علم اور علماء کے فضائل و برکات بے شمار ہیں جیسا کہ ہم علما سے سنتے رہتے ہیں اور بزرگانِ دین کے اقوال بھی پڑھنے کو ملتے ہیں کہ عالم اور جاہل کے بیچ فرق کرنے والی چیز علم ہے۔بلکہ  قران مجید میں خود رب کریم نے ارشاد فرمایا:قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(۹)ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔(پ 23 ،الزمر : 09)

احادیثِ مبارکہ:

(1) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں  رات کے چاند کی تمام ستاروں  پر فضیلت ہے۔( ابو داؤد، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، 3 / 444، حدیث: 3641)(2)اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:بے شک فرشتے طالب علم دین کے کام سے راضی ہو کر اس کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ،ص 2491،حدیث:223) (3) جو شخص ایک باب علم کا اوروں (دوسروں) کے سکھانے کے لئے سیکھے، اس کو 70 صدیقوں کا اجر دیا جائے گا۔ (الترغیب والترھیب ،1/68،حدیث:119)

(4)حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عالم اور عابد کو (روز قیامت) اٹھایا جائے گا۔ عابد سے کہا جائے گا: تُو جنت میں داخل ہو جا اور عالم سے کہا جائے گا: تُو ٹھہر جا یہاں تک کہ لوگوں کی اچھی تربیت کے بدلے اُن کی شفاعت کرلے۔ (شعب الایمان ، 2 / 268 ،حدیث: 1717 ) (5) حضرت سیدنا امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ عالِم کو ایک نظر دیکھنا مجھے ایک سال کے روزوں اور اُس کی راتوں میں قیام کرنے سے زیادہ پسند ہے۔ (منہاج العابدین،ص11)


قرآن و احادیث میں علم و علما کی بہت سی فضیلتیں آئی ہیں ۔ ان میں سے چند یہاں پیش کئے جاتے ہیں ۔

اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے : شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ ترجمۂ کنز الایمان :  اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور  فرشتوں نے اور عالموں نے ۔(پ3،اٰل عمران: 18)اس آیتِ کریمہ میں  اللہ پاک  نے اس بات کی گواہی دینے کے بعد کہ اس کے سِوا کوئی معبود نہیں ، اپنی اس گواہی کے ساتھ ساتھ فرشتوں اور اہلِ علم کی گواہی کو ملایا ہے۔ یقیناً اس میں اہلِ علم کی خصوصیتِ عظیمہ کا بیان ہے ۔

اس کے علاوہ بھی قرآن پاک میں کئی مقامات پر علما کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے : وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ(۴۳) ترجمۂ کنزالایمان :  اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان فرماتے ہیں اور انھیں نہیں سمجھتے مگر علم والے ۔(پ20، عنکبوت : 43)اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی متعدد مقامات پر علم کے فضائل اور علما کی شان کا بیان ہے۔ آئیے اس ضمن میں 5 فرامینِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں۔

(1) إِنَّ اللَّهَ، وَمَلَائِكَتَهُ، وَأَهْلَ السَّمَاوَاتِ، وَالْأَرَضِينَ، حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا، وَحَتَّى الْحُوتَ ؛ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ. ترجمہ:بے شک اللہ پاک کی رحمت متوجہ ہوتی ہے ، نیز فرشتے اور آسمان و زمین والے، یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں، حتی کہ مچھلی بھی، لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے معلم کے حق میں خیر کی دعا کرتے ہیں ۔(سنن الترمذي، 4 /416)

(2) إِنَّ مَثَلَ الْعلما فِي الْأَرْضِ كَمَثَلِ النُّجُومِ فِي السَّمَاءِ، يُهْتَدَى بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، فَإِذَا انْطَمَسَتِ النُّجُومُ، أَوْشَكَ أَنْ تَضِلَّ الْهُدَاةُ ترجمہ: بیشک زمین پر علما کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے کائنات کی تاریکیوں میں رَہْنُمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں۔ (مسند امام احمد ، مسند انس بن مالک، 4/314،حدیث:12600)

(3) إِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ۔ ترجمہ: بے شک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت ہے۔(سنن ابن ماجہ، 1 /213 )

(4) مُعَلِّمُ الْخَيْرِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ، حَتَّى الْحُوتُ فِي الْبَحْرِ. ترجمہ: بھلائی سکھانے والے کے لئے ہر چیز استغفار کرتی ہے؛ یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی ۔ (سنن دارمى، 1/363 )

(5) والعلما ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما، ولكنهم أورثوا العلم فمن أخذه أخذ بحظه، وموت العالم مصيبة لا تجبر وثلمة لا تسد، وهو نجم طمس موت قبيلة أيسر من موت عالم۔ ترجمہ:علما انبیائے کرام علیہمُ السّلام کے وارث ہیں، بیشک انبیائے کرام علیہمُ السّلام دِرہَم و دِینار کا وارث نہیں بناتے، بلکہ وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں۔ لہٰذا جس نےعلم حاصل کیا اس نے اپنا حصہ لے لیا۔ اور عالمِ دین کی موت ایک ایسی آفت ہے جس کا ازالہ نہیں ہوسکتا اور ایک ایسا خلا ہے جسے پُر نہیں کیا جاسکتا ۔(گویا کہ ) وہ ایک ستارہ تھا جو ماند پڑ گیا، ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت کےمقابلے میں نہایت معمولی ہے۔( شعب الایمان،باب فی طلب العلم،2/263،حدیث:1699)

اللہ پاک ہمیں بھی زندگی بھر طلبِ علمِ دین میں لگائے رکھے ۔ اور علم دین و علمائے کرام کا ادب کرنے والا بنائے ۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


علمائے کرام کی فضیلت بے شمار ہیں جس کی شان اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی بیان فرمایا ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اقوال مبارکہ میں بھی ذکر فرمایا اور یہی علما کی فضیلت کے لئے کافی ہے۔ یہی علما ہیں جو ہمیں حلال و حرام کا فرق سمجھاتا ہے۔ ورنہ ہم ناجائز فعل میں پڑ جائیں گے اور اپنی آخرت برباد کر دینگے۔ اس لئے ہمیں علمائے کرام کی قدر کرنی چاہئے ۔آج ایک قوم ہے جو علمائے کرام کی عزت کو پامال کرنے پر آمادہ ہے۔ یہاں ایک بات ذہن نشین رکھے اگر عالم کی علم کی وجہ سے اگر اس کو حقیر جانتا ہے تو یہ کفر ہے۔

علما کی فضیلت میں سب سے بڑی فضیلت یہی ہے۔ علما انبیاء کرام کے وارث ہیں۔

علما کی شان اللہ پاک خود قرآن مجید میں بیان فرما رہا ہے : اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

اور حدیث مبارکہ میں ہے : وقال النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انما العلما ورثۃ الانبیاء ، وان فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم، بلکہ شرافت علم فوق شرافت نسب مے باشد کما فی الدرالمختار لان شرفۃ العلم فوق شرف النسب والمال، کما جزم بہ البزازی و ارتضاہ الکمال وغیرہ اگر کسے عالم صالح ماہر رابالفاظ مذکورۃ الصدر طعنا وتحقیرا مخاطب سازدبدائر کفر پانہادہ باشد ترجمہ : اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ علما انبیاء کے وارث ہیں اورعالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر۔ بلکہ علم کی شرافت نسب کی شرافت پر فوقیت رکھتی ہے جیسا کہ درمختارمیں ہے: اس لئے کہ علم کی شرافت نسب و مال کی شرافت سے اولٰی ہے۔ جیسا کہ اس پر بزازی نے جزم فرمایا ہے اگر کوئی شخص عالم صالح ماہر کو الفاظ مندرجہ بالا سے طعن وتحقیر کے طورپر مخاطب کرے تو دائرہ کفر میں پاؤں رکھے گا۔(فتاویٰ رضویہ شریف)

اس سے پتہ چلا جس طرح نبوت سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں۔ اسی طرح نبوت کے وارث سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔

زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لئے استغفار کرتی ہے: لہذا اس سے بڑا مرتبہ کس کا ہوگا۔جس کے لئے زمین و آسمان کے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہو، یہ اپنی ذات میں مشغول ہیں اور فرشتے اس کے لئے استغفار میں مشغول ہیں۔

علمائے کرام کی عام لوگوں پر فضیلت : حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا : علمائے کرام عام مؤمنین سے 700 درجے بلند ہونگے۔ ہر درجوں کے درمیان 500 سو سال کے مسافت ہے۔(احیاء العلوم )


علوم دینیہ کا حاصل کرنا افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ علم دین سے دل کو قرار حاصل ہوتا ہے۔ علم دین دل کو نور بصیرت و ہدیت سے جگمگاتا ہے۔اس سے بندے کی اخلاقی و سماجی زندگی میں نکھار پیدا ہوتا ہے ۔اور اس کے ذریعہ بندہ  نیک لوگوں کی منازل اور بلند رتبہ حاصل کرتا ہے۔ علم کے ساتھ ساتھ علما کے بھی متعدد فضائل قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے ہیں ۔اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

حضرت سیدنا ابو اسود رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: علم سے بڑھ کر عزت والی کوئی شے نہیں ۔بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں ۔جبکہ علما بادشاہوں پر حکومت کرتے ہیں ۔

احادیث مبارکہ سے چند فضائلِ علماء ملاحظہ ہو:

(1) دین کی سمجھ بوجھ کسے ملتی ہے: حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے۔(بخاری کتاب العلم،ص 30 ،حدیث: 71)

(2) علما انبیاء کے وارث ہیں: حضرت سیدنا ابو دردا رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں۔ جنہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا ہے ۔کہ جو علم کے راستے پر چلتا ہے، اللہ پاک اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے ۔اور بیشک عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہیں ۔ جیسےچاند کی فضیلت بقیہ ستاروں پر۔ بے شک علما یہ انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کوئی درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ علم دین کا علماءکو وارث بناتے ہیں ۔(ابن ماجہ ،ص 39 ،حدیث: 223)

(3) نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت: فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جس نے علما کی زیارت کی اس نے میری زیارت کی اور جو علما کی صحبت میں بیٹھا تحقیق وہ میری صحبت میں بیٹھا اور جو میری صحبت میں بیٹھا یقیناً وہ اللہ پاک کی صحبت میں بیٹھا۔(الترغیب و الترھیب ،ص 1300 ،حدیث: 2883)

(4) وہ ہم میں سے نہیں : جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی عزت و توقیر نہ کرے اور ہمارے علما کو نہ پہچانے (یعنی ان کا حق نہ پہچانے )وہ ہم میں سے نہیں ہے۔( جامع البیان العلم ،ص 48 )

(5) عالم بروز قیامت شفاعت کرے گا: حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ۔کہ شافع امت جان رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب عالم اور عابد پل صراط پر جمع ہوں گے۔ تو عابد سے کہا جائے گا ۔جنت میں داخل ہوجاؤ اور اپنی عبادت کے سبب نازونعم کے ساتھ رہو۔ اور عالم سے کہا جائے گا یہاں ٹھہرجاؤ اور جس شخص کی چاہوں شفاعت کرو اس لیے کہ تم جس کی شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔(علم وعلماء کی اہمیت از مفتی قاسم عطاری دامت براکاتہم العالیہ )

علم دین کا جذبہ پانے اور علمائے کرام کا ادب و احترام سیکھنے کے لیے دعوت اسلامی کے پیارے پیارے دینی ماحول سے وابستہ رہیے۔ امیر اہل سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ ایک جگہ تحریرفرماتے ہیں کہ اسلام میں علَمائے حق کی بَہُت زیادہ ا ہَمِیَّت ہے اور وہ علمِ دین کے باعِث عوام سے افضل ہوتے ہیں ۔ غیرِ عالم کے مقابلے میں عالِم کو عبادت کا ثواب بھی زیادہ ملتا ہے۔ لہٰذا دعوتِ اسلامی کے تمام وابستگان بلکہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ علَمائے اہلسنّت سے ہر گز نہ ٹکرائیں ، ان کے ادب و احترام میں کوتاہی نہ کریں ، علَمائے اہلسنّت کی تحقیر سے قطعاگُریز کریں ، ان کے کردار اور عمل پر تنقید کرکے غیبت کا گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنَّم میں لے جانے والاکام نہ کریں ۔( امیرِ اہلسنت اورآپ کی علمی ودینی خدمات کے بارے میں 1163 علماء اہلسنت کے تآ ثرات)

اللہ پاک ہمیں ہمیشہ علماء اہل سنت کا باادب رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

عالم کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ پاک نے اپنی پاک ذات کے ساتھ فرشتوں اور پھر علم والوں کا ذکر فرمایا۔ اللہ پاک فرماتا ہے :شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ(۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں عزت والا حکمت والا ۔(پ3،اٰل عمران: 18)

دیکھیے ! اللہ پاک نے کس طرح اپنی پاک ذات سے آغاز فرمایا پھر ملائکہ اور پھر علم والوں کا ذکر فرمایا۔ شرف، فضیلت اور عظمت و کمال کے لیے یہی کافی ہے۔ اللہ پاک نے علماء کی شان کو قرآن میں دوسری جگہ بیان فرمایا:اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

علماء کے فضائل میں فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:

(1) حضور نبی پاک صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عالم کی مجلس میں حاضر ہونا۔ ہزار رکعت (نفل)پڑھنے ۔ ہزار مریضوں کی عیادت کرنے ۔ ہزار نمازِ جنازه میں شرکت کرنے سے افضل ہے۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا قرآن کی تلاوت(سےبھی افضل )ہے؟ فرمايا: قرآن بھی تو علم کے ساتھ ہی نفع دیتا ہے۔

(2) حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ و پرہیز گاری (میں ) ہے۔

(3) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں  رات کے چاند کی تمام ستاروں  پر فضیلت ہے۔

(4) حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں ،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں  دو آدمیوں  کا ذکر کیا گیا،ان میں  سے ایک عالِم تھا اور دوسرا عبادت گزار،توحضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے، پھرسرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا’’اللہ پاک اس کے فرشتے، آسمانوں  اور زمین کی مخلوق حتّٰی کہ چیونٹیاں  اپنے سوراخوں  میں  اور مچھلیاں  لوگوں  کو (دین کا) علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔

(5) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے، حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا:تم جنت میں  داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں  کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔

اللہ پاک ہمیں علم دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! علم و عبادت میں سے علم زیادہ شرف و فضیلت رکھتا ہے۔ اسی لیے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم علما کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

(1) فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم ترجمہ: بزرگی فضیلت عالم ی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔) ترمذی، کتاب العلم)

(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:نَظْرَۃٌ اِلَی الْعَالِمِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ عِبَادَۃِ سَنَۃِ صِیَامِھَا وَ قِیَامِھَا یعنی عالِم کو ایک نظر دیکھنا مجھے ایک سال کے روزوں اوراُس کی راتوں میں قیام کرنے سے زیادہ پسند ہے ۔(منہاج العابدین،ص 31)

(3) حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں بلند مرتبہ جنتیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ صحابَۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!کیوں نہیں !ضروربتائیے؟ارشادفرمایا : ہُمْ عُلَمَاءُ اُمَّتِی یعنی وہ میری امت کے علما ہیں ۔(منہاج العابدین ،ص31)

(4) امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : مجھے یہ پسند نہیں کہ میں بچپن میں ہی فوت ہو کر جنت میں داخل ہو جاتا اور بڑا ہو کر اپنے رب کریم کی معرفت حاصل نہ کرتا ۔ کیونکہ لوگوں میں جو زیادہ علم والا ہوتا ہے وہ اللہ پاک سے زیادہ ڈرتا ، زیادہ عبادت کرتا اور اللہ پاک کے لئے زیادہ نصیحت کرتا ہے ۔(منہاج العابدین ،ص43)

(5) قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے:انبیاء، علماء اور شہداء۔(احیاء العلوم،1/48)

لہذا معلوم ہوا کہ زیادہ عظمت والا مرتبہ وہ ہے جس کا ذکر مرتبۂ نبوت کے ساتھ ملا ہوا ہے اور یہ مرتبہ شہادت سے بڑھ کر ہے۔ اگرچہ شہادت کی فضیلت میں بھی کثیر احادیث مروی ہیں۔

اللہ پاک کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں علماء کرام کے اقوال پر عمل کرنے اور ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علماء کرام کے قرآن پاک اور احادیث میں بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک نے علماء کی فضیلت بیان کرتے ہوئے قرآن  کریم میں فرمایا:یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ ترجمۂ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ 28، مجادلہ : 11)

علماء کی مراتب کی بلندی کے متعلق حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :علماء کرام ،عام مؤمنین سے سات سو درجے بلند ہوں گے اور ہر دو درجوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہوگی۔(قوت القلوب،1/241)احادیث میں بھی علماء کرام کے بے شمار فضائل ہیں۔ جیسے:

(1) شہداء کا خون اور علماء کی سیاہی: حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قىامت کے دن علما کى دَواتوں کى سىاہى اور شہىدوں کا خون تولا جائے گا رُوشنائی (سیاہی) ان کى دواتوں کى شہىدوں کے خون پر غالب آئے گى۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، باب تفضیل العلماء علی الشھداء، ص48، حدیث : 139)

(2) مجلس علماء میں حاضری کی فضیلت: حضرت سیِّدُنا ابوذر رضی اللہ عنہ کى حدىث مىں ہے : عالم کى مجلس مىں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز، ہزار بىماروں کى عىادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسى نے عرض کىا : یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور قراءتِ قرآن؟ ىعنى کىا علم کى مجلس مىں حاضر ہونا قرا ءتِ قرآن سے بھى افضل ہے؟ فرماىا : آىا (کیا) قرآن بے(بغیر)علم کے نفع بخشتا ہے؟ ىعنى فائدہ قرآن کا بےعلم کے حاصل نہىں ہوتا۔( قوت القلوب، الفصل الحادی والثلاثون، باب ذکر الفرق بین علماء الدنیا…الخ، 1/ 257)

(3) عالم کی عابد پر فضیلت: حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمىوں کا ذکر ہوا اىک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

(4) بے حساب بخشش کا سبب :حضور نبی رحمت شفیع کا فرمان ہے عالی شان ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن عبادت گزاروں کو اٹھائے گا پھر علما کو اٹھائے گا اور ان سے فرمائے گا: اے علما کے گروہ! میں تمہیں جانتا ہوں اسی لئے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لئے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں گا۔ جاؤ! میں نے تمہیں بخش دیا۔( جامع بیان العلم وفضلہ ، ص69، حدیث:211)

(5) علما شفاعت کریں گے: حضور رحمت عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان بے مثال ہے کہ قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے:انبیاء، علماء اور شہداء۔(سنن ابن ماجہ،4/526،حدیث:4313)

پیارے اسلامی بھائیو! غور کیجیے کہ مکی مدنی مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس طرح علماء کی شان بیان فرمائی، کس طرح ان کو درجہ نبوت کے ساتھ ملا دیا اور یہ بھی فرمایا کہ علماء قیامت کے دن شفاعت کریں گے، یقیناً علماء کے بے شمار فضائل ہیں۔ اللہ پاک ہمیں یہ فضائل حاصل کرنے، علم دین حاصل کرنے اور علماء کی عزت و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ایک انسان کے دوسرے انسان پر فضیلت کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں سے سب سے اول علم ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے علم کی وجہ سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ جب کہ رب کریم نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(۹)ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔(پ 23 ،الزمر : 09)یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ ترجمۂ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ 28، مجادلہ : 11)اس آیت سے معلوم ہوا کہ علمائے دین بڑے درجہ والے ہیں اور دنیا آخرت میں ان کی عزت ہوگی۔ جب اللہ پاک نے ان کے درجات کی بلندی کا وعدہ فرمایا ہے تو انہیں اس کے فضل و کرم سے دنیا و آخرت میں ضرور عزت ملے گی۔( صراط الجنان ،10/47)

احادیث مبارکہ:

(1) اہل جنت، جنت میں علما کے محتاج ہوں گے۔(ابن عساکر)

(2) علما آسمانوں میں ستاروں کے مثل ہیں۔ جن کے ذریعے خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہ پائی جاتی ہے۔(کنز العمال)

(3) قیامت کے دن علماء کی سیاہی اور شہداء کے خون کا وزن کیا جائے گا تو ان کی سیاہی شہداء کے خون پر غالب آ جائے گی۔(کنز العمال)

(4) علماء کرام زمین کے چراغ اور انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔(کنز العمال)

(4) ایک فقیہ، شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔(ترمذی)


علم دین یقیناً بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا سہرا انہی خوش نصیبوں کے سر سجتا ہے جنہیں اللہ پاک اپنے فضل خاص سے نوازتا ہے۔ اللہ پاک نے اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے علم حاصل کرنے والوں کے بہت فضائل بیان فرمائے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ ترجمۂ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ 28، مجادلہ : 11)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ علمائے دین بڑے درجہ والے ہیں اور دنیا آخرت میں ان کی عزت ہوگی۔ جب اللہ پاک نے ان کے درجات کی بلندی کا وعدہ فرمایا ہے تو انہیں اس کے فضل و کرم سے دنیا و آخرت میں ضرور عزت ملے گی۔( صراط الجنان ،10/47)

حضرت حسن بصری رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں :حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا:اے لوگو!اس آیت کو سمجھو اور علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاؤ کیونکہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ وہ مومن عالِم کو اس مومن سے بلند درجات عطا فرمائے گا جو عالِم نہیں ہے ۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: 10، 4 / 241)

یہاں موضوع کی مناسبت سے علم اور علماء کے5فضائل احدیث طیبہ سے ملاحظہ فرمائیں :

(1) قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

(2) قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: يُوْزَنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِدَادُ الْعُلَمَاءِ وَدَمُ الشُّهَدَاءِ فَيَرْجَحُ مِدَادُ الْعُلَمَاءِ عَلَی دَمِ الشُّهَدَاءِ ترجمہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: روز قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی۔

(3) قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: من یرید اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین ۔ ترجمہ اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے ۔(بخاری کتاب العلم باب العلم قبل الاول والعمل، 1/41)

اشباہ النظاہر میں لکھا ہے کہ کوئی آدمی اپنے انجام سے واقف نہیں ہوتا سوا فقیہ کے کیونکہ وہ باخبر مخبر صادق یعنی سچی خبر دینے والے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتانے سے جانتا ہے کہ اس کے ساتھ خدائے پاک نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔

(4) قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم:الفَقیِہٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدٍ ترجمہ: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک فقیہ شیطان پر ہزاروں عابدوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے ۔

اور وجہ اس کی ظاہر ہے ہیں کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم عالَم(بہت سے لوگوں) کو ہدایت فرماتا ہے اور شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتا ہے۔ (فیضان علم و علما، ص 18، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)

(5) نَظْرَۃٌ اِلَی الْعَالِمِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ عِبَادَۃِ سَنَۃِ صِیَامِھَا وَ قِیَامِھَا یعنی عالِم کو ایک نظر دیکھنا مجھے ایک سال کے روزوں اوراُس کی راتوں میں قیام کرنے سے زیادہ پسند ہے ۔(منہاج العابدین،ص 31)

ان احادیث طیبہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علم و علماء کی فضیلت اور لوگوں سے بہت زیادہ ہیں اور حضرت سیِّدُنا مولىٰ على رضی اللہ عنہ فرماتے ہىں کہ عالِم روزہ دارشب بىدار (یعنی عالم دن رات عبادت کرنے والے)مجاہد سے افضل ہے۔ اور حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہىں : ہزار عابد قائِمُ اللىل (رات میں عبادت کرنےوالوں اور) صائِمُ النہار(دن میں روزہ رکھنےوالوں) کا مرنا اىک عالم کی ”کہ خدا کے حلال وحرام پر صبر کرتا ہے“موت کے برابر نہىں(فیضانِ عِلم وعُلَما،ص 21)امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تم نے اپنے علم پر عمل کیا اور اپنی آخرت سنوارنے میں لگ گئے تو تم علم میں راسخ امت محمدیہ کے علما میں سے ہو جاؤ گے اور عبادت گزار صاحبِ بصیرت عالِم بن جاؤ گے، اب تم جاہل رہو گے نہ غافل اور نہ ہی محض کسی کے پیروکار ۔ اس وقت تم بڑے فضل وشرف والے بن جاؤگے ، تمہارا علم بڑا قیمتی ہو گا اور تم بڑے ثواب کے حقدار ٹھہروگے تو یوں تم اس گھاٹی کو عبور کر لو گے اور توفیق خداوندی سے اس کا حق ادا کرنے والے بن جاؤ گے ۔ (منہاج العابدین ،ص 46)

ترغیب: اس طرح فضائل و فوائد اس صفت (علم) کے اخبار و آثار (احادیث و روایات) میں بے شمار وارد ہیں، صرف یہ کہ وہ صفت جناب احدیت (اللہ پاک) اور حضرت رسالت (حضرت سیدنا محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )کی ہے اور اس کی فضیلت میں کفایت کر تی ہے۔ بھلائی دونوں جہاں کی علم سے حاصل ہوتی ہے اور سعادت دارین بوسیلہ اس صفت کے (دونوں جہاں کی بھلائی علم )کے سبب ہاتھ آتی ہے۔ جاہل درحقیقت حیوان مطلق ہے کہ فضل انسان کا (انسان کی فضیلت) کلام ہے پس آدمی کو لازم ہے کہ اس دولت عظمیٰ کی تحصیل (علم حاصل کرنے) میں کوشش کرتا رہے۔

اللہ پاک ہمیں علم دین حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علم دین اسلام کی زندگی ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:اَلْعِلْمُ حَیَاةُالْاِسْلَامِ وَعِمَادُ الْاِ یْمَانِعلم اسلام کی زندگی اور دِین کا سُتُون ہے۔ایک گھڑی دینی مسائل کا مطالعہ کرنا رات بھر کی عبادت سے افضل ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تدارس العلم ساعۃ من اللیل خیر من احیائیھا ، ترجمہ : رات میں ایک گھڑی علم کا پڑھنا پوری رات جاگنے سے بہتر ہے۔فائدہ :ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک گھنٹہ آپس میں علم کی تکرار کرنا، استاد سے پڑھنا، شاگرد کو پڑھانا، کتاب تصنیف کرنا یا کتاب کا مطالعہ کرنا رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔(مرقات شرح مشکوٰۃ ، 1/ 251)

علم لازوال دولت ہے: حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ علم خزانے ہیں اور ان خزانوں کی چابی سوال کرنا ہے تو تم سوال کرو، اللہ پاک تم پر رحم فرمائے گا۔علم میراث انبیاء ہے: حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: العلم میراثی و میراث الانبیاء ترجمہ علم میری میراث ہے اور جو مجھ سے پہلے انبیاء گزرے ہیں ان کی میراث ہے۔علماء ورثاء انبیاء ہیں:حضرت علی کرام اللہ اور حضور کریم سے روایت ہے العلماء مصابیح الارض و خلفاء الانبیاء و ورثتی و ورثة الانبیاء ترجمہ: علما زمین کے چراغ اور انبیاء کے خلفاء (جانشین) اور میرے اور دوسرے نبیوں کے وارث ہیں۔( کنز العمال ، 10/ 79(

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے جب عالم اور عابد پل صراط پر جمع ہوں گے۔ تو عابد سے کہا جائے گا ۔جنت میں داخل ہو جاؤ اور اپنی عبادت کے سبب ناز و نعم کے ساتھ رہو۔ اور عالم سے کہا جائے گا یہاں ٹھہرجاؤ اور جس شخص کی چاہوں شفاعت کرو اس لیے کہ تم جس کی شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔

علماکا احترام اللہ اور رسول کا احترام ہے: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عالموں کی عزت کرو اس لیے کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں اور جس نے ان کی عزت کی تحقیق اس نے اللہ اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عزت کی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک فتنہ اٹھے گا تو عبادت کے محل کو پورے طور پر گرا دے گا اور عالم اپنے علم کے سبب اس فتنہ سے نجات پائے گا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جو شفاعت فرمائیں گے وہ انبیاء ہیں پھر علماء اس کے بعد شہداء۔( تفسیر کبیر،1/86)

فائدہ :شفاعت کرنے میں شہداء پر علماء اس لیے مقدم ہوں گے کہ وہ گروہ انبیاء کے نائب ہیں اور شہیدوں کی حیثیت سپاہیوں جیسی ہے۔

علماء کے فضائل پر پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1) ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم ترجمہ: بزرگی فضیلت عالم ی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔) فیضان علم و علما،ص13)

(2) علما شفاعت کریں گے: اِحىاء العلوم مىں مرفوعًا رواىت کرتے ہىں کہ خدائے پاک قىامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا بِہِشْت(جنت) مىں جاؤ۔ علما عرض کرىں گے : الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کى اور جہاد کىا۔حکم ہوگا : تم مىرے نزدىک بعض فرشتوں کى مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہارى شفاعت قبول ہو۔ پس (علماپہلے) شفاعت کرىں گے پھر بِہِشْت (جنت) مىں جاوىں گے۔(فیضان علم و علما،ص14)

نوٹ: مرفوع اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچتی ہو۔(نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر، ص106)

(3) انبیا کے وارث: ابو داؤد نے سیدنا ابو درداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص طلب علم میں ( یعنی کسی ایک ) راہ چلے اللہ پاک اس کو بہشت کی راہوں میں سے ایک راہ چلا دے اور بے شک فرشتے اپنے بازو طالب علم کے رضا مندی کے واسطے بچھاتے ہیں اور بے شک اور عالم کے لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اور بے شک فضل عالم کا عابد پر ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی بزرگی سب ستاروں پر اور بے شک علما وارث انبیاء کے ہیں اور بے شک پیغمبروں نے درہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے پس جو علم حاصل کریں اس نے بڑا حصہ حاصل کیا۔ (فیضان علم و علما،ص17)

(4) امام مُحى السُّنّہ بغوى رحمۃُ اللہِ علیہ مَعالِمُ التَّنزىل مىں لکھتے ہىں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہىں : اىک فقىہ شىطان پر ہزار عابد سے زىادہ بھارى ہے۔

اور وجہ اُس کى ظاہر ہے کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم اىک عالَم (بہت سے لوگوں) کو ہداىت فرماتا ہے اور شىطان کے مکر وفرىب سے آگاہ کرتا ہے۔( فیضانِ علم و علما،ص 18)

(5)  ترمذی کی حدیث میں ہے تحقیق اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے ہیں۔ (فیضان علم و علما،ص19)

علم و ہتھیار ہے جس کے ذریعے نفسِ عمارہ اور شیطان کے فریب سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ علم نافع انسان کو ایک خاص عروج پر لے جاتا ہے جہاں  علم سے آنکھوں کو خشکی، دل کو فرحت اور روح کو تازگی نصیب ہوتی ہے۔ عالم جب علم کے سمندر میں غوطہ لگاتا ہے تو معرفت الٰہی کے موتی نکالتا ہے۔ عالم دین ہی روحانیت اور قرب خداوندی کے منازل کا مستحق ہے۔ عالم وہ درخت ہے جس کا سایہ نہ ختم ہونے والا اور پھل میٹھا ہے۔ علما کی فضیلت پر بہت سے احادیث حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کن کی کنجی والی زبان سے ارشاد ہوئیں، ان میں سے یہاں پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ذکر کیے جاتے ہیں:۔

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : جو شخص طلبِ علم مىں(کسی)اىک راہ چلے خدا اُسے بِہِشْت (جنت) کى راہوں سے اىک راہ چلادے اور بےشک فرشتے اپنے بازو طالبِ علم کى رضامندى کے واسطےبچھاتے ہىں اور بےشک عالم کے لئے استغفار کرتے ہىں سب زمىن والے اور سب آسمان والے ىہاں تک کہ مچھلىاں پانى مىں اور بےشک فضل عالم کا عابد پر اىسا ہے جىسے چودھوىں رات کے چاند کى بزرگی (فضیلت) سب ستاروں پر اور بےشک علما وارث انبىاء کے ہىں اور بےشک پىغمبروں نے درہم ودىنار مىراث نہ چھوڑى(بلکہ) علم کو مىراث چھوڑا ہےپس جو علم حاصل کرے اُس نے بڑا حصہ حاصل کىا۔( فیضانِ علم و علما،ص 17)

(2) امام مُحى السُّنّہ بغوى رحمۃُ اللہِ علیہ مَعالِمُ التَّنزىل مىں لکھتے ہىں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہىں : اىک فقىہ شىطان پر ہزار عابد سے زىادہ بھارى ہے۔

اور وجہ اُس کى ظاہر ہے کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم اىک عالَم (بہت سے لوگوں) کو ہداىت فرماتا ہے اور شىطان کے مکر وفرىب سے آگاہ کرتا ہے۔( فیضانِ علم و علما،ص 18)

(3) ترمذی کى حدىث مىں ہے : تحقىق اللہ پاک اور اُس کے فرشتے اور سب زمىن والے اور سب آسمان والے ىہاں تک کہ چىونٹى اپنے سوراخ مىں اور ىہاں تک کہ مچھلى ىہ سب درود بھىجتے ہىں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائى سکھاتا ہے۔( فیضانِ علم و علما،ص 19)

(4) ترمذى نے رواىت کىا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمىوں کا ذکر ہوا اىک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( فیضانِ علم و علما،ص 13)

(5) اِحىاء العلوم مىں مرفوعًا رواىت کرتے ہىں کہ خدائے پاک قىامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا بِہِشْت(جنت) مىں جاؤ۔ علما عرض کرىں گے : الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کى اور جہاد کىا۔حکم ہوگا : تم مىرے نزدىک بعض فرشتوں کى مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہارى شفاعت قبول ہو۔ پس (علماپہلے) شفاعت کرىں گے پھر بِہِشْت (جنت) مىں جاوىں گے۔( فیضانِ علم و علما،ص 14)


(1)  حضرتِ ابن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فر مایا کہ رات میں ایک گھڑی علمِ دین کا پڑھنا پڑھانا رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (انوار الحدیث،ص 76،حدیث:06)

(2) حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما نے کہا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ایک فقیہ یعنی ایک عالمِ دین شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔(انوار الحدیث،ص 76،حدیث:07)

(3) حضرت ابوالدرداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم سے دریافت کیا گیا کہ اس علم کی حد کیا ہے کہ جسے آدمی حاصل کرلے تو فقیہ یعنی عالمِ دین ہوجائے تو سرکارِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص میری امت تک پہنچانے کے لیے دینی اُ مور کی چالیس حدیثیں یاد کرلے گا تو خدائے پاک اسے قیامت کے دن عالمِ دین کی حیثیت سے اٹھائے گا اور قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہ رہوں گا۔(انوار الحدیث،ص 76،حدیث:08)

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جو باتیں میں نے معلوم کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر صدی کے خاتمہ پر اس امت کے لیے اللہ پاک ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس کے لیے اس کے دین کو نکھارتا رہے گا۔(انوار الحدیث،ص 77،حدیث:09)

نوٹ :باتفاق علمائے عرب و عجم چودھویں صدی کے مجدد اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہیں۔

(5) حضرت احوص بن حکیم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ آگاہ ہوجائو کہ بُروں میں سب سے بدترین علمائے سُو ہیں۔ اور اچھو ں میں سب سے بہتر علمائے حق ہیں۔(انوار الحدیث،ص 78،حدیث:12)

دعا: اللہ پاک کی پاک و بلند بارگاہ میں التجا ہے کہ ہمیں بھی اللہ پاک دین کے راستے پر چلا کر باعمل عالمو مفتی اسلام بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم