ حدیث عبادات کے بارے میں۔(مراة المناجیح 232/5)

(2)بڑے گناہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:الْكَبَائِرُ الْإِشْرَاكُ بِاللهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ (البخاری 6675)ترجمہ:بڑے گناہوں میں سے اللہ عزوجل کے کے ساتھ کسی ک شریک کرنا ,اور والدین کی نافرمانی کرنا اور (ناحق) قتل کرنا ۔

(3)قاتل مقتول دونوں جہنم میں: حضرت ابو بکرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا:إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ یعنی :اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ (البخاری 31)

4)رحمت الہیٰ سے مایوس: حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) سے سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مَنْ أَعَانَ عَلَى قَتْلِ مُؤْمِنٍ شَطْرَ كَلِمَةٍ لَقِيَ اللّٰهَ مَكْتُوبٌ بينَ عينيهِ: آيسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ ۔(ابن ماجہ 2620)جس شخص نے آدھے کلمہ کے ذریعے بھی کسی مسلمان کے قتل پر مدد کی وہ اللہ عزوجل سے اس حالت میں ملے گا کہ اسکی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ شخص رحمتِ الٰہی سے مایوس ہے ۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان (علیہ رحمة رحمة الحنان) نے اس حدیث پاک کے تحت فرمایا:یعنی جس شخص نے کسی سےاقتل امر کا آدھا کلمہاُق بھی کہہ دیا اور قاتل نے اس مسلمان کو قتل کردیا تو مرتے وقت یا قبر میں یا قیامت میں اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا کہ یہ شخص اﷲ کی رحمت سے مایوس ہے،اس طرح تمام قیامت میں بدنام ہو جائے گا،خیال رہے کہ حضور کی امت کی قیامت میں ضرور پردہ پوشی ہوگی مگر جو بندہ دنیا میں خود ہی علانیہ گناہ کرتا رہا ہو اس کی پردہ پوشی نہ ہوگی کہ اس نے خود اپنی پردہ دری کی۔ (مراة المناجیح 250/5 ملتقطا)

5)مسلمان ک جان کی اہمیت : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللّٰهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ (نساٸ3987)

دنیا کا مٹ جانا اﷲ کے ہاں آسان ہے مسلمان آدمی کے قتل سے : حکیم الامت مفتی احمد یار خان (علیہ رحمة رحمة الحنان) نے اس حدیث پاک کے تحت فرمایا:یہاں مسلم سے مراد مرد مؤمن عارف باﷲ ہے یعنی ایک عارف باﷲ کا قتل ساری دنیا کی بربادی سے سخت تر ہے کیونکہ دنیا عارفین ہی کے لیے تو بنی ہے تاکہ وہ اس میں غوروفکر کرکے عرفان میں اضافہ کردیں اور یہاں اعمال کرکے آخرت میں کمال حاصل کریں،دولہا کی ہلاکت بارات کی ہلاکت سے سخت تر ہے کہ مقصود برات وہ ہی ہے۔(مراة المناجیح 241/5)

قتل ناحق کا حکم:اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔(صراط الجنان تحت سورہ نساء آیت 93)

اللہ کریم ہمیں علم دین حاصل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔اور مسلمانوں کی عزت و حرمت کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج کل لوگ بہت سے گناہوں میں مبتلا ہیں اور ان گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ جن میں سے ایک گناہ قتل ناحق بھی ہے۔قتل ناحق بہت عام ہو چکا ہے۔بات بات پر قتل کر دیا جاتا ہے۔کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے۔ (فتاوی رضویہ،جلد 21،ص، 263)قرآن و حدیث میں بھی اس کی بہت سی وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ آئیے قتل ناحق کے متعلق کچھ احادیث پڑھتے ہیں:

(1) "قتل ناحق کبیرہ گناہ" حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 357، الحدیث 6871)

(2) "قتل ناحق کی وجہ سے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے جائیں" حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205، الجزء الاول)

(3) "قتل ناحق کی وجہ سے جہنم کا عذاب" حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1/ 23، الحدیث: 31)

(4)قتل ناحق کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے مایوس: حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3/ 262، الحدیث: 2620)

(5)"قتل ناحق کفر ہے" حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ ، ص52، الحدیث: 116)

نوٹ:مسلمان کو قتل کرنا اس صورت میں کفر ہوگا جب مسلمان کو حلال سمجھ کر قتل کیا جائے.

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا عام ہو گیا ہے۔اللہ عزوجل ہمیں قتل ناحق کے گناہ سے محفوظ فرمائے۔امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔