عالمِ دین روشنی کی مانند ہیں کیونکہ ہمارے آقائے دو عالم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم دونوں جہاں کے عالمِ دین ہیں۔ ایک عالم کو اپنے محبوب مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے۔ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔فلاح کا پہلا ستون علما ئے کرام ہیں خواہ ان کو امام سے تعبیر کریں،خواہ قاری سے،خواہ وہ کسی بھی سوسائٹی کا کوئی علمی کردار ادا کر رہا ہو۔علما ئے کرام اپنا بدن کاٹ کر اور فاقے برداشت کر کے بھی اپنی اپنی ملت و قوم کے سامنے اتنا شستہ و عمدہ کردار ادا کرتے ہیں کہ بعض علما کے کردار کو دیکھ کر لوگوں کو اپنے آپ کو اچھے سانچے میں ڈھالنے کا موقع مل سکتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :حدیث:قیامت کے دن علما کی سیاہی اور شہدا کے خون کو تولا جائے گا اور علما کی سیاہی شہدا کے خون پر غالب آ جائے گی۔ (جامع صغیر،ص 590 حدیث:10026) فیضانِ علم و علما کتاب میں امیرِ اہلِ سنت مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہمُ العالیہ لکھتے ہیں:صفحہ 8،9،10 :ترجمہ:کہہ تم فرماؤ کافی ہے اللہ پاک گواہ میرے اور تمہارے بیچ میں اور وہ شخص جس کے پاس علم کتاب ہے۔مراتب کی بلندی:ترجمہ:یعنی اللہ پاک کر دے گا ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے تم میں سے اور ان کے جن کو علم دیا گیا ہے درجے۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:ان کے درجے بلند کر دئے جائیں گے جو علم والے ہوں گے یعنی جو عالم ہوں گے ان کے درجے اللہ پاک بلند فرمائے گا ۔سبحان اللہ۔حدیث:ایک فقیہ یعنی عالمِ دین شیطان پر ہزاروں عابدوں سے یعنی عبادت کرنے والوں سے زیادہ بھاری ہے۔(ترمذی )حدیث:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں شب میں چاند کی فضیلت سارے تاروں پر ۔(الترمذی،کتاب العلم ،ماجاءفی فضل الفقہ علی العبادت)ایک اور جگہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :حدیث:علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔انبیا علیہم الصلوۃ و السلام نے دینار و درہم کی میراث نہیں چھوڑی بلکہ ان کی میراث علم ہے۔ پس جس نے علم حاصل کیا اس نے انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کی میراث کا بڑا حصہ پا لیا۔(ابو داؤد،3641 )حدیث:بے شک اللہ پاک اور اس کے فرشتے آسمانوں اور زمینوں کی تمام مخلوق حتی کہ جو چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں سمندر کے پانیوں میں اس کے لیے دعا مانگتی ہیں جو لوگوں کو دین کی تعلیم دے۔( ترمذی،حدیث:2658)کتاب فیضانِ علم و علما میں امیرِ اہلِ سنت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہمُ العالیہ لکھتے ہیں: صفحہ نمبر 8اور 9 :آیت کا ترجمہ:گواہی دی اللہ پاک نے کہ کوئی بندگی کے لائق نہیں سوا اس کے اور فرشتوں اور عالموں نے وہ با انصاف ہے۔اس میں اللہ پاک نے فرشتوں کے ساتھ علما ئےکرام کا ذکر فرمایا ہے۔ عالم ایسا مرتبہ رکھتا ہے کہ جس کی انتہا نہیں ۔ ایک اور اس میں فضیلت دیکھنے کو ملتی ہے کہ علما ئےکرام کی گواہی مانندِ گواہیِ ملائکہ کے معتبر ٹھہرائی۔دعا:اے اللہ پاک!ہمیں بھی علمِ دین سیکھنے اور سیکھانے کی توفیق عطا فرما۔ہمیں بھی عالمات کی زیرِ نگرانی رہنے کی توفیق عطا فرما ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اللہ پاک نے علمائے کرام کو بے شمار فضیلتوں سے نوازا ہے۔قرآن ِکریم میں ارشاد ہے:ترجمہ:اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ22،الفاطر:28) علم والوں کی شان ہی یہ ہے کہ وہ اللہ پاک سے ڈرتے ہیں لہٰذا علمائے کرام کو عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اللہ پاک سے ڈرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی اللہ پاک سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔حضرت ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس کے دل میں اللہ پاک کا خوف نہیں وہ عالم نہیں۔قرآنِ کریم میں ہے:ترجمہ: اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11) اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ علمابڑے درجے والے اور دنیا و آخرت میں ان کی عزت ہے۔علمائے کرام کے بارے میں 5 فرامینِ مصطفٰے ملاحظہ فرمائیے۔1:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک زمین پر علما کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے بحروبر کی تاریکیوں میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں۔(مسند احمد،4/314)2:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نور کے پیکر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن عالم اور عابد عبادت گزار کو اٹھایا جائے گا تو عابد سے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا: جب تک لوگوں کی شفاعت نہ کرلو ٹھہرے رہو۔(الترغیب والترھیب،1/57)3:حضرت ثعلبہ بن حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک اپنے بندوں کا فیصلہ کرنے کے لیے جب قیامت کے دن کرسی پر قعود فرمائے گا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے تو علما سے فرمائے گا:بے شک میں نے اپنا علم اور حلم تمہیں اسی لیے دیا تھا کہ تمہاری خطاؤں کو معاف فرما دوں اور مجھے کوئی پروا نہیں۔(طبرانی،2/84)4:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بلند مرتبہ جنتیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! کیوں نہیں! ضرور بتائیے، ارشاد فرمایا:ھم علماء امتی یعنی وہ میری امت کے علما ہیں۔(منہاج العابدین،ص31-32)5:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس علم کو قبض ہونے سے پہلے حاصل کر لو اور اس کے قبض ہونے سے مراد اس کا اٹھا لیا جانا ہے۔ پھر رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے شہادت اور بیچ کی انگلیاں ملا کر ارشاد فرمایا:عالم اور متعلم خیر میں حصہ دار ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(ابن ماجہ،1/150)اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کے فیوض و برکات سے مال فرمائے اور ہمیں ان کا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


اللہ پاک قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں پارہ 21، سورة العنكبوت ،آیت نمبر 49 میں ارشاد فرماتا ہے:بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِىْ صُدُوْرِالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ طترجمۂ كنزالایمان : بلکہ وہ روشن آیتیں ہیں ان کے سینوں میں جن کو علم دیا گیا۔سبحان اللہ! اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اہل ِعلم کی کس طرح فضیلت بیان فرمائی!علما کو اللہ پاک نے کس قدر بزرگی اور مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ ان کے فضائل کو مکمل طور پر بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔ ان کی فضیلت و عظمت قیامت کے دن کھلے گی جب عام لوگوں کو تو حساب و کتاب کے لیے روکا جائے گا لیکن علما کو ان لوگوں کی شفاعت کے لیے روکا جائے گا۔اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اور اس کے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے احادیثِ طیبہ میں علما کے کثرت سے فضائل بیان فرمائے ہیں ۔ کہیں ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے اپنا خوف اور خشیت ان کے دلوں میں رکھی،تو کہیں فرمایا:یہ انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔ کہیں ان کو عبادت گزاروں پر فضیلت عطا فرمائی ،تو کہیں ان کو لوگوں کے لیے حقیقی راہ نما قرار دیا۔چنانچہ علما کے فضائل پر مشتمل 5 احادیث درج ذیل ہیں۔(1) حضور نبیِ رَحمت،شفیعِ اُمَّت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :عالم زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے ۔ (جامع بیان العلم و فضل ،حدیث : 225،ص 74) (2) حضور نبیِ کریم، رؤف رحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے : عالم اور عابد کے درمیان 100 درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنی مسافت سَدھایا ہوا عمدہ گھوڑا 70 سال تک دوڑ کر طے کرتا ہے ۔ (جامع بیان العلم وفضلہ ، باب تفضیل العلم علی العبادة ، حدیث :118 ، ص 43 )

(3) حضور نبیِ پاک،صاحبِ لولاک،سیاحِ افلاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے : انبیا علیہم الصلوۃ و السلام، علما اور شہدا۔ ( ابن ماجہ ،کتاب الزھد ، باب ذکر الشفاعۃ ،حدیث: 4313،ج 4 ، ص 526 )معلوم ہوا! زیادہ عظمت والا مرتبہ وہ ہے جس کا ذکر مرتبۂ نبوت کے ساتھ ملا ہوا ہے اور یہ مرتبۂ شہادت سے بڑھ کر ہے۔ اگرچہ شہادت کی فضیلت میں بھی کثیر احادیث مروی ہیں۔(4) دو عالم کے مالک و مختار ، مکی مدنی سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مشکبار ہے : علما ،انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔ ( ابن ماجہ ، کتاب السنۃ،باب فضل العلم و الحث الخ ، حدیث: 223 ، ج 1 ، ص 146 ) اس سے پتہ چلا!جس طرح نبوت سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں اسی طرح نبوت کی وراثت (یعنی علم ) سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔(5) تاجدارِ رِسالت ، شہنشاہِ نبوت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لئے استغفار کرتی ہے۔( ابن ماجہ ، کتاب السنۃ ، باب فضل العلم والحثالخ ، حدیث: 223، ج 1 ، ص 146 )

لہٰذا اُس کا مرتبہ کس قدر بلند ہوگا جس کے لیے زمین و آسمان کی تمام مخلوق مغفرت کی دعا کرتی ہو۔ اللہ پاک ہمیں علما کے مرتبے کو سمجھنے اور اس کے مطابق ان کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اسلام میں علم کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کثیر آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ مبارکہ علم کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ علم ہی وہ چیز ہے جس سے انسانی زندگی کامیاب اور خوشگوار ہوتی ہے اور دنیا و آخرت بہتر ہوجاتی ہے۔ لیکن اس علم سے مراد وہ علم ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل ہو کہ یہی وہ علم ہے جس سے دنیا و آخرت دونوں سنورتی ہیں، اسی کی قرآن و حدیث میں تعریفیں آئیں ہیں اور اسی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ (بہارِ شریعت، حصہ 16، 618/3، ملخصا)علمِ دین حاصل کرنے کی بدولت علمائے کرام کو عظیم الشان دینی اور دنیاوی انعامات و اکرامات اور مقام و مرتبہ سے نوازا جاتا ہے۔ البتہ یہ امر پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ علمائے دین سے مراد علمائے ربانی ہیں یعنی صحیحُ العقیدہ اور صالحین علما۔ علمائے ربانی وہ ہیں جو خود اللہ والے ہیں اور لوگوں کو اللہ والا بناتے ہیں، جن کی صحبت سے خدائے پاک کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے، جس عالم کی صحبت سے اللہ پاک کے خوف اورحضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت میں کمی آئے وہ عالم نہیں، ظالم ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، آل عمران، تحت الآیۃ 18)علما دین کے فضائل بیان کرتے ہوئے اللہ پاک کے آخری نبی، محمدِ عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:1:علما کی مثال یہ ہے جیسے آسمان میں ستارے جن سے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ کا پتا چلتا ہے اور اگر ستارے مٹ جائیں تو راستہ چلنے والے بھٹک جائیں گے۔(المسند للإمام أحمد بن حنبل،مسند انس بن مالک،حدیث: 12600 ،ج 4 ،ص 314)2:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تمھارے ادنیٰ پر۔ (اس کے بعد پھر فرمایا :) ﷲ کریم اور اس کے فرشتے اور تمام آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی اس کی بھلائی کے خواہاں ہیں، جو لوگوں کو اچھی چیز کی تعلیم دیتا ہے۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء في فضل الفقہ علی العبادۃ، حدیث: 2694 ،ج 4 ،ص 313)3:ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء في فضل الفقہ علی العبادۃ، حدیث: 2690 ،ج 4 ،ص 311)علامہ نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس کی وجہ ظاہر ہےکہ عابد (عبادت کرنے والا) اپنے نفس (یعنی اپنے آپ) کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم ایک عالم (بہت سے لوگوں کو) ہدایت فرماتا ہے اور شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتا ہے۔(فیضان علم و علما، ص 18-19)اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ اور ہدایت کی توفیق عطا فرماتا ہے۔(احیاء العلوم جلد اول بحوالہ صحیح مسلم، کتاب الزکوة، باب النہی عن المسئلة، حدیث 1٠37، ص 516)5:اللہ پاک قیامت کے دن بندوں کو اٹھائے گا پھر علما کو الگ کرکے ان سے فرمائے گا: اے علما کی جماعت! میں تمہیں جانتا ہوں اسی لئے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لئے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں گا۔ جاؤ! میں نے تمہیں بخش دیا۔(جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث 211، ص 69)اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں علما کے فیضان سے حصہ عطا فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اللہ  پاک فرماتا ہے :پہلی آیت :شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۙ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِ ؕ(پ3، اٰل عمرٰن : 18)گواہى دى اللہ نے کہ کوئى بندگى کے لائق نہىں سوا اس کے اور فرشتوں نے اور عالموں نے۔ وہ(اللہ)باانصاف(انصاف والا) ہے۔اس آىت سے تىن فضیلتیں علم کى ثابت ہوئىں : اَوَّل : خدائے پاک نے علما کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کىا اور ىہ اىسا مرتبہ ہے کہ نہاىت(انتہا) نہىں رکھتا۔دُوُم : اُن(علما) کو فرشتوں کى طرح اپنى وحدانىت(ایک ہونے)کا گواہ اور اُن کى گواہى کووَجہِ ثبوت اُلوہِىّت(اپنے معبود ہونے کی دلیل)قراردىا۔سِوُم:اُن(علما) کى گواہی مانندِ ملائکہ کے(فرشتوں کی گواہی کی طرح)معتبر ٹھہرائى۔ دوسری آیت :اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ؕ(پ22، فاطر : 28) اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(ترجمہ کنزالایمان) اوروجہ اِس حصرکی(یعنی ڈرکو علماکے ساتھ خاص کرنے کی وجہ) ظاہر ہے کہ جب تک انسان خدا کے قہر(غضب) اور بےپروائى(بےنیازی) اور احوالِ دوزخ اور اَحوالِ قىامت(قیامت کی ہولناکیوں) کو بتفصىل(تفصیل کے ساتھ)نہىں جانتا(اس وقت تک) حقىقت خوف وخشىت کى اُس کو حاصل نہىں ہوتی اور تفصىل ان چىزوں کى علما کے سوا کسى کو معلوم نہىں۔احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں فضائل علما :پہلی حدیث :امام ذہبى نے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرماىا : قىامت کے دن علما کى دَواتوں کى سىاہى اور شہىدوں کا خون تولا جائے گا رُوشنائی (سیاہی) ان کى دواتوں کى شہىدوں کے خون پر غالب آئے گى۔جامع بیان العلم و فضلہ، باب تفضیل العلما علی الشھداء، ص48، حدیث : 139دوسری حدیث:اورحدىث مىں آىا ہے: جو شخص اىک باب علم کا اوروں(دوسروں) کے سىکھانے کے لئے سىکھے اُس کو ستر(70) صدىقوں کا اجر دىا جاوے۔الترغیب والترھیب، کتاب العلم، الترغیب فی العلم…الخ، 1/ 68، حدیث : 119تیسری حدیث: ابوداؤد نے (حضرت )ابودرداء رضی اللہ عنہ سے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرماىا : جو شخص طلبِ علم مىں(کسی)اىک راہ چلے خدا اُسے بِہِشْت(جنت)کى راہوں سے اىک راہ چلادے اور بےشک فرشتے اپنے بازو طالبِ علم کى رضامندى کے واسطےبچھاتے ہىں اور بےشک عالم کے لئے استغفار کرتے ہىں سب زمىن والے اور سب آسمان والے ىہاں تک کہ مچھلىاں پانى مىں اور بےشک فضل عالم کا عابد پر اىسا ہے جىسے چودھوىں رات کے چاند کى بزرگی (فضیلت) سب ستاروں پر اور بےشک علما وارث انبىاء علیہم الصلوۃ و السلام کے ہىں اور بےشک پىغمبروں نے درہم ودىنار میراث نہ چھوڑى(بلکہ) علم کو مىراث چھوڑا ہےپس جو علم حاصل کرے اُس نے بڑا حصہ حاصل کىا۔چوتھی حدیث :اِحىاء العلوم مىں مرفوعًا رواىت کرتے ہىں : خدائے پاک قىامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا :بِہِشْت(جنت) مىں جاؤ۔ علما عرض کرىں گے : الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کى اور جہاد کىا۔حکم ہوگا : تم مىرے نزدىک بعض فرشتوں کى مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہارى شفاعت قبول ہو۔ پس (علماپہلے) شفاعت کرىں گے پھر بِہِشْت(جنت) مىں جاوىں گے۔احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الاول فی فضل العلم…الخ، 1/ 26پانچویں حدیث:حدیث شریف میں آیا ہے: جب پروردگارقىامت کے دن اپنى کرسى پرواسطے فىصلہ بندوں کے(یعنی بندوں کے درمیان فیصلہ فرمانے)قعود فرمائے گا (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے تو)علما سے فرمائے گا :خلاصَۂ معنى ىہ ہے کہ مىں نے اپنا علم وحلم (نرمی) تم کو صرف اسى ارادے سے عناىت کىا کہ تم کو بخش دوں اور مجھے کچھ پرواہ نہىں۔المعجم الکبیر، 2/ 84، حدیث : 1381امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں :اَلْعِلْمُ بَابُ اللّٰہ الْاَقْرَبُ،وَالْجَھْلُ اَعْظَمُ حِجَابٍ بَیْنَکَ وَبَیْنَ اللّٰہعلما اللہ کاقرىب تَردروازہ ہے اورجہل(بے علمی)تمہارے اورخدا( پاک) کے درمىان سب سے بڑا حجاب(بڑی رکاوٹ) ہے۔علم موجِب حىات(زندگی کا باعث)بلکہ عَینِ حىات اور جہل(بے علمی) مورثِ موت (موت کا سبب)بلکہ خود موت ہے۔جاہل کے جسم پر(موجود) کسی زیور سے حیرت میں نہ پڑو کہ وہ تو مردہ ہے اور اس کا جامہ(لباس) کفن(ہے۔) (تفسیر النسفی، پ9، سورة الانفال، تحت الآية : 24، ص409، بتغیر لفظ) اگر خدا ( پاک)کے نزدىک کوئی شی(شے) علم سے بہتر ہوتى آدم علیہ السلام کو مقابلہ ملائکہ(فرشتوں کے مقابل) مىں دى جاتى۔ تسبىح وتقدیس(پاکی بیان کرنا) فرشتوں کى، علم اسماء کے برابر نہ ٹھہرى(تو پھر) علم حقائق و دیگر عُلومِ دینیہ کی بزرگی کس مرتبہ میں ہوگی؟

قِىاس کُن زِ گُلِستانِ مَن بَہارِ مَرا میرے باغ سے ہی میری بہار کا اندازہ کرلے


قرآنِ پاک میں پارہ 28  سورۃ المجادلۃ کی آیت نمبر11 میں اہلِ علم کی شان و عظمت اس طرح بیان کی گئی ہے: ترجمۂ کنز العرفان:اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جنہیں علم دیا گیا۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:علمائے کرام عام مومنین کے درمیان 700 سال کا فاصلہ ہے۔ہر دو درجوں کے درمیان 500 سال کا فاصلہ ہے۔قرآنِ پاک کے علاوہ کثیر احادیثِ کریمہ میں علمائے کرام کے ڈھیروں فضائل بیان ہوئے ہیں۔ان میں سے پانچ فرامینِ مصطفٰے پڑھئے اور اپنے دل میں علمائے حقہ کی شان وعظمت و اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔(1)ترمذی نے روایت کیا کہ رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم۔آپ نے فرمایا:ترجمہ:بزرگی یعنی فضیلت عالم کی عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے کم تر پر۔(2)امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا کہ رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی سیاہی یعنی Inkاور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو روشنائی یعنی Ink شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(3)امام محی السنہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ معالم التنزیل میں لکھتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالم ایک عالَم کو ہدایت فرماتا اور شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتا ہے۔(4)آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ پاک کے فرائض کے متعلق ایک یا دو تین یا چار پانچ کلمات سیکھے اور اسے اچھی طرح یادکرلے اور پھر لوگوں کو سکھائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔(5)ہمارے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن بندوں کو اٹھائے گا،پھر علما کو الگ کر کے ان سے فرمائے گا:اے علما کی جماعت!میں تمہیں جانتا ہوں اسی لیے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لیے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں گا، جاؤ! میں نے تمہیں بخش دیا۔سبحان اللہ!کیا شان ہے علمائے کرام کی!الحمد للہ ہمارے مرشد مولانا الیاس قادری دامت برکاتہمُ العالیہ بھی علمائے اہلِ سنت سے بہت محبت فرماتے اور ان کی دل سے عقیدت کرتے ہیں ۔میرے مرشد کا فرمان ہے: میں چاہتا ہوں کہ میری تحریک دعوتِ اسلامی کا ہر ذمہ دار عالم ہو اور گھر گھر میں ایک بچہ عالم یا عالمہ ہو۔ الحمداللہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے جامعات المدینہ قائم ہیں۔والدین کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنی اولاد کی تربیت کا خیال رکھیں،انہیں دنیاوی علوم و فنون کے ساتھ علمِ دین کے زیور سے بھی آراستہ کریں تاکہ ان کی دنیا بھی اچھی ہو اور آخرت بھی نیز یہ والدین کے لیے صدقہ جاریہ بھی بنیں ۔ انہیں نماز روزے کا پابند بنائیں اور فرائض و واجبات،حلال و حرام اور بندوں کے حقوق وغیرہ کے شرعی احکامات سے بھی آگاہ کرنے کا انتظام کریں۔ اس کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اپنے بچوں کو درس نظامی یعنی عالم کورس کروایا جائے تاکہ ہمارے بچے علمِ دین سیکھ کر دوسروں کو سکھائیں کہ جتنے عالم دنیا میں بنیں گے اتنا ہی علمِ دین پھیلے گا۔علمِ دین کی روشنی جتنی پھیلے گی جہالت کا اندھیرا ختم ہوگا۔علمِ دین حاصل کرنے سے گناہ کی پہچان بھی نصیب ہوتی ہے۔دعوتِ اسلامی کا بھرپور ساتھ دیجئے اپنا مال دے کر اپنا وقت دے کر تاکہ زیادہ جامعۃ المدینہ قائم ہوں، زیادہ سے زیادہ عالم بنیں۔اللہ پاک ہماری دعوتِ اسلامی کو قائم و دائم رکھے۔اسےمزید برکتیں عطا فرمائے۔ آمین


علم کے معنی ہیں جاننا اور آگاہ ہونا۔اللہ پاک کے اپنے بندوں پر بے حد احسانات ہیں جن میں سے ایک احسان علم ہے جو اس نے اپنے بندوں کو عطا کیا۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں ارشاد ہے:اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھیے جس نے پیدا کیا،جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔پڑھیے اور آپ کاپروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا۔(العلق:5-1)علم سے بہتر کوئی چیز نہیں۔جو شخص علم کی قدر و منزلت جانتا ہے ساری دنیا کی بادشاہت اس کے نزدیک کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتی۔دونوں جہاں کی بھلائی علم ہی سے حاصل ہوتی ہے۔علم کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صفت ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ وہاں دو مجلسیں ہو رہی تھی :ایک حلقہ ذکر کا تھا دوسرا حلقہ علم کا،آپ نے دونوں کی تعریف کی پھر علم کی مجلس میں شریک ہوئے اور فرمایا:یہ پہلی مجلس سے بہتر ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جب تم جنت کی پھلواریوں میں سے گزروتو ان سے جی بھر کر فائدہ اٹھاؤ ۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پوچھا:جنت کی پھلواریاں کیا ہیں؟ فرمایا:علم کی مجلسیں۔ علم کی طلب عبادت ہے۔علم دلوں کی زندگی ہے۔اندھوں کے لیے بینائی ہے۔علم سے انسان معرفتِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔علما کے فضائل پر پانچ فرامینِ مصطفٰے: 1:امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو ان کی دواتوں کی سیاہی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(جامع بیان العلم وفضلہ،ص48،حدیث:139)2:حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزاررکعت نماز،ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔کسی نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! اور قرات قرآن یعنی علم کی مجلس میں حاضر ہونا قراءتِ قرآن سے بھی افضل ہے؟فرمایا:کیا قرآن بے علم کے نفع بخشتا ہے؟یعنی قرآن کا فائدہ بے علم کے حاصل نہیں ہوتا۔(قوت القلوب)3:حدیث:عالم کا گناہ ایک گناہ ہے اور جاہل کے دو گناہ۔عالم پر وبال صرف گناہ کرنے کا اور جاہل پر ایک عذاب گناہ کا اور دوسرا نہ سیکھنے کا۔(جامع صغیر،ص2640،حدیث:4335)4:مرفوعاً روایت ہے:خدا پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا: جنت میں جاؤ! علما عرض کریں گے:الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلائے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔حکم ہوگا:تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو۔شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس علما پہلے شفاعت کریں گے،پھر جنت میں جائیں گے۔(احیاء العلوم،3/26)5:حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا:عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز روزہ سے بہتر ہے۔(منہاج العابدین،ص11)علم سکھاؤ تو صدقہ ہے۔علم تنہائی کا ساتھی،تنگ دستی میں راہ نما،غمخوار دوست اور بہترین ہم نشین ہے۔ علم جنت کا راستہ بتاتا ہے۔ اللہ پاک علم ہی کے ذریعے قوموں کو سربلندی عطا فرماتا ہے۔لوگ علما کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ دنیا کی ہر چیز ان کے دعائے مغفرت کرتی ہے۔علم ہی کی بدولت انسان اللہ پاک اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ جو علم حاصل ہوا ہے اسے آگے پھیلایا جائے۔دئیے سے دئیے کو جلایا جائے۔میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی علمِ دین حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس پر عمل کر کے دوسروں تک پہنچا کر نیکی کی دعوت عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


علمِ دین یقینا بڑی ہی عظیم نعمت ہے اور جو خوش نصیب لوگ اسے حاصل کرتے ہیں یقینا وہ دنیا و آخرت میں سرخرو اور کامیاب ہوتے ہیں۔ان لوگوں پر اللہ پاک کا فضلِ خاص ہوتا ہے جیسا کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔علمِ دین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اللہ پاک کے نزدیک کوئی شے علم سے بہتر ہوتی تو حضرت آدم علیہ السلام کو وہ ملائکہ کے مقابل میں دی جاتی کہ فرشتوں کی تسبیح علمِ اسماء کے برابر نہ ٹھہری تو پھر دیگر علومِ دینیہ کی بزرگی کس مرتبہ میں ہوگی اور جب کوئی بندہ اس علم کو حاصل کرے تو خود اس کی عظمت و بلندی کا کیا مقام ہوگا!ترجمہ:اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان فرماتے ہیں اور انہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے۔(پ20،العنکبوت:43)اس آیتِ مبارکہ سے بھی علم کی روشنی معلوم ہوتی ہے۔علما کی فضیلت پر فرامینِ مصطفٰے:حدیث نمبر1: نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لیے استغفار کرتی ہے۔( ابن ماجی،حدیث:223)لہٰذا اس سے بڑا مرتبہ کس کا ہوگا!جس کے لئے زمین و آسمان کے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہوں یہ اپنی ذات میں مشغول ہیں اور فرشتے ان کے لئے استغفار میں مشغول ہیں۔حدیث نمبر 2:جس نے میری امت کے لیے احکام کی چالیس حدیثیں یاد کیں اور ان تک پہنچا دیں میں قیامت کے دن اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا ۔(جامع بیان علم وعمل،ص63،حدیث:188)حدیث نمبر3:تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے علم کو عبادت اور شہادت سے افضل قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت میرے ادنیٰ صحابی پر۔ (ترمذی،4/314،حدیث:2694بتغیر)۔حدیث نمبر4:نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن قسم کے لوگ شفاعت کریں گے انبیا، علما، شہدا۔(ابن ماجہ،4/526،حدیث:4313)اس حدیث ِمبارکہ سے معلوم ہوا!زیادہ عظمت والا مرتبہ وہ ہے جس کا ذکر مرتبۂ نبوت کے ساتھ ملا ہوا ہو اور یہ مرتبۂ شہادت سے بڑھ کر ہے اگرچہ شہادت کی فضیلت میں بھی کثیر احادیث ہیں۔حدیث نمبر5:نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن عبادت گزاروں کو اٹھائے گا،پھر علما کو اٹھائے گااور پھر ان سے فرمائے گا: اے علما کے گروہ !میں تمہیں جانتا ہوں اس لیے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لیے علم نہ دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں!جاؤ!میں نے تمہیں بخش دیا۔(جامع بیان علمہ وفضلہ،ص69،حدیث:211)ان تمام آیات و احادیث سے علما کی فضیلت معلوم ہوئی۔اللہ پاک ہمیں بھی گروہِ علما سے محبت کرنے والیوں میں شامل فرمائے۔ہم اللہ پاک سے حسنِ خاتمہ کی دعا کرتی ہیں۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


عِلم زندگی اور جہالت موت ہے۔عِلم کی فضیلت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی وجہ سے فرشتوں پر برتری حاصل ہوئی۔ علم ہی کے ذریعے سے الله پاک کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ ٔکنزالایمان: تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔ ( پ 23 ،الزمر: 9)ایک اور جگہ ارشادِ باری ہے:ترجمۂ کنزالایمان:الله سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ (پ22، الفاطر:28)اولیائے کرام کا فرمان ہے:صوفِی بے عِلم مسخرہ ٔشیطان است یعنی بے علم صوفی شیطان کا مسخرہ ہے۔ (علما پر اعتراض منع ہے، ص10-فتاویٰ رضویہ، 24/ 132)5 :فرامینِ نبی ِآخر الزماں:1: انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث:علما کو انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ارشاد فرمایا۔(احیاء العلوم،1/45-ابن ماجہ،1/146،حدیث:223) انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام نے اپنی وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑے، بلکہ ان کی میراث علم ہے۔علما کو انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کی میراث حاصل کرتے ہیں۔ (یعنی علمِ دین) اور اللہ پاک اور اس کے رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قرب کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں۔2: عالم کی عابد پر فضیلت:حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،پیارے آقا، مکی مدنی مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں دو آدمیوں ، عابد اور عالم کا ذکر ہوا، آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔(انوار حدیث، ص63-ترمذی- مشکوة ) 3:عالم شیطان پر بھاری:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مکی مدنی مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک عالِم شیطان پر ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ بھاری ہے۔ (انوار حدیث ص 64، ترمذی ، مشکوة ) ایک عالمِ دین لاکھوں لوگوں کو عِلم سکھاتا ہے،راہِ ہدایت بتاتا ہے،شیطان کے مکرو فریب سے آگاہ کرتا ہے،بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے جبکہ ایک عابد کا فائدہ صرف اپنی ذات کے لیے ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے: بے علم اپنی بے علمی کی وجہ سے عبادت میں سو گناہ کرتا ہے اور آفت یہ کہ ان کو گناہ بھی نہیں سمجھتا، عالمِ دین اپنے گناہ میں اللہ پاک کے خوف اور اپنے گناہ پر شرمندگی کی وجہ سے نجات پا جاتا ہے۔(علما پر اعتراض منع ہے ص 12،فتاویٰ رضویہ 23 / 687)4: عالِم کے لیے دعائے مغفرت:زمین و آسمان میں موجود ہر چیز عالم کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہے۔ ( احیاء العلوم، ص45، ابن ماجہ، حدیث:223، ج 1، ص 146)سبحان اللہ! کیا مقام و مرتبہ ایک عالِم کو حاصل ہے کہ زمین و آسمان کی ساری مخلوق اس کے لیے دعائے مغفرت کر رہی ہے۔ کتنا خوش نصیب ہے وہ انسان جس کے لیے زمین و آسمان کی مخلوق محوِ دعا ہے۔

5: درجۂِ نبوت اور علما:درجۂِ نبوت کے سب سے زیادہ قریب لوگوں میں سے علما و مجاہدین ہیں ۔ کیوں کہ علما رسولوں کی بتائی گئی باتیں لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور مجاہدین رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کرتے ہوئے تلواروں سے لڑتے ہیں۔ (احیاء العلوم ص 46، المرجع السابق، حدیث 132، ص 148)امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے : راتوں کو عبادت کرنے والے اور دن بھر روزہ رکھنے والے ایک ہزار عابدوں کی موت ایک عالِم کی موت سے آسان ہے جو اللہ پاک کی حلال اور حرام کی ہوئی چیزوں کا عِلم رکھتا ہے ۔(احیاء العلوم ص 57،جامع بیان العلم وفضلہ باب تفضیل العلم علی العبادة ،الرقم 115، ص42 بتغیر)اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں علمِ نافع عطا فرمائے۔علمائے اہلِ سنّت کا سایہِ عاطفت ہم پر تادیر قائم رکھے اور ہمیں علمائے کرام کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔( انوار حدیث* احیاء العلوم * علما پر اعتراض منع ہے )


قرآنِ پاک میں علما کی فضیلت کچھ یوں بیان فرمائی گئی ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اللہ تمہارے ایمان والوں اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11)اس آیت سے علم و علما کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک کے ہاں علما کے درجات بہت بلند ہیں اور وہ عزت دار ہیں۔اللہ پاک نے اہلِ علم کو باقی مخلوق سے افضل قرار دیا ہے۔ اللہ پاک کا قرب پانے، اپنی آخرت سنوارنے اور مومنین صالحات کے اوصاف پانے کے لیے علما کی ضرورت ہمارےلیے نہایت اہم ہے۔علما کی فضیلت بہت سی احادیثِ مبارکہ میں وارد ہے۔اس متعلق پانچ فرامینِ مصطفٰے پڑھئے:1:حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔(معجم اوسط،3/92)2:حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،نور کے پیکر،سلطانِ بحر و بر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علماکی سیاہی اور شہدا کے خون کو تولا جائے گا اور ایک روایت میں ہے :علما کی سیاہی شہدا کے خون پر غالب آ جائے گی۔(تاریخِ بغداد،2/190) 3:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نور کے پیکر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن عالم اور عبادت گزار کو اٹھایا جائے گا تو عابد سے کہا جائے گا:جنت میں داخل ہوجاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا:جب تک لوگوں کی شفاعت نہ کرلو ٹھہرے رہو۔(الترغیب والترھیب،1/57)4:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،اللہ پاک کے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کو عابد پر ستر درجے فضیلت حاصل ہے اور ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا تیز رفتار گھوڑے کی ستر سال دوڑتا سفر ہے۔(الترغیب والترھیب،1/57)5:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایک فقیہ عالم شیطان پر ایک ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ سخت ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اخلاص کے ساتھ علمِ دین حاصل کرنے اور علمائے کرام کا ادب و احترام بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


جس طرح علم کے فضائل و فوائد قرآنِ کریم اور احادیث اور روایات میں بے شمار وارد ہیں اسی طرح علما کے فضائل بھی قرآنِ کریم اور احادیثِ کریمہ میں کثرت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں چنانچہ اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ22،الفاطر:28)جو جتنا زیادہ اللہ کی ذات و صفات کا علم رکھتا ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ پاک سے ڈرتا ہوگا اور جس کا علم کم ہوگا تو اس کا خوف بھی کم ہوگا، لہٰذا علمائے کرام کو عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اللہ پاک سے ڈرنا چاہیئے اور لوگوں کو بھی اللہ پاک سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔علما کے فضائل کے متعلق پانچ فرامینِ مصطفٰے پڑھئے۔1:امام ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یعنی عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔(فیضان علم و علما،ص13)2:حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:یعنی عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز و روزہ سے بہتر ہے۔(منہاج العابدین،ص11)3:ہمارے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں علما و مجاہدین درجۂ نبوت کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔علما تو رسولوں کی لائی ہوئی باتوں کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور مجاہدین رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لیے تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔(احیا العلوم،1/46) 4:ایک روایت میں ہے:علما آسمانوں میں ستاروں کی مثل ہیں جن کے ذریعے خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہ پائی جاتی ہے۔(صراط الجنان،پ28،المجادلۃ:11)5:ہمارے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں ۔انبیا علیہم الصلوۃ و السلام نے درہم و دینارترکہ میں نہ چھوڑے ،علم اپنا ورثہ چھوڑا ہے۔جس نے علم پایا اس نے بڑا حصہ پایا۔(فتاویٰ رضویہ)اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کے فیض سے مالا مال فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


علم وہ دولت ہے جو لٹتی نہیں ،خرچ کرنے سے کبھی گھٹتی نہیں،اللہ پاک کے فضل و کرم سے آج مجھے علم و علما کے فضائل پر مختصر سی روشنی ڈالنے کا شرف حاصل ہوا ہے ۔علم حاصل کرنا ہر عاقل و بالغ مرد و عورت پر فرض ہے عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے چاند کو تمام ستاروں پر ایک عالم کی مثال کمرے میں رکھے ہوئے چراغ کے مانند ہیں تو چراغ کی روشنی جہاں تک جاتی ہے وہ تمام کمرے کو روشن کرتا ہے ایسے ہی ایک عالم با عمل اپنے علم سے اپنی بھی دنیا و آخرت کو سنوارتا ہے اور اپنے علم کا فیض دوسروں تک بھی پہنچاتا ہے ۔علما پیغمبروں کے وارث ہیں ۔علمائے دین عوام الناس کے لئے علمِ دین کا سرچشمہ ہوتے ہیں جن سے علمِ دین کے پیاسے اپنے علم کی پیاس بجھاتے ہیں ۔ علما کی فضیلت احادیث کی روشنی میں۔ 1۔حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آسمانوں اور زمین میں موجود تمام مخلوق ،یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی عالم کے لئے مغفرت طلب کرتی ہیں ۔اور عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے چاند کو سارے ستاروں پر فضیلت حاصل ہے ۔ بیشک علما ہی انبیا و رسل علیہم السلام کے وارث ہیں اور انبیا و رسل علیہم السلام نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا ،بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ۔پھر جس نے اس عالم کو لے لیا اس نے (وراثت نبوت سے )پورا پوراحصہ لے لیا۔ (جامع ترمذی شریف حدیث نمبر 2682) 2:حضرت عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تین طرح کے لوگ شفاعت کریں گے :پہلے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر علمائے دین اور پھر شہدائے اسلام شفاعت کریں گے ۔( ابن ماجہ شریف ،حدیث نمبر4313 ) 3:حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دتا ہے اور بے شک میں علم بانٹنے والا ہوں اور اللہ پاک مجھے عطا فرمانے والا ہے۔ یہ امت ہمیشہ خیر پر رہے گی ،انہیں خوار کرنے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کی اللہ پاک کا فیصلہ آجائے۔ ( بخاری شریف ) 4۔۔حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :حضور پر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے ایک عالم کا دوسرا عابد تو حضور پر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے میری فضیلت تمام ادنی پر ۔ (ترمذی شریف ) 5حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک فقیہ عالمِ دین ابلیس کے اوپر ایک ہزار عبادت گزاروں سے بڑھ کر بھاری ہے ۔علما کی صحبت کے فوائد:علم حاصل ہوتا ہے ،ایمان کی حفاظت ہوتی ہیں ،نیک کام کرنے اور گناہ سے بچنے کی توفیق حاصل ہوتی ہے ،اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت حاصل ہوتی ہے ،حلال روزی کمانے اور حرام سے بچنے کی سمجھ حاصل ہوتی ہے وغیرہ بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی علم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے ،اور تمام علما کی تعظیم و تکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

ہم کو اے عطار سنی عالموں سے پیار ہے ان شاءاللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے