پیارے اور محترم اسلامی بھائیو ایک مومن مسلمان فضیلت والے اعمال سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ قبیح اور برے کاموں سے بھی بچتے ہیں جیسے وہ کسی کو ایذا نہیں دیتے کسی کو قتل ناحق نہیں کرتے ۔

قتل ناحق کی احادیث میں بہت مذمت کی گئی ہے آئیے چند احادیث پڑھ کر اپنے آپ کو اس گناہ سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں

(1)اللہ کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔۔ ان گناہوں میں سے رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قتل ناحق کو بھی شمار فرمایا۔ ( مسلم کتاب الایمان، باب بیان الکبائر و اکبرھا صفحہ 60،حدیث89)

اس حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوئی کسی کو قتل ناحق نہیں کرنا چاہیے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ۔

(2)نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو ۔ ( بخاری کتاب العلم باب الانصات للعلماء 1 صفحہ 63 حدیث 121)

اس حدیث پاک کی مختلف تاویلیں کی گئی ہیں اظہر قول کے مطابق معنی یہ ہیں کہ یہ فعل یعنی ایک دوسرے کو قتل کرنا کفار کے افعال کی طرح ہے ۔

(3)حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ عزوجل کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے ۔ ( نسائی کتاب تحریم الدم، باب تعظیم الدم، صفحہ 652،حدیث 3992)

(4)حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا بڑے گناہوں میں سے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ناحق قتل کرنا والدین کی نافرمانی ہے ۔ ( بخاری،کتاب الایمان والنذور، باب الیمین الغموس،4 صفحہ 295 حدیث 6675)

(5)نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے آدھے کلمے کے ذریعے بھی کسی مسلمان کے قتل پر مدد کی وہ اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ شخص رحمت الہی سے مایوس ہے ۔ (ابن ماجہ ،کتاب الدیات،باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما،3 صفحہ 262 حدیث 2620)

(6)اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کا ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا ۔حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا ۔ (معجم صغیر باب العین من اسمہ علی صفحہ 205 الجز الاول)

(7)حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ارشاد فرمایا اس لیے کہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر حریص ہوتا ہے ۔( بخاری، کتاب الایمان ،باب و ان طائفتان من المؤمنین الخ 1 صفحہ 23 حدیث 31)

دیکھا آپ نے پیارے اسلامی بھائیو قتل ناحق کی احادیث میں کتنی مذمت بیان کی گئی ہے مگر افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے

اللہ کریم کی بلند بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں دیگر گناہوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ قتل ناحق جیسے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ترجمۂ کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی گئی ہے مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت میں جو احادیث مبارکہ وارد ہوئیں وہ تو بہت ہیں البتہ ان میں سے چند درج ذیل ہیں

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاھا،385/4.حدیث6871)

2۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی رسول ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مروی ہے،اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،1 / 23حدیث 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے،اللہ پک کے آخری نبی رسول عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا،262/3. حدیث 2620)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

مسلمانوں کا باہمی تعلق کیساہونا چاہئے؟ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق کیسا ہونا چاہئے، اس بارے میں 5 احادیث پیش کرتا ہوں۔

(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاسے مروی ہے، حضورِ پر نور شافع یوم النشور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون۔۔۔ الخ، 15/1 حدیث 10)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسندکرتا ہے۔(بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ۔۔۔ الخ، 14/1 الحدیث: 13)

(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے ۔ تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا۔ انسان کے لیے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ۔ مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے ، اس کا خون، اس کا مال، اس کی آبرو۔ یعنی عزت (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ ص1484 حدیث: 32.(2564)

(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے مروی ہے ,اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی ،محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ و ہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ دے اور بری باتوں سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان369/3 حدیث: 1928)

(5)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان : مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ ، ص52،حدیث 116(62)

مسلمان کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔

اس سے ثابت ہوا کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ناجائز و گناہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے لھذا اپنے آپ کو اللہ پاک کی بے نیازی سے ڈراتے ہوئے جس نے یہ فعل قبیح کیا وہ توبہ بھی کرے اور آئندہ اپنے آپ کو سنتوں کا پابند بنانے کی کوشش کرتا رہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سنتوں کا عامل بنائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس گناہ کبیرہ سے بچنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے محبوبِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ابن ابی لیلیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے یہ لائق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوف زدہ کرے (صحیح بی داد 5004)

محبوبِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مسلمان بھائی کو صرف خوف زدہ کرنے سے بھی منع فرمایا : تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من قتل معاہداً لم یرح رائحة الجنة، وإن ريحها لتوجد من مسیرة أربعین عامًا، وإن الجنة لا یدخلها قتلي" (صحیح بخاری) "جو شخص معاہدہ کر کے کسی کو قتل کرے، وہ جنت کی خوشبو نہیں سمتا، حتی کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے، اور جنت میں اس کا دخول ہوتا ہے۔"

مومن کے خون کی اہمیت کا اندازہ: حضور جان کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نے فرمایا: ’’اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا‘‘(صحیح الترمذی : 139)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔

حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا (صحیح البخاری: 7080)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے (صحیح البخاری : 1739)۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (اسے ہر وقت مغفرت کی امید رہتی ہے) جب تک ناحق خون نہ کرے جہاں ناحق کیا تو مغفرت کا دروازہ تنگ ہو جاتا ہے۔ (صحیح البخاری 6862)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہلاک کرنے والے وہ امور کہ جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، ان میں سے ایک وہ ناحق خون کرنا ہے، جس کو اللہ تعالی نے حرام کیا ہے۔ (صحیح البخاری 6863)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔

اللہ پاک اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں حضور علیہ سلام کے ارشادات پے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ کریم عزوجل ہمارے ہاتھ اور زبان کی شر سے دوسرے مسلمانوں کو محفوظ فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں معاشرے میں وہ بیماریاں جو کہ ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہیں ان میں سے قتل ناحق بھی ہے آئیے اس کی مذمت پر چند احادیثِ مبارکہ سنتے ہیں تاکہ ہمارا اس گناہ کبیرہ سے بچنے کا ذہن بنے

حدیث نمبر 1 : عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم من اعان قتل مؤمن ولو بشطر کلمہ ،لقی اللہ عزوجل مکتوب بین عینیہ،الیس من رحمۃ اللّٰہ، (سنن ابنِ ماجہ 2/874 ،باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلہا ،مکتبہ : دار احیاء الکتب)

ترجمہ:

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں ائے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے، وضاحت: میرے میٹھے اسلامی بھائیوں دیکھا آپ نے کہ جس بندے نے مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے کی بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کی رحمت سے محروم ہو گا اللہ ہمیں ناحق قتل سے بچائے آمین

حدیث نمبر 2 :عن عبداللہ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، لا یحل دم امری مسلم ، یشھد ان لا الہ الا اللہ وانی رسول اللہ الا باحدی ثلاث : النفس بالنفس والثیب الزانی ، والمارق من الدین التارک الجماعۃ ،(صحیح البخاری9/5، کتاب الدیات ،دار طوق النحاہ) ترجمہ :حضرت عبداللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کا جو اللہ کے ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ،خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں ،ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کر دیا ہو ،دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو،تیسرا دین اسلام کو چھوڑ دینے والا ،جماعت سے علیحدہ ہونے والا ،۔

وضاحت: میرے میٹھے پیارے اسلامی بھائیوں اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کسی مسلمان کا ناحق خون بہانا کتنا بڑا جرم ہے۔ یاد رہے اگر کوئی شخص کسی کو قتل بھی کر دے تو ہمیں اختیار نہیں کہ ہم اس شخص کو قتل کرے جس نے قتل کیا ہے بلکہ اس کا اختیار حکومت کو ہو گا ۔

حدیث نمبر 3: عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، قال کل ذنب عسی اللہ ان یغفرہ الا من مات مشرکا او من یقتل مومنا معمدا (مراہ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد5, صفحہ 243, حدیث 3317)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ سارے گناہ بخش دیں سوائے اس کے کہ جو مشرک مرے یا جو دانستہ مومن کو قتل کرے- وضاحت:

محترم اسلامی بھائیوں ہر گناہ سے مراد شرک کفر کے علاوہ گناہ ہے کیونکہ وہ دونوں لائق بخشش ہیں معلوم ہوا کہ حقوق العباد بھی لائق بخشش ہیں کہ رب العزت صاحب حق سے معاف کرا دے مگر قتل ناحق لائق بخشش نہیں اس کی سزا ضرور ملے گی اللہ اکبر پیارے اسلامی بھائیوں کہ حقوق العباد کی بخشش ہیں لیکن ناحق قتل کرنا اسکی بخشش نہیں رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ،

حدیث نمبر 4

وعن ابی درداء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لا یزال المؤمن معنقا صالحا ما لم یصب دما حراما فاذا اصاب داما حراما بلح ،(مراہ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد5، صفحہ 242، حدیث 3316 ،)

ترجمہ:روایت ہے حضرت ابو درداء سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا مومن آدمی جلدی کرنے والا نیک رہتا ہے جب تک کہ حرام خون نہ کرے پھر جب حرام خون کر لیتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے یعنی ( قتل ناحق سے انسان توفیق خیر سے محروم رہ جاتا ہے'' وضاحت : میرے میٹھے اسلامی بھائیوں دیکھا آپ نے کہ ناحق قتل کرنے سے انسان اللہ عزوجل اور اس کے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سے محروم رہ جاتا ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں برے کاموں سے بچائے رکھے آمین آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی مسلمان کو نا حق قتل کرنا کبیرہ گناہ اور قرآ ن وحدیث کے خلاف ہے چناچہ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمً (پارہ 5سورۃ النساء ایۃ 176) ترجمہ: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب اس آیت مقدسہ میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کے اخروی وعید بیان کی گئی ہے ( تفسیر کبیر )

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت:کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث مبارکہ میں اس کی مذمت بھی بیان کی گئی ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور جان عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو نا حق قتل کرنا ہے ( بخاری ، کتاب الدیات ، باب قول اللہ تعالی : ومن احیاھا ، ج 4، ص 358 حدیث 6871)

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے نقصان میں ہوگا چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، اگر زمین وآسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جع ہوجائیں تو اللہ تبارک وتعالی سب کو اوندھے منہ جھنم میں ڈال دے۔( معجم صغیر ، باب العین ، من اسمہ علی ، ص 205 ، الجزء الاول )

بروز قیامت اللہ کی بارگاہ میں مایوسی:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور جان عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے (ابن ماجہ ،کتاب الدیات ،باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما ، ج 3،ص 262 حدیث 2660)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے اللہ کریم تمام مسلمانوں کو قتل نا حق اور دیگر تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں سے محفوظ فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں شدید ترین گناہ ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مسلمان کو ناحق قتل کرنے میں جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے جو حقوق اللہ میں سے ہے، وہاں اس میں ایک مسلمان کو قتل کرنا، اس سے اس کو اور اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا یہ ”حقوق العباد“ سے تعلق رکھتا ہے، شریعت نے اس پر سزائیں مقرر کی ہیں۔یہ حکم ہر اس شخص کے لیے جو ناحق کسی مسلمان کے قتل میں ملوث ہو۔

حدیث شریف میں ہے :عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لايحل دم امرئ مسلم، يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، إلا بإحدى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والمارق من الدين التارك للجماعة (صحيح البخاري 9 / 5، كتاب الديات، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ: کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“

یہ بھی ملحوظ رہے کہ جب ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام کسی سے واقع ہوجائے تواس کی سزا کا اجرا حکومت کا کام ہے، ہرکس و ناکس اس طرح کی سزا جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے۔نیز احادیثِ مبارکہ میں اس پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أعان على قتل مؤمن و لو بشطر كلمة، لقي الله عز وجل مكتوب بين عينيه: آيس من رحمة الله۔ (سنن ابن ماجه 2 / 874،باب التغليظ في قتل مسلم ظلما، ط: دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ: حضرت ابو ہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہوگا کہ:” یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔

اور ”حديث أبي الفضل الزهري“ میں ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے:"عن نافع، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لو أن الثقلين اجتمعوا على قتل مؤمن لأكبهم الله يوم القيامة على وجوههم في النار، وما من أحد يشترك بشطر كلمة في قتل مؤمن إلا كتب بين عينيه آيس من رحمة الله، إن الله تعالى حرم الجنة على القاتل والآمر»(حديث أبي الفضل الزهري (1 / 479)،ط: أضواء السلف، الرياض)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دےگا، اورجس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہوگا کہ:” یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔“(وکذا فی تفسیر ابن کثیر، سورة النساء، ط: دار الكتب العلمية)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی کو ناحق قتل کرنے پر بہت سخت وعیدیں ارشاد فرمائیں ہمیں اور اور امت کو اس سنگین گناہ سے باز رہنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی انسان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی بات کہنا۔‘‘

(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4/ 358، الحدیث: 4871)

حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے کے لیے ایسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسے تمہارے اس مہینے (ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) اور تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ تم سب اپنے پروردگار سے جاکر ملو گے، پھر وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ لہٰذا میرے بعد پلٹ کر ایسے کافر یا گم راہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘ (بخاری، الصحيح، کتاب الحج، 2: 620، رقم: 1654)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس(قاتل)کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ کہے گا : اے میرے رب! اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ حتیٰ کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا۔(جامع الترمذی، ج 2، حدیث نمبر 2955)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الديات، باب ومن يقتل مؤمنا متعمدا، 6: 2517، رقم: 6471)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے (ناحق) قتل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔‘‘(أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظيم قتل المؤمن، 4: 103، رقم: 4270)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔(مشكوة المصابيح/كتاب القصاص/حدیث: 3519)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہلاک کرنے والے وہ امور کہ جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، ان میں سے ایک وہ ناحق خون کرنا ہے، جس کو اللہ تعالی نے حرام کیا ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الدیات، ومن قتل مومنا متعمدا فجزاءہ جہنم،6/2517 رقم 6470)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


مسلمان کا کسی کو ناحق قتل کرنا یہ کبیرہ گناھوں میں سے ہے۔ ناحق قتل کے متعلق علامہ محمد بن علان شافعی علیہ رحمہ اللہ القوی فرماتے ہیں حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد میں سب سے پہلا قتل قابیل اور سب سے پہلا مقتول ہابیل ہے۔ قابیل وہ پہلا شخص ہے جس نے دنیا میں اپنے بھائی ھابیل کو قتل کیا اب جو بھی اس کے بعد ( نا حق قتل کرے گا. وہ اس کی اقتداء کرنے والا ھو گا۔ اب دور حاضر میں بھی ناحق قتل ھو رہے ہیں، ناحق قتل کے متعلق حضور علیہ السلام کے کثیر فرامین ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں .

(1) قیامت کے دن قاتل کو ہزار مرتبہ قتل: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بروز قیامت قاتل کو ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا عاصم بن ابی النجود رضی اللہ عنہ نے کہا اے ابو زرعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جس آلہ سے اس نے قتل کیا اسکی بزار ضر بیں : کتاب الفتن جلد (8) صفحہ (644) حدیث (330)

(2).قاتل و مقتول دونوں آگے ہیں ۔ حضرت سیدنا ابوبکر نفیع بن حارث ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیکر عظمت و شرافت محبوب رب العزت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں تو قاتل و مقتول دونوں آگ میں ہیں۔ (راوی فرماتے ہیں )میں نے عرض کی یارسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قائل تو واقعی اس کا حقدار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟۔ ارشاد فرمایا وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا ۔ (۔ بخاری کتاب العلم باب وان طائفتان من المومنين ج (1)ص( 23) حدیث( 31)

(3) مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر حضرت سیدنا عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہ خوش خصال پیکر حسن و جمال صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ ۔ترمذی کتاب الدیات باب ما جاء فی تشدید قتل مؤمن جلد(3) صفحہ (98) حدیث (1400)

(4) ظلما قتل کس کے حصے میں ہے . حضرت سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جسے بھی ظلما قتل کیا جاتا ہے۔ تو حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کے حصے میں بھی اس کا خون ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کو ایجاد کیا ۔ بخاری کتاب الاعتصام ج (4 )ص(513)حدیث (7321)

(5). دین کی کشادگی اور وسعت میں رکاوٹ قتل ناحق . حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ سرکار نامدار مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا مومن ہمیشہ اپنے دین کی وسعت اور کشادگی میں رہتا ہے۔ جب تک کہ وہ قتل ناحق قتل نہ کرے۔ بخاری کتاب الديات ج (4) ص(356)حدیث )6862)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ناجائز و حرام ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 5احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…کبیرہ گناہ-حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 2 / 387، الحدیث: 6871)

(2-بڑے خسارے کا شکار:حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3 جہنم میں داخلہ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1/23 الحدیث: 31)

(4) اللہ کی رحمت سے مایوس ؛-حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3/ 263 الحدیث: 2620)"

5- نا حق خون حلال نہیں:حضور صلی الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“صحيح البخاري 9 / 5، كتاب الديات، ط: دار طوق النجاة)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں قتل ناحق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ابھی ہم انشاءاللہ ناحق قتل کرنے پہ پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے کیونکہ اسلام کی تعلیمات میں انسانی جان کی حرمت بہت زیادہ ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے آج ہمارہ معاشرہ سینکڑوں برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اجتماعی طور پر خود کو شریعت سے دور کر لیا ہے۔ اگرچہ انفرادی طور پر ہمارے معاشرے میں اب بھی خیر موجود ہے۔معاشرتی طور پر جو برائیاں اور جرائم عروج پکڑ رہے ہیں ، اُن میں ایک کسی انسان کو ناحق قتل کرنا بھی ہے۔ اب لوگوں کے ہاں کسی دوسرے کو قتل کرنا معمولی ہوتا جارہا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ہو جس دن ملک کے اندر لوگوں کی ایک تعداد قتل نہ ہو رہی ہو۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعہ روزانہ کی بنیاد پر قتل کی خبریں ملتی ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں اسے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ شمار کیا گیا اوراس کی حرمت پر کثیر آیات و احادیث وارد ہیں۔

میرے عزیز یاد رکھ!

اسلام اپنے ماننے والوں کو محبت ، اخوت، تحمل و برداشت اور عزت و احترام کا درس دیتا ہے۔ اسلام میں انسانی جان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اور اہمیت کیوں نہ ہو کہ انسان ہی تو خلیفۃ الارض ہے۔دنیا میں رہنے والے وہ تمام افراد جو اسلام کو ماننے والے ہیں۔ اللہ اور اُس کے رسول صلى الله عَلَيْهِ وَالہ وسلم نے انھیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا ہے۔ اب وہ ایک ہی جگہ رہتے ہوں یا ان میں سے ایک مشرق میں اور دوسرا مغرب میں ہو پھر بھی وہ بھائی چارگی کے رشتہ میں قائم ہیں مگر ہم اس چیز کو نہیں سمجھ رہے آپ نے کٸ مرتبہ سنا اور پڑھا ہو گا کہ کعبہ بہت عظمت والا ہے اس کی بڑی شان ہے مگر یہاں پہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں:

رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ، وَيَقُولُ: مَا أطيبك وأطيب رِيحَكِ، مَا أَعْظَمَكِ وأعظم حرمتك، والذي نفس محمد بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِندَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ، مَالِهِ، وَدَمِهِ، وَأَنْ تَظُنُّ بِهِ إلا خيرا.میں نے رسول الله صلى الله عَلَيْهِ وآلہ وسلم کو کعبة اللہ کا طواف کرتے دیکھا اور اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرما رہے تھے: (اے کعبہ !) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے۔ تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظمت والی ہے۔ اُس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلى الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم کی جان ہے، اللہ کےنزدیک مومن کے مال و خون کی حرمت تیری حرمت سے کہیں زیادہ ہے۔ اور ہمیں مومن کے ساتھ اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے۔ ابن ماجه، السنن، ج 3، ابواب الفتن، الرقم: 3961

اب دیکھیں یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مومن کے خون کی حرمت کو کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ فرمارہے ہے اور ایک ہم ہے کہ ہم ناحق قتل کرتے ہے۔پوری دنیا اگر ایک ہی لمحے میں تباہ ہو جائے تو یہ تصور ہی انسان کو اندر سے ہلانے کے لیے کافی ہے۔ اور اللہ کے نزدیک اس پوری دنیا کا تباہ ہو جانا کسی انسان کے ناحق قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے:

لزوال الدُّنيا أَهُونُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَبْلِ مُؤْمِنٍ بغير حق. ساری دنیا کا تباہ ہو جانا اللہ کے نزدیک مومن کے ناحق قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔ قزويني، السنن ، ج 3 ، كتاب الديات ، الرقم : 2628

اور ہم جو عبادات و ریاضات کرتے ہے اس کی کیا وجہ ہے بس یہی کہ اللہ پاک اس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیں جبکہ ہم جب ناحق قتل کرتے ہے تو اس پراپنی واہ واہ چاہ رہے ہوتے ہے اوراس قتل پہ خوش بھی ہو رہے ہوتے ہے جبکہ کسی

مومن کا ناحق قتل اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ رب العزت قاتل کی عبادات قبول نہیں کرتا۔

چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے رسول الله صلى الله علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:من قتل مؤمناً، فاغتبط بقتله، لم يقبل الله منه صرفاً ولا عدلاً. جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور پھر اس کے قتل پر خوش ہوا، اللہ تعالیٰ اس کی فرض اور نفلی عبادت قبول نہیں کرے گا۔ سجستانی، السنن، ج 6، کتاب الفتن، الرقم : 4221

تو ہمیں ان احادیث سے پتہ چلا کہ ناحق قتل کرنے سے ہماری عبادات قبول نہیں کی جائے گی۔ ناحق قتل کرنا ساری دنیا کے تباہ ہو جانے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اور کعبتہ اللہ کی بہت زیادہ شان و عظمت ہے مگر مومن کی عظمت اس سے بھی زیادہ ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو ناحق قتل کرنے سے محفوظ رکھے۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان شخص یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون (یعنی قتل کرنا) فقط تین صورتوں کی وجہ سے حلال ہے، جان کے بدلے جان (قاتل کو قتل کرنا)، شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہو کر جماعت چھوڑنے والا‘‘(صحیح البخاری 6878)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نے فرمایا: ’’اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا‘‘(صحیح الترمذی : 139)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (اسے ہر وقت مغفرت کی امید رہتی ہے) جب تک ناحق خون نہ کرے جہاں ناحق کیا تو مغفرت کا دروازہ تنگ ہو جاتا ہے۔ (صحیح البخاری 6862)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہلاک کرنے والے وہ امور کہ جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، ان میں سے ایک وہ ناحق خون کرنا ہے، جس کو اللہ تعالی نے حرام کیا ہے۔ (صحیح البخاری 6863)

رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار دیا، حضرت جابر اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا(صحیح الترمذی: 2163)

حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا (صحیح البخاری: 7080)،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے (صحیح البخاری : 1739)۔

ابن ابی لیلیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے یہ لائق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوف زدہ کرے (صحیح بی داد 5004)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے، یعنی ساری دنیا تباہ ہو جائے، یہ اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے‘‘(صحیح الترمذی : 1395)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، حتی کہ وہ اسے رکھ دے (صحیح مسلم 2616)۔

اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ایک دوسرے کی جان و مال کے محافظ بن جائیں (آمین)۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں یاد رکھو کسی کو بھی مسلمان کانا حق خون بہا نے کی قطعا اجازت نہیں ہے ایسے تمام لوگوں کے لئےلمحہ فکر یہ ہے جو مسلمانوں کا ناحق خون بہاتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلاوجہ ناحق قتل کرنا ان کی عادت بن چکی ہے مسلمانوں کی جان سے کھیلنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے طلب مال ، مقام و مرتبے اور عہدہ پانے کے لیے بھی کسی کی جان کی پرواہ تک نہیں کرتے قرآن و سنت دونوں میں مسلمانوں کی عزت وحرمت کو واضح طور پر بیان فرما یا گیا ہے ۔

چنا نچہ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہوتا ہے ترجمہ کنز الایمان. اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے تیار رکھا بڑاعذاب۔ (پ 5. نساء – 93)

کسی بھی مسلمان کا ناحق خون بہانے احادیث میں شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ (1)فرمان مصطفے صلی اللہ علیہ الیہ اسلم ہلاکت میں ڈالنے والے سات گنا ہوں سے بچتے رہو اور وہ یہ ہیں -1- الله عز وجل کا شریک ٹھہرانا (2) جادو کرنا (3) الله عزوجل کی حرام کردہ جان کو ناحق قتل کرنا ہے ۔ (4)یتیم کا مال کھانا (5) سودکھانا (6) جہار کے دن میدان سے فرار ہونا (7)سیدھی سادی پاک دامن مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔۔۔۔(فیضانِ ریاض الصالحین)

(2)فرمان مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ کبیرہ گناہ یہ ہیں۔، اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک کرنا (2) والدین کی. نافرمانی کرنا ہو) کسی جان کاناحق قتل کرنا۔۔۔۔(بخاری کتابالوصا ،باب قول اللہ تعالی 242/2 حدیث ۔ 2766 )

(3)فرمان مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم: کہ کبیرہ گناہوں میں سب - پہلے بڑے گناہ۔(1) اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا

(2)سود اور یتیم کا مال کھاتا ہے (3) مومن کر نا حق قتل کرنا۔ فیضانِ ریاض الصالحین ۔ مسلم کتاب الایمان بابالکبائر واکبرھا ص 60 حدیث 88 )

(بلاوجہ عمداقتل کرنے کی ممانعت)

(4) حضور نبی کریم رؤف رحیم صلی الله علیہ و سلم

نے حضرت سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے بار بار فرمایا کہ کیا تم نے اسے

لا اله الا اللہ کہنے کے بعد قتل کر دیا. اس معلوم ہوا کہ

اللہ یا ک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نزدیک کسی بھی مسلمان کو بلا وجہ جان بوجھ کر قتل کرنا بہت بڑا گنا ہے۔

(فیضان ریاض صالحین) ( ص326)

(5) تاجدار رسالت ، شہنشاہ نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اہل یمن کی طرف اپنے مبارک پیغام میں تحریر فرمایا بروز قیامت اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑا گناہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور کسی مومن کو ناحق قتل کرنا

الا حسان بترتیب صحیح ابن حبان کتاب التاریخ باب کتب اپنی صلی اللہ یہ سلم الحدیث 7625 ج8 ص 180

(6)حضور پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرماں ہدایت نشان ہے۔

مومن اپنے دین کے معاملہ میں ہمیشہ کشادگی میں رہتا ہے جب تک وہ نا حق خون نہیں باتا. (صحیح البخاری، کتاب الديات الخ الحدیث 636ص572)

(7)نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اُمید ہے کہ اللہ پاک

ہر گناہ بخش دے گا سوائے اس شخص کے جو حالت

کفر میں میرے یا مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے

( سنن النسائی، کتاب المحاربہ باب تحریم الدم الحدیث 1989 میں 2349)

ترغیب ۔پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی ناحق قتل کرنے والوں اور خودبھی الله پاک سے ڈرتے ہوئے اس طرح كے کاموں سے باز رہے الله پاک ہمیں ہرگناہ اور ناحق قتل کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ امین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔